بچپن کا معصوم زمانہ اور بھولی بھالی کہانیاں جب جوان
ہوتی ہیں تو خاصی مکار و پیچیدہ ہوجاتی ہیں ۔بلی اور بندر کی کہانی سے سب
واقف ہیں۔ اس کی ابتداء حیوانی ضرورت بھوک سے ہوتی ہے ۔انسانوں کے علاوہ ہر
جاندار اپنا پیٹ بھرنے کے لیے تگ و دو کرتا ہے اور بھوک مٹ جائے تو سکون سے
سوجاتا ہے۔انسان کا معاملہ مختلف ہے طبعی لالچ کی بناء پر اس کی بھوک کبھی
نہیں مٹتی۔ اسے اگر سونے کی ایک وادی مل جائے تووہ دوسرے کی خواہش کرتا ہے
یہاں تک کہ قبر کی مٹی اس کا پیٹ بھردیتی ہے۔ کرکز کے اندر زبردست اکثریت
اور اترپردیش ، مدھیہ پردیش ، گجرات ، کرناٹک اور آسام کے علاوہ نہ جانے
کتنے چھوٹے موٹے صوبوں میں اپنی ریاستی حکومت قائم کرنے کے باوجود بی جے پی
کو سکون نہیں ملا۔ اس نے اقتدار کی ہوس میں مہاراشٹر کے اندر ایکناتھ شندے
کو شیوسینا سے الگ کرکے ان کو وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز کیا اور یہ امید
کرنے لگے کہ عام شیوسینک بھی ادھو ٹھاکرے کا ساتھ چھوڑ دے گا لیکن ایسا
نہیں ہوسکا۔ پارٹی تو ٹوٹ گئی مگر ووٹر نہیں ٹوٹا بلکہ اس حرکت سے وہ ادھو
ٹھاکرے کی تمام کوتاہیوں اور کمزوریوں کو بھول کر ان ہمدردی و ہم نوائی
کرنے لگا۔ یکے بعد دیگرے انتخابی سروے اور ضمنی انتخابات کے نتائج گواہی
دینے لگے کہ آئندہ پارلیمانی الیکشن میں مہاراشٹر کے اندر بی جے پی کو بہت
بڑا جھٹکا لگنے والا ہے۔
اس طرح ایک سال تک ریاست مہاراشٹر کے اندر کالو اور بالو کا تماشہ چلانے کے
بعد دہلی میں بیٹھے بھیڑئیے کو احساس ہوا کہ آئندہ انتخاب میں کامیابی سے
ہمکنار ہونے کے لیے شیر نما بلی کی حمایت کافی نہیں ہے۔ اس لیے انہوں این
سی پی کے خیمے سے پرانی لومڑی کو اپنے کچھار میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا
۔ اس بار لومڑی کو روٹی کا لالچ دے کر اس کے چاچا سے لڑا دیا گیا ۔ ہندووں
کو مسلمانوں سے لڑانے کی جو تربیت انگریزوں سے حاصل کی گئی تھی اس کا پہلا
استعمال توہندوتوا نواز دوست سے اس کے دست راست سے لڑانے کے لیے کیا گیا
اور دوسرا فائدہ چچا کو بھتیجے سے لڑا کر حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ چچا کو
اس کی بھنک لگی تو اس نے ہمدردی بٹورنے کے لیے استعفیٰ دینے کا ڈرامہ کردیا
۔ شرد پوار سے جب استعفیٰ سے متعلق استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ
روٹی کو الٹا پلٹا نہ جائے تو وہ جل جاتی ہے۔ یہ الٹ پھیر روٹی کو جلنے
بچانے کے لیے نہیں بلکہ پارٹی کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔
شرد پوار کی حکمت عملی عارضی طور پر کامیاب رہی اور بظاہر ایسا محسوس ہوا
کہ پوری پارٹی متحد ہوکر ان کے پیچھے کھڑی ہوگئی ہے لیکن اندر ہی اندر لاوہ
پکتا رہا ۔ شردپوار یا تو اسے محسوس نہیں کرسکے یا اس کے آگے بے بس ہوگئے۔
روٹی کو دوچار دن الٹنے پلٹنے کے بعد شرد پوار نے آٹا گوندھنے کی ذمہ داری
اپنی بیٹی سپریا سولے کے حوالے کی اور پرفل پٹیل کو روٹی سینکنے کا کام
