یوں تو پاکستان میں جوتے کی
مختلف اقسام پائی جاتی ہیں، مثلا: بند جوتا، کھلا جوتا، بوٹ، سینڈل، سلیپر،
کھیڑی، نوروزی، تِلے والی، کھسا، ایڑی والی، بغیر ایڑی والی، چھوٹی ایڑی
والی، بڑی ایڑی والی مگر ایک اور جوتا جسے ہوائی چپل کا نام دیا گیا ہے بہت
مشہور ہے یا تھا۔ہوائی چپل کا نام ذہن میں آتے ہیں نئی نسل تو شاید یہ سوچے
کہ یہ کسی ہوا سے بنی ہوئی چپل کا نام ہے اور زیادہ جدید نسل یہ بھی سوچ
سکتی ہے کہ شاید یہ امریکی ا سٹیٹ ہوائی سے آئی ہوئی کوئی قیمتی اور نایاب
شے نہ ہو۔ مگر جناب ایسا کچھ نہیں، بلکہ یہ قیمتی چیز ہمارے ہاں کے غریب
غرباءکو پاﺅں کے چھالوں سے بچانے کے لیے پاﺅں میں پہننے کے کام آتی ہے۔ویسے
اسکا استعمال اب قدرے متروک سا ہوتا جارہا ہے۔
اس بیچاری ہوائی چپل سے پاﺅں کا تلا چھپانے کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے
غیر ضروری کام لیے جاتے ہیں مثلا: کسی کی پٹائی کرنی ہو یا کہیں لڑائی مار
کٹائی اچانک شروع ہو جائے اور آپ بغیر ہتھیار اور اوزار کے ہوں تو یہ ہو
ائی چپل اس موقع پر بہت کام آتی ہے۔ آپ اسے پاﺅں سے نکالیں ہاتھ میں پکڑیں
، دو تین بار ہوا میں آگے پیچھے لہرائیں، اسکے بعد آپ کی اپنی طاقت پر
منحصر ہے کہ آپ اپنے مخالف پر اسے کتنا زور سے ٹکراتے یا مارتے ہیں۔ اگر آپ
نے بھی پرانے زمانے کے اصلی گھی کے سالن کے ساتھ روٹی شوٹی کھائی ہوئی ہے
اور چٹاخ کی بھر پور آواز کے ساتھ یہ ہوائی چپل واپس وارد ہو جائے تو
سمجھیں کہ آپ کا مخالف اب کئی روز تک بیگم کے سَر ہو کر یا گوڈے لگ کر اس
سے اپنی متاثرہ جلد کی سکائی کر ا کر سی سی کرتا پایا جائیگا اور اگر آپ
آجکل کے ٹیکوں کے ذریعے نکالے گئے دودھ اور گریس ملے ڈالڈا کی پیداوار ہیں
تو خطرہ رہتا ہے کہ یہ جوتا ہوا میں رہ کر ہی واپس نہ آ جائے اور آپ مخالف
کو پیٹنے کی بجائے پٹ پٹا کر و اپس لوٹیں۔ ویسے اگر آپ کہیں اسے کسی کے گال
مبارک سے گلے ملوادیں تو کیا بات ہے، وہ بیچارہ تو اس ہوائی چپل کے نشان کو
گر میوں میں بھی مفلر سے چھپائے پھرے گا۔
بہرحال! ا س ہوائی چپل کا ایک اور استعمال ناک میں سنگھانے کے لیے بھی ہوتا
ہے یا ہوتا تھا۔ پہلے زمانے میں اگر کسی کو مرگی کا دورہ پڑتا تھا تو لوگ
ایسے مریض کی نہ تو کوئی دوا دارو کرتے تھے اور نہ ہی ڈاک در (ڈاکٹر) کے
پاس لے جاتے تھے بلکی ہوائی چپل یا میل کچیل کی خوشبوﺅں میں لپٹی معطر ترین
کوئی اور چپل متاثرہ شخص کے ناک مبارک سے ملا کر یعنی سنگھا کر اٹھاتے تھے۔
نہ جانے اس چپل میں کیا خاصیت ہوتی تھی کہ مریض فورا اٹھ کر کھڑا ہوجاتا
