غمِ واقعۂ کربلا کوئ معمولی غم نہیں۔ یہ غم ہے شہادتِ امام حسینؓ کا، یہ غم ہے بیبیوں کو بے حجاب کیے جانے کا، یہ غم ہے اہلِ بیت پر بندشِ آب کا، یہ غم ہے شہادتِ علی اصغرؓ و علی اکبرؓ ، قاسمؓ و عباسؓ کا، یہ غم ہے اسیرانِ اہل بیت کا، یہ غم ہے ذندان میں بی بی زینبؓ کے پیاروں کی قید و بند کی صعوبتوں کا۔
یہ بھی اللہ پاک کی قدرت کا مظہر ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ محسوس کرتا ہے اس تکلیف، اس کرب کو، اس اذیت کو۔ وہ تکلیف دہ لمحات جو اہلِ بیت نے سر زمینِ کربلا میں گزارے اس کی گواہی شمس و قمر، زمین و آسمان، شجر و ہجرسب دیتے ہیں۔ یہ ہم کسی صورت محسوس ہی نہیں کر سکتے کہ اس وقت رب ذوالجلال کی ان تمام نعمتوں پر کیا بیتی ہوگی اور وہ کتنا بے بس تصور کر رہے ہونگے خود کو کہ وہ اس قبیح ظلم و ستم کے خلاف جب کچھ نہیں کر پارہے ہونگے۔
زمینِ کربلا جس پریہ دلخراش واقعہ رونما ہوا اسی کی زبانی آج اس کے جذبات و احساسات سے پردہ اٹھتی یہ نظم لکھنے کی سعی کی گئ ہے۔ امید کرتی ہوں یہ چند اشعار آپ کو کربلا کے کرب کو محسوس کرنے میں کچھ کردار ادا کر سکیں گے۔
مُقدس بنایا مجھے قدمِ اہلِ بیت نے وگرنہ کر دِیا تھا پلید مجھے لشکرِ یزید نے
خیمے جو لگے حسینؓ کے پیاروں کے بیاں نہ کر سکوں میں اس احساسِ طمانیت کو
گھوڑوں کی ٹاپوں سے لرز اٹُھی تھی میں گماں بھی نہ تھا کہ کِس سانحے کی شاہد بنو گی میں
شقی القلب تھی یزیدی فوج کس قدر نقارے بجاتے تھے پانی کی بندش پر
شدتِ پیاس سے روۓ جو مظلومانِ اسلام ہوگئ میں سیراب اشکِ معصوماں سے
کرب کی اُس گھڑی کی گواہ ٹھہری ہوں میں فوارۂ خونِ علی اصغرؓ جب چھُوٹا تھا فاطمہؓ کے لعل پر
گونج اٹھتی ہے سماعتوں میں آج بھی وہ آہ وبکا پہنچا خیمے میں جب بھی لاشہ سیدالانبیاءؐ کے فرزندوں کا
عباسؓ کی عقیدت، الُفت و محبت کو ہو میرا سلام جس نے نہ کیے لب تر پہنچ کر فرات پر
لٹُا کر بازو و جاں بھی عباسؓ بجھا پاۓ نہ سکینہؓ کی پیاس
کِس کِس داستانِ غم کو دوں میں الفاظ گرا ہے مجھ پر لہوِ اطہر اہلِ بیت
منظر تھا دل سوز جب بچھڑی سکینہؓ والد کو ذوالجناح پر الوداع نہ کہہ پائ سکینہؓ
لپٹ گئ روتی ہوئ جانِ معصوم کہا سواری سے نہ لے جا میرے پِدر کو دور
بابا نے دیا بوسہ لختِ جگر کو باندھا پھر رختِ سفرِ آخر
تِیر، تلوار، نیزہ کیا بھالا ظالموں نے ہر ہتھیارحسینؓ پر چلا ڈالا
آتشِ آفتاب سے تپی پڑی تھی بُخار میں تڑپ اٹُھی جب آۓ حسینؓ گود میں
لہُومیں نہاۓ تھے نواسۂ رسولؐ جسمِ اطہر ہی کیا تھی روح بھی زخمی جگرگوشۂ بتول کی
جھولی بھر گئ یوں خوش بختی سے مری جب کِیا وہ آخری سجدہ ہمارے امام نے
ختم کہانی یہاں ہوتی نہیں وہ وقت بھی سہا جب چھینی گئ رداۓ مستورات اہلِ بیت
بے حجاب کر دیا ظالموں نے پاکدامن بیبیوں کو برداشت کرنا نہ تھا آسان جب ہرنگاہ نے دیکھا اُن کو
پھر ہو گئ میں ویراں و بیاباں چلا جب بے آسرا قافلۂ اہلِ بیت
گزر گئ صدیاں پر یاد ہے آج بھی وہ حدتِ قدم صدمے سے اٹھا نہ پاتی تھی جو زینبؓ
سُپرد کر گئیں وہ مجھے اپنے تمام پیاروں کو قافلہ جو چلا قیادت کرتا تھا اُس کی نیزے پہ سرِحسینؓ
بے گور و کفن جسمِ اطہر حوالے تھے اب میرے ستم در ستم یہ کہ اٹُھایا بوجھ راکھ و بُو خیمۂ حسینی کا
حکمِ رب گر ہوتا مجھے دفن کر لیتی اپنے شکم میں وجود ہر ساتھئ شمر کا
سالوں بیت گۓ بُھلا پائ نہ محرم کی 10 کو روتی ہوں آج بھی خون کے آنسو غمِ حسینؓ میں
|