مودی کا ڈھائی دن کا سیاسی اپواس

مذاہب عالم میں’اپواس ‘یا ’روزہ‘ تزکیہ نفس کا اہم ذریعہ ہے۔اس عبادت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ دوسروں پر اس کا اظہار اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک خود نہ کیا جائے ۔یہ بات کسی دوسری عبادت میں نہیں ۔’ اپواس‘ یا ’روزہ‘کی یہ خوبی اس کے بنیادی مقصد ’تزکیہ وتربیت نفس‘ کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ جو اپواس دنیاکو دکھا کر، جتاکر اور مشتہر کرکے کیا جائے وہ اصل مقصد سے خالی بس ڈھونگ اور دکھاوا رہ جاتاہے جیسا کہ گجرات کے وزیر اعلا نریندر مودی کا ڈھائی دن کا اپواس نظرآتا ہے۔اسٹیج پر سیاسی لیڈروں کی موجودگی اور سیاسی موضوعات پر تقریروں نے ثابت کردیا کہ یہ محض سیاسی ناٹک تھا۔اگر مقصود اپنے نفس کو ’سدبھاﺅنا‘ (خیر سگالی) کےلئے آمادہ کرنا ہوتا تو خاموشی سے اپواس کرتے اوراپنی زیادتیوں کے پرائشچت کےلئے ان دلوں پر دستک دیتے جو انصاف کے طالب ہیں۔ لیکن ایک ہزار کروڑ روپیہ کے سرکاری خرچ سے 55گھنٹے کے اس شو میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ملا جس کو گجرات کے مظلوم عوام مرہم سمجھ کر سینے سے لگالیتے۔

عوام کے کمزور اعتقادات اورمذہبی جذبات کا سیاسی اغراض کےلئے استعمال سنگھ پریوار کےلئے نئی بات نہیں ہے۔ اس کی تحریک کبھی گائے کے نام پر ہوتی ہے کبھی گنگا کے نام پر، کبھی سومناتھ کے تو کبھی رام مندر کے نام پر۔ آزادی کے بعد جابجا پوجا منڈپوں کی دھوم ،مورتی وسرجن کے لمبے لمبے جلوس،سرکاری آراضیوں پر مورتیوں کی تنصیب اور ہر چوراہے پرمقدس مذہبی علامتوں کی جو باڑھ سی آئی ہے وہ مذہبی جذبات کے اسی سیاسی استحصال کاکرشمہ ہے،ورنہ ہمارے یہی ہندو بھائی ہزار ہاسال سے اس ملک میں مذہبی مراسم بغیر کسی شور و شر کے بھرپور عقیدت کے ساتھ ادا کیا کرتے تھے ،رام ہردل میں بسے تھے مگر مسجد کو گراکر رام مندر بنانے کا سودا کسی کے سرمیں نہیں سمایاتھا، نہ کہیں راستے رکتے تھے اورنہ عوام کے خون کے دریا بہتے تھے۔سچائی یہ ہے کہ یہ پریوار دھرم کی آڑ میں اقتدارکو اپنے تحت کرنا چاہتا ہے، چنانچہ اس نے اپنی سیاست کومذہبی اقدار سے آزاد اور مذہبی شعارکو سیاسی اغراض کےلئے آلہ کار بنالیا ہے۔مودی کا اپواس اسی کی ایک کڑی ہے۔

