ماضی کے وزیراعظم اور حال کے وزیراعظم کی اولاد

کاش ہمارے حال کے وزیراعظم کی اولادیں ہمارے ماضی کے وزیراعظم کی اولاد سے ہی کچھ سیکھ لیتے ان کے بڑوں کا ماضی میں بھی ہر کردار بھی بے داغ ، کرپشن سے بھی بے داغ ، مُنافقت سے بھی بے داغ تھا صرف اپنے ملک اور عوام کی فکر ہمیشہ سے رہی . اور ان کی اولاد کا بھی یہ ہی حال تھا جس کو دیکھ کر ہماری نئی نسل کے نوجوانوں کو ان کو اپنا آئیڈیل بنانا چاہیے.
افسوس کے ساتھ ہمارے پاکستان کے سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی رحمہ اللہ کے بیٹے ڈاکٹر امجد احسن علی رحمہ اللہ جو کل رات 27 اگست 2023 بعد نماز عشاء اس دار فانی سے اللہ تعالی کے جوار رحمت میں کوچ فرماگئے
ایک ایسی حیران کن شخصیت تھے کہ جن کے بارے میں بھت سی باتیں ھمارے ملک کے لوگوں کو علم نھی
☆ ان کا لیاقت نیشنل ہسپتال کراچی جیسے بڑے ہسپتال میں بڑے جنرل فزیشن کے طور پر خدمات انجام دیتے ھوئے ساتھ ساتھ ہسپتال کے عملے کو تبلیغ کے کام سے جوڑنے کی محنت میں لگے رہنا
☆ صبح کے وقت ہسپتال میں سورہ یسین اور رحمن کی تلاوت کا اھتمام کروانا
☆ پھر اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین کو پردے کی ترغیب دینا
☆ پھر اس سے بڑھ کر اسی ہسپتال کی سخت جاب کے ساتھ علم دین حاصل کرنے مختلف علماء کرام کی خدمت میں حاضر ھونا اور ماشاءاللہ
مسلسل جدوجہد کے بعد جامعہ بنوری ٹاؤن سے دورہ حدیث مکمل کرنا
☆پھر اسی پہ بس نہیں لیاقت نیشنل ہسپتال کے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کی سربراہی کا فریضہ ایک عرصہ تک خوش اسلوبی اور مستعدی سے انجام دینے کے ساتھ ساتھ تمام دینی محنت کو بھی جاری رکھنا
☆ پھر سینے میں ایک ٹھاٹے مارتا فکر کا سمندر لے کر پھرنا کہ کیسے پوری امت مسلمہ عربی زبان سیکھ لے کہ اس کے بغیر ھم قرآن اور احادیث مبارکہ اور علم دین کو مضبوطی سے حاصل نھی کرسکتے پھر اسی دوران تبلیغ کے پوری دنیا کے اسفار کا جاری رکھنا اور اس اللہ کے ولی کی ذاتی زندگی کے حالات کا بھی کیا ہی کہنا ھے کہ سنت کے طریقوں کا اہتمام اپنی گھریلو زندگی میں بھرپور کرنا کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا غرض موصوف کا بس نھی چلتا تھا کہ ہر سانس سنت کے مطابق گزاریں احقر کو بھی ایک بار انکے گھر کا وہ حجرہ دیکھنے کا شرف حاصل ھوا جہاں اتنے بڑے بنگلے کے مالک زمین پہ ایک چٹائی پہ آرام کیا کرتے اور کمرے میں ہر طرف کتابیں ھوا کرتی
سبحان اللہ لگتا نھی تھا کہ یہ کوئ اتنے ماھر جنرل فزیشن ھیں مزاج میں عاجزی اور قلندرانہ پن کوٹ کوٹ کر بھرا ھوا تھا
☆ پھر دعوت اور تبلیغ پہ بس نہ فرمایا بلکہ اپنی والدہ صاحبہ کی نصیحت کے مطابق انکی چھوڑی ھوئ جائیداد کے ذریعہ مدرسہ عائشہ للبنات اور مدرسہ ابن عباس کی بنیاد رکھنا اور دونوں مدارس کو مکمل عربی میڈیم کے ساتھ کامیابی سے جاری فرمانا
☆ پھر اس پر بس نے مدرسہ کی ضروریات کو دیکھتے ھوئے مکتبہ بشری کا قیام عمل میں لانا جس میں ڈھیروں دینی کتابوں کی طباعت تراجم اور اشاعت کا کام الحمدللہ پوری کامیابی سے جاری و ساری ھے
☆ پھر اس پر بس نھی اور اپنی تمام فارغ طالبات کے ذریعہ پنڈی لاہور چکوال پشاور اور ملک کے دیگر شہروں میں مدرسہ عائشہ کی شاخیں قائم فرمانا
☆ پھر اس پر بس نھی طالبات میں بھی فقہ کی ماھر طالبات ھوں لہذا اس مقصد کے لئے خصوصی مفتیہ کے کورس منعقد کروانا
☆ پھر اس پر بس نھی وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے درس نظامی سے فارغ التحصیل طالبات کی فکر کرنا کہ عموما ان کی عربی کمزور ھوتی ھے لہذا ان کے لئے خصوصی کورس منعقد کروانا
☆ پھر اس پر بس نھی مدرسہ میں عالمات کی چھ سالہ تعلیم کے علاوہ محلے اور قرب وجوار کی خواتین کی فکر کرتے ھوئے 3 سالہ فاضلہ کورس اور تجوید کی کلاسز اور مختلف مختصر کورس منعقد کروانا

