تحریر : محمد اسلم لودھی
پاکستان کے مسائل کی بنیادی وجہ بجلی کی قلت ہے اس قلت کو دور کو کرنے کے
مستقل بنیادوں پر اقدامات کرنے کی بجائے حکومت نے کرائے کے بجلی گھرلگانے
کا جو فیصلہ کیاتھا ۔ اس ضمن میں60 ارب روپے کی کرپشن ہوچکی ہے بجلی پھر
بھی نہیں ملی ابھی 150 ارب روپے کی مزید ادائیگی کرنا باقی ہے اگر یہ
ادائیگی نہ کی گئی تو آدھا پاکستان اندھیرے میں ڈوب سکتا ہے ۔ بجلی اورگیس
کی قلت کی وجہ سے صرف پنجاب میں 68 ہزار سے زائد کاروباری یونٹ بند ہوچکے
ہیں اور ٹیکسٹائل کا زیادہ تر کاروبار بنگلہ دیش منتقل ہوچکا ہے۔ غیر یقینی
صورت حال کی بنا پر 180 ارب کا سرمایہ دوسرے ملکوںمیں منتقل ہوگیا ۔ ساڑھے
تین سالوں میں بے روزگاروں کی تعداد بڑھ کر چھ کروڑ تک پہنچ چکی ہے جبکہ
غربت کی شرح میں بھی مہنگائی کی وجہ سے مزید پچاس فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔وزیر
اعظم کہتے ہیں کہ صوبائی حکومتوں کے تعاون سے بہت جلد مہنگائی پر قابو
پالیں گے لیکن ہر دوسرے مہینے بجلی ٬ گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں جو پے
درپے اضافے کیے جارہے ہیں ان سے مہنگائی کم نہیں ہوئی بلکہ آسمان کو چھونے
لگی ہے۔گزشتہ تین سالوں میں آٹے کی قیمت میں 78 فیصد ٬ چینی کی قیمت 163
فیصد ٬ گوشت دودھ 103 فیصد ٬ دالیں 89 فیصد٬ چاول 44 فیصد ٬ گھی 227 فیصد ٬سبزیاں
39 فیصد ٬ ادویات 150 فیصد مہنگی ہوچکی ہیں ۔جس گھر میں بجلی کا بل تین سال
پہلے پانچ سات سو روپے آتا تھا حکومت کی مہربانی سے اب تین ہزار سے تجاوز
کرچکا ہے ۔پٹرول کی قیمت ساڑھے تین سالوں میں 53 روپے فی لیٹرسے 85 روپے تک
پہنچ چکی ہے ۔ ڈالر جو پہلے 58 روپے کا تھا اب 88 روپے کا ہوچکا ہے ۔ غیر
ملکی قرضے 40 ار ب ڈالر تھے اب 60 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں۔ وزارت
خزانہ کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں پیپکو189 ارب
٬ کے ای ایس سی148 ارب ٬ ٹریڈنگ کارپوریشن 221 ارب ٬ سٹیل ملزاور پی آئی اے
396 ارب روپے ڈکار چکے ہیں اس کے باوجود اب بھی سٹیل ملز 110 ارب ٬ ریلوے
55 ارب کی مقروض ہے ۔ پہلے عمرہ 36 ہزار روپے اور حج ایک لاکھ چالیس ہزار
میں ہوجاتا تھا اس بے رحم حکومت نے عمرہ ایک لاکھ تیس ہزار اور حج تین لاکھ
تک پہنچاکر غریبوں سے عمرہ اور حج کرنے کی سعادت بھی چھین لی ہے ۔آٹھویں
ترمیم کے مطابق وفاق میں صرف 49 وزیر مشیر رکھے جا سکتے ہیں لیکن 60 ارب
ڈالر مقروض ملک کے وزیر اعظم نے ایک سو سے زائد وزیر٬ مشیر اور وزیر مملکت
بنا رکھے ہیں جن پر سالانہ 500 کروڑ روپے خرچ ہورہے ہیں ایک وزیر ماہانہ
ایک کروڑ روپے میں پڑتا ہے۔ رہی سہی کسر ق لیگ کے درجن سے زائدافراد کو
وزیر بنا کر پوری کردی گئی ہے بظاہر جن کے پاس کام کوئی نہیں پھر بھی وزیر
ہیں ۔ایوان صدر کے اخراجات 42 کروڑ اور وزیر اعظم کے غیر ملکی دورو ں کا
بجٹ ڈیڑھ ارب روپے تک پہنچ چکا ہے ۔نواز شریف کے بقول وزیر اطلاعات میں 29
ارب کا صوابدید ی فنڈ رکھاگیا ہے جو یا تو ذاتی جیبوں میں جائےگا یا بھٹو
خاندان کی یادگار یا تشہیر پر خرچ ہوگا ۔وزیر قانون کی حیثیت سے بابر اعوان
بار کونسلوں کو 23 کروڑ مال مفت دل بے رحم کی طرح لوٹاچکے ہیں ۔گیلانی ٬
فہمیدہ سمیت بااثر افراد کے 68 ارب کے قرضے معاف کردیئے گئے۔ایف بی آر میں
572 روپے کی چوری کی داستان تو اخبارات میں بھی شائع ہوچکی ہے۔ بے نظیر
انکم سپورٹ فنڈ کے تحت 150 ارب جیالوں پر نچھاور کردیئے گئے۔ آڈیٹر جنرل
پاکستان کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارتوں اور شعبوں میں 35 ارب سے زائد خرد
برد ہوچکے ہیں۔وزارت پٹرولیم میں صرف ایک سال میں 57 ارب کی بے ضابطگیاں
سامنے آئی ہیںجبکہ پٹرول کی قیمتیں بڑھا کر صرف آٹھ ماہ میں حکومت 214 ارب
کماچکی ہے۔گزشتہ سال سیلاب کی وجہ سے 855 ارب کا نقصان اٹھانے کے باوجود
حکومت نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی اور نہ پوری امداد کو متاثرین تک
پہنچایا جاسکا۔ حکومت کے پاس پچھلے سال کی بین الاقوامی امداد کے پانچ ارب
روپے موجود ہیں لیکن حکومت اس رقم کو سیلاب زدگان کی فوری مدد دینے کے لیے
تیار نہیں ۔اقوام متحدہ کی جانب 35 کروڑ ڈالرکی امداد کااعلان توہوا ہے ۔لیکن
ساری دنیامیں یہی شور مچا ہوا ہے کہ یہ امداد مستحقین تک پہنچ بھی پائے گی
یا پہلے کی طرح حکمرانوں کی تجوریوں میں بند ہوجائے گی ۔ایک تجزیئے کے
مطابق موجودہ دورمیں 1500 ارب روپے کی کرپشن ہوچکی ہے یہ روٹی کپڑا مکان
فراہم کرنے والی اس پیپلز پارٹی کی حکومت کا سنہری کارنامہ ہے جس کے تمام
ووٹر غربت کی انتہائی نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ان حالات میں
جبکہ ہر طرف کرپشن ٬ بددیانتی ٬ بے انصافی اور لوٹ مار کی بھرمار دکھائی
دیتی ہے ۔وفاقی وزیر منظور وٹو کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اگلے الیکشن میں
کلین سویپ کرے گی گویا اب بھی موصوف خوش فہمی میں مبتلا ہیں ۔سوئس بنک کے
ایک ڈائریکٹر نے انکشاف کیا ہے کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 97 ارب
ڈالر جمع ہیں ۔ اگر یہ رقم پاکستان واپس آجائے تو30 سال تک ٹیکس فری بجٹ ٬
چھ کروڑ نوکریاں ٬ پانچ سو منصوبوں کو مفت بجلی اور گیس فراہم ہوسکتی ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خطیر رقم کو پاکستان لائے گا کون ۔کیا موجودہ
حکمرانوں سے یہ توقع کی جاسکتی ہے جو قوم کے باقی ماندہ وسائل کو بھی ہڑپ
کرنا چاہتے ہیں سچی بات تو یہ ہے کہ اگرحکمران اپنی شاہ خرچیوں کو روک لیں
تو پاکستان اس قابل ہے کہ سیلاب سمیت اپنے تمام مسائل خودحل کرسکتا ہے ۔ |