دنیا اچھے برے انسانوں سے بھری پڑی ہے کسی کو اﷲ پاک نے
نیکی کے کاموں پر لگا دیا ہے اور کسی کے مقدر میں دوسروں کیلیئے عذاب بنا
لیکھ دیا ہے بھٹکے ہوئے لوگ اپنی ہمت کے مطابق دوسروں کیلیئے پعیشانی کا
باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کو اﷲ پاک نے بھلائی کی توفیق دے رکھی ہے وہ اپنی
استطاعت و توفیق کے مطابق دوسروں کیلیئے آسانیاں پیدا کرنے میں اپنا کردار
ادا کر رہے ہیں سب سے افضل انسان وہ ہوتا ہے جس کے پاس اختیارات بھی ہوں اس
کے باوجود وہ ان اختیارات کو دوسروں کو نقصان نہیں بلکہ کسی کو فائدہ
پہنچانے کیلیئے استمعال میں لائیں وہ اپنی اپروچ کو غلط نہیں بلکہ درست سمت
میں استمعال کرے ایسی ہی ایک فقیر صفت شخصیت کا تعارف آپ سے کرواتے ہیں جو
انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود ایک عام انسان دکھائی دیتے ہیں نہ
کسی سے کوئی لڑائی جھگڑا نہ کسی سے کوئی تنازعہ ان کا اٹھنا بیٹھنا عام اور
اچھے لوگوں کے ساتھ ہے اگر وہ عام لباس میں چار بندوں کی محفل میں بیٹھے
ہوں تو ایک اجنبی شخص کبھی بھی یہ پہچان نہیں کر سکے گا ان میں کوئی پولیس
انسپکٹر بھی بیٹھے ہوئے ہیں میری مراد تحصیل کلرسیداں کے گاؤں چبوترہ کے
رہائشی انسپکٹر اور نہایت ہی شفیق استاد پرویز اختر ہیں وہ 10-03-1965کو
چبوترہ گاؤں میں پیدا ہوئے ان کے والد محترم کا نام محمد یونس ہے جب ان کی
عمر تقریبا پانچ برس کو پہنچی تو والد محترم نے حصول تعلیم کیلیئے ان کو
ڈیرہ خالصہ سکول میں داخل کروا دیا وہاں سے پرائمری تک تعلیم کے بعد مڈل
کیلیئے ساگری سکول میں داخلہ لے لیا میٹرک گورنمنٹ بوائز ہائی سکول بھکڑال
سے کیا اس کے بعد ایف اے گورنمنٹ کالج اصغر مال سے کیا پھر اس کے بعد تعلیم
کا سلسلہ آہستہ آہستہ چلتا رہا ہے جوانی کی عمر کو پہنچ کر سب سے اہم کام
روزگار کی تلاش ہوتا ہے اس سلسلہ میں وہ 10-12-1988کو محکمہ پولیس میں بطور
کانسٹیبل بھرتی ہو گئے ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد وی آئی پی ڈیوٹی پر لگا
دیئے گئے 2000میں بطور ہیڈ کانسٹیبل پروموٹ ہوئے اور کمانڈو ٹریننگ مکمل کی
محکمہ کے افسران کو اس بات کا تدارک تھا کہ اس اہلکار میں کچھ ایسی خوبیاں
موجود ہیں جو یہ دوسروں تک منتقل کر سکتے ہیں تو اسی وجہ سے ان کو ٹریننگ
ٹیچر لگا دیا گیا ہے جہاں سے ان کا نام استاد پرویز پکارا جانے لگا وہ
نہایت ہی شفیق استاد ثابت ہوئیدوران ٹریننگ ٹیچر انہوں نے لا تعداد
کانسٹیبل بیجز اپنے ہاتھوں سے تیار کیئے اور ان کے شاگرد آج بھی ان کو قدر
کی نگاہ سے دیکھتے ہیں 2006میں بطور اے ایس آئی پروموٹ ہوئے اور ساتھ ہی
چیف منسٹر سکاٹ کے ساتھ زمہ داریاں نبھانے میں لگ گئے 2010 میں بطور ایس
آئی پروموشن ہو گئی اور ساتھ ہی زمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو گیا اور وہ
