ہماری زندگی پر احادیث کا اثر ( حصہ ہشتم )

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
" ہماری زندگی پر احادیث کا اثر " کے عنوان سے جو سلسلہ میں نے شروع کیا ہےاب تک اس کے سات حصے آپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کی یے اور آج ہم اس سلسلے کا آٹھواں حصہ یعنی حصہ ہشتم
پڑھیں گے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے آج کی حدیث صحیح بخاری سے لی گئی ہے اور اس کا نمبر ہے 69 جس میں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ " لوگوں پر آسانی کرو سختی نہ کرو اور خوشی کی بات سنائو نفرت نہ دلائو " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ حدیث معروف کتاب صحیح بخاری کے ایک باب سے لی گئی ہے صحیح بخاری میں موجود ایک کتاب جو کتاب العلم سے جانی جاتی ہے اس کے باب علم کے بیان سے یہ حدیث لی گئی ہے اور اس کے راوی ہیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " ( دین میں ) آسانی کرو سختی نہ کرو خوشی کی بات سنائو اور نفرت نہ دلائو " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سرکار علیہ وسلم نے لوگوں کو نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا اور یہ نصیحت ہر خاص و عام امتی کے لیئے ہے اور خاص طور پر معلمین ، اساتذہ ، واعظ کرنے والے ، خطبات دینے والے ، اور مفتی حضرات سب ہی کے لیئے واجب العمل ہے ۔ میرے معزز یاروں اس حدیث میں سرکار علیہ وسلم نے زندگی کی دو اہم باتوں کی تلقین کی ہے یعنی لوگوں کے ساتھ سختی نہ کرکے ان کے لیئے آسانی پیدا کرنے کی تلقین اور نفرت پھیلانے کی بجائے لوگوں میں محبت اور خوشیاں بانٹنے کی تلقین ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں چودہ سو سال پہلے کہی ہوئی بات کا اگر ہم بغور جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ بات آج کے اس دور کے لیئے کہی گئی ہو کیوں کہ فی زمانہ ہمارے یہاں اس کے بلکل برعکس نظر آتا ہے یعنی یہاں عام انسانوں کے لیئے آسانی فراہم کرنے کی بجائے ان کے لیئے مشکلات میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور زندگی کے ہر معاملہ میں ان کے ساتھ اتنی سختی برتی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہر بندہ پریشان اور مصیبت زدہ دکھائی دیتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دوسرے کے لیئے ایک دوسرے کے دلوں میں اتنی نفرت بھر دی جاتی ہے کہ خوشی اور محبت کا تصور بھی انسان کے لیئے بے معنی ہوجاتا ہے اسی وجہ سے چودہ سو سال پہلے سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے یہ باتیں فرمائی اور خاص طور پر ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمائی کہ جو لوگون کو علم سکھاتے ہیں دین اور اسلام کا درس دیتے ہیں جبھی یہاں عالم دین ، وعظ و خطابت کرنے والے ، مفتی حضرات اور اساتذہ کرام کا ذکر کیا گیا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس حدیث مبارکہ میں عام انسانوں کے علاوہ جن لوگوں کا ذکر آیا ہے انہیں مخاطب کیوں کیا گیا سب سے پہلے جو ذکر آیا وہ " معلمین اور اساتذہ " کا ہے یعنی معلم وہ ہوتے ہیں جن سے ایک عام انسان دین کا علم سیکھتا ہے نماز روزہ زکواہ حج یہ سب ارکان اور ان کی اہمیت کے بارے میں ایک معلم یعنی ایک عالم دین کی رہنمائی کی بدولت ہی ہمیں دین کا علم حاصل ہوتا ہے لیکن اگر یہ ہی معلم اپنے علم کی منتقلی میں سخت رویہ یا سختی کے ساتھ پیش آنا شروع کردیں تو لوگوں کے دلوں میں بجائے ان کی عزت ہونے کے لوگ ان سے دور ہوجاتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کئی بچوں کو دکھا گیا ہے کہ قران حفظ کرنے یا درس نظامی پڑھنے یا علم دین حاصل کرنے کے لیئے جب کسے مدرسے میں جاتے ہیں تو کچھ عرصہ میں ہی واپس آجاتے ہیں صرف وہاں پر ہونے والی بے جا سختیوں کی وجہ سے پھر اس مدرسہ کا نام بھی بدنام ہوتا ہے اور پڑھانے والے معلموں کا وقار بھی گر جاتا ہے جبکہ جن مدارس میں ایسا نہیں ہے وہاں سے فارغ ہونے والے طلباء آج کسی نہ کسی جگہ مدرس یا معلم کی شکل میں فرائص انجام دینے میں مصروف عمل ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک عالم دین جس کے پاس اللہ تعالی اسکے محبوب بندوں اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے بتائے ہوئے دین کے صحیح راستے پر چلنے کا علم ہے اور یہ علم انہیں اس لیئے عطا کیا گیا کہ وہ لوگ جو دین کے معاملہ میں بلکل کورے ہیں یا انہیں دین کی بنیادی باتوں کا علم ہی نہیں اور وہ اس وجہ سے اپنی روزمرہ زندگی میں دین سے دوری اور ناوافقیت کے سبب گناہ کر بیٹھتے ہیں تو ان کی اپنے علم کی بدولت رہنمائی فرمائیں اب وہ اس کے لیئے واعظ و نصیحت کا راستہ اختیار کریں یا تحریرکی شکل میں کتابوں کی صورت میں کریں یا اپنے سوشل میڈیا کی بدولت آڈیو ویڈیو بیانات سے یہ فریضہ انجام دیں گویا یہ کوئی بھی راستہ اپنائے لیکن یہ ان عالم دین یعنی معلموں کی ہی ذمہ داری ہے اور انہوں نے ایسا نہ کیا تو بروز قیامت ان کی بڑی پکڑ ہے اس حدیث کے مطابق سرکار علیہ وسلم نے اسی لیئے معلم کا لفظ استعمال کیا اور کہا کہ ( دین میں ) سختی نہ کرو اور آسانی کرو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں معلموں کے ساتھ اساتذہ کا ذکر کیا گیا ہے حالانکہ دین کا علم سکھانے والوں کو ہم معلم کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی کہ سکتے ہیں لیکن چونکہ ہم نے معلم کو دین کے استاد کی حیثیت سے ذکر کیا ہے اس لیئے یہاں اساتذہ کو ہم دنیاوی تعلیم کے اعتبار سے ذکر میں لائیں گے یعنی فی زمانہ دنیاوی تعلیم کے حصول کے لیئے چھوٹی چھوٹی کلاسوں سے اسکول کالج اور یونیورسٹیوں میں اگر ایک پڑھنے والے عام انسان یعنی طالب علم کا سب سے زیادہ سامنا ہوتا ہے تو وہ استاد ہی ہوتا ہے جس طرح ایک عالم دین کے پاس دین کا علم ہے اسی طرح ایک استاد کے پاس دنیاوی علم ہوتا ہے میرا اپنا ماننا یہ ہے کہ دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیئے کسی حد تک دنیاوی علم کا حصول بھی ضروری ہوتا ہے اور اساتذہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس دنیاوی علم کا ایک سمندر ہوتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں استاد یعنی ٹیچر کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہوتا ہے اس عارضی دنیا میں کئی لوگ دنیاوی تعلیم حاصل کرکے اپنا کوئی مقام بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کی اس کامیابی کے پیچھے ان کے اساتذہ کا بہت بڑا رول یوتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ کئی اساتذہ اپنی قابلیت اور اچھے اخلاق کی وجہ سے طالب علموں کے لیئے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں اور طالب علم اپنی زندگی کی آخری سانس تک انہیں بھول نہیں پاتے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن اس کے برعکس اگر اساتذہ کا رویہ سخت اور غصہ والا ہو تو طالب علم کے ذہن پر اس کے منفی اثرات رونما یوتے ہیں کیوں کہ ایسے اساتذہ کا یہ خیال ہوتا یے کہ سختی کرنے طالب علموں کے دل میں ڈر اور خوف پیدا کرنے سے ان کا تعلیم کی طرف رجحان زیادہ پیدا ہوگا جبکہ ایسا بلکل نہیں ہے بلکہ ایسا کرنے سے طالب علموں کی نظر میں ایسے اساتذہ کی کوئی عزت و وقار نہیں ہوتی اسی لیئے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اساتذہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سختی نہ کرو بلکہ لوگوں پر آسانی کرو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث مبارکہ میں واعظ و خطاب کرنے والے کا بھی ذکر آیا ہے اور یہ لوگ بھی عالم دین ہی ہیں جو مختلف مواقعوں پر کسی نہ کسی موضوع کو لیکر واعظ و خطاب کرتے ہیں کسی منعقدہ محفل میں یا جمعہ کے موقع پر مسجد میں واعظ و خطاب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ان کے لیئے بھی یہ ہی حکم ہے کہ اہنے بیان میں اور اپنے رویہ میں سختی نہ برتیں ایسا نہ ہو کہ ان کے کسی جملے سے کسی کے دل پر برا اثر پڑے اور وہ راستے سے بھٹک جائے بلکہ اپنے الفاظوں اور جملوں میں نرمی اختیار کریں لوگوں کو اپنے محبت بھرے جملوں سے دین کی طرف لائیں اور ان کے لیئے آسانی پیدا کریں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث مبارکہ میں مفتیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور مفتی کا کردار ہمارے معاشرے میں بڑا اہم ہے کیوں کہ اس وقت مذہب کے بعد اگر کسی مسئلہ پر سب سے زیادہ باتیں ہوتی نظر آتی ہیں وہ مسلک ہے اور مسلک کے تناطر میں ہی آئے دن مختلف مفتیوں کے مختلف فتوے سامنے آتے ہیں اور ہر طبقہ کے لوگ اپنے اپنے مفتیوں کے فتوں کے تحت بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اس لیئے اس حدیث میں مفتی حضرات کو بھی یاد دہانی کرائی گئی کہ اپنے مستند اور جامع فتووں سے لوگوں کے ساتھ ( دین میں ) سختی نہ برتیں بلکہ ان کے لیئے آسانی فراہم کریں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث مبارکہ میں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی وصیت یا حکم ہر ذی شعور اہل ایمان مسلمان کے لیئے ہے لیکن اگر کہا گیا کہ یہ حکم معلم ، اساتذہ ، واعظ و خطاب کرنے والے اور مفتی حضرات کے لیئے بھی واجب العمل ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں یہ تمام لوگ یہ نہ سمجھے کہ یہ تعلیم صرف عام انسانوں کے لیئے ہیں اور ہم اگر اپنے علم کو دوسروں تک منتقل کرنے کےلیئے سختی سے کام نہیں لیں گے تو شاید لوگوں اسلام کی طرف نہیں آئیں گے لیکن اس لیئے کہا گیا کہ یہ حکم ان تمام لوگوں کے لیئے بھی ہے جو علم سے وابستہ ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث کا دوسرا حصہ یعنی " لوگوں کو خوشی کی بات سنائو اور نفرت نہ دلائو " اگر دیکھا جائے تو یہ حکم بھی عام اہل ایمان مسلمان کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں پر بھی واجب العمل ہے جن کا تعلق براہ راست علم سے ہے لوگوں کو دین کی اچھی اچھی اور خوشخبری والی باتیں بتائیں گے تو لوگ دین کی طرف راغب ہوں گے اور انکی دلچسپی بڑھے گی اور وہ خوش ہوں گے اور اگر خوف اور ڈر کا ماحول پیدا کریں گے تو لوگ دین سے دور ہوجائیں گے اور لوگوں کو نفرت پیدا ہوجائے گی اور اس حدیث مبارکہ میں اسی بات کی ممانعت کی گئی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب یہ بات اگر ہم عام انسانوں کے حوالے سے کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ حکم ہمارے لیئے بھی ہے یعنی کئی مرتبہ یہ دیکھا گیا ہے کہ جب اللہ تعالی کی طرف سے آنے والے عذابات کا ذکر ہوتا ہے تو لوگوں کے دلوں میں ایک عجیب سا خوف پیدا ہوجاتا ہے گناہوں کے سبب اللہ تعالی کی پکڑ اور اس پر ہونے والے عذابات پر ہر اہل ایمان مسلمان کا مکمل یقین اور بھروسہ ہے لیکن ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ وہ انسان جو دین سے دوری کی زندگی گزارتے ہوئے گناہوں میں مبتلہ ہے تو اسے اس سے بچنے اس سے نکلنے اور نکل کر ملنے والے فوائد کے بارے میں انہیں بتائیں نیکیاں کرنے اور اس کے عوض انہیں جنت کے حصول اور وہاں جانے کی خوشخبری سنائیں تاکہ وہ ہمارے دین سے متنفر نہ ہو بلکہ ان کا رجحان دین کی طرف ہو اور وہ بھی گناہوں کے دلدل سے نکل کر نیکیوں کے راستے پر چلنے لگیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ہر فرمان ہمارے لیئے اور ہماری زندگی کے لیئے ایک مکمل مشعل راہ ہے حدیث مبارکہ کی تمام مستند کتابوں میں موجود احادیث اور ان میں موجود آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ارشادات پر اگر ہم اپنی زندگی کو ڈھال لیں اور ان پر اپنی زندگی کو گزارنا شروع کردیں تو ہماری یہ عارضی زندگی بھی سنور جائے گی اور اخرت بھی اور ایک اہل ایمان مسلمان کا اس عارضی دنیا میں آنے کا یہ ہی مقصد ہونا چاہیئے اللہ رب العزت کے احکامات پر عمل کرکے اور اس کے حبیب کریم رئوف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی سنت پر عمل کرکے اپنی زندگی میں نیکیوں کی تعداد کو بڑھائیں تاکہ ہم اللہ تعالی کے حضور پیش ہوں تو یہ نیکیاں ہماری بخشش کا سامان بن جائیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ نیکیاں ہمیں بروز قیامت ہمارے گناہوں کے سبب بھاری ہونے والے ہمارے نامئہ اعمال کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوجائیں اور ہماری مغفرت کا سبب بن جائیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالی کی رضا اور آپ لوگوں کی دین سے وابستگی کی خاطر یہ احادیث میں آپ کی خدمت میں لے کر آتا رہا ہوں اور آتا رہوں گا ان شاء اللہ اور یہ سلسلہ جاری و ساری رکھنے کی کوشش کرتا رہوں گا میری دعا ہے کہ رب کریم ہمیں ان احادیث کو پڑھکر اور ان پر عمل کرنے اور ان احادیث پر اپنی زندگی کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائیں لوگوں پر سختی نہ کرنے آسانی ہیدا کرنے خوشی کی باتوں کو سنانے اور نفرت نہ دلانے کی تمام اہل ایمان مسلمانوں کو توفیق عطا کرے کسی اور حدیث کے ساتھ اگلی تحریر میں حاضر خدمت رہوں گا آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔۔

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 167 Articles with 134842 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.