امہات المٔومنین

 تحریر مسز پیرآف اوگالی شریف

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کا لقب امہّات المٔومنین ہے ، ان میں سے ہر ایک کو جدا جد اُمّ المٔومنین کہا جاتا ہے یعنی ایمان والوں کو مائیں، انہیں ایمان والوں کی مائیں کہنے کا راز یہ ہے کہ ایمان والوں کو دوسروں سے ممتاز کرنے کی علامت کو واضح کر دیا جائے اور یہ بتلا دیا جائے کہ مؤمن ، مسلمان ، صاحبِ ایمان وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات (پاک بیبیاں) کو اپنی ماں جانتا ہو، وہ ماں جس کی فررزندی کا شرف اس وقت نصیب ہوتا ہے جب ولا ء نبوی اور ایمان میں کمال حاصل ہو، اشرار کو ان کی فرزندی کا شرف نہیں مل سکتا۔

امہّات المٔومنین کے مخصوص فضائل
اللہ تعالیٰ نے ان نفوسِ قدسیہ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیبیاں فرمایا یعنی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کا ازواج النّبی ہونا بمنظوری رب العٰلمین ہے اور یہ منظوری فی الواقع ان کے لیے فضیلتِ عظیمہ ہے جبکہ کوئیزن و شوہر یہ دعویٰ نہیںکر سکتا کہ ان کے مابین عقد کا درگاہِ رب العزت میں کیا درجہ ہے؟

دوسری فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازواج النّبی سے ارشاد فرمایا کہ لستن کاحدِ من النسآ ئِ (اے نبی کی بیبیو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو)

میں صنفِ نازک کا ہر فرد شامل ہے اور کوئی عورت ذات بھی اس سے باہر نہیں جاتی جس سے ثابت ہے کہ ازواج النّبی کا درجہ ہر ایک عورت سے بالا تر اور شانِ خاص کا ہے، دنیا کا جہاں کی عورتوں میں کوئی ان کا ہمسر نہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاجت کے باعث ان کا اجردنیا بھر کی عورتوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔

تیسری فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازواج النّبی کے بیوت (گھروں ) کو وحی الٰہی کا مہبط (منزل ) بتایا، ان گھروں کو حکمتِ ربّانی کا گہوارہ ٹھہرایا اور سب جانتے ہیں کہ مکان کی عزت میکن سے ہوتی ہے۔

چوتھی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازواج النّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رفع میں آیتِ تطہیر کو نازل کیا اور قرآن نے فرمایا:
انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیتِ ویطھرکم تطھیراo
ترجمہ :اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو! کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمائے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا بنا دے۔

اس آیتِ کریمہ سے ما قبل کی آیاتِ کریمہ میں اوّل سے آخر تک تمام کلام کی مخاطب ازواج النّبی ہیں اس لیے اہل البیت کے لفظ کا خطاب بھی انہیں کے لیے یہ جیسا کہ بیوتکن کا خطاب بھی انہیں کے لیے ہے، اس کی تائید عرفِ عام سے بھی ہوتی ہے کیونکہ صاحبِ خانہ یا گھر والی ہمیشہ بیوی ہی کو کہا جاتا ہے، اہل البیت، گھرو الی کا عربی ترجمہ ہے ، اس لفظ کو وسعت دے کہ ہم ’گھروالوں‘ کا لفظ بولتے ہیں اور اس کے مفہوم میں بیوی کے علاوہ بچوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں، بیوی کو متثنےٰ کرکے اہل خانہ کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔
غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں آپ کی ازواجِ مطہرات بھی داخل ہیں اور خاتونِ جنّت حضرتِ فاطمہ الزاہراء علی مرتضیٰ ، حسنین کریمین (امام حسن وامامِ حسین) رضی اللہ تعالیٰ عنہم سب داخل ہے، آیات واحادیث کے جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے اور یہی مذہب ہے علمائے اہل سنت کا۔