تھا۔ شاید اسکی وجہ اس کے تلے میں بسی ملٹی پل خوشبووﺅں کی وہ بہاریں ہوں
جو کہ وہ مختلف لیٹرینوں ، گلیوں اور بازاروں میں سے اپنے اندر سما کر
رکھتی ہے اور مریض اٹھنے پرمجبور ہو جاتا ہے۔ ویسے پیرس کے خوشبوﺅں کے
بنانے والوں اور سائنسدانوں کو اس کام پر بھی تحقیق کر نی چاہیے کہ مرگی کا
مریض ان خوشبوﺅں سے کیسے صحتمند ہوتا ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ اگر کبھی نزلے زکام سے آپکی ناک بند ہوجائے تو دوا
کی بجائے اس چپل یا جوتے ایک دو پف ناک کے ذریعے لیکر تو دیکھیے گا۔ امید
ہے کہ آپ ضرور افاقہ محسوس کریں گے۔آزمائش شرط ہے۔
آجکل ایک اور ٹرینڈ چلا ہوا ہے کہ جب کوئی اپنے اعمال کا ستایا، یا پھر
کوئی بیگم کے ہاتھوں پریشان، یا اولاد کے ہاتھوں تنگ، یا کوئی دوسری شادی
کے بخار میں مبتلا، یا کوئی نوجوان محبوبہ کے چکر میں گھن چکر، یا امتحان
میں کامیابی لینی ہو، یا پھر کوئی یونہی وہم کا مریض کسی نام نہاد عامل یا
تعویذ گنڈے والے کے پاس پھنس جائے تو وہ اسے چھوٹتے ہی کہتا ہے کہ آپ پر
جادو چلا یا گیا ہے اور ا سکا اتارا کرنے کے لیے کھلانے ، پلانے، نہانے،
جلانے ، مالش کرنے کے تعویذ کے ساتھ ساتھ ایسے تعویذ بھی دیتا ہے جس کی صبح
، دوپہر اور شام سات سات بار اس ہوائی چپل سے کھچا کھچا کر کے چھترول کر نی
ہوتی ہے اور بقول ان عامل کے کہ آپ جتنی زور و شور اور خشو وخضوع کے ساتھ
اس تعویذ پر ہوائی چپل برسا برسا کر اسکی تواضع کریں گے تو آپ پر چڑھے جن
یا بد اثرات اتنی ہی جلدی بھاگیں گے اور آپ کی قسمت جلد سنور جا ئیگی ۔
بلکہ بہت سے عامل حضرات تو اس کام کے لیے نوی نکور ہوائی چپل استعمال کرنے
کا بھی مشورہ دیتے ہیں۔
بچپن میں ایک کھیل ہوتا تھا جسے بندر کلا کہتے تھے۔ اس کھیل کی خصوصیت یہ
تھی کہ اسے بہت سی جوتیاں بشمول ہوائی چپل اکھٹی کر کے ا ن سے کھیلا جاتا
تھا اور آخر میں ہارنے والے کے پیچھے سب لوگ جوتیاں اور چپل لیکر بھاگتے
تھے اور اسے اس وقت تک ان ہوائی چپلوں اور دیگر جوتوں سے مارتے کوٹتے ،
ٹھکائی اور خاطر تواضع کرتے ر ہتے تھے جب تک کہ جوتیاں ختم نہ ہوجا تیں ،
یا پھر پٹنے والا اپنے گھر کے پچھلے والے کمرے میں گھس کر دروازہ کی کنڈی
نہ لگا لیتا تھا۔ تاہم آجکل کے جدید دور میں یہ چپلوں کا کھیل کسی بھی شکل
میں مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔ ہاں البتہ کچھ عرصہ پہلے یہ جوتا ماری کا
کھیل ہماری اسمبلیوں میں شروع ہونے کو تھا پر کچھ نا معلوم وجوہات کی بنا