سونپ دیا۔ اس طرح اجیت پوار کو تندور میں جھونک کر خوداپنے گھڑی چھاپ
بھٹیار خانے کے گلےّ پر براجمان ہو گئے۔ اجیت پوار اندر سے جلے بھنے نکلے
تو پرفل پٹیل کو ان پر رحم آگیا اور وہ اجیت پوار کے ساتھ روٹیاں بغل میں
دبا کر سالن کی تلاش میں جنگل کی طرف فرار ہوگئے جہاں بندر کمل چھاپ برنول
کی ٹیوب لے کر ان کا منتظر تھا ۔انہیں اپنی جانب آتا دیکھ کر فوراً نیچے
آیا اور پرانی لومڑی کو اپنے ساتھ لے گیا ۔سب سے پہلے اجیت پوار کا گنگا
اسنان کرایا گیا ۔ اس سے ان پر لگے ہوئے بدعنوانی کے سارے داغ ، دھبے اور
پاپ بہہ گئے۔ یہ دیکھ کر پٹیل ، بھجبل، مشرف جیسے پاپیوں نے بھی گنگا میں
چھلانگ لگادی اور وزیر بن کر باہر آئے۔ اب ان کی زبان پر بھی وہی مودی بول
تھے ۔ ’میں آیا نہیں ہوں ۔ مجھے گنگا میاّ نے بلایا ہے‘۔ اس طرح وزیر اعظم
کے بقول سترّ ہزار کروڈ کا گھپلا گنگا میں بہہ گیا۔مودی جی کی گارنٹی پوری
ہوگئی ۔
نئے مہمانوں کی آمد نے سرکار میں پہلے سے شامل د بلیوں کو بے چین کردیا
اور انہوں نے نو واردین کا استقبال کرنے کے بجائے صدائے احتجاج بلند کرنی
شروع کردی ۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے دستِ راست سنجے شرساٹ نامی بلےّنے
شکایت کی کہ موجودہ حکومت کے پاس 170؍ ارکان اسمبلی حمایت ہے اس لیے این سی
پی کو اس میں شامل کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بھرت گوگولے نام کی بلی نے
دل کی بات کہہ دی۔ وہ بولی نئی لومڑیوں کی آمد سے اب آدھی روٹی کھانی پڑے
گی۔ اس نے اعتراف کیا کہ اب بندر کے اس اقدام سے ناراض ہوکر کیا فائدہ ؟
کیونکہ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ بندر کے چکر میں عوام کو ناراض کردیا اور
اب بندر سے بھی رشتہ بگاڑ لیا جائے تو وہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔ ان سے
سب قربانی کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے جو بات کہی اسے طلائی حروف میں
لکھا جانا چاہیے۔ وہ بولے اگر قربانی ہی دینی ہے تو سرکار میں کیوں رہیں؟
یہ ایک حقیقت ہے لیکن اس کا اعتراف کوئی نہیں کرتا ۔بھولے بھالے لوگ جنہیں
عام فہم زبان میں بیوقوف کہا جاتا ہے سچ سچ بول کر اپنا نقصان مگر سامعین
کا فائدہ کردیتے ہیں ۔ اس کے برعکس مکار لوگ جھوٹ کے سہارے اپنے فائدے کی
خاطر دوسروں کو فریب دیتے ہیں۔ اس لیے بھرت گوگولے کی صاف گوئی قابلِ ستائش
ہے۔
شیو سینا کے رکن پارلیمان گجانن کیرتیکر نے تو صاف کہہ دیا کہ اجیت پوار کی
زیرقیادت این سی پی کے دھڑے کو مہاراشٹر کابینہ میں شامل کرنے سے بی جے پی
اور شیو سینا کے وزارتی دعویداروں کے امکانات متاثر ہوئے ہیں اور ان میں سے
کچھ ناراض ہیں اور وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کو اس بات کا علم ہے۔ اجیت پوار
کیمپ کے نو وزراء کی حلف برداری کے بعد شندے-فڈنویس کابینہ کے ارکان کی
تعداد 29 ہوگئی ہے۔ اب کابینہ میں صرف 14 عہدے خالی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ
مہاراشٹر کے سیاسی منظر نامہ میں اس تبدیلی سے نہ صرف شردپوار پریشان ہیں
بلکہ ایکناتھ شندے کےدھڑے میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔اپنے ناراض ارکان اسمبلی
سمجھانے منانے کی خاطر وزیر اعلی ایکناتھ شندے کو اچانک اپنے تمام پروگرام
منسوخ کرکے ناگپور سے ممبئی آنا پڑا کیونکہ ارکان اسمبلی کی گھر واپسی کا
امکان روش ہوگیا تھا۔ ایکناتھ شندے کی قیادت والی شیو سینا کے رہنماوں
کامطالبہ ہے کہ اقتدار میں شرکت کا مطلب اقتدار میں حصہ داری ہے۔ بلیوں کا
ایک گروہ جلد از جلد وزارتی عہدوں کا مطالبہ کررہا ہے۔
مہاراشٹر میں جو رائتا پھیلا دیا گیا ہے اس سے بلیوں کے علاوہ بندر بھی
پریشان ہیں کیونکہ اجیت پوار کھلی آنکھوں سے وزیر اعلیٰ بننے کا خواب دے
رہے ہیں اور کھلم کھلاّ اس کا اظہار بھی کررہے ہیں ۔ بی جے پی ہائی کمان کے
پاس نااہل اور بے اثر وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے سے نجات حاصل کرنے کا ایک
نادر موقع ہے۔ وہ اگر اسپیکر نارویکر کے ذریعہ شندے کی رکنیت رد کروا کر
انہیں دودھ سےمکھی کی مانند نکال کر پھینکا جا سکتا ہے۔ یہ تنازع کئی ماہ
سے زیر التوا ہے مگر اب اسمبلی کے اسپیکر راہل نارویکر نے شندے گروپ کے
اراکین کی رکنیت ختم کرنے کی درخواست پر نوٹس تھما دیا ہے۔ ا سے لوگ باگ
شندے گروپ کی الٹی گنتی سے تعبیر کررہے ہیں ۔ اسمبلی کے اسپیکر راہل
نارویکر نے شیو سینا (شندے گروپ) کےچالیس اراکین کو نوٹس جاری کرکے پوچھا
کہ ان کے خلاف وہپ کی خلاف ورزی کے معاملے میں کارروائی کیوں نہ کی جائے؟
اور جواب دینے کے لئے 7؍ دن کا وقت دیا ہے۔
اسپیکر نے اسی طرح کا ایک نوٹس ادھو گروپ کے 14؍ اراکین کو بھی اسی طرح کا
نوٹس دیا ہے۔ اس طرح کل ملاکر انہوں نے 54؍ اراکین اسمبلی کے سر پر ننگی
تلوار لٹکا دی ہے۔ اب اگر مرکز کے اشارے پر ایکناتھ شندے کی چھٹی کرکے ان
کی جگہ اجیت پوار کو وزیر اعلیٰ بنادیا جائے تو دیویندر فڈنویس کسی کو منہ
دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ایم وی اے کی سرکار میں شیوسینکوں کو شکایت
تھی کہ نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار سارا پیسہ این سی پی والوں کوبانٹ دیتے
ہیں ۔ اس سے ان کے لیے میدانِ عمل میں کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ نئی سرکار
کے اندر بھی ان کا طریقۂ کار وہی رہا تو یہ شکایت بی جے پی کے ارکان کو
ہوجائے گی ۔ اس سے ان کے لیے عوام میں کام کرنا اور ساتھ میں اپنی جیب
بھرنا مشکل ہوجائےگا ۔ روٹی تقسیم کرنے کی ذمہ داری اگر بندر کے بجائے
لومڑی کو سونپ دی جائے تو بلیوں کے ساتھ ساتھ بندروں کا بھی جینا بھی دو
بھر ہوجائے گا ۔ مہاراشٹر میں بندر، بلی کی اس کہانی میں لومڑی اور بھیڑئیے
کی شمولیت کیا گل کھلائے گا یہ تو وقت بتائے گا لیکن اس میں شک نہیں کہ اس
کہانی کا انجام نہ صرف دلچسپ بلکہ چونکانے والا ہوگا۔ ویسے سیاست کی بساط
پر بار بار دوہرائی جانے والی دھوکہ و فریب کی کہانی پر یہ شعر صادق آتا
ہے؎
آخر میں کھلا آ کر یہ راز کہانی کا
انجام سے ہوتا ہے آغاز کہانی کا
|