قلم کا مزدور، شاکر اللہ بھی دنیا چھوڑ گیا
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ہم بحیثیت انسان اتنے بے حس اور مصروف ہوگئے ہیں کہ ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا اور وقت کی تیز رفتار لہر ہم سے ہمارے بہت سارے دوست چھین کر لے جاتا ہے اور ہم صرف تصویریں ہی دیکھ لیتے ہیں اور پھر افسوس کرتے ہیں کہ کاش ایسا ہوتا کاش ویسا ہوتا، اور پھر اپنی شرمندگی مٹانے کیلئے کہہ دیتے ہیں کہ اللہ بھلا کرے بہت اچھا آدمی تھا. لیکن یہ الفاظ اس وقت بول دیتے ہیں جب اسے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی.یہ سخت الفاظ آج اپنے ایک ساتھی صحافی دوست شاکر اللہ کے انتقال کی تصویر دیکھ کر لکھ رہا ہوں کیونکہ ہمارے دوست ملک ضیاء الحسن ایڈووکیٹ نے اس کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شاکر اللہ واحد صحافی تھا جو خبر بنانا بھی جانتا تھا اور جج سے براہ راست مکالمہ کرنے کی ہمت بھی رکھتے تھے.
آہ شاکر اللہ...ایک زمانے میں پشاور کے ایک بڑے اخبار میں کام کرنا بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا، اور شاکر اللہ ان کورٹس رپورٹر میں شامل تھا جس کی آٹھ سے دس عدالتی خبریں روزانہ کی بنیاد پر اخبار میں شائع ہوتی اور اس میں ایک آدھ سٹوری بائی لائن ہوتی تھی، آج کل کے الیکٹرانک میڈیا سے صحافت کا آغاز کرکے باتوں کی صحافت کرنے والے بیشتر افراد کو شاکر اللہ کے بارے میں پتہ بھی نہیں لیکن شاکر اللہ کی ایک بائی لائن سٹوری ہوتی او ر پھر دوسرے دن اخبارات میں دیگر کورٹس رپورٹر کی اپنے اداروں میں کلاس لگتی کہ یہ سٹوری آپ نے کیوں نہیں دی.چھوٹے سے قدکا بڑا لکھاری شاکر اللہ واقعی خبر بنانا جانتا تھا، پوائنٹس اسے ملتے اور انہیں پوائنٹس کی بنیاد پر وہ خبر بناتا، تعلق اس کا ہر وکیل کیساتھ ایسا تھا کہ وکیل لوئر کورٹ سے لیکر ہائیکورٹ تک جج بھی بن جاتے لیکن شاکر اللہ تعلق بنائے رکھتا، صحافی ویسے بھی صبح سویرے اٹھنے کے معاملے میں سست ترین مخلوق ہیں لیکن کورٹس کے بہت کم رپورٹر گیارہ بارہ بجے سے پہلے آتے تھے اور شاکر اللہ ان کورٹس رپورٹر میں شامل تھا جو صبح سویرے ہاتھ میں کاغذ اور پین لیکر پہنچ جاتا.اور بارہ بجے دیگر کورٹس رپورٹر کے آنے تک اس کے پاس اتنا مواد موجود ہوتا کہ کہ اس کی ایک آدھ ایکسلیوسیو سٹوری بن جاتی.کسی زمانے میں ایک سینئر وکیل کیساتھ بطور اسسٹنٹ کام کرنے کی وجہ سے شاکر اللہ عدالتی امور کے حوالے سے بہت ساری معلومات ہوتی اور اگر کوئی ان سے پوچھتا تو اس حوالے سے معلومات فراہم کرتا، یہ الگ بات کہ کبھی کبھار خبروں میں ڈنڈی مار جاتا یعنی دوستوں کو بھی خبر نہیں بتاتا کہ کونسی خبر اس کے پاس ہے، لیکن تعاون کرنے والا صحافی تھا.
