اس میں کوئی شک نہیں کہ چینی جدیدکاری کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک پرامن ترقی کے لئے اس کا عزم ہے۔چین نے بارہا اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی ترقی کی سمت پر گامزن رہتے ہوئے ہمیشہ عالمی امن اور ترقی کے تحفظ کی کوشش کرے گا ۔دوسری جانب اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ موسمیاتی تبدیلی، وبائی صورتحال اور جغرافیائی سیاسی تنازعات کے نتیجے میں عالمی سلامتی کا ماحول تیزی سے پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے، ایک موثر سیکیورٹی نقطہ نظر کی تلاش نمایاں تشویش بن چکی ہے جس کے فوری حل کی ضرورت ہے.انہی عالمی چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے چینی صدر شی جن پھنگ نے بوآؤ ایشائی فورم 2022 کی افتتاحی تقریب میں گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو (جی ایس آئی) کی تجویز پیش کی۔بعد ازاں ، جی ایس آئی کانسیپٹ پیپر فروری 2023 میں جاری کیا گیا ، جس میں عالمی امن کو برقرار رکھنے کے لئے چین کا عزم اور عالمی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اُس کا وژن اجاگر کیا گیا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں مفاہمت کی لہر جی ایس آئی کے آغاز کے بعد سے چین نے عالمی امن اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ان میں سے ایک اہم پیش رفت مارچ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں تاریخی سرد مہری کا خاتمہ بھی ہے ۔کئی سالوں کی کھلی مخالفت کے بعد، دونوں ممالک نے چین کی مدد سے مذاکرات کے بعد سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا، جو دونوں ممالک کے لئے ایک اہم پیش رفت اور مشرق وسطیٰ کی سلامتی اور استحکام کے لئے ایک تاریخی لمحہ ہے.ریاض اور تہران کے درمیان مفاہمت کے تناظر میں مشرق وسطیٰ کے کئی ہاٹ اسپاٹس مسائل اور جاری تنازعات کے خاتمے اور سفارتی تعطل کو ختم کرنے کے لیے مصالحتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر 12 سال بعد شام نے مئی میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں منعقدہ عرب لیگ (اے ایل) کے سربراہ اجلاس میں واپسی کی۔ اس کے علاوہ مصر اور ترکی نے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے اور سفیروں کے تبادلے پر بھی اتفاق کیا۔مفاہمت کی یہ لہر امن و استحکام کے فروغ میں مکالمے اور مشاورت کے ناقابل تلافی کردار کی گواہی دیتی ہے۔ روس یوکرین تنازع اور جی ایس آئی یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جنگ اور پابندیاں تنازعات کا کوئی بنیادی حل نہیں ہیں۔ جی ایس آئی کانسیپٹ پیپر میں بھی اسی نکتہ کو واضح کیا گیا ہے کہ اختلافات کو حل کرنے میں صرف بات چیت اور مشاورت ہی مؤثر طریقہ ہے۔مذاکرات اور بات چیت کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ (یو این) کے فریم ورک کے ذریعے حصول امن بھی لازم ہے، جس پر گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو کی توجہ مرکوز ہے۔مشرق وسطیٰ میں صورتحال کی بہتری کے ساتھ چین نے روس یوکرین تنازع کے سیاسی حل میں بھی مدد کے لئے فروری میں ایک پوزیشن پیپر جاری کیا تھا۔پیپرمیں چین نے یوکرین بحران کے خاتمے کے لیے 12 نکاتی تجویز پیش کی اور اس بات کی توثیق کی کہ مذاکرات اور مشاورت ہی امن کے لیے واحد قابل عمل راستے ہیں۔ بہت سے ممالک نے چین کی امن تجویز کا خیر مقدم کیا اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس پوزیشن پیپر کو "ایک اہم تعاون" قرار دیا۔ چین کی عالمی سلامتی کی کوششیں عالمی سلامتی کے لیے چین کی کوششوں کو دیکھا جائے تو انسداد دہشت گردی اور ڈیجیٹل گورننس سے لے کر فوڈ سیکیورٹی اور موسمیاتی تبدیلی تک، چین نے مشترکہ سلامتی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔جب سے اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او) نے 1996 میں جنوب۔جنوب تعاون پروگرام کا آغاز کیا ہے، چین فعال طور پر اس میں شامل رہا ہے.چین نے 2009 سے اب تک ایف اے او کو 130 ملین ڈالر کا عطیہ دیا ہے۔چینی حکومت نے ترقی پذیر ممالک کو بھی تکنیکی معاونت فراہم کی ہے اور تاحال چین ایف اے او کے ذریعے افریقہ، ایشیا، کیریبین اور جنوبی بحرالکاہل میں ایک ہزار سے زائد اپنے تکنیکی ماہرین بھیج چکا ہے۔جہاں تک قیام امن کا تعلق ہے تو چین نے گزشتہ تین دہائیوں میں امن مشنز پر 50 ہزار سے زائد فوجی بھیجے ہیں۔چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی جانب سے بھیجے گئے امن دستوں کی تعداد کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے اور اقوام متحدہ کے باقاعدہ بجٹ اور امن جائزے میں دوسرا سب سے بڑا فنڈنگ فراہم کرنے والا ملک ہے۔چینی پیپلز لبریشن آرمی کی بحریہ کی جانب سے بھیجے گئے ایسکارٹ بیڑے نے خلیج عدن اور صومالیہ کے پانیوں میں 7100 سے زائد بحری جہازوں کی حفاظت کی ہے، جن میں سے 50 فیصد سے زیادہ غیر چینی جہاز تھے، جس سے اہم بین الاقوامی آبی گزرگاہوں پر سلامتی برقرار رکھنے میں مدد ملی ہے۔انہی حقائق کی روشنی میں گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو مشترکہ، جامع، تعاون پر مبنی اور پائیدار سلامتی کی وکالت کر رہا ہے اور ایک نئے سلامتی راستے کو فروغ دے رہا ہے جس میں محاذ آرائی کے مقابلے میں بات چیت، گروہ بندی کے مقابلے میں شراکت داری اور زیرو سم گیم کے مقابلے میں جیت جیت تعاون کو برتری حاصل ہے، یہی خصوصیات اسے گزرتے وقت کے ساتھ بین الاقوامی برادری میں مقبول بنا رہی ہیں۔
|