پانچویں فضیلت یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی ایک آیت (وما کان لکم ان توذوا رسول اللہ (الاٰیۃ) میں پہلے تو مؤمنین کو ایذائے رسول سے روکا گیا ہے اور پھرخصوصیّت کے ساتھ ازواجِ مطہرات کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ایذائے رسول کی جتنی صورتیں ہو سکتی ہیں، اس سب میں زیادہ سخت وہ صورت ہوگی جس میں ازواج النّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے کسی کی شان کے خلاف کوئی رویہ اختیار کیا گیا ہو کیونکہ قرآنِ پاک نے ایذائے رسول کے تحت میں خصوصیت سے یہی بات بیان فرمائی ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ ایک بار ام المٔومنین زینب حجش نے ام المٔومنین صفیہ کو یہودن کہہ دیا، کچھ شک نہیں کہ ان کا نسب یہود بن یعقوب پر ختم ہوتا تھا مگر کہنے کا انداز و لہجہ حقارت آمیز تھا، اتنی بات پر حضور کچھ عرصہ تک ام المٔومنین زینب کے گھر نہ گئے، جب انہوں نے تو بہ کی تو خطا بخشی ہوئی، غرض امہات المٔومنین میں سے کسی کی شان میں گستاخی ، اللہ و رسول کی شان میں دریدہ دہنی ہے اور اسلام وایمان سے محرومی کا دوسرا نام ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت فضائل قرآن و احادیث میں وارد ہیں جن کی یہاں گنجائش نہیں۔

امہّات المٔومنین رضی اللہ عنہم کی تعداد گیارہ ہے ان کے اسماء مقدس یہ ہیں:
۱۔ حضرتِ خدیجہ الکبریٰ بنت خویلد ۲۔ حضرتِ سودہ بنتِ ذمعہ
۳۔ حضرتِ عائشہ بنتِ صدیق اکبر ۴۔ حضرتِ حفصہ بنتِ فاروقِ اعظم
۵۔ حضرتِ زینب بنتِ خزیمہ ۶۔ حضرت امِّ سلمہ بنتِ ابی امےّہ
۷۔ حضرت زینب بنتِ حجش ۸۔ حضرت جویریہ بنت الحارث
۹۔ حضرت امّ جیبہ بنت ابوسفیان ۱۰۔ حضرت صفےّہ بنت حُےّی
۱۱۔ حضرتِ میمونہ بنتِ الحارث (رضی اللہ عنہنَّ)

ان میں سے اکثرت ازواجِ مطہرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ باعتبارِ نسب بھی قرابت حاصل ہے

امّ المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد خویلد بن اسد عرب کے مشہور تاجر اور قریش میں معزز ونامور تھے، ان کی والدہ کا نام فاطمہ بنتِ زائدہ تھا ان کا سلسلۂ نسب بھی حضور کے ساتھ لُوّی میں شامل ہو جاتا ہے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما کے چچا عمر و بن اسد نے آپ کا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، مہر کے چھ اونٹ مقر ر ہوئے تھے اس وقت آپ کی عمر ۴۰سال اور نبی کریم علیہ الصّلوٰۃ والتسلیم کی عمر شریف ۲۵ سال تھی۔

حضرت خدیجہ کا لقب زمانہ جاہلیت (قبلِ اسلام) میں بھی طاہر ہ تھا یہ اسلام میں سب سے پہلے داخل ہوئیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام دنیا و آخرت کی چار برگزیدہ عورتوں میں سے ایک حضرت خدیجہ کو شمار کیا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہ روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ کی تعریف، ان الفاظ میں بیان فرمائی:
ا۔ وہ مجھ پر ایمان لائی جب اوروں نے کفر کیا۔ ۲۔ اس نے میری تصدیق کی جب اوروں نے مجھے جھٹلایا۔
۳۔ اس نے مجھے مال میں شریک کیا جب اوروں نے مجھے کسب مال سے روکا ۴۔اللہ نے مجھے اس کے بطن سے اولادی جب کہ کسی دوسری بیوی سے نہیں ہوئی (یعنی جس سے نسب چلتا ہے)۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا ’’ابھی خدیجہ حضور کے پاس ایک برتن جس میں کچھ کھانے پینے کی چیز ہے لے کر حاضر ہوتی ہیں، آپ ان سے ربّ العلمین کا سلام نیز میرا سلام کہہ دیجئے اور ان کو ایک ایوانِ جنت کی بشارت دے دیجئے جو خالص مروارید سے ہوگا جس کے اندر کوئی رنج کوئی الم نہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند انِ نرینہ تین ہیں ان میں سے ایک حضرت ابراہیم کی والدہ ماجدہ ماریہ خاتون ہیں جو قبطی نسل سے ہیں اور باقی دع شاہزادے یعنی حضرت قاسم اور حضرت عبد اللہ جن کا لقب طیب و طاہر ہے خدیجہ طاہرہ سے پیدا ہوئے اور بچپن ہی میں وفات پا گئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار صاحبزادیاں ہیں اور چاروں خدیجہ الکبریٰ کے بطن سے ہیں اور سب کی ولادت مکہ معظمہ میں ہوئی۔

