شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی -(قسط نمبر 34)

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

سوال ۔لودھی صاحب ایک بات میرے ذہن میں بار بار گونجتی ہے کہ اب تک آپ نے جتنی بھی کہانی بیان کی ہے وہ آپ کی عظیم والدہ اور اس کے عزیز واقارب کے گرد ہی گھومتی رہی ہے ۔ابھی تک آپ نے اپنے والد صاحب کے بارے میں ہمارے قارئین کو کچھ نہیں بتایا ؟
اسلم لودھی ۔ شہزاد صاحب آپ نے بالکل ٹھیک محسوس کیا ۔ میری زندگی کا پہلا حصہ اپنی عظیم والدہ ہی کے اردگرد گھومتا ہے جبکہ دوسرا حصہ والدمحترم کے حوالے سے شروع کررہا ہوں ۔امید ہے قارئین کو میری یہ کاوش بھی پسند آئے گی ۔
..................
میرے والد (محمد دلشاد خاں لودھی) بھارت کے شہر کاسوبیگو کے ریلوے کوارٹروں میں 1928ء کو پیداہوئے۔ یہ ریلوے اسٹیشن ضلع فیروز پور کی حدود میں آتا تھا۔پرائمری تک تعلیم انہوں نے اپنے ننھیال گڑگاؤں میں حاصل کی اوربعد ازاں فیروز پورچھاؤنی( جہاں ان کے والدین رہائش پذیر تھے) آکر تعلیم کاسلسلہ جاری رکھا۔کرکٹ کا انہیں بچپن ہی سے شوق تھا‘ فیروزپورچھاونی کی بہترین ٹیموں میں وہ اہم کھلاڑی کی حیثیت سے شریک ہوتے تھے ۔ سکول کے زمانے میں اوراس کے بعد بھی کرکٹ کے میدان میں زبردست مقبول رہے۔ وہ بیٹسمین کی حیثیت سے شیر کی طرح گیند پرجھپٹتے اورگولی کی طرح گیند باؤنڈری لائن پارکر جاتی۔ایک واقعہ وہ اکثر ہمیں سنایا کرتے تھے کہ فیروز پور چھاونی میں ان کے سکول کا کسی دوسرے سکول کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ کرکٹ میچ ہورہا تھا۔ان کے سکول کی ٹیم شکست کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی کہ والد صاحب میچ دیکھنے کے لیے میدان میں پہنچ گئے۔ سکول ٹیم کے ارکان نے جب انہیں دیکھا تو انہیں اپنی جانب سے کھیلنے کی پیشکش کی ۔چونکہ والد صاحب اس وقت کرکٹ کٹ میں نہیں تھے‘ اس لئے انہوں نے معذرت کرلی ۔ لیکن جب سکول ماسٹر نے مجبور کیا تو مجبوراً انہیں سادا کپڑوں ہی میں میدان میں اترنا پڑا۔اس پر مخالف ٹیم کے کھلاڑی مذاق اڑانے لگے کہ کس پینڈو سے لڑکے کھیلنے کے لئے لے آئے ہیں۔ میدان کے باہر کھڑے ہوئے جو لوگ ان کی دھواں دار بیٹنگ کو جانتے تھے، وہ خوش ہورہے تھے لیکن جو لوگ نہیں جانتے تھے یا جن کا پہلے کبھی ان سے واسطہ نہیں پڑاتھا، وہ مذاق کے اڑارہے تھے۔ وکٹ پر پہنچ کر والد صاحب نے گاڈ لیااور پہلی گیند کھیلنے کے لئے تیار ہو گئے۔باؤلر نے بھاگتے ہوئے اس خیال سے گیند پھینکا کہ ان کی وکٹ اڑ جائے گی لیکن وہ گیند ٹرائی بال کے طورپرانہوں نے بڑے پیار سے روک لی۔ دوسری گیند نے جیسے ہی زمین پر ٹپکا کھایا تو بلے کو چھوتے ہی وہ باؤنڈری لائن کراس کرگئی ۔ ائمپائر نے چوکے کا اشارہ دے دیا۔ تیسری گیند پر بھی ایک چھکا لگایا۔ اگلے ایک دو اوور میں دوتین چوکے اور چھکے لگنے سے ہارنے والی ٹیم جیتنے کی پوزیشن میں آگئی اور والد صاحب کا رعب مخالف ٹیم کے تمام باؤلروں پر ایساپڑا کہ اب ہر باؤلر انہیں باؤلنگ کرواتا ہوا ڈر رہا تھا۔ اس طرح والد صاحب کی بدولت ان کے سکول کی ٹیم ہارا ہوا میچ جیت گئی توٹیم کے لڑکوں اورتماشائیوں نے انہیں کندھوں پراٹھا کر پوری گراؤنڈ کا چکر لگایا۔ ہیڈ ماسٹرصاحب نے انہیں موقع پر ہی خصوصی انعام دیا۔ یہی کرکٹ کا چسکا تھاجو والد کو فیروز پور چھاونی شہر سے دور نہیں جانے دیتا تھا۔
