گلگت بلتستان جتنا پیارا اور جنت نظیر علاقہ ہے اس سے بڑھ
کر وہاں کے لوگ خوبصورت ہیں مگر سرکاری اداروں میں آنے کے بعد گلگت کے لوگ
بھی ہمارے دوسرے اداروں کے کام چور افسران سے کم نہیں ہیں خاص کر ٹرانسپورٹ
کے شعبہ میں بھی ویسی ہی لاپرواہی جیسی کسی دور میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ(جی
ٹی ایس) اور اب ریلوے میں ہے بلکل اسی انداز سے گلگت بلتستان میں نیٹکو کے
ساتھ بھی ہورہا ہے ہماری سرکاری ٹرانسپورٹ میں لوٹ مار اور کرپشن کی
کہانیاں تو ہیں ہی ساتھ میں یہ لوگ اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر بیٹھے ہیں
اسی لیے گی ٹی ایس کا نام ونشان ختم ہوگیا ریلوے خسارے سے نکلنے کا نام
نہیں لے رہا جبکہ انکے بعد آنے والی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنیاں ترقی کے
عروج پر پہنچ گئی ملک بھر میں انہوں نے اپنا نیٹ ورک بچھا کر بہترین اور
خوبصورت بسیں سڑکوں پر شہزادیوں کی طرح نظر آتی ہیں اسکے مقابلہ میں سرکاری
ٹرانسپورٹ ختم ہو کررہ گئی ہے جو چل رہی ہے وہ خدا کے سہارے ہی ہے پاکستان
کا بڑا صنعتی شہر سیالکوٹ ٹرینوں سے محروم ہے صرف ایک ٹرین وہ بھی صبح صبح
وہاں سے نکل آتی ہے اسکے بعد پھر کوئی ٹرین وہاں سے نہیں نکلتی لیکن وہاں
کے لاری اڈہ سے ہر پرائیوٹ کمپنی کے بس اور ویگن ہر 10منٹ بعد مسافروں سے
بھر کر لاہور کے لیے نکلتی ہے ریلوے کا اتنا بڑا سیٹ اپ اور افسران کی بھر
ہونے کے باوجود کسی شہر سے کوئی نئی ٹرین نہیں چل رہی پاکستان ریلوے اگر
واہگہ بارڈر سے شاہدرہ تک ہی ٹرین شروع کردے تو ہر 20منٹ بعد مسافروں کی
لائن لگ جائیگی لیکن یہ سب کرے کون اسی طرح شمالی علاقہ جات میں ناردرن
ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن(نیٹکو)کا بھی برا حال ہے بسیں ایسی ہیں کہ بارش
میں پانی ٹپکنا شروع ہوجاتا ائر کنڈیشنڈ انکے کام نہیں کرتے سیٹیں انکی
خراب ہیں اندر بیٹھیں تو سفر کے اختتام تک الٹیاں شروع ہو جاتی ہیں آدھے
راستے میں آکر انکے اے سی جواب دے جاتے ہیں شیشے اور اگلا دروازہ کھول
کرسفر کرویا جاتا ہے مسافروں کے لیے انتظار گاہ ناقابل بیان حد تک خراب ہیں
دنیا کا خوبصورت ترین علاقہ ہنزہ ہے جہاں نیٹکو کے پاس بیٹھنے کی مناسب جگہ
نہیں ہے صوفے پوری طرح اندر کو دھنس چکے ہیں بلکہ نیچے سے پھٹیاں ابھر کر
واضح نظر آتی ہیں پورے دن میں ہنزہ سے صرف ایک بس راولپنڈی کو روانہ ہوتی
ہے اور18گھنٹے میں اپنا سفر مکمل کرتی ہے اس ادارے کے افسران ناجانے کس بات
کی تنخواہیں لے رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اسکا حشر بھی
ہماری جی ٹی ایس کی طرح نہ بن جائے اگر دیکھا جائے تو اس وقت تک تونیٹکو
پورے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان اور شاہراہ قراقرم میں سب سے بڑی
ٹرانسپورٹ کمپنی ہے جو گزشتہ ایک دہائی سے روزانہ راولپنڈی سے کراچی تک
اپنی سروس فراہم کرکے پورے پاکستان کو جوڑ رہا ہے یہ کمپنی وزارت امور
کشمیر اور گلگت بلتستان کے تحت کام کرتی ہے NATCO اسلام آباد، گلگت اور
سوست (چینی سرحد کے قریب) کے درمیان مسافر روڈ سروس پیش کرتا ہے کاشغر اور
گلگت کے درمیان سڑک سروس (تشکرگان اور سوست کے راستے) 2006 کے موسم گرما
میں شروع ہوئی تھی جو خنجراب پاس (دنیا کی بلند ترین سرحد) پر چین اور