۱۔ زینب جو قاسم سے چھوٹی اور باقی سب اولاد النّبی سے بڑی ہیں اور قدیم الا اسلام ان کا نکاح مکہ میں ابوالعاص بن ربیع سے ہوا تھا جو آپ کی سگی خالہ ہالہ بنتِ خویلد کے بیٹے ہیں، جنگِ بدر کے بعد آپ نے اسلام قبول کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھ سال کی مفارقت کے بعد نکاح اوّل ہی پر سےّدہ زینب کو ابو العاص کے گھر رخصت کردیا سےّدہ کا انتقال ۸ ھ میںمدینہ طیبہ میں ہوا اور ابو العاص نے ۱۲ ھ میں وفات پائی۔
۲۔ حضرت رقیہّ جو زینب سے چھوٹی ہیں۔
۳۔ حضرت امِّ کلثوم جو رقیہّ سے چھوٹی ہیں۔
۴۔ حضرت فاطمہ الزہرا جو امِّ کلثوم سے چھوٹی ہیں، رضی اللہ تعالیٰ عنہن ۔

جب سیّدہ زینب پیدا ہوئیں تو اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک ۳۰ سال کی تھی، یہ اپنی والدہ کے ساتھ ہی داخل اسلام ہو گئیں تھیں۔

سیّدہ رقیہّ کا نکاح مکہ ہی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا تھا ان کے انتقال کے بعد سیّدہ امِّ کلثوم کا نکاح حضرت عثمان غنی سے ہوا اسی لیے ان کو ذوالنوّرین کا خطاب ملا۔
سیّدہ فاطمہ الزہرا ٔ طیبہّ طاہرہ حضرت خدیجہ الکبریٰ کے بطن سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں، آپ کا نکاح حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ عنہ سے واقعۂ بدر کے بعد اور احد سے پہلے ہوا تھا۔

امِّ المٔومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں ’’ فاطمہ سے بڑ ھ کر کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ ؤالہ وسلم کا مشابہ بات چیت میں نہ تھا ، وہ جب حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھتے پیشانی پر بوسہ دیتے اور مرحبا فرمایا کرتے تھے‘‘ سیّدہ فاطمہ کو اپنی ہمشیروں پر یہ خاص شرف حاصل ہے کہ دنیا میں ان ہی کی ذرےّت چلی اور ان ہی کی اولاد سے آئمۂ عظام ہوئے۔
سیّدہ فاطمۃ الزہرا ء کے بطنِ اطہر سے امام حسن ، امام حسین، سےّدہ امِّ کلثوم اور سیّدہ زینب پید ا ہوئیں، حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا انتقال رمضان ۱۲ ھ نبوت میں مکہ معظمہ میں ہوا ۔

امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خلیفۂ اوّل سیّدنا ابو بکر صدیق اکبر کی بیٹی ہیں، ان کی ماں کا نام امِّ رومان زینب ہے ان کا سلسلہ بھی نسبِ نبوی میں کنانہ سے جاملتا ہے، آپ کا نکاح شوال ۱۰ ھ نبوت (یعنی اعلان کے دسویں سال) مکہ معظمہ میں ہوا اور رخصتی شوال ۱۱ ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔

امّہات المومنین میں یہی وہ خاتون ہیں جن کی اسلامی خون سے ولادت اور اسلامی شیر (دودھ) سے پرورش ہوئی اور امّہات المومنین میں یہی وہ طیبہ طاہرہ ہیں جن کا پہلا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نکاح کو من جانب اللہ قرار دیا تھا۔

صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ مردوں میں بہت سے لوگ تکمیل کے درجے کو پہنچتے مگر عورتوں کے اندر صرف مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون ہی تکمیل کو پہنچی۔ اور عائشہ کو تو سب عورتوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے ثرید کو سب کھانوں پر ہے‘‘ اسی میں حضرت امِّ المومنین امِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ یہ عائشہ ہی ہے کہ میں اس کے لحاف میں ہوتا ہوں تو اس وقت بھی وحی کا نزول ہوتا ہے مگر دیگر ازواج کے بستروں پر کبھی ایسا نہ ہوا‘‘۔