پر زیادہ عرصہ چلانہیں۔ سوچیں کہ اگر ایسا ہو جاتا تو وہاں جوتے پہننے پر
پابندی لگ جاتی اور ہمارے تمام ایم این اے اور ایم پی اے حضرات ننگے پاﺅں
اسمبلیوں میں تشریف لا رہے ہوتے اور اسمبلیوں کے باہر مزارات کی طرح جوتے
رکھ کر ٹوکن دینے والے بیٹھے ہوتے جو کہ جوتے رکھنے کا کرایہ چارج کرتے۔اگر
ایسے ہوگیا تو مزید گہرائی میں جاکر سوچیں کہ ہماری ہلکی پھلکی ، دھان پان
سی وزیر خارجہ او ر دیگر ممبرانِ اسمبلی کے تو جوتے ہی لاکھوں میں آتے ہیں
تو انکی حفاظت کے لیے ایک الگ فورس نہ بنانا پڑ جاتی۔
آجکل نئے جوتوں کے چوری کے ڈر سے ہم میں سے بہت سے لوگ مساجد میں نماز
پڑھنے کے لیے بھی اسی ہوائی چپل کا استعمال کرتے ہیں کہ کہیں نیا نویلا
جوتا مسجد سے چوری نہ ہو جائے ، پھر بیگم کو کیا جواب دیں گے اور یہ جوتے
ہم نے گھر میں الگ ہی رکھے ہوتے ہیں۔ اگر بارش کی وجہ سے پھسلن یا کیچڑ کی
وجہ سے لات ٹوٹنے کا ڈر ہو تو بھی ہم یہی ہوائی چپل یا سلیپر استعمال کر تے
ہیں اور اگر پھسلن سے جوتے کی بدھری یعنی اسکا ازار بند یا طنابیں جس میں
انگلیاں پھنستی ہیں، وہ ٹوٹ جائے تو موچی سے نئی ڈلوا لیتے ہیں، مگر اسے
بیکار سمجھ کر پھینکتے نہیں۔ پہلے زمانے میں ان پرا نی چپلوں اور جوتوں کے
بدلے خالص میوہ جات با لخصوص کھوپر اور چھوہارے وغیرہ عام مل جایا کر تے
تھے اور گلی گلی آوازیں سنائی دیتی تھیں کہ پرانی جوتیاں دا کھوپر ا اور
چھوہارے کھا لووووووو۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔ اسی لیے اکثر پرانی چیزوں کو دیکھ
کر مثال د ی جاتی ہے کہ اسکا کھوپرا یا چھوہارے کھا لیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ آجکل یہ ہوائی چپل بھی ایڈوانس ہو کر غریبوں سے نکل کر
امیروں کے لیے بہت سے نت نئے مختلف ڈیزائنوں اور رنگوں میں مارکیٹ میں
دستیاب ہے جس سے با لخصوص خواتین کو کپڑوں کے ساتھ میچ کر نے میں بہت آسانی
ہو گئی ہے۔ اسکے علاوہ یہ مختلف وزن میں بھی دستیاب ہے۔ بعض تو اتنی ہلکی
پھلکی ہوتی ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ چپل پاﺅں میں پہنی ہوئی بھی ہے کہ نہیں
اور ہاتھی سائز خواتین کے پاﺅں میں کیڑی سی لگتی ہیں، جبکہ کچھ ا یسی بھاری
بھرکم ہو تی ہیں کہ ان سے بادام یا اخروٹ توڑ لیں یا کسی کا سر پھوڑ لیں ۔
ہاں البتہ یہ ہوائی چپل خواتین کے لڑائی جھگڑے سے بہت دور ہوتی ہیں کہ اکثر
خواتین یہ لڑائی جھگڑے کا کارنامہ بہ نفس نفیس اپنے مبارک ہاتھوں سے ایک
دوسرے کو نوچ کھونچ کر انجام دیتی ہیں، ہوائی چپل کو درمیان میں نہیں آنے