پنجاب کانسٹیبلری میں بطور ایڈمن آفیسر زمہ داری سونپ دی گئی وہاں پر بہت
احسن طریقے سے اپنی زمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں 2023میں بطور انسپکٹر پروموٹ
ہو گئے ہیں اور نئی تعیناتی ابھی باقی ہے شرافت ان کی پہچان بن گئی ہے جس
گاؤں میں صرف کوئی ایک پولیس والا ہو وہ پورے گاؤں سے قابو نہیں ہوتا ہے اس
کی ناک سر پر اور آنکھیں ماتھے پر ہوتی ہیں وہ اپنے آپ کو ایک الگ مخلوق
تصور کرتے ہیں لیکن ایک انسپکٹر ہوتے ہوئے نہ صرف چبوترہ گاؤں بلکہ پورے
علاقے میں کسی کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں ہے سب کو خود قدر کی نگاہ سے
دیکھتے ہیں اور اسی وجہ سے دوسرے بھی ان کو ادب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
پولیس والوں میں ایک فطری اکڑ ہوتی ہے لیکن استاد پرویز میں عاجزی و
انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے پولیس افسر ہو کر بھی کوئی اپنی ذاتی گاڑی
نہیں ہے ایک عام سے موٹر سائیکل پر سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں اور عام
مکانوں میں رہائش پزیر ہیں جہاں تک ممکن ہو دوسروں کے کام آنا اپنے لیئے
فخر محسوس کرتے ہیں یہ سادہ طبیعت انسپکٹر جب بھی ملتے ہیں ان کے ہاتھوں
میں کاغذات ہوتے ہیں پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی بندے کا فلاں جہگہ پر
کچھ کام تھا جو اس نے میرے زمہ لگایا ہے وہی کرنے جا رہا ہوں ایسے پولیس
اہلکار و آفیسر نہ صرف اہل علاقہ بلکہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کیلیئے بھی باعث فخر
ہوتے ہیں استاد پرویز کا اٹھنا بیٹھنا میل جول بلکل سادہ طبیعت اور نفیس
قسم کے لوگوں کے ساتھ ہے ان کی رہائش گاہ ان کا لباس ان کا اخلاق طبیعت
بلکل عام سے ہیں وہ نا انصافی پسند نہیں کرتے ہیں معاشرے کے پسے ہوئے افراد
کی مدد ان کا وطیرہ ہے دیانتداری کی واضح مثال یہ ہے کہ نہ کبھی ان کے خلاف
کسی نے کوئی درخواست بازی کی ہے اور نہ ہی کبھی انہوں نے خود کسی کے خلاف
کوئی قدم اٹھایا ہے محکمہ پولیس کے اعلی حکام کو اس طرح کے دیانتدار آفیسرز
کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے جو رشوت کو لعنت کا درجہ دیتے ہیں وہ اپنے
علاقے میں بے خوف و خطر پھر رہے ہوتے ہیں ان کو اس بات کا یقین ہے کہ انہوں
نے کوئی کام ہی ایسا نہیں کیا ہے کسی کے ساتھ کوئی ظلم و زیادتی نہیں کی ہے
تو ان کو کسی سے کیا خطرہ لا حق ہو سکتا ہے اگر اس طرح کے دلیر نڈر باریش
انسپکٹر ہر تھانے میں تعینات کر دیئے جائیں تو غریبوں کی دادرسی ضرور ممکن
ہو سکے گی محکمہ کے دیگر افسران کو استاد پرویز اختر کی تقلید کرنی چاہیئے
انہوں نے رزق حلال کواپنا مقصد حیات بنا رکھا ہے اﷲ پاک ان کو مزید اچھا
انسان بننے کی توفیق عطاء فرمائیں |