والد صاحب اکثر ہمیں ایک کہانی سنایا کرتے تھے ۔ یہ کہانی اس وقت کی ہے جب وہ لڑکپن کی عمر میں اپنے ننھیال جایا کرتے تھے ۔ وہ فرماتے تھے کہ جب میں والدہ کے ہمراہ اپنے ننھیال گڑگاؤں جاتا تو وہاں میرے نانا جان کی اچھی خاصی زرعی زمین تھی ، میرے نانا نور خان خود تو انڈین ریلوے میں پھاٹک والا کی حیثیت سے ملازم تھے ۔ میرے نانا کے علاوہ اس پھاٹک پر اور کوئی ملازم نہیں تھا وہی چوبیس گھنٹے ٹرین کی آمد کے ساتھ ہی پھاٹک بند کردیا کرتے تھے ۔ جب ٹرین گزر جاتی تو پھاٹک کھول دیتے۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ نہ وہاں سے کوئی سڑک اور راستہ گزرتا تھا اور نہ ہی کوئی انسان ۔ پھر بھی ریلوے والوں نے اجاڑ بیابان میں ایک پھاٹک نصب کرکے وہاں اپنا ملازم بٹھا رکھا تھا جس کو مہینے بعد چالیس پچاس روپے تنخواہ بھی ملتی تھی ۔ان کی ڈیوٹی اتنی طویل تھی کہ میں نے ان کو گھر میں بہت کم ہی دیکھا تھا ۔ نانا جان کی زمینوں کو کاشت کرنے کا فریضہ میرے ماموں فتح محمد خاں ، عطا محمد خاں ، محمد اسمعیل خان انجام دیا کرتے تھے ۔ صحت اور جسامت کے اعتبار سے وہ بہت طاقتور اور جفا کش تھے ۔وہ جب صبح گھر سے نکلتے تو ان کے ہاتھ میں دوپہر کا کھانا نہیں ہوتا تھا ۔ کتنی بار ایسا ہوا کہ جب میں اپنی نانی کے گھر موجود ہوتا تو نانی دیسی گھی اور دودھ ملاکر ایک گڑوی بھر دیتیں اور مجھے حکم دیتیں کہ تم جاکر اپنے ماموں کو دے آؤ ۔ میں دیسی گھی اور خالص دودھ کی بھری ہوئی گڑوی اٹھا کر گاؤں کے اس ڈیرے پر جاتا تو مجھے دیکھ کر دونوں ماموں درخت کے سائے میں پڑی ہوئی چارپائی پر آبیٹھتے۔مجھے پیار کرنے کے بعد باری باری گڑوی کو منہ سے لگا کر پینے لگتے۔ جب ایک کا دل بھر جاتا تو دوسرا ماموں پینا شروع کرتا ۔ جب دونوں کا پیٹ بھرجاتا تو گڑوی میں جو گھی اور دودھ باقی بچ جاتا وہ میں پی لیتا ۔ایک مرتبہ ماموں فتح خاں کی کسی اور سے لڑائی ہوگئی ۔ ماموں نے اس شخص کو اٹھاکر زمین پر پٹخ دیا اور اس کے اوپر بیٹھ کر پٹائی کرنے لگے ۔چند لمحے ہی گزرے تھے کہ جو شخص نیچے لیٹا ہوا تھا اس کا ایک ساتھی ادھر آ نکلا ۔ جب اس نے اپنے ساتھی کو زمین پرلیٹا ہوا مار کھاتے دیکھا تو وہ ماموں فتح محمد خاں کو مارنے کے لیے آگے بڑھا۔ابھی وہ اس مقام پر پہنچا ہی تھا جہاں لڑائی ہو رہی تھی ،تو ماموں فتح محمد خاں نے اسے آتا ہوا دیکھ لیا اور اٹھ کر دوسرے آدمی کو بھی پکڑ کر نیچے لیٹا لیا ۔ اب دو آدمی ماموں فتح محمد خاں کے نیچے لیٹ کر مار کھا رہے تھے ۔اسی اثنا ء میں ان کا تیسرا ساتھی بھی دور سے آتا دکھائی دیا ۔ ابھی اس سے نمٹنے کے لیے ذہنی طورپر تیار ہو ہی رہے تھے کہ میرے دوسرے ماموں عطا محمد خاں آگئے ۔ انہوں نے تیسرے آدمی کو پکڑا اور اس کی مرمت شروع کردی ۔ ابھی یہ مارکٹائی چل رہی تھی کہ دشمن پارٹی کا ایک شخص وہاں پہنچ گیا ، اسی اثناء میں ماموں کا ایک مشترکہ دوست نے جب لڑائی ہوتی ہوئی دیکھی تو وہ بھی دوڑا ہوا وہاں پہنچ گیا ۔اس نے دشمن پارٹی کے چوتھے آدمی کے جبڑے پر اتنا زور دار مکا مارا کہ جس کو مکا لگا اس کے منہ سے خون بہنے لگا اور جس نے مکا مارا تھا، اس ہاتھ کے جوڑ ہل گیا ۔ اس طرح وہ دونوں اپنے اپنے گھر کی طرف بھاگ گئے ۔