یہی وجہ تھی کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سےّدہ فاطمۃ الزہرا سے فرمایا: ’’ پیاری بیٹی! جس سے میں محبت کرتا ہوں کیاتو اس سے محبت نہیں رکھتی، عرض کیا ضرور یہی ہوگا، ارشاد فرمایا کہ تب تو بھی عائشہ سے محبت رکھا کر‘‘ (بخاری ومسلم)

حضرت عائشہ صدیقہ کے کمالاتِ عالیہ پر یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جیسے بخار ی و مسلم میں روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا: ’’یہ جبریل ہیں اور تم کو سلام کہتے ہیں ‘‘ حضرت عائشہ نے جواب میں فرمایا کہ ان پر بھی اللہ کی سلامتی اور رحمتِ ہو۔

جنگِ بدر میں جس نشان کے تحت ملائکہ نے خدمتِ اسلام ادا کی اور جس نشان پر اللہ کی اوّلین نصرت و فتح نازل ہوئی وہ نشان حضرت عائشہ صدیقہ کی اوڑھنی کا بنایا گیا تھا اور یہ امر آپ کی بڑی فضیلت کو ظاہر کرتا ہے (سیرتِ جلی) ۔

جن دنوں جنگِ جمل کی ابتداء تھی حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجدِ کوفہ میں مولیٰ علی مرتضیٰ کے جاںنثاروں کے سامنے فرمایا کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ عائشہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجۂ مبارکہ ہیں دنیا و آخرت میں‘‘۔

ایک غزوہ میں آپ کی سواری کیمپ میں دیر سے پہنچی تو اس پر منافقین نے ان کی شان پاک میں گستاخانہ کلمات کہے، چند مسلمان بھی ان کے بھّرے میںآگئے جنسِ لطیف وصنفِ نازک کے لیے ایسا موقع سخت پریشان کن ہوتا ہے لیکن اس وقت بھی ان کی قوت ایمانیہ اور پاکی فطرت کی عجیب شانِ نظر آئی ، خود فرماتی ہیں کہ مجھے اپنی پاکدامنی کی وجہ سے یقینِ کامل تھا کہ میری طہارت و پاکیزگی کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں بتا دیا جائے گا مگر اس کا مجھے شان گمان بھی نہ تھا کہ میرے حق میں وحی الٰہی نزول ہوگا۔

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السّلام کو دودھ پیتے بچے اور حضرت مریم کو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی گواہی سے لوگوں کی بد گمانی سے نجات بخشی اور جب حضرت صدیقہ عائشہ طیبہ پر بہتان اٹھا تو خود ان کی پاکدامنی کی گواہی دی اور سترہ آیتیں نازل فرمائیں اگر چاہتا ایک ایک درخت اور پتھر سے گواہی ولواتا مگر منظور یہ ہوا کہ محبوبہ محبوب کی طہارت و پاکدامنی پر خود گواہی دیں اور عزت و امتیاز ان کا بڑھائیں (تجلی الیقین) قرآن پاک اترا مولائے کریم نے صدیقہ کی نصرت فرمائی، بے قصوری ظاہر کی، ان کو طیبہ ٹھہرایا اور خبر دی کہ مغفرت اور رزقِ کریم ان ہی کے لیے ہے۔

غرض یہ وہ ہیں کہ ان کی پاکیزگی اور پاکدامنی کی آواز سے زمین و آسمان گونج اٹھے اور وہ وحی اتری جس کی قیامت تک نمازوں میں اور محرابوں میں تلاوت کی جائے گی۔ پھر جو تَفَقّہ انہوں نے دین میں پایا اور جو تبلیغ انہوں نے امت کو فرمائی اور علم نبوت کی اشاعت میں جو کوششیں انہوں نے فرمائیں اور جو علمی خزانے اور گنجینے انہوں نے فرزندانِ امتِ مرحومہ کو پہنچائے و ہ ایسی فضیلت ہے جو ازواج میں سے کسی دوسری ام المومنین کو نصیب نہیں۔

کتبِ احادیث میں ان کی روایات کی تعداد دو ہزار دو سو دس ہے ۔ فتاویٰ شرعیہ اور علمی دقائق کا حل اور دوسری علمی خدمات کا شمار ان کے علاوہ ہے۔

اُمِّ المٔومنین سّودَہ، (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)
آپ کے والد کا نام زمعہ بن قیس ہے ان کے ننھیالی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب کے ننھیالی تھے۔

