اگر انڈیا، چین اور جاپان ایران سے تیل لے رہے ہیں تو ہم کیوں نہیں لے سکتےہیں تو پاکستان کیوں نہیں تیل اور دوسری روزمرہ کی اشیا کی تجارت کرسکتا ہے. اس پر ہمیشہ سے وزارت تجارت وغیرہ کُھل کر کوئی بھی اپنا نقطہ نظر پاکستانی عوام کے سامنے پیش نہیں کرتا کہ مسئلہ کہاں پھنس رہا ہے اور اس کا حل کرنے کا کوئی طریقہ ہے.بس یہ ہی دوسرے زرائع سے اپنا نقطہ عوام کے سامنے آتا ہے کہ پاکستان ایران سے تیل کی تجارت نہیں کرتا جو ممالک کرتے ہیں ان کی اپنی اپنی پالیسیاں ہیں۔ جس طرح گزشتہ اور حال کے سالوں میں پاکستان کی معشیت کا جو حال چل رہا ہےاس پر تو پاکستان کو فورا فیصلہ لینا چاہیے. اگر پاکستان ایران سے تیل برآمد کرنا شروع کر دے تو پاکستانی معیشت اور ادائیگیوں کے توازن پر کافی خوش آئیند اثرات مرتب ہوں گے؟ اس وقت بھی پاکستان ایران سے 104 میگا واٹ سستی بجلی خرید رہا ہے اور مزید 100 میگا واٹ بجلی خریدنے کے لیے بھی کوشیش چل رہی ہیں ۔ اسی طرح پاکستان اور ایران کے مابین کھانے پینے کی متعدد اشیا بشمول چاول، کینو، پستے اور دیگر اشیا کی باہمی تجارت بھی چل رہی ہے. جب بھی ایران سے آئل کی تجارت کی بڑے پیمانے پر بات کی جائے تو ہمیشہ کی طرح وزیر و مشیر یہ ہی کہہ پاتے ہیں کہ ایران پر اقتصادی پابندیاں لگی ہوئی ہیں. اور پاکستان ان پابندیوں کی وجہ سے کوئی فیصلہ پر نہیں پہنچ پارہا ہے. جبکہ اگر اقتصادی پابندیاں موجود تھیں تو معاہدہ ہی نہ کیا جاتا اور اگر کر لیا تھا تو اُس کو ضرور نبھایا جانا چاہیے۔ یہی اصول انٹرنیشنل معاہدہ کا ہوتا ہے. کہیں یہ تو نہیں جو پاکستان کو مختلف اداروں سے فارن ایڈ ملتی ہے اگر اُن پر رُکاؤٹ آتیں ہیں تو عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے. جبکہ سال 2009 میں پاکستان اور ایران کے مابین گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا گیا تھا. اور اس پر دونوں مُلک کے بڑوں نے معاہدہ پر دستخط بھی کیے تھے. پھر کیا وجہ تھی اس کو عملی جامہ پہنانے میں وہ کونسی انٹرنیشنل قوتیں ہیں جو اس معاہدہ کو تقریبا 14 سال سے زائد لٹکا رہا ہے تاہم اس وقت بھی ایران پر اقتصادی پابندیاں تھیں جبکہ جمہوری ملکوں میں قومی پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہیے. جس سے مُلک اور حکومت کی دنیا میں بھی پزیرائی ہوتی ہے. جبکہ ایران پر اقوام متحدہ کے علاوہ امریکہ نے بھی اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں . اگر ان دونوں نے یہ پابندی ایران پر لگارکھی ہیں تو ایران سے چائینہ ، انڈیا، اور مشرق بعید کے ممالک وغیرہ کیوں بڑی مقدار میں آئل کی تجارت کررہے ہیں. اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران 80 ارب ڈالر کی اشیا دیگر ممالک کو برآمد کر رہا ہے۔ ہاکستان کے پڑوس ملک انڈیا اور چین، ایران سے سستا تیل خرید رہے ہیں۔ ہمارے جمہوری اور آمریت دور کے حکمرانوں کو جب معلوم تھا کہ ایران پر اقتصادی پابندیاں موجود تھیں تو معاہدہ ہی نہ کیا جاتا ، اور اگر کر لیا تھا تو اُس کو ضرور پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا. پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ایران نے اپنے حصے کی پائپ لائن مکمل کی ہوئی ہے اور اگر منصوبہ اگلے سال 2024 تک مکمل نہ ہوا تو ایران کو حق حاصل ہوگا کہ وہ پاکستان کے خلاف 18 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کرے۔ حال ہی میں پاکستان میں ایرانی کے سفیر رضا امیری مقدم نے اپنی ایک عشائیہ کے دوران صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں امریکی پابندیاں ہیں اس لیے ہم ایسا حل چاہتے ہیں کہ پاکستان اگر ایران سے گیس پائپ لائن لے تو اس کو پریشانی نہ ہو۔ پاکستان کو بجلی گیس کی گرانی کا سامنا ہے اس بحران کو حل کرنے کیلئے ایران پاکستا ن کو سستی گیس، سستی بجلی اور سستا تیل فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اگر ہماری پاکستانی نگراں حکومت انقلابی فیصلے کرے اور ایران سے گیس اور تیل کی تجارت کی شروعات کرئے, کیونکہ گزشتہ ہر حکومت میں خارجہ امور اور عالمی صورتِ حال کے باعث اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں دشواری محسوس کی ہے۔ مگر اس کا حل نکالنے میں پس و پیش کرتی رہی جبکہ اس گیس منصوبے پر ایران کے حصے پر کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے اور پاکستان کی باڈر لائین پر پائپ لائین مکمل کرکے چھوڑدی ہے اور اب تہران یہ ہی توقع کرتا ہے کہ پاکستان اپنے حصے کا کام جلد از جلد مکمل کرے اور اپنی عوام کو معاشی مشکلات سے نکالنے میں ایک قدم آگے بڑھے۔ نگراں حکومت کو اس گیس منصوبہ پر پاکستانی حصے پر کام کو فی الفور آگے بڑھائے اور ایسے مکمل کرے اور اپنے ترقیاتی فنڈز سے بھی رقم فراہم کر سکتے ہیں . لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ جب ملک کی ترقی کے لیے کچھ انقلابی فیصلے لینے پڑتے ہیں یہ سوچ کہ انٹرنیشنل دنیا ناراض ہوجائیگی ملک پر پابندی لگ جائیگی جب کام کرنے سے پہلے ہی یہ سوچ دلوں میں وسوسے لیے بیٹھ جایں پھر آپ ترقی نہیں کرسکتے. اگر اس کے بعد کوئی انٹرنیشنل یا ملکی لیول پر کوئی سیاسی یا خارجی مسئلہ سر اُٹھائیگا تو اُس کے لیے یہ 25 کروڑ عوام کی یک جہتی ہی سامنے کے لیے کافی ہے. پاکستان کا جغرافیہ اللہ تعالی نے ایسا بنایا ہے کہ امریکہ و یورپ اس کے بغیر برصغیر پاک و ہند ، خلیج یا مشرق بعید پراب وہ اپنا اثرورسوخ قائم نہیں رکھ سکتا. اس وقت پاکستان کو ان جی حضوری لیڈران و امپورٹیڈ ٹیڑھے منہہ سے انگریزی بولنے والے ایلیٹ کلاس مشیروں و زیروں سے نکلنا ہوئیگا. گزشتہ 76 سالوں سے ان آزمودہ لوگوں نے پاکستان کو ہر میدان میں تنزلی کے مقام ہی پہنچایا ہے. اب اس ملک کو ایک عوامی لیڈر شپ چاہیے جو عوام میں بھی اتنا مقبول ہو ، جو 1947 کی قیادت کی طرح جس سے ہندوستانی لیڈرشپ کے ساتھ ساتھ تخت برطانیہ کے نمک خوار بھی گھبراتے تھے. معاشی مسائل تب ہی حل ہوئینگے جب لیڈر شپ میں لیڈرانہ صلاحیت ہوں جو ملک کی اور عوام کی بھی لیڈ کرے اور ایسے انقلابی فیصلے جن سے معاشیات اپنی ٹریک پر چلے اب اس مُلک اور عوام کو یہ جوڑ توڑ سیاسی پنڈتوں کو پویلین کا راستہ دیکھانا ہوگا. مُلک میں الیکشن کمیشن منصفانہ الیکشن کراکے ملک کی بھاگ دوڑ اکثریت سے جیتنے والی جماعت کے حوالے کرکے اب اس ملک کو ترقی کی طرف ہر ادارے، سیاسی و مذہبی و لسانی جماعت و افراد کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا پڑئیگا. اس ہی سے ملک آگے جائیگا.
|