کیا عافیہ ہماری بیٹی نہیں ہے؟

آج سے کم و بیش چودہ سو سال قبل زمانہء جہالت میں خواتین کو حقیر سمجھا جاتا تھا بیٹیوں کو زندہ جلا دیا جاتا تھا بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا بیٹیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جاتے تھے خواتین کے پیٹوں کو کاٹ دیا جاتا تھا پیٹوں میں موجود بچے کی جنس پر شرت لگائی جاتی تھی کہ بچے کی جنس کیا ہے؟ وقت گزرتا گیا اور آنحضرت محمد صلی اللّہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کا پر مسرت وقت آن پہنچا۔ آپ آئے رحمت آئی آپ آئے بہار آئی جس طرح رب تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ القران:" ہم نے آپ صلی اللّہ تعالیٰ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے." آپ نے آ کر لوگوں کو نا صرف بتایا کہ بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں بلکہ بیٹیوں پر شفقت کی تلقین فرمائی اور اپنی لخت جگر بیٹی کے ساتھ حُسنِ سلوک کر کہ عملی مثال قائم کی۔
آپ نے بتایا کہ "بیٹیاں بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں انکے ساتھ حُسنِ سلوک کیا کرو انکو حقیر نہ جانو انکو بھی انکا حق دیا کرو."بلآخر وہ کھڑی آن پہنچی جب آپکا وصال ہونے والا تھا آپ۔۔ آپ صلی اللّہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان جملوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسلام میں بیٹیوں کے حقوق کتنے اہم اور نازک ہیں آپ نے فرمایا " بیٹیوں کے معاملے میں اللّہ سے ڈرو بیٹیوں کے معاملے میں اللّہ سے ڈرو بیٹیوں کے معاملے میں اللّہ سے ڈرو"
آپکے ان جملوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر اہم معاملہ ہے۔ایک دفعہ عرب کے کسی قبيلے نے ایک مسلمان بیٹی کی چادر پر کیل ٹھوک دیا اور جب وہ اٹھی تو چادر سر پہ سے اتر گئی جب آپ صلی اللّہ تعالیٰ علیہ و سلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فوراً صحابہ کو بلا کر بھرپور ایکشن لیا اور فرمایا اس معاملے میں رحم کی کوئی گنجائش نہیں.ہم جانتے ہیں کہ محمد بن قاسم نے ایک مظلوم بیٹی کی آواز پر وادی سندھ کو فتح کر لیا اور اس وادی میں اسلام کا جھنڈا لہرایا آج اسی وادی سندھ میں جِسے ریاست مدینہ کہا جاتا ہے جسکا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے اس سر زمین کی ایک بیٹی جسکا نام ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے کئی سالوں سے دشمن کی قید میں ہے جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جاتا ہے اس میں نا تو اسلام رہا اور نا ہی جمہور نام کی کوئی چیز باقی رہی ہے آج میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس ملک کا آئین کہاں ہے؟ اس ملک کے حکمران کہاں ہیں؟ یہ ملک تو آزادی کے نعرے کی بنیاد پر بنایا گیا تھا یہ ملک تو آزاد ہو چکا تھا تو پھر یہ کیسی آزادی ہے کہ ایک بیٹی کو دشمن گھر سے آ کر اٹھا لے جائیں اور اس ملک کے حکمران اور عوام ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں وقت گزرتا گیا چہرے بدلتے گئے مگر نظام نا بدل سکا! حکمرانوں نے امیدیں وابستہ کیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ دفن ہوتی گئیں یقیناً عافیہ صدیقی کی والدہ نے بھی بے شمار کوششیں کیں کہ وہ اپنی بیٹی سے مل سکے مگر اس نظام نے اجازت نہ دی اور وہ دل ہی دل میں اپنی بیٹی سے ملاقات کی یہ خواہش لئےاس دنیا فانی سے رخصت ہو گئیں ہم نے دیکھا کہ بہت سے لوگوں نے آوازیں بلند کیں جس میں ہمیشہ ہمیں نا کامی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان آوازوں میں کوئی شفافیت نا تھی آج میں چیخ چیخ کر اپنے زخمی اور افسردہ دل کی زبان کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے اپنی بیٹی کے ساتھ منافقت کی ہے ہم نے عافیہ کو اپنی بیٹی جانا ہی نہیں!!! آخر ایسے کیسے ممکن ہے کہ کسی کی بیٹی دشمن کی قید میں ہو اور اس کے لواحقين اُسکی آزاد کی کوشش نہ کریں! میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا عافیہ ہماری بیٹی نہیں ہے؟ کیا عافیہ لا وارث ہے؟کیا عافیہ مظلوم نہیں ہے؟ کیا حکمرانوں کو اُسکی آزادی کے لیے جدو جہد نہیں کرنی چاہیے ؟ہمیں تو دشمن کے بچوں کو پڑھانا تھا مگر اب تو ہمیں امریکہ پڑھنے جانا ہے۔ کیوں طلباء کو بتایا ہی نہیں جا رہا کہ عافیہ مظلوم ہے عافیہ پاکستانی ہے عافیہ بے گناہ ہے کہاں ہیں انسانی حقوق کی وہ تنظیمیں جو جدت کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انسانوں کے حقوق کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتی ہیں؟ کہاں ہیں وہ محمد بن قاسم کی تاریخ کو لکھنے، پڑھنے والے اور پڑھانے والے! کہاں ہیں وقت کے حکمران جو اپنی کرسی بچانے کے لیے اُنکی غلامی تک قبول کر لیتے ہیں؟ کہاں ہیں یہ سب؟ کہاں ہیں یہ؟
یہ بے بصر ہیں انہیں کچھ نظر نہیں آتا
جو راہبر ہے وہی راہ پر نہیں آتا

دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور یہ سوچ رہا کہ عافیہ کیا سوچتی ہو گی کہ میرا کوئی نہیں ہے مجھ سے کوئی ملنے نہیں آتا میرے وطن کے افراد کہاں ہیں۔ کہاں حق پر کھڑی ایک عافیہ اور کہاں اس دنیا کے ظالم جو بے بس ہوئے بیٹھے ہیں
سو ظلم و جبر کی طاقت تجھے جھکا نہ سکی
صراطِ حق سے ذرا سا تجھے ہٹا نہ سکی
یہ تحریر جو جو بھی پڑھ رہا ہے اس پر واجب ہے کہ وہ عافیہ کے لیے آواز بلند کرے اور اگر عملی جامہ پہنانے کی بھی ضرورت پڑے تو اس سے بھی پیچھے نا رہے کیوں کہ عافیہ صدیقی کے لیے آواز اٹھانا صرف ایک فرد کے لیے ضروری نہیں ہے اور نا ہی اسکا حق کسی ایک فرد سے خاص اوقات میں ادا کیا جا سکتا ہے ہمیں اُسکے کے لیے مجموعی طور پر ہر فرد اور تحریک کو سپورٹ کرنا ہوگا۔
یہ چند لفظ ہیں تیرے لیے مری بہنا
مجھے تو اس کے سوا اور کچھ نہیں ‌کہنا

Adnan liaqat Rajput
About the Author: Adnan liaqat Rajput Read More Articles by Adnan liaqat Rajput: 9 Articles with 15013 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.