یہ پہلے ایمان لائیں پھر ان کی ترغیب سے ان کے شوہر سکران بن عمر و بن عبدو دبھی مشرف بہ اسلام ہوئے سکران نے حبش میں انتقال کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں زوجیت کا شرف بخشا۔
نکاح کے وقت ان کی عمر ۵۰ سال تھی، ۱۴ سال خدمت اقدس کا موقع ملا ۷۲سا ل کی عمر میں مدینہ طیبہ میں فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخری دورِ خلافت میں وفات پائی ان سے ۵ حدیثیں مروی ہیں۔
حجرت سودہ کا اُمِّ المٔومنین کے درجہ پر فائز ہونے کا سبب اصلی ان کا اور ان کے خاندان کا قدیم ا لا سلام ہونا اور اسلام کے لیے ہجرت حبش کرنا تھا۔

۴۔ اُمِّ المٔومنین حفصہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہا)
آپ عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی ہیں، ان کے شوہر خنیس نے ہجرت حبشہ اور پھر مدینہ کی تھی، بدر و اُحد میں حاضر ہوئے اور جنگِ احد میںزخمی ہو کر مدینہ میںوفات پائی، ان کی شہادت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا:
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت جبریل نے ان کی تعریف ان الفاظ میں کی تھی کہ:
فانھا توامۃ وانھا زوجتک فی الجنۃ o
ترجمہ: وہ بہت عبادت گزار، بڑی روزے دار اور بہشت میں آپ کی زوجہ ہیں۔
نکاح کے وقت آپ کی عمر ۲۲ سال تھی، ۵۹ سال کی عمر میں ۴۱ھ میں مدینہ منورہ میںوفات پائی، ۹ سال حق خدمتِ سرکار میں گزارے ، ان سے ۶۰ حدیثیں مروی ہیں۔

۵۔ اُمِّ المٔومنین زینب بنت خزیمہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہا)
جاہلیت میں ان کا لقت اُمِّ المساکین تھا، ان کا پہلا نکاح طفیل سے ، دوسرا عبیدہ سے اور تیسرا نکاح عبد اللہ بن حجش سے ہوا جو امِّ المٔومنین زینب بنتِ حجش کے بھائی ہیں جنگِ اُحد میں وہ شہید ہوگئے تو حضورِ اقد س صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا، نکاح کے بعد صرف دو یا تین مہینے زندہ رہیں۔

۶۔ اُمِّ المٔومنین اُمِّ سلمہ (ہند)(رضی اللہ تعالیٰ عنہا)
ان کے والد کا نام ابی امیہّ تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیشتر حضرت ابو سلمہ کے نکاح میں تھیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی ہیں، اُمِّ سلمہ نے اپنے شوہر کے ساتھ اول ہجرت حبش کی تھی اور پھر مکے واپس آگئے تھے، دوبارہ جب آپ مدینہ جانے کی نیت سے ہجرت پر نکلے تو ان کے گھر والوں نے انہیں روک لیا، یہ ایک سال تک برابر روتی رہیں حتیٰ کہ سنگ دل عزیزوں نے مع بچہ (سلمہ) کے انہیں سفر کی اجازت دے دی اور یہ بھی مدینہ طیبہ پہنچ گئیں، ابو سلمہ جنگِ اُحد میں زخمی ہو کر جانبر نہ ہو سکے، چھوٹے چھوٹے بچوں اور قرابت و محبت کی وجہ سے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابو سلمہ سے تھی آپ نے اُمِّ سلمہ سے نکاح کر لیا، ۸۴ سال کی عمر پائی، ۷ سال خدمتِ اقدس میں گزارے، آپ سے ۳۷۸ احادیث مروی ہیں۔

۷۔ اُمِّ المٔومنین زینب بنت حجش(رضی اللہ تعالیٰ عنہا)
ان کی ولدہ اُمَیْمَہ بنتِ عبد المطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پھوپھی ہیں، ان کا پہلا نکاح زید بن حارثہ کے ساتھ ہوا تھا، زید بن حارثہ نجیب الطرفین تھے جنہیں لڑکپن میں ایک گروہ نے اغوا کرکے بیچ ڈالا تھاحکیم بن حزام ان کو حضرت خدیجہ الکبریٰ کے لیے خرید لائے اور آپ نے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دے دیا، حضور کو آپ سے جو محبت تھی اس کے باعث لوگ آپ کو ’’زید بن محمد‘‘ کہا کرتے تھے۔

