عبوری حکومت ، دیدار کا عالم کیا ہو گا؟

اطہر مسعود وانی

کتابی طور پر تو ملک میں حاکمیت کا تعین1973کے آئین میں کر دیا گیا تھا لیکن عملی طور پر حاکمیت کا تعین اب بھی ملک میں کشمکش اور انتشار کی وجہ بنا ہوا ہے۔مشرف دور میں ملک میں ملٹری ڈیموکریسی کی اصطلاح استعمال ہوئی۔ مشرف مغرب کو کہا کرتے تھے کہ پاکستان باقی دنیا سے مختلف ہے، پاکستان میں مغرب کی طرح کی جمہوریت قائم نہیں ہو سکتی۔پاکستانی جمہوریت کے اپنے تقاضے ہیں اور اپنی الگ صورتحال ہے۔ملٹری ڈیمو کریسی کے اس نظام کو ہائبرڈ نظام کا نام بھی دیا گیا۔عمران خان حکومت کے وقت اپوزیشن جماعتوں کا جمہوری اتحاد قائم کیا گیا اور ایسے بلند و بانگ جمہوری مطالبات کئے جانے لگے کہ عوام ملک میں عوامی جمہوریت کی بالا دستی کے خواب رات کے وقت ہی نہیں بلکہ دن کو بھی دیکھنے لگے۔

عمران خان کی حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد دھرنے میں شہباز شریف کی تقریر کو حکومت میں لائے جانے کی نوکری کی درخواست قرار دیا گیا تھاجس میں وہ اسٹیبلشمنٹ سے ملتمس تھے کہ اپوزیشن جماعتیں عمران خان سے بہتر منیجر کا کردار نبھا سکتی ہیں۔ تاہم یہ درخواست ایک عرصے کے بعد شرف قبولیت کے درجے پہ پہنچی۔عوام کو توقع تھی کہ عمران خان حکومت کے خاتمے سے ان کا بھی کچھ بھلا ہو جائے گا لیکن ایک بار پھر ثابت ہو ا کہ حکمران جو بھی آجائے، عوام کا کچھ بھلا ہونے والا نہیں ۔پی ڈی ایم اتحاد نے تابعدار حکومت اور ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ کا کردار قبول کیا اور اسے بطریق احسن نبھاتے ہوئے آئندہ الیکشن کے بعد حکومت میں آنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں اپنی ساکھ کو بہتر بنایاہے۔ پی ڈی ایم اتحاد نے حکومت میں لائے جانے سے متعلق سونپی گئی ذمہ داریوں کے کئی اہداف حاصل کر لئے ہیں جبکہ باقی ماندہ عبوری حکومت سے پورے کرائے جائیں گے۔ لگتا تو یہی ہے کہ عمران خان کو مسلط کرانے کے وقت سے ملک میں ملٹری ڈیموکریسی رائج ہے، جس کی اب نوک پلک سنواری جا رہی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کوجو ہے جیسا ہے کی بنیاد پرعوام سے مطلوبہ حدود و قیود میں حب الوطنی درکار ہے اور اسی کے لئے نت نئے قوانین بنوائے جار ہے ہیں۔عوام کے ہر شعبے کو تابعدار بنانے کے الگ الگ تقاضے ہیں جنہیں پورا کرنے کا اہتمام الگ الگ طور پر کیا جاتا ہے۔جو ملکی پالیسیاں بنائیں گے،حکمت عملی طے کریں گے، وہ خود کو تنقید سے بالاتر تو نہیں کر سکتے۔ملک کو نقصان پہنچانے والی پالیسیوں، حاکمیت کے نقصاندہ اور خلاف آئین طریقہ کار پہ تنقید تو ہو گی۔عوام کی نظر میں عمران خان کا اپنے منطقی انجام کو پہنچایا جانا بہت اچھا، تاہم ملک و عوام کے تناظر میں سب اچھا نہیں ہے۔پی ڈی ایم اتحاد نے حکومت میں لائے جانے سے متعلق سونپی گئی ذمہ داریوں کے کئی اہداف حاصل کر لئے، باقی ماندہ عبوری حکومت پورے کرے گی۔

اب ملک میں عبوری حکومت کے قیام کا مرحلہ ہے اور عندیہ دیا جارہا ہے کہ عام انتخابات مارچ2024سے پہلے ممکن نہ ہوں گے۔یعنی عبوری حکومت تقریبا آٹھ ماہ انجوائے کرتے ہوئے سونپی گئی ذمہ داریاں پوری کرنے پہ توجہ دے گی۔جمہوری اتحاد کی حکومت کا وقت 9مئی کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم تک اختتام پذیر ہو رہا ہے ، اب دیکھئے کہ عبوری حکومت کس نئے عزم کے ساتھ ملک اور عوا م کے لئے شاندار کردار ادا کرنے کی کٹھن ذمہ داری کس شاہانہ انداز میں انجام دیتی ہے۔بظاہر عبوری حکومت کا کام عام انتخابات کرانا ہے تاہم ملک کے مفاد کے نام پہ اس سے کیا کام لیا جانا مقصود ہے، یہ منظر نامہ سامنے آنا ابھی باقی ہے۔بقول شاعرجب حسن تھا ان کا جلوہ نما انوار کا عالم کیا ہو گا ، ہر کوئی فدا ہے بن دیکھے تو دیدار کا عالم کیا ہو گا۔

اطہر مسعود وانی
03335176429


Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614280 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More