آزاد کشمیر ، زیر انتظام سے زیر بد انتظام کی راہ پہ !
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
اطہر مسعود وانی ایک وقت تھا کہ جب یہ سوچ موجود تھی کہ کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کے مقابلے میں ایک پرکشش خطہ بنایا جائے۔نوے کی دھائی میں مقبوضہ کشمیر میں تحریکی سرگرمیاںتیز ہونے کی صورتحال میں پاکستان کے ارباب اختیار سے یہ مطالبہ مسلسل موجود رہا کہ آزاد کشمیر حکومت کو کشمیر کاز کے حوالے سے کردار تفویض کیا جائے،کشمیر کاز کے حوالے سے اس کے کردار کو مضبوط کیا جائے۔ تیس سال سے زائد عرصہ گزر گیا لیکن آزاد کشمیر حکومت اور یہاں ریاستی سیاسی جماعتوں کو کشمیر کاز کے حوالے سے کردار کیا دیا جاتا ، الٹا آزاد خطے میں سیاسی جماعتوں کی کمزوری کے رجحان کو تقویت پہنچائی گئی، آزاد کشمیر حکومت کو کشمیر کاز کے تناظر میں کردار کیا دیا جاتا، حکومت کو مقامی مفاداتی سیاست میں ہی یوں مشغول رکھا گیا کہ آزاد کشمیر کے شہریوں میں مقامی سطح کے مسائل و امور کے حوالے سے بھی تشویش میں اضافہ ہوتا گیا۔چند سال قبل13ویں ترمیم کی ایک ان ہونی ہوئی لیکن اس کے بعد آزاد کشمیر کو کنٹرول کرنے کے دائرے مزید سخت کر دیئے گئے۔یہ کہنا بے جا نہیں کہ آزاد کشمیر کے زیر انتظام خطے کو زیر بد انتظام میں تبدیل کرنے کے رجحان کو تقویت پہنچائی جا رہی ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے آزاد کشمیر میں عوامی مسائل کے حوالے سے عوامی مظاہروں کا سلسلہ تیز سے تیز ہوتا جار ہاہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق ہندوستان کے5اگست2019کے اقدام کے تناظر میں آزاد کشمیر میں عوامی مظاہروں ، مارچ کا اہتمام ہوا لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے اسے رکوا دیا گیا اور پھر یہ بھی تلقین کی گئی کہ کوئی ایسا کام نہ کیا جائے کہ جس سے ہندوستان کو آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کا بہانہ مل سکے۔یوں سیز فائر لائین، یعنی کنٹرول لائین کی طرف عوامی مارچ کو تو رکوا دیا گیا لیکن اس کے بعد آزاد کشمیر میں عوامی مسائل کے حوالے سے بھی عوام کے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا۔
گزشتہ چند ماہ سے آزاد کشمیر میں آٹے کے مسئلے پہ مختلف علاقوں میں عوامی مظاہرے ہوئے اور اب بجلی کے بلوں میں اضافے اور چند دیگر امور پہ میرپور، پونچھ اور مظفر آباد ڈویژن میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان مظاہروں کی خاص بات سول سوسائٹی کے تمام حلقوں کی شمولیت ہے جس میں سول سوسائٹی، تاجر، وکلاء تنظیمیں بھی شامل ہیں۔بجلی بلات میں گراں اضافے کے خلاف مساجد میں عوامی ردعمل کے طور پر اعلانات بھی کئے گئے اور مظاہروں میں بجلی کے بلوں کو آگ لگاتے ہوئے بل ادا نہ کرنے کے اعلان بھی کئے گئے۔انجمن تاجران، ٹرانسپورٹرز، سول سوسائٹی، ایکشن کمیٹیز، سیاسی جماعتوں، علماء ، طلبہ، وکلاء کی طرف سے پمفلٹ پہ پیش کردہ مطالبات میں کہا گیا ہے کہ عوام اس وقت تک بجلی کے بل جمع نہ کرائیں جب تک، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، جب تک آزاد کشمیر کا نیشنل گرڈ قائم نہیں کیا جاتا،جب تک بلات میں تمام ٹیکسزکا خاتمہ نہیں کیا جاتا،جب تک قیمت لاگت پر بجلی فراہم نہیں کی جاتی،جب تک تیز سپیڈ والے بجلی میٹر تبدیل نہیں کئے جاتے، جب تک حکمران، اشرافیہ، وزرائ، بیوروکریٹس، ججز ،لینٹ افسران کی تمام مراعات کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، حکمرانوں کے اس ظلم اور جبر کے خلاف علم بغاوت بلند کیجئے اور بجلی کے بل جمع نہ کرائیں۔
رواں ماہ اگست کے تیسرے ہفتے کے بڑے بڑے عوامی مظاہروں پہ22اگست کو آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے بجلی کے بلوں میں اضافہ واپس لینے اور اس معاملے کو مستقل طور پر حل کرنے کے لئے وزراء کی ایک کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ بجلی کے نرخوں میں کتنا اضافہ کیا گیا اور اضافے سے قبل کے ریٹس کیا تھے۔ عوام تو اس ماہ ہزاروں روپے کے بجلی کے بل موصول ہونے پہ پریشان ہو گئے اور احتجاج پہ مجبور ہوئے۔آزاد کشمیر بھر میں عوامی مظاہروں کی صورتحا ل میں حکومت نے 22اگست کو اعلان کیا کہ بجلی کے ریٹس میں اضافہ واپس لیا گیا ہے اور اب اضافے سے قبل کے ریٹس کے مطابق ہی بجلی بل وصول کئے جائیں گے۔ اس حوالے سے وزراء پہ مشتمل ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جو معاملے کا حتمی فیصلہ کرے گی۔آزاد کشمیر حکومت کا کہنا ہے کہ بجلی بلات میں اضافہ واپس لیا گیا ہے اور اب پرانے ریٹس کے مطابق ہی بلات جاری ہوں گے، حکومت کو یہ وضاحت بھی کرنا چاہئے کہ اضافہ کتنا کیا گیا اور اضافے سے قبل کے ریٹس کیا ہیں۔
آزادکشمیر میں زیر انتظام کے معاملے اورصورتحال کو زیر بد انتظام میں تبدیل کئے جانے سے عوامی تشویش میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے آزاد کشمیر میں ایک بڑا سیاسی خلاء بھی پیدا ہوا ہے۔ آزاد کشمیر میں سیاسی جماعتوں کا کردار کو و اسمبلی کے ذریعے مفادات کے حصول میں محدود ہو چکا ہے اور پارلیمانی سیاسی جماعتوں میںکشمیر کاز اورخطے کے مفادات کا رجحان ناپید ہوتا جا رہا ہے۔آزاد کشمیر کا نظام چلانے والوں کی طرف سے آزاد کشمیر کے مفاد پرست سیاست کاروں کے مفاداتی ناز و نخرے تو پورے اہتمام کے ساتھ اٹھائے جاتے ہیں لیکن عوامی تشویش ، عوامی رجحانات، عوامی رائے ، مطالبات ،مسائل و مشکلات اور کشمیر کازکو تقویت پہنچانے والے اقدامات کا کوئی احساس نہیں کیا جاتا۔سالہا سال تک یہ فارمولہ کام کرتا رہا لیکن اب سیاسی جماعتوں، سیاستدانوں کی ناکامی کھل کر سامنے آچکی ہے اور عوامی بیداری اور مزاحمت میں تیزی آتی جا رہی ہے۔
اطہر مسعود وانی 03335176429 https://twitter.com/Kashmirstate https://www.facebook.com/Humanworld
|