زینب بنت حجش کی اپنے شوہر کے ساتھ نہ بنی اور حضرت زید نے آپ کو طلاق دے دی تو حکم قرآنی کے ماتحب حضرت زینب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجیت میں لے لیا اور اس طرح اس جاہلانہ رسم کی جڑ کٹ گئی کہ لے پالک بیٹے یا منہ بولے فرزند کی بیوی بھی حقیقی فرزند کی بیوی کی مانند باپ پر حرام ہوتی ہے۔

حضرت زینب نے ۲۰ ھ میں ۲ ۵ سال کی عمر میں مدینہ میں وفات پائی، ۶ سال خدمتِ اقدس میں رہیں ہیں۔

۸۔ اُمِّ المٔومنین جُوَ یرَ یہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)
آپ ایک غزوہ میں اسیر ہو کر آئیں تو حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا زرِ کتابت (آزادی کے بدلے کی رقم ) دے کر انہیں آزاد کرایا اور پھر اپنی زوجیت سے مشرف فرمایا لوگوں کو خبر ہوئی تو انہیں نے ان کے قبیلے بنو المطلق کے سب قیدیوں کو جو سو سے زیادہ تھے چھوڑ دیا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہو گئے تھے۔

ربیع الاوّل ۵۶ ھ میں وفات پائی وقتِ انتقال آپ کی عمر ۶۵ سال تھی ، ۷ حدیثیں آپ سے مروی ہیں۔

9۔ اُمِّ المٔومنین اُمِّ حبیبہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہا)
آپ بیٹی ہیں ابو سفیان بن امےّہ کی جو فتح مکہّ سے ایک دو روز پہلے مسلمان ہوئے نہایت قدیم الاسلام ہیں، اسلام کے لیے انہوں نے باپ بھائی خویش قبیلہ اور وطن سب کو چھوڑا مگر اسلا م پر قائم رہیں، یہ حبشہ ہی میںتھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حالات کا علم ہوا تو آپ نے ہی شاہِ حبشہ کو لکھا کہ میری طرف سے شادی کا پیام اُمِّ حبیبہ کو دیں، آپ کو جس لونڈی نے یہ پیام پہنچایا اسے تمام زیور جو جسم پر تھا عطا فرما دیا۔

نجاشی نے مجلسِ نکاح خود منعقد کی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وکلاء کی موجودگی میں یہ نکاح عمل میں آیا پھر آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئیں اور ۴۴ ھ میں مدینہ میں وفات پائی ، وفات کے وقت آپ کی عمر ۷۴ سال تھی۔ ۶۵ حدیثیں آپ سے مروی ہیں۔

اُمِّ المومنین اُمِّ حبیبہ پاکیزہ ذات ، حمید و صفات اور عالی ہمت تھیں۔

۱۰۔ اُمِّ المٔومنین صفیہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)
ان کا سلسلۂ نسب حضرت ہاروں علیہ السلام سے ملتا ہے ، نبی اسرایل سے ہیں ان کا دوسرا شوہر جنگِ خیر میں مارا گیا اور یہ قید ہوئیں، چونکہ بنو قریظہ اور نبو نضیر کی عالی مرتبہ سےّدہ (سردار) تھیں اس لیے صحابہ کے مشورہ سے حضور نے انہیں آزاد فرما کر اپنے نکاح میں لے لیا، تقریباً ۴ سال خدمت میں بسر کئے، ان کا انتقال رمضان ۵۰ ھ میں ہوا، ۱۰ حدیثیں آپ سے مروی ہیں۔

۱۱۔ اُمِّ المٔومنین میمونہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہا)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷ ھ میں عمرہ فرمایا تو حضرت میمونہ بیوہ تھیں، حضور کا چچا حضرت عباس نے ان کے بارے میں حضور سے ذکر کیا ت آپ نے ان سے نکاح کر لیا تقریبا 3 1/4سال خدمت والا میں گزارے۔ ۵۱ھ میں اسی مکان میں وصال فرمایا جہاں نکاح ہو ا تھا، یہ آخری ازواجِ مطہرات سے ہیں عمر ۸۰ سال کی پائی۔

اہل اسلام کی مادرانِ شفیق
بانواں طہارت پہ لاکھوں سلام
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381792 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.