☆ پھر اس پر بس نھی جن طالبات کی شادیاں ھوتی گئیں اب نئے پیدا ھونے والے بچوں کی فکر کرنا کہ انکا کیا ھوگا اور اس سلسلہ میں روضہ عائشہ کا قیام عمل میں لانا جس میں ملک میں پہلی بار بچوں کو مونٹیسوری طرز تعلیم میں مکمل عربی میڈیم سے تعلیم جاری کروائ گئ
☆ پھر اس پر بس نھی بچوں کی مضبوط حفظ قرآن کریم کی تعلیم کا آغاز کیا گیا
☆ پھر اس پر بس نھی یہ ایک منفرد سوچ سوچی گئ کہ جب پرانے سلف صالحین حدیث کے حافظ ھوسکتے تھے تو ھم اپنے بچوں کو بھی حافظ قرآن کے ساتھ حافظ الحدیث بنائیں
اور ماشاءاللہ اس میدان میں بھی کامیاب تجربہ کہ روضہ عائشہ کے سینکڑوں بچوں اور بچیوں نے ہزاروں احادیث روایت اور سند کے ساتھ یاد کیں
☆ پھر اس پر بس نہیں جب ایک اتنے بڑے ماہر ڈاکٹر کی توجہ میڈیکل کے علاج سے ہٹ کر حجامہ کے سنت علاج کی طرف یقین کے ساتھ جم گئ تو یقینا ان کے ایمان کی مضبوطی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انکی محبت کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ھے.اور پھر اس کے لئے مدرسہ میں باقاعدہ حجامہ کی کلاسز اور علاج کا اھتمام جس سے احقر کو بھی سیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی
☆ پھر اس پر بس نہیں اب یہ فکر لاحق ھوئ کہ جو پڑھ کر جارھے ھیں ان کا جائزہ لیا جائے کہ کہیں بالکل علم وعمل اور فکر کے میدان سے کٹ نہ جائیں اس سلسلہ میں سالانہ اجتماعات کا قیام جس میں ملک بھر سے مدرسہ کی فارغ طالبات ومعلمات اساتذہ کرام سب کا ملکر جمع ھونا اور اپنی اور پوری امت کی زندگی میں دین کیسے آجائے اس پر غور فرمانا
☆ پھر اس پر بس نھی اور بیرون ملک شادی ھوکر جانے والی طالبات کے ذریعہ آسٹریلیا امریکا انگلینڈ سعودی عرب اور دیگر ممالک میں مدرسہ کی شاخوں کا قیام
اللہ اکبر ان کاوشوں پہ ماشاءاللہ دل سے نکلنے لگتی ھے کہ ڈاکٹر صاحب اللہ آپ کے والدین کو بہترین اجر عطا فرمائیں جنہوں نے ایسی قابل اور سخت محنت اور جدوجہد والی اولاد چھوڑی کہ جسکی زندگی پوری امت کے لئے ایک انمول مثال ھے ان کی دین کی خدمات اتنی زیادہ ھیں کہ اگر حقیقت میں ھمارا وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان ھوتا تو آج انہیں ایک نھی کئ صدارتی ایوارڈ مل چکے ھوتے لیکن افسوس کہ اس وطن میں گانے والوں کی تو قدر کی جاتی ھے لیکن علم وعمل کے ایسے چراغوں کی قدر نہیں کی جاتی جو خاموشی سے اپنی روشنی پورے وطن اور وطن سے باہر بکھیر کے قلندرانہ شان سے بارگاہ الہی میں لبیک کہتے ھوئے کلمہ طیبہ پڑھتے ھوئے اس فانی دنیا سے منتقل ھوگئے لیکن حقیقت یہ ھے ان کی شان اتنی اونچی ھے کہ انہیں ضرورت نہیں ان دنیاوی ایوارڈوں کی کیونکہ انہوں نے اپنے پیچھے علم وعمل کے ماہر تلاميذ اور تلمیذات کی جو ایک بڑی جماعت چھوڑی ھے یہ ان کا دنیا کے ہر ایوارڈ سے بڑا منہ بولتا ایوارڈ ھے
اور آخرت کے ایوارڈ کا وعدہ تو اللہ تعالی نے کررکھا ھے جو یقینا پکا ٹھکا ھے کہ☆☆☆

""والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا وان الله لمع المحسنين ""
""وازلفت الجنة للمتقين غير بعيد""

اللهم اغفرله وارحمه واسكنه فسيح جناته آمین يارب العالمين
راقمہ تلمیذہ مدرسہ عائشہ صدیقہ للبنات گلستان جوہر کراچی

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 193735 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.