100 واں آرٹیکل اور خوشی کا اظہار

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ ریا ہوں تو سب سے پہلے تو میں اپنے رب تعالی کا شکر ادا کرتاہوں کہ اس نے مجھ جیسے گناہ گار ، خطاکار ، سیاح کار اور بدکار کو اسلامی و مذہبی موضوعات پر معلومات اور دین اسلام سے آگاہی فرہم کرنے کے لیئے چنا اور مختلف اور ضروری موضوعات کو آپ تک پہنچانے کی ہمت اور توفیق بخشی سوشل میڈیا میں ایک بہت بڑی ویب سائٹ جسے Hamariweb.com سے لوگ بہت اچھی طرح واقف ہیں اردو زبان کی یہ ایک مکمل اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے میں ذاتی طور پر اس ویب سائٹ کے تمام ممبرز کا اور خاص طور پر اردو آرٹیکل کے شو بے کے تمام ممبران کا تہ دل سے شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اور میرے آرٹیکلز کو اپنی ویب سائٹ پر جگہ دی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں آج یہ سب باتیں کیوں کرریا ہوں دراصل میری اس تحریر کے ساتھ میرے آرٹیکل کی سنچری مکمل ہوگئی یعنی یہ تحریر میری 100 ویں تحریر ہے اس لیئے میں آج بہت خوش ہوں میرے معزز یاروں میں نے ہماری ویب سائٹ پر لکھنے کا آغاز 2016 میں کیا اور میرا پہلا آرٹیکل " آخر کب تک " کے عنوان سے 27 اکتوبر 2016 کو اس ویب سائٹ پر شائع ہوا کچھ عرصہ کسی نجی وجوہات کی بنا پر غیر حاضر بھی رہا اور اس وقت تک تھوڑے تھوڑے وقفہ سے میرے کم و بیش 27 آرٹیکل شائع ہوچکے تھے اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ میں پاکستان کے تاریخی شہر حیدرآباد میں رہائش پزیر تھا لیکن 2017 میں کسی وجہ سے میں کراچی شفٹ ہوا اور اس کے بعد میں نے باقائدہ لکھنا شروع کیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں شروع شروع میں سیاست اور دوسرے موضوعات پر بھی لکھا لیکن پھر میں نے اپنی تحریر کا رخ صرف مذہبی موضوعات کی طرف موڑ دیا اور مذہب کے ان موضوعات کا اتخاب کیا جن کی طرف اہل ایمان مسلمانوں کی توجہ دلانا میں نے ضروری سمجھا اور اب بھی ایسے کئی موضوعات باقی ہیں جن کو وقت کے ساتھ ساتھ آپ تک پہنچانے کی کوشش جاری رکھوں گا اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت مجھے ہمت اور توفیق عطافرمائے آمین۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں 100 ویں آرٹیکل کی خوشی میں آج میں "خوشی کا اظہار " کے موضوع کو اپنی تحریر کا حصہ بنائوں گا ہم دیکھیں گے کہ ہمیں اس عارضی دنیا میں رہتے ہوئے کب کس طرح اور کس وقت خوشی منانے کا حکم یے ؟ اور شریعت میں اس کی حد کیا مقرر ہے ؟ اور اس کا طریقہ کیا ہے ؟ سب سے پہلے ہم قران اور حدیث کی روشنی میں اس کو دیکھتے ہیں جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارتے ہیں تو ان کے لیئے خوشخبریاں ہی خوشخبریاں ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کیوں کہ وہ اللہ تعالی کے خاص اور محبوب بندوں میں شمار کیئے جاتے ہیں قران مجید کی سورہ یونس کی آیت 58 میں ارشاد باری تعالی ہے
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۔
ترجمعہ کنزالعرفان ۔۔۔ " تم فرمائو کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیئے یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں "۔ مفسرین نے اس آیت کے معنی کے طور تفصیل کچھ یوں کی ہے کہ کسی پیاری اور محبوب چیز کے پانے سے دل کو جو لذت حاصل ہوتی ہے اس کو ’’فَرح ‘‘کہتے ہیں ،اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ ایمان والوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و رحمت پر خوش ہونا چاہئے کہ اس نے انہیں نصیحتیں ، سینوں کی شفاء اور ایمان کے ساتھ دل کو راحت و سکون عطا فرمایا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے اپنے فضل اور اپنی رحمت کا ذکر کیا ہے ہمارے مفسرین کے اس کے متعلق کئی اقوال ہیں چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، حضرت حسن اور حضرت قتادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے اسلام اور اس کی رحمت سے قرآن مراد ہے یعنی یہ اس رب تعالی کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں دائرئہ اسلام میں داخل کرکے اہل ایمان مسلمان پیدا فرمایا اور اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب یعنی قران مجید ہمادے لیئے رحمت ہے اور ساتھ ہی مفسرین نے اللہ تعالی کی رحمت کے طور پر سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ذکر بھی کیا کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو کل جہاں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا "وما ارسلنک الا رحمتہ للعالمین " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مطلب یہ ہے کہ یہ ساری باتیں ہمارے لیئے خوشی منانے کے لیئے ہی ہیں اور اللہ رب العزت کا شکر ادا کرکے ہم خوشی منا سکتے ہیں ایک حدیث کے مطابق کہ جب بھی سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو کوئی خوشخبری سنائی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اپنے رب تعالی کے حضور سربسجود ہوتے اور شکر بجا لاتے کہ یہ خوش ہونے اور خوشی منانے کا ایک طریقہ ہے اور ساتھ ہی یہ طریقہ ہمیں بھی سکھا دیا گیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں انسانی زندگی خوشی اور غم کے جذبات کا امتزاج ہے اور پوری زندگی اسی کے نشیب و فراز میں گزار دیتا ہے لیکن کچھ لوگوں میں یہ جذبات کم اور کچھ میں زیادہ ہوتے ہیں اور ان ہی جذبات پر کی گئی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کرتا ہے اور اس کے بعد غم اس کی زندگی کا حصہ ہوتا ہے ایک تحقیق کے مطابق ہر انسان کم و بیش پانچ چیزوں کا اظہار اپنی زندگی میں کرتا ہوا نظر آتا ہے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان پانچ چیزوں میں خوشی ، غم ، خوف ،ناراضگی اور غصہ ہے انسان اپنی زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کرتا ہے ایک تحقیق کے مطابق ایک سال میں ہر انسان کم و بیش 468 مرتبہ خوشی کا اظہار کرتا ہے جبکہ غم کے اظہار کا تناسب کم وبیش 312 مرتبہ ہے اس کے بعد اس پر ناراضگی کےاظہار کا وقت آتا ہے ہر انسان ایک تحقیق کے مطابق کم و بیش 260 مرتبہ ایک سال میں ناراضگی کا اظہار کرتا نظر آتا ہے جبکہ خوف کے جذبہ کا اظہار ایک سال میں ہر انسان کم و بیش 156 مرتبہ کرتا ہے اور بلکل اسی طرح ایک سال میں ایک انسان اپنے غصے کا اظہار کم و بیش 157 مرتبہ کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ ہر انسان میں سب سے زیادہ خوشی کے جذبات ہیں جو نمایاں ہوتے ہیں اور جس کا اظہاروہ سب سے زیادہ کرتا ہے اصل میں خوشی اور غم کا بڑا گہرا رشتہ اور گہرا تعلق ہے بظاہر خوش رہنا اور کسی کو خوش رکھنا فی زمانہ بڑا مشکل کام ہے اور ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ سب سے مشکل کام دوسروں کو خوش کرنا ہے کسی شاعر نے کیا خوب کہا کہ
سنتے ہیں کہ خوشی بھی ہے جہاں میں کوئی چیز
ہم ڈھونڈتے پھرتے ہیں کدھر ہے یہ کہاں ہے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ تلاش تو صرف ہماری سوچ ہے اگر ہم اپنے اردگرد جائزہ لیں
 تو لوگ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے خوش ہو جاتے ہیں۔ بس شرط ہے کہ  ان کے مزاج کے مطابق ہو۔ مثلا میرے بچے ایک چاکلیٹ سے خوش ہو جاتے، اگر میں ایک عورت ہوں اور میرے میاں کی پسند کا کھانا بن جائے وہ خوش ہو جاتے ہیں ، اپنی ساس کی خدمات کا اعتراف کروں تو وہ خوش ہو جاتی ہیں، اپنی بہنوں  کو کال کروں تو وہ خوش ہو جاتی ہیں۔ میری والدہ مجھے مختلف دعائیں اور وظائف پڑھنے کا کہتی ہیں جب میں ان کو بتاتی ہوں کہ میں نے وہ پڑھی اور ان کو اکسیر پایا وہ خوش ہو جاتی ہیں۔ میری دیورانی بہت سی چیزیں بہت خوبصورت بناتی ہیں، وہ کیک بہت اچھے بناتی ہیں میں دل کھول کر تعریف کروں وہ خوش ہو جاتی ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میری دوستوں کو میرے وقت میں سے کچھ وقت درکار ہوتا ہے میں ان کو دوں تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔ الغرض میں نے دیکھا ہے کہ لوگ بہت چھوٹی چیزوں سے خوش ہو جاتے ہیں۔ اور جب ہم دوسروں کو خوش کرتے ہیں تو خود بھی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ خوشی کی شعا ئیں ہوتی ہیں جس پر ڈالی جائیں وہ بھی رونق رونق ہو جاتا اور جہاں سے پھوٹتی ہیں وہ بھی۔ خوش کے اظہار کے لئے مسکرانا بھی کافی ہوتا۔ لمبے لمبے قہقہے ضروری نہیں خوشی سے بھرپور بھی ہوں۔ مسکراہٹ لگتی بھی بھلی ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کہیں پڑھا تھا کہ آپ کے مسکرانے میں چہرے کے کم مسلز استعمال ہوتے ہیں ، جبکہ غصے یا دکھ کے تاثرات دکھانے کو چہرے کے بہت سے مسلز کھنچتے ہیں اور تکلیف میں ہوتے ہیں ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ "سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے کبھی قہقہ نہیں لگایا بلکہ ہمیشہ تبسم فرماتے تھے اور صابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے تھے کہ جب سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم مسرور ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا چہرہ انور خوشی سے ایسا جگمگا اٹھتا جیسے چاند کا ٹکڑا "۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خوش رہنا اور مسکرانا بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی سنت ہے ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ دنیا اور اس کی عارضی زندگی اصل میں ایک کمرئہ امتحان کی طرح ہے مشکلات اور پریشانیاں ہمارے ساتھ سائے کی طرح چمٹی رہتی ہیں کیوں کہ حقیقی خوشیاں تو ہمیں آخرت میں میسر آئیں گی لیکن اس کی تیاری کے لیئے محنت ہمیں اس زندگی میں ہی کرنی ہوگی حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ ہمیں حقوق العباد کا بھی خاص خیال رکھنا ہوگا اپنے ارد گرد کے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا خیال رکھنا ہوگا تاکہ انہیں یہ اندازا ہوسکے کہ ہمارا دین ہمیں کیا سکھاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ثابت یہ ہوا کہ ہمارے مذہب میں کسی بات پر خوش ہونے خوشی کا اظہار کرنے یا خوشی منانے کی ممانعت نہیں ہے بلکہ شریعت کے دائرہ میں رہکر اگر ہم اپنی کسی خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو اس کی شریعت ہمیں اجازت دیتا ہے لیکن اگر ہم شریعت کا پاس نہ رکھتے ہوئے شیطان مردود کے کہنے اور اکسانے پر اپنی خوشی کا اظہار غیر شرعی طور پر کرتے ہیں تو یہ نہ صرف اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے بلکہ اس میں ہم گناہ گار ہوجائیں گے اور اس رب العالمین کی سخت پکڑ میں آجائیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جیسے پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ خوش رہنا اور مسکرانا بھی سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی سنت ہے لہذہ چھوٹی چھوٹی جائز باتوں پر شریعت کا پاس رکھتے ہوئے خوش رہا کریں اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرتے رہیں بجائے زور زور سے قہقہ لگانے کے مسکرایا کریں اور مسکرانے کی گویا عادت بنالیں کہ اس کی بدولت سامنے والے کی نظر میں آپ کے اچھے اخلاق کی نشاندہی بھی ہوگی اور آپ کے چہرے سے کھلنے والی ہر وقت کی مسکراہٹ سے دوسروں کے دلوں پر بھی اچھے اثرات نمایاں ہوتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میری یہ 100 ویں تحریر اس وقت آپ لوگ پڑھ رہے ہیں دعا کریں کہ اسی حوصلے اور جذبے کے ساتھ مجھے رب الکائنات حق بات کہنے لکھنے اور آپ لوگوں تک پہنچانے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے اس پر مجھے اور ہم سب کو عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریم
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 167 Articles with 134646 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.