پاکستان کے درمیان سرحدی گزرگاہ ہے 1 مئی سے 31 دسمبر کے درمیان کھلی رہتی
ہے اسکے بعدسردیوں میں سڑکیں برف کی وجہ سے بند ہو جاتی ہیں 30 نومبر 2006
کو نیٹکو نے اسلام آباد سے گلگت تک ایک نان اسٹاپ ایکسپریس بس سروس بھی
شروع کررکھی ہے ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن (NATCO) کا قیام 1974
میں کمپنیز ایکٹ 1913 کے تحت لاہور میں رجسٹرڈ آفس کے ساتھ عمل میں آیا تھا
تاکہ چترال سمیت شمالی علاقہ جات کے لوگوں کو روڈ ٹرانسپورٹ کا نظام فراہم
کیا جا سکے 1976 میں رجسٹرڈ آفس کو لاہور سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا
گلگت میں رجسٹرار جوائنٹ اسٹاک کمپنیز کے دفتر کے قیام کے بعد حکومت اور
بورڈ آف ڈائریکٹرز کے احکامات کے مطابق کمپنیز آرڈیننس 1984 کی دفعات کے
مطابق NATCO کو رضاکارانہ طور پر تحلیل کر دیا گیا اس کے مطابق اسے کمپنیز
آرڈیننس 1984 کے تحت 23 فروری 1989 کو رجسٹرار جوائنٹ اسٹاک کمپنیز گلگت کے
ساتھ رجسٹر کیا گیا تب سے نیٹکو چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کے براہ راست
کنٹرول میں کام کر رہا ہے اس وقت گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹری سیاست میں
زیادہ سرگرم ہیں اور جی بی کا پورا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں اس لیے انکی
توجہ نیٹکو کی طرف نہیں ہے اگر وہ اپنے کسی کارندے کو ہی اس کی دیکھ بھال
پر لگادیں تو بدبو دار بسوں کی حالت بہتر ہوسکتی ہے کیونکہ نیٹکو پوری
ریاست کا چہرہ ہے جسے داغدار کردیا گیا جس دور میں سرکاری سطح پر ان بسوں
کا اغاز ہو غالبا وہ 60 اور 70 کی دہائی کے وسط تھا جب پاکستان کے عوام کو
پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی گئی اس کے نتیجے میں پورے پاکستان میں
گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروسز (GTS) کے نام سے ایک پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم شروع کیا
گیا جن راستوں پر صرف جیپ چلا کرتی تھی ان راستوں کو ہمارے چینی دوستوں نے
پاکستان کے تمام حصوں سے ملانے کے لیے خوبصورت سڑک بنائی جسے اب قراقرم
ہائی وے (KKH) کہا جاتا ہے اور پھرشمالی علاقہ جات کے عوام کو ٹرانسپورٹ کی
سہولت فراہم کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے شمالی علاقہ جات سے اسلام آباد تک
پبلک ٹرانسپورٹ کا آغاز کیا تاکہ عوام کو چینیوں کی تعمیر کردہ سڑک کے
ذریعے خطے سے ملک کے باقی حصوں تک پہنچایا جا سکے بعد میں وقت گزرنے کے
ساتھ کارپوریشن نے اپنے کام کو بڑھایابھی اورنیٹکو نے برانڈ کا وقاربھی
حاصل کیا پھر نیٹکو کی انتظامیہ نے مرسڈیز بسیں خریدیں اور ان ماڈلز کو
روسی جنگ میں استعمال کیا گیا نیٹکو اب جی بی کی سب سے بڑی کارپوریشن میں
سے ایک ہے نیٹکو اب اپنے پیٹرول پمپ، ورکشاپ، پاسکو سے جی بی کورئیر سروس
اور یوٹیلٹی اسٹورز تک گندم اٹھانے کی گاڑیاں بھی چلا رہا ہے لیکن انکی
بسیں اور مسافروں کے بیٹھنے کی جگہ دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے جس طرح ہر
گاڑی کی ٹیوننگ ہوتی ہے اسی طرح اس ادارے میں بیٹھے ہوئے افراد کی بھی
ٹیوننگ ہونا ضروری ہے اور محی الدین وانی سے اچھی ٹیونگ کوئی کرنہیں سکتا
نہیں یقین تو گلگت بلتستان حکومت کی حالیہ تبدیلی ہی دیکھ لیں ۔
|