دیتیں۔ یا پھر اگر کہیں ضرورت پیش آ بھی جائی تو یہ کام اپنی اونچی اور
موٹی وہیل والے جوتے سے لیا جاتا ہے، ہوائی چپل سے نہیں، تاکہ لڑائی میں
مزہ تو آ ئے۔ کچھ کم عقل، کم پڑھے لکھے اور نا ہنجار قسم کے بد نصیب شوہر
حضرات اپنی بے چاری، قسمت کی ماری ، معصوم اور بھو لی بھالی بے زبان بیوی
پر اس ہلکی پھلکی چپل سے طبع آزمائی کر کے اکثر اپنے گھر خراب کرتے بھی
دیکھے گئے ہیں۔ تا ہم کچھ کیسس میں یہ معاملہ الٹ بھی ہوا کہ جوتا بیوی کے
ہاتھ میں اور جان میاں بیچارے کی۔ ویسے ہمارے پڑوسی ملک میں بیویوں کے
ستائے شوہروں کی اچھی خاصی تعداد دستیاب ہے، جن میں اکثریت لیڈیز چپلوں کے
مارے اور ستائے ہوئے ہوتے ہیں اور ان شوہرِ بیچارگان نے ہندوستان میں اس
سلسلے میں مظاہرہ اور کانفرنس بھی کر ڈالی تھی ، مگر انکی سرکار نے بخوفِ
خونخوار بیگمات کوئی شنوائی نہ کی۔
یوں تو ا س ہوائی چپل کی اہمیت سے انکارکبھی بھی نہیں مگر حج اور عمرہ کے
دنوں میں اسکی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ شرعی تقاضا یعنی انگلیوں کا
اوپر کا حصہ اس دورانِ عبادت خالی چھوڑنا ہوتا ہے ۔ اسکے علاوہ جب دن بھر
کا تھکا ہارا بندہ جوتے میں قید گھر پہنچتا ہے تو اسکی کوشش ہوتی ہے کہ بس
جلد از جلد اس بند جوتے سے نجات پاکر کسی کونے میں پھینک کر کوئی سادہ سی
چپل یا ہوائی چپل اڑا لی جائے۔ لہذا اس ہوائی چپل کو ایک عام چپل سمجھ کر
کبھی نظر انداز نہ کیجئے گا ، یہ آپ کی جنم جنم کی ساتھی ہے اور رہے گی۔
پچھلے دنوں جب امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن کا فرانس کے دورے کے دوران
جوتا ٹوٹ کر پاﺅں سے نکلا تو سنا ہے کہ انہیں بھی فوری طور پر ایمر جنسی
میں پاکستان کی بنی ہوئی ایک ہوائی چپل ہی کی پیشکش کی گئی تھی جسے انہوں
نے اس لیے رد کر دیا کہ کہیں اس میں بم فِٹ نہ ہو۔ اسکے علاوہ جب سے سابق
امریکی پاگل، قاتلوں کا قا تل صد ر بش جونیئر کو عراق میں اور دیگر معززین
کو ادھر ادھر جوتے پڑے ہیں تب سے بیچارے صحافیوں کو کسی بھی ا ہم شخصیت کے
قریب ننگے پاﺅں یا پھر ہلکی پھلکی سی ہوائی چپل پہنا کر پھٹکایا جاتا ہے،
تاکہ یہ مطلو بہ مقام یعنی کھوپڑی مبارک تک پہنچ ہی نہ پائے اور لگ بھی
جائے تو ٹنڈ کا زیادہ نقصان نہ ہو۔ مزید یہ کہ مشہور مغل بادشاہ رنگیلا کے
بارے میں مشہور ہے کہ اسکی سلطنت اس لئے ختم ہوئی کہ اسکے محل پر حملہ ہونے
کے آخری ٹائم پر اسکوچپل یا ہوائی چپل پہنانے والی کنیز اس سے پہلے محل
چھوڑ کر بھاگ گئی تھی، اور وہ پکڑا گیا؟۔ لہذا : Beware of Hawai Chappal
always |