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ میرے والد کی پڑھائی میں زیادہ توجہ نہیں تھی ، ان کا زیادہ وقت ورزش ، جفاکشی ، لاٹھی چلانے اور کرکٹ کھیلنے میں گزرتا تھا ۔1944 ء میں فرید کوٹ شہر ہی میں والد کی شادی ان کی خالہ زاد (ہدایت بیگم) سے ہوئی جو اپنے والدین کی سب سے بڑی بیٹی تھیں اوربڑی ہونے کے ناطے وہ اپنے ماں اورباپ کی بہت چہیتی تھیں۔ شادی کے فوراً بعدوالد صاحب محکمہ ریلوے کے اسٹیم انجنوں پربطور کلینر بھرتی ہو گئے۔ ان کی پہلی تعیناتی بہاولنگر اسٹیشن پر ہوئی، جہاں میرے دادا پہلے سے بطور کیبن مین مقیم تھے۔بہاولنگر شیڈ میں انہیں ڈیوٹی ملی۔والدہ بتایا کرتی تھی کہ ہمارے کوارٹروں کے پیچھے اس شہر کی بڑی مسجد تھی جہاں نماز کے علاوہ جنازہ وغیرہ پڑھنے کا بھی انتظام موجود تھا ۔ جب کسی کا جنازہ کوارٹروں سے گزرتا تو ہم ڈر کے مارے اپنے کوارٹر کی کھڑکی بند کرلیا کرتے تھے۔والد صاحب 1949ء تک وہ بہاولنگر ہی میں مقیم رہے۔اس شیڈ سے کالے سٹیم انجن ٹرین کو لے کر چلتے تھے جن میں کوئلہ بھرنا اور اسٹیم انجن کو درست حالت میں رکھنا والد صاحب کی ذمہ داری تھی۔ بوقت ضرورت ڈرائیور کے فرائض بھی غیرسرکاری طور پر کبھی کبھار انجام دے دیا کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں وہ جب عارف والہ اپنے سسرال میں آ گئے تو میرے نانا نے انہیں یہ کہہ کر روک لیا کہ ملازمت میں کیا رکھا ہے، مل کر کاروبار کرتے ہیں۔ چنانچہ ریلوے اسٹیشن کے سامنے بس اڈے پرانہوں نے دودھ دہی کی دوکان کھول لی۔کچھ عرصہ تک دوکان اچھی طرح چلتی رہی، جب دوکان کوچلانا بس میں نہ رہا تو سبزی منڈی میں منشی گری شروع کر لی‘ کچھ عرصہ یہاں گزارا۔چونکہ ان کے والد خیردین خان لودھی بہاولنگر سے ٹرانسفر ہوکر قصورجا چکے تھے، اس لئے والد صاحب بھی عارف والہ کو خیرباد کہہ کر قصور آبسے۔یہاں کوٹ مراد خان میں ریلوے پھاٹک کے قریب ہی ایک مکان کرائے پر حاصل کر لیا۔
اس سے پہلے جبکہ تحریک پاکستان عروج پرتھی، میرے سب سے بڑے بھائی رمضان خاں فرید کوٹ، اپنے ننھیال میں پیدا ہوئے۔جب یہ خاندان ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے کے لئے گاڑیوں پر سوارہورہا تھا۔ اس وقت بھائی رمضان کی عمر صرف 13دن تھی۔ٹرین پرسوار ہوتے ہوئے بھائی رمضان‘ والدہ کے ہاتھ سے چھوٹ کر ریلوے لائن میں جا گرے۔ایک طرف ٹرین چلنے کے قریب تھی‘تو دوسری جانب سکھوں کی طرف سے جان کا شدید خطرہ بھی لاحق تھا جو اسٹیشن کی حدود کے باہر تلواریں اور کرپانیں لے کر مرنے مارنے کے لیے تیار کھڑے تھے ۔ایسے میں میری والدہ کے ماموں فتح خاں نے ہمت کر کے بھائی رمضان کوگاڑی کے نیچے گھس کر نکالا۔اس طرح خوف ہراس کے عالم میں میرے والدین بذریعہ ٹرین فرید کوٹ سے قصور شہر پہنچے تو سب نے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