2010 میں ہمارے ایک دوست صحافی نے عدالتی امور کی رپورٹنگ سے معذرت کی تو راقم کو کورٹ رپورٹنگ سونپ دی گئی، اس سے قبل شاکر اللہ کیساتھ تعلق تھا لیکن کورٹ رپورٹنگ کیلئے آنے کے بعد شاکر اللہ کی بہت ساری چیزوں کا پتہ چلا، چائے کا شوقین شاکر اللہ، ہر ایک ساتھ تعلق بنھانا بھی جانتا تھا، کچھ لوگ پیدا ہی محنت کرنے اور دوست بنانے کیلئے ہوتے ہیں اور شاکر اللہ ان میں ایک ہی تھا، اگر کسی سے کوئی گلہ ہوتا تو کہتا کہ پریگدہ سر جی.. یعنی چھوڑ دو سر جی، کورٹ رپورٹنگ کے آغاز میں راقم کو کورٹ کے حوالے سے معلومات کم تھی، دوسرے بڑے صحافتی اداروں سے تعلق رکھنے والے صحافی معلومات بھی کم دیتے اس لئے شاکر اللہ سے تعلق بنا، شاکر اللہ کو کمپیوٹر کمپوزنگ نہیں آتی تھی اور وہ کاغذ پر خبر بناتا تھا ور راقم کو کمپوزنگ کا تجربہ تھا اس لئے اس کی کوشش ہوتی کہ وہ خبریں راقم کو دیکر کہتا کہ یار کمپوز کرکے مجھے ای میل کردو، تاکہ میں بروقت دے سکوں، خبریں شام تک فائل کرکے وہ گھر جانے کیلئے نکلتا، حالانکہ بیشتر صحافی رات گئے تک بیٹھے ہوتے ہیں لیکن شاکر اللہ نہ صرف کورٹ میں بلکہ سٹی اور جنرل کی اتنی خبریں دے جاتا کہ اس کے جانے سے نیوز ڈیسک والوں کو کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا. کیونکہ اس کے پاس کورٹ کے علاوہ ہر طرح کی خبریں ہوتی.
جسٹس دوست محمد سے لیکر جسٹس شاہ جہاں موجودہ کئی ججز ایسے ہیں جن کا صحافیوں سے تعلق اچھا رہا، کچھ ایسے ججز اب بھی ایسے ہیں جو جب وکالت میں تھے تبھی ان کا صحافیوں سے اچھا تعلق رہا لیکن اب بار سے بنچ کاحصہ بننے کے بعدفاصلہ رکھتے ہیں لیکن شاکر اللہ ایسا صحافی تھا جو ہر ایک ساتھ مکالمہ کرنا بھی جانتا تھا.کیا صحافی اور کیا جج اور کیا وکیل، اسی بناء پر ہمارے دوست ملک ضیاء الحسن نے ان کے بارے میں جملہ لکھا تھا.کچھ عرصہ تک ایک اخبار سے دوسرے اخبار تک جانے کا سلسلہ راقم کی طرح شاکر اللہ کا بھی رہا لیکن پھر وہ اچانک غائب ہوگیا اور پھر اس کے بارے میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ بطور مزددور کام کرتے دکھائی دے رہا تھا ،پھر کچھ دوستوں کے توسط سے وہ پریس کلب آنے لگا، ا ور پتہ چلا کہ اسے شوگر بھی ہے اور اس بیماری نے اسے پریشان کردیا ہے گھر کی ذمہ داریاں بھی اس کے سر ہیں اسی باعث وہ مشکلات کا شکار رہا، کچھ عرصہ قبل پریس کلب میں ملاقات ہوئی تو پھر اس کے گھریلو مسائل زیر بحث آئے، اوراسی دوران اس نے کچھ صحافی دوستوں کا شکر یہ ادا کیاکہ وہ اس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں.اور پھر پریس کلب میں آنا بند ہوگیا، اور آج اس کی بند آنکھوں کی تصویر دیکھ لی.. آہ، موت ہمارا ایک ایسا ساتھی ہے جس سے ہم بے خبر بنے ہوئے ہیں اور مقررہ وقت پوراہوتے ہی ہمیں دبو چ لیتا ہے.
شاکر اللہ.. یارسچ تو یہ ہے کہ تمھارے انتقال نے یاد دلایا کہ تم ہمارے ہی ساتھی تھے اور آج ہم میں نہیں رہے اور یہ وقت ہم سب پر آنا ہے، تم نے دیکھ لیا، اللہ تعالی تمھارا سفر آخرت بہتر کرے، اور تمھارا قبر نور سے بھرا رہے، شاکر اللہ یار، میری دعاہے کہ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے نہ صرف تم پر بلکہ تمھارے پیچھے رہ جانے والوں پربھی کرے، کیونکہ ہم سب اس کے رحم و کرم و فضل کے محتاج ہیں. ایک حدیث ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئیگا کہ زمین کا پیٹ زمین کے اوپر سے بہتر ہوگا او ر یقینا یہی وہ وقت ہے..شاکر اللہ واقعی مزدور تھا قلم کا مزدور تھا اور گھر والوں کیلئے مزدوری کرتے کرتے اس جہاں سے رخصت ہوگیا.
|