چین کی اہم "پبلک پراڈکٹس"

اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ عرصے میں ایک بڑے ملک کی حیثیت سے چین نے ترقیاتی امور پر دنیا کی توجہ مبذول کروانے اور ایک شورش زدہ دنیا میں عملی بین الاقوامی ترقیاتی تعاون کی راہیں تلاش کرنے کی بھرپور کوشش ہے ، جسے حالیہ برسوں میں بے مثال چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس تناظر میں2021 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس کی عام بحث میں چینی صدر شی جن پھنگ کا تجویز کردہ گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو (جی ڈی آئی) چین کی جانب سے دنیا کو فراہم کی جانے والی اہم "پبلک پراڈکٹس" میں سے ایک ہے، جو عالمی ترقی کو فروغ دینے کے لیے چینی حل اور چینی دانش کی عکاسی ہے۔گزشتہ سال جی 20 کے 17 ویں سربراہ اجلاس کے ایک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے شی جن پھنگ نے کہا کہ جی ڈی آئی کا مقصد دنیا کی مشترکہ ترقی کے طویل مدتی اہداف اور فوری ضروریات کو پورا کرنا، ترقی کو آگے بڑھانے سے متعلق بین الاقوامی اتفاق رائے کو فروغ دینا، عالمی ترقی کے لئے نئے محرکات پیدا کرنا اور تمام ممالک کی مشترکہ ترقی اور خوشحالی کو آسان بنانا ہے۔
یہ اس باعث بھی لازم ہے کہ اقوام متحدہ نے بارہا متنبہ کیا ہے کہ کووڈ 19 وبائی صورتحال کے طویل اثرات، مایوس کن عالمی اقتصادی نقطہ نظر اور شدید آب و ہوا کے بحران کی وجہ سے دنیا پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ ستمبر 2015 میں عالمی رہنماؤں نے متفقہ طور پر پائیدار ترقی کے اہداف کو منظور کیا تھا تاکہ 2030 تک کے سالوں میں عالمی ترقی کی کوششوں کا خاکہ پیش کیا جاسکے۔ ایس ڈی جیز میں شامل 17 اہداف کا مقصد غربت کا خاتمہ، عدم مساوات سے لڑنا اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا ہے۔
دوسری جانب چین کا پیش کردہ گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو دنیا کو حالیہ معاشی ناکامیوں سے نکالنے اور دنیا بھر میں پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں تیزی لانے میں مدد دینے کے لئے ایک امید افزا ردعمل ہے۔جی ڈی آئی کی آٹھ ترجیحات پائیدار ترقی کے اہداف سے مطابقت رکھتی ہیں جن میں غربت کے خاتمے، غذائی تحفظ، صحت، آب و ہوا سے متعلق اقدامات، کرہ ارض، صنعتکاری، جدت طرازی اور عمل درآمد کے ذرائع شامل ہیں۔یوں ،جی ڈی آئی عالمی چیلنجوں اور ترقی پذیر ممالک کی ترقیاتی ضروریات سے نمٹنے کا ایک بڑا عزم رکھتا ہے۔ عالمی ترقیاتی کمیونٹی کی تعمیر اور اقوام متحدہ کے 2030 ایجنڈے پر عمل درآمد میں تیزی لانے کے مقصد کے ساتھ جی ڈی آئی ،ایسے بین الاقوامی تعاون پر زور دیتا ہے جو جدت طرازی پر مبنی ہو اور عوام پر مبنی نقطہ نظر اور نتائج پر مبنی اقدامات کی وکالت کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جی ڈی آئی کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے گرمجوش ردعمل موصول ہوا ہے جس میں 100 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے جی ڈی آئی کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔اس وقت تقریباً 70 ممالک اقوام متحدہ میں قائم گروپ آف فرینڈز آف دی جی ڈی آئی میں شامل ہو چکے ہیں اور چین نے اس سلسلے میں تقریباً 20 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے ہیں۔اس مقصد کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے جون 2022 میں ایک اعلیٰ سطحی مکالمے کی میزبانی کرتے ہوئے ، صدر شی نے جی ڈی آئی کے نفاذ کے لئے چین کی جانب سے اٹھائے جانے والے متعدد اہم اقدامات کی تجویز پیش کی ، جس میں جی ڈی آئی کے تعاون کے آٹھ کلیدی شعبوں کا احاطہ کرنے والے 32 اقدامات شامل ہیں۔ان کوششوں میں ساؤتھ ساؤتھ کوآپریشن اسسٹنس فنڈ کو گلوبل ڈیولپمنٹ اور ساؤتھ ساؤتھ کوآپریشن فنڈ میں اپ گریڈ کرنا، فنڈ میں پہلے سے طے شدہ 3 ارب ڈالر کے علاوہ مزید ایک ارب ڈالر کا اضافہ اور اقوام متحدہ کے پیس اینڈ ڈیولپمنٹ ٹرسٹ فنڈ میں اس کی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا شامل ہے۔ یہ دونوں فنڈز بڑے مالیاتی پلیٹ فارم بن چکے ہیں، جن کے ذریعے چین جی ڈی آئی کے فریم ورک کے تحت تعاون کی حمایت کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے رواں برس جون میں جاری کردہ گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو پر پیش رفت رپورٹ کے مطابق مجوزہ 32 ٹھوس اقدامات میں سے نصف مکمل ہو چکے ہیں یا ابتدائی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ ستمبر 2022 میں جاری کردہ جی ڈی آئی پروجیکٹ پول کی پہلی فہرست میں شامل 50 عملی تعاون کے منصوبوں میں سے 10 سے زائد مکمل ہوچکے ہیں جبکہ باقی میں مسلسل پیش رفت دیکھنے کو مل رہی ہے۔پروجیکٹ پول کو بڑھایا جارہا ہے اور اب اس میں تقریباً دو سو منصوبے شامل ہیں۔یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ چین ترقی پذیر ممالک کی ترقی و خوشحالی میں کس قدر سنجیدہ ہے جبکہ ضرورت مند ممالک کو فوڈ سیکیورٹی ، امراض سے بچاو اور موسمیاتی تبدیلی جیسے سنگین چیلنجز سے نمٹنے میں بھی چین مسلسل مدد فراہم کر رہا ہے ، جو مشترکہ مستقبل کے حامل سماج کی تعمیر میں نمایاں خدمت ہے۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1117 Articles with 417530 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More