1952ء میں قصور شہر کے دونوں طرف دو پھنے خاں دریا بہتے تھے ۔ ایک کا نام دریائے بیاس اور دوسرے دریا کا نام ستلج تھا ۔دریائے بیاس جس کی کشادگی ایک میل کے لگ بھگ تھی ،وہ شمال کی جانب اوٹر سگنل کے قریب بہتا تھا ۔ جسے بعد میں روہی نالے کا نام دے دیا گیا کیونکہ بھارت نے دریائے بیاس کا پانی ڈیم بناکر مکمل طور پر روک لیا تھا ۔وہ قصور شہر سے گزر کر چونیاں شہر کی فیصل کے نیچے سے بہتے ہوئے حجرہ شاہ مقیم کے پاس سے پہنچ کر دریائے ستلج میں جا گرتا تھا ۔ آج بھی یہ دریا امرتسر اور جالندھر کے درمیان بہتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے ۔یہ واحد دریا ہے جس میں بحری جہاز چلتے ہیں ۔بحری جہازوں کو چلتے ہوئے یوٹیوب پر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ معاہدہ طاس 1960ء میں ہوا تھااس کے بعد اس دریا کے پانی کا ایک قطرہ بھی بھارت نے پاکستان میں نہیں آنے دیا ۔اب اس کی جگہ بھارتی صنعتوں اور کارخانوں کا گندہ پانی نالے کی شکل میں سرزمین پاکستان میں داخل ہوتا ہے جسے چونیاں تک تو دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس کے آگے وہ کہاں تک جاتا ہے ۔ مجھے نہیں معلوم ۔قصورشہر کے جنوب مشرق میں دریائے ستلج بہتا ہے ۔وہ بھی 1960ء کے معاہدہ طاس سے پہلے بڑا پھنے خاں دریا سمجھا جاتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ 1952ء کے سیلاب نے قصور شہر کی گلی اور ہر کوچے کو سیلابی پانی میں ڈبو دیا تھا ۔ان بدترین حالات میں مجھ سے بڑے بھائی محمد اکرم لودھی دنیا میں تشریف لائے تھے ۔یہی نہیں دریائے راوی نے بھی لاہور شہر کو ڈبو دیا تھا ۔ڈاکٹر محمد سلیم فاروقی جو بعد میں سول ڈیفنس کے چیف وارڈن کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ وہ ایک کشتی میں دوائیاں رکھ کر شمالی لاہور کے رہنے والوں کو طبی امداد دیا کرتے تھے ۔اس حوالے سے انہوں نے بیشمار واقعات مجھے بھی سنائے تھے ۔ ڈاکٹر سلیم فاروقی بھی اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور ان کے ساتھ ہی 1952 کے سیلاب کی کہانیاں قبرمیں دفن ہوگئیں ۔
25دسمبر1954ء کو قصور شہر ہی میں میری پیدائش ہوئی۔ان دنوں میرے والدین کرائے کے مکان میں اوردادا‘ دادی قطار میں بنے ہوئے چالیس ریلوے کوارٹروں میں مقیم تھے۔چونکہ اس زمانے میں گھروں میں لیٹرینیں موجود نہیں ہوا کرتی تھی۔اس لیے ریلوے ملازمین کے لیے کافی بڑے رقبے پر مشترکہ لیٹرینیں بنائی گئی تھیں ۔ بدقسمتی سے ان لیٹرینوں پر جنات کا قبضہ تھا ۔جب کبھی میرے والد وہاں رفع حاجت کے لیے ان لیٹرینو ں میں جاتے تو انہیں وہاں گنگھروں کی آوازیں سنائی دیتیں ۔ چونکہ وہ بڑے نڈر اور دلیر انسان تھے اس لیے وہ بلند آواز میں کہتے ۔گنگھرو ں کی آواز سے میں نہیں ڈرتا ۔ جس نے مقابلہ کرنا ہے وہ میرے سامنے آئے ۔والد صاحب بتاتے تھے کہ جتنا عرصہ بھی وہ وہاں قیام پذیر رہے تو ان کے سامنے کوئی بلا اور جن نہیں آیا ۔والدین مجھے بتایا کرتے تھے کہ ان کے گھر کے ساتھ والے مکان میں پیر بوٹے شاہ اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھے ۔ان کے بیٹوں کے نام محمدارشاد ، محمد خورشید اور نذر محمد تھے ۔ ان کی بیٹیا ں بھی تھیں لیکن مجھے ان کے ناموں کا علم نہیں ہے ۔ہم ان سب بھائیوں کو ماموں کہہ کر پکارتے تھے۔
( جاری ہے )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 790604 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.