لغت میں ”بداء“ کے معنی واضح یا آشکار ہونے کے ہیں، البتہ پشیمان ہونے کے معنی میں بھی آیا ہے، کیونکہ جو شخص پشیمان ہوتا ہے اس کے لئے کوئی نئی بات سامنے آتی ہے (تب ہی وہ گزشتہ بات پر پشیمان ہوتا ہے)
شیعہ ؛خداوند عالم کے لئے ”بداء“ کو جائز مانتے ہیں اگرچہ ان کے نزدیک یہ عقیدہ رکھنا ایک کھلا کفر ہے کہ خداوند عالم سے کوئی چیز مخفی ہے لیکن ان کے نزدیک ایسا ممکن ہے کہ خداوندعالم نے کسی واقعہ کے بارے میں اپنے نبی یا رسول کو آگاہ فرمایا دیا لیکن بعد میں وہ واقعہ پیش نہیں آیا. مزید یہ کہ شیعوں کے نزدیک نسخ اور بداء ایک ہی نظریہ کی مختلف صورتیں ہیں. اور شیعوں کا کہنا ہے کہ نسخ بھی ایک قسم کا ”بداء“ ہے، لیکن تشریعی امورمیں، قوانین اوراحکام میں ”نسخ“ کہا جاتا ہے، جبکہ تکوینی امورمیں اسی کو ”بداء“ کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ مختلف واقعات کا حوالہ دیتے ہیں جس میں حضرت اسماعیل(علیہ السلام) کی قربانی اورحضرت یونس(علیہ السلام) کی قوم کا ایمان قبول کرلینا وغیرہ شامل ہیں. ان واقعات کو بداء پرڈالنا درحقیقت ایک فریب کےعلاوہ کچھ نہیں کیونکہ حضرت ابراہیم کوایک حکم دیا اورجب حضرت ابراہیم(علیہ السلام) نے اس حکم کو پورا کرنے کے تمام اسباب اختیار کرلیے تو الله نے ان کے اس عمل کو قبول کر لیا.
ان واقعات میں سےایک قرانی واقعہ ہمیشہ سے کھٹکتا رہا جوکہ حضرت موسیٰ(علیہ السلام) کو توریت دینے سے متعلق ہے. اس سلسلے میں قرآن بتاتا ہے کہ انھیں حکم دیا گیا کہ تیس دن تک کے لئے اپنی قوم کو چھوڑیں اوراحکام توریت حاصل کرنے کے لئے مقررہ جگہ پر جائیں، لیکن دوسری جگہ بتایا کہ بعد میں اس مدت میں دس دن کا اور اضافہ کیا. اس کو بھی شیعہ بداء یعنی الله کی بھول قرار دیتے ہیں کہ کہ پہلے ہی کیوں نہ ٤٠ دن کے لئے بلایا. لیکن اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ بتا دیں کہ شیعوں کے نزدیک بداء کی ضرورت کیوں ہے؟
اسلام میں فتنہ ڈالنے والے گروہ شیعت کے مراکز عراق میں تھے جیسے کوفہ، بصرہ وغیرہ. لیکن ان لوگوں نے اپنے آپ کو معتبر کرنے کے لئے اپنے آپ کو آل علی کا نمائندہ ظاہر کرتے تھے. جبکہ آل علی زیادہ عرصہ مدینہ میں رہی. لہٰذا فتنہ پردازی پھیلانے والے عراقی، آل علی جن کو یہ امام کہتےتھے، ان سے منسوب جھوٹی سچی باتیں عراق میں پھیلاتے رہتے. اسی طرح چھٹے امام جعفرالصادق کی موجودگی میں ہی ان فتنہ پردازوں نے عراق میں یہ اعلان کردیا کہ ان کے اگلے امام انکے بڑے بیٹےاسماعیل ہوں گے. لیکن الله کا کرنا ایسا ہوا کہ اسماعیل امام جعفر کی موجودگی میں ہی فوت ہوگئے. اب مسئلہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کو کیا بتائیں؟ اگر سچ بتا دیتے کہ ہم ان سے منسوب باتیں بتا رہے تھے تو اپنا جو مقام معاشرے میں بنایا ہوا تھا وہ ختم ہو جاتا. اگر کہتے کہ امام نے غلط بتایا تھا کہ اگلا امام کون ہوگا تو امام کو جو مقام اوربلندی دی ہوئی تھی وہ ختم ہو جاتی اورخود ان فتنہ پردازوں نے اپنا جو مقام بنایا ہوا تھاوہ ان اماموں کے خودساختہ نمائندے ہونے کی وجہ سے بنایا ہوا تھا تو وہ بھی ختم ہو جاتا.
لہٰذا ایک عقیدہ گھڑا کہ سارا الزام الله پر ڈال دیا جائے اور الله کو بداء یعنی الله کو بھول کانظریہ گھڑا. ایک لحاظ سے شیعوں کے نزدیک امام غلطی نہیں کرسکتا مگر الله نعوز باللہ کرسکتا ہے. لیکن پھر بھی امام جعفرالصادق کے بعد شیعوں کے دو گروہ ہوگئے، ایک وہ جنھوں نے کہا کہ مرنے کے باوجود اسماعیل امام ہیں اورانکو اسماعیلی کہا جاتا ہے اور دوسرے وہ جنھوں نے ان کے دوسرے بیٹے موسی بن جعفر کو امام مان لیا.
اب جب بداء کا عقیدہ گھڑا تو اس کے لئے کچھ مثالیں انھوں نے قرآن سے دیں جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے تو اب سوال یہ ہے کہ حضرت موسی کو جب ٣٠ دن کے لئے بلایا تو پھر اس میں ١٠ دن کا اضافہ کیوں کیا گیا؟ اور پہلے ہی ٤٠ دن کے لئے کیوں نہیں بلایا گیا. کیا یہ واقعی الله کی بھول تھی؟ تو اس کا جواب بھی سورة طه میں ہے. الله نےحضرت موسیٰ(علیہ السلام) اور فرعون کا قصہ بیان کرنے کے بعد حضرت موسی کے توریت لینے کا واقعہ بیان کیا تواس میں فرمایا کہ وَمَآ أَعْجَلَكَ عَن قَوْمِكَ يَـٰمُوسَىٰ ٨٣ یعنی اور اے موسیٰ، اپنی قوم کو چھوڑ کر جلد آنے پر تم کو کس چیز نے ابھارا؟ یعنی الله نے ان کو ایک خاص دن سے ٣٠ دن کےلئے بلایا تھا، جبکہ حضرت موسیٰ(علیہ السلام) اس تاریخ کی بجائے اس سے ١٠ دن پہلے ہی الله کے بتائے ہوئے مقام پر پہنچ گئے. لیکن ان کو توریت اسی دن سے ملنا شروع ہوئی جو الله نے ان کو بتایا تھا. لہٰذا یہ ١٠ دن کا اضافہ الله کی بھول نہیں تھا بلکہ حضرت موسی کا وقت سے پہلے اس مقام پر پہنچ جانے کی وجہ سے تھا.
شیعوں نے پہلے ایک باطل بات پھیلائی اورپھر جب الله نے جھوٹ کھول دیا تو اس پر مزید جھوٹے عقیدے بنا لیے یہاں تک کہ الله پرجھوٹ گھڑ لیا. لیکن قرآن کایہ اعجاز ہےکہ یہ ہرجھوٹ کو بےنقاب کر دیتا ہے. الله ہمیں اپنی زندگیوں میں پروپیگنڈا سے بچنے اور قرآن سے جڑنے، اس کو سمجھنے اور اسکو ماننے کی توفیق دے. امین
|