افغان بڑے ”ظالم لوگ“ ہیں

افغان بڑے ظالم لوگ ہیں۔ اپنے ٹھکانے تو پہاڑوں پر بناتے ہیں اور عالمی طاقتوں کو کھائی میں گرانے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ آپ نے وہ کہانی ضرور سُنی ہوگی جس میں ایک دیو اپنے آقا سے کہتا ہے کہ کچھ نہ کچھ کرنے کو دیتے رہو ورنہ خیر نہیں۔ افغانوں کا بھی یہی حال ہے۔ اِنہیں کھیلنے کے لیے ہر وقت کوئی نہ کوئی سُپر پاور چاہیے! پہلے برطانیہ کو ناکوں چنے چبوائے۔ اِس کے بعد سابق سوویت