سرکاری خزانے پر ایک ہزار کروڑ روپیہ کا بار ڈال کریہ جو سیاسی شو احمدآباد میں کیا گیا اس کا مقصد ’سدبھاﺅنا‘ یا’خیرسگالی‘ کا پیغام بتایا گیاہے ۔جس شخص نے اپنے اقتدار کی بنیاد ایک فرقہ کی لاشوں پر رکھی ہو، جس نے پچھلے دس سال میں اپنے طور طریقوں اورتقریروں سے ایک کمزور طبقہ کو خوف و ہراس، نفرت اور حقارت ، تباہی اور ہلاکتوں کے سوا کچھ نہ دیا ہو، اس کی زبان پر خیر سگالی کا لفظ آنا یقینا چونکا دینے والا ہے۔فطری طور سے ہر آدمی سوچتا ہے کہ ظلم کی چکی چلانے والا اگر خیرسگالی کا نعرہ لگارہا ہے تو اس کامقصد کیاہے ؟بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی کہ مودی مسلم دشمنی کی اپنی حقیقت کو بدلنے چلے ہیں۔کچھ کو گمان ہوا کہ وہ ’ہندتووا‘ کے ترشول پر امن کا سفید پرچم لگا کر سیکولرزم کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ مگر یہ محض فریب ہے۔ یہ جو مودی کے اپواس کے دوران ہر کان احمدآباد کی طرف لگا رہا، دراصل اسی تجسس کا نتیجہ تھا۔ہرشخص سمجھتا کہ ’خیر سگالی‘خالی نعروںسے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کےلئے کچھ ٹھوس اقدام کرنے ہوتے ہیں۔اس کی پہلی سیڑھی انصاف کا قیام ہے۔ مودی سرکار نے ایسا کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے مظلوم عوام کی دادرسی کا عندیہ ظاہر ہوتا ہو۔مودی، مختار عباس نقوی اور شاہ نواز حسین نے دلیل یہ دی ہے کہ 2002 سے پہلے بھی گجرات میں اور دیگرریاستوں میں متعدد مسلم کش فساد ہوئے ہیں، کہیں کسی کو سزا نہیں ملی، کہیں کسی مظلوم کی دادرسی نہیں ہوئی ، تو اب سزا کی مانگ کیوں کی جارہی ہے؟یہ دلیل اس طرح دی جاتی ہے گویا اگر قتل اور عصمت دری کے دس مجرموں کو سزا نہیں ملی تواب گیارہویں مجرم کو سزا کا جواز نہیں رہا۔ یہ دلیل عیاری اور ذہنی سفاکی کی علامت ہے۔ کوئی بھی مہذب سماج اپنے مجرموں کو بچانے کےلئے ایسی بیہودہ دلیل نہیںدیا کرتا ۔ سنگھی یہ دلیل اس لئے دیتے ہیں کہ اقلیتوں کے خلاف ظلم اورسفاکی ہی اس نظریہ کی اساس ہے۔مودی کے خمیر میں، فکر و ضمیر میں ’سدبھاﺅنا‘ کی چھینٹ بھی پڑی ہوتی تو وہ یہ فساد نہ ہونے دیتے بلکہ اپنی ریاست کے سابقہ فسادات کے مجرموں کو ویسے ہی سزا دلاتے جیسی بھاگل پورکے مجرموں کی دلائی گئی۔ تب وہ سد بھاﺅنا کے چمپین بن سکتے تھے۔

بہ فرض محال ان کو اگر ’خیرسگالی‘ کا خیا ل آہی گیا تھا تو اس کا آغاز فسادکی اخلاقی ذمہ داری قبول کرنے سے اور مظلوموں کی دادرسی سے کی جاتی۔اس شو پر اور اخباروں کے اشتہارات پر جو سرکاری رقم خرچ کی گئی اس کی ایک چوتھائی بھی اگر ہلاک شدگان کے ورثاءکو معاوضہ پر، بے گھرکئے گئے لوگوں کےلئے گھروں کی تعمیر پر اورلٹے ہوئے تاجروں کی مدد پر خرچ کی جاتی تو ریاست بھر میں سدبھاﺅنا چلتی پھرتی نظر آتی۔

ریاست کی ترقی کا بہت ڈھنڈورہ پیٹا جاتا ہے مگر اس کڑوے سچ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مودی نے پچھلے دس برس میں اکثریتی فرقے کے ذہنوں میں اقلیت کے خلاف نفرت اور عداوت کا جوزہر گھول دیا ہے اور اقلیت کےلئے خوف و ہراس کاجو ماحول بنادیا ہے اس پرسارے ہندتووا وادی خوش ہیں۔مودی سے کہا جارہا ہے یہ زہر ہی ان کے اقتدار کی بنیاد ہے۔ اس کوہلاکت خیزی کو کم نہ ہونے دیں۔صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ لوگ کام حاصل کرنے کےلئے نام بدلنے پر مجبور ہیں۔ مودی نے خود اعتراف کیا ہے کہ جب جسٹس سچر کمیٹی نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اقلیتی فرقہ کےلئے کیا کیا تو ان کا جواب تھا ’کچھ نہیں کیا‘۔ پھر انہوں نے بات کو گھماتے ہوئے کہا کہ ہندﺅں کےلئے بھی کچھ نہیں کیا صرف چھ کروڑ گجراتیوں کےلئے کیا ہے۔ان کی دلیل تھی کہ وہ اقلیت اور اکثریت کے تصور کے قائل نہیں، حالانکہ جس آئین سے وفاداری کا حلف لے کر وہ وزیر اعلا بنے ہیں، یہ تصور اسی کا ایک اہم حصہ ہے۔ مذہب کی بنیاد پر عدم تفریق کی یہ دلیل حددرجہ گمراہ کن ہے جو سننے میں اچھی لگتی مگر حقیقت ان الفاظ سے مختلف ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ، ریاست اور ملک میں ترقی کا فائدہ ہر شہری کو پہنچتا ہے۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ مودی نے ریاست میں جیسا فرقہ ورانہ ماحول بنادیا ہے اس میں مسلمانوں کےلئے چین سے جینا اور معمول کے کاروبار اور کام کاج جاری رکھنا دشوارہو گیا ہے۔ ان کےلئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ دیگر باشندوں کی طرح ترقی کے مواقع سے مستفید ہوسکیں۔جہاں تک شہری ترقیات کا سوال ہے، رپورٹ یہ ہے مسلم محلوں کا حال بدستورخراب ہے۔ اقلیت دشمنی کی حد یہ ہے کہ غریب مسلم بچوں کےلئے مرکز نے تعلیمی وظائف کے طور پر جو رقم بھیجی وہ بھی مستحق بچوں کو تقسیم نہیں کی گئی اور واپس کردی گئی۔

سدبھاﺅنا اپواس کے سیاسی ڈرامے کا آغاز ملک کے درجنوں اخباروں میں پورے صفحہ پر شائع مودی کے ایک خط سے ہوا۔ اس میں انہوں نے 2002 کے فسادات کا ذکر بھی کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ ہرشہری کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے ہیں۔ ان کی اسٹیج پر کچھ برقع پوش خواتین اور وضع قطع سے مسلمان لگنے والے کچھ افراد کو بھی لا یا گیا ۔ اس کامقصد یہ ظاہرکرنا تھا کہ 2002 کے ولین مودی کے گناہوں کو گجراتی مسلمان بھول چکے ہیں اور ان میں بھی ان کو قبولیت حاصل ہوچلی ہے۔ لیکن اس کی پول وہیں کھل گئی۔ ان لوگوں نے بتایا کہ بھاجپا کا اقلیتی مورچہ ان کو مجبور کرکے لے آیا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ مودی سرکار نے خوف کا جیسا ماحول بنارکھا ہے اس میں بعید نہیں کہ کمزور ارادے والے کچھ افراد کو مجبور کرکے لے آیا گیا ہو۔

لکھنو کے ایک محترم شیعہ عالم اور دیو بند کے ایک معززسنی عالم نے تو فرمادیا کہ یہ بے غیرتی اور بے حمیتی ہے۔ بےشک حمیت دینی اس طرح کے مظاہر کی اجازت نہیں دیتی لیکن اگر واقعی یہ افراد ڈرا دھمکا کر لائے گئے تھے تو اللہ بڑا ہی غفور ور حیم ہے۔ البتہ بعض افراد مودی کی قدم بوسی تک کرتے ہوئے دکھائی دئے۔ ہر چند کہ صوفیائے میں انتہائی ادب و احترام کے طور پر قدم بوسی اور سجدہ تعظیم روا ہے لیکن جس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون میں آلودہ ہوں اور جس کی زبان بھی تلوار کی مانند ہو ایسے مودی کے چرن اسپرش کی کوئی گنجائش نہیں ۔اقلیتی فرقہ مودی سے کتنا مطمئن ہے اور ان کے ساتھ سرکار کا رویہ کیسا ہے اس کا نمونہ تب سامنے آگیا جب کچھ سماجی کارکنوں کے ساتھ نرودا پاٹیہ کے مظلومین نے سدبھاﺅنا کے اس ڈھونگ کے خلاف آواز اٹھانی چاہی اور پولیس نے ان کو گرفتار کرلیا گیا۔

مودی نے یہ اپواس انا ہزارے کی تحریک کی مقبولیت سے متاثر ہوکر کیا ۔ ان کو گمان تھاکہ اسی طرح وہ بھی راتوں را ت ہیرو بن جائیں گے مگر ایسا ہوا نہیں۔ خود انا ہزارے ٹیم نے ہی مودی کے اپواس کی ہوا نکال دی اور صاف کہہ دیا کہ خیرسگالی کےلئے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرو اور کرپشن پر قابو پاﺅ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گجرات میں گزشتہ سات سال سے کوئی لوک آیکت نہیں تھا اور اب جو گورنر نے لوک آیکت کی تقرری کردی تومودی اور بھاجپابدعنوانیوں کی پول کھل جانے کے خوف سے پریشان ہیں۔میڈیا میں برابر آرہاہے کہ گجرات میں بدعنوانی انتہا کوپہنچی ہوئی ہے۔ 2012کے اسمبلی چناﺅ کے پیش نظریہ تماشا عوام کی توجہ اس طرف سے ہٹانے کےلئے کیا گیا۔

مودی نے اس اپواس کااعلان پارٹی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر ازخود اچانک کردیا۔ان کو یہ ڈر ہوگا کہ مجوزہ رتھ یاترا کے نتیجہ میں کہیں وزیر اعظم کے منصب کےلئے آڈوانی کی دعویداری پھر مضبوط نہ ہوجائے۔ گڈکری کے اس اعلان کے باوجود کے وزیر اعظم کون ہوگا، یہ فیصلہ بعد میں ہوگا، آر ایس ایس کے ترجمان رام مادھو نے دہلی میں اعلان کردیا کہ سنگھ اس اپواس کی حمایت کرتا ہے ۔اس سے سنگھ کا رجحان صاف ہوگیا ۔چنانچہ مجبوراًپارٹی لیڈر احمدآباد پہنچے ۔ اس اقدام سے مودی نے خود کو آڈوانی سے پہلے قومی سطح پر پروجیکٹ کرتودیا مگرٹی چینلز پر سنجیدہ مباحثوں اور اخباروں کے تبصروں میں اس کوایک سیاسی اسٹنٹ ہی قرار دیا جارہا ہے۔ ہندی نیوز پورٹیل ’پربھات خبر‘کے سروے کے مطابق 77 فیصد لوگوں نے اس شوکو سیاسی شعبدہ بازی قرار دیا ہے۔ اس اپواس کی بدولت مودی نے بی جے پی کی نئی نسل کی قیادت کو زیر کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ اپنے مقصد میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔بال ٹھاکرے نے ان کو یہ مشورہ دیکر کہ ہندتووا کی ڈگر کونہ چھوڑیں اور ہندﺅوں کو سیکولرزم کا زہر نہ پلائیں، ان کے سدبھاﺅنا کے شو پر ایک طرح روک لگادی ۔چنانچہ اپنی اختتامی تقریر میں انہوں نے نہ تو فساد کا کوئی ذکر کیا اورنہ عوام کے دکھ درد کا اوراپنی ہی قصیدہ خوانی پر تین روزہ اپواس ڈھائی دن میں ختم کرکے اٹھ گئے ۔ اہم سوال یہ ہے کہ اس سے وزیر اعظم کے منصب کے امیدوارکی جو بحث این ڈی اے میں چھڑگئی ہے وہ کیا گل کھلاتی ہے اور خاص طور پر بہار میں اس کا کیا اثر دکھائی دیتا ہے؟(ختم)

(مضمون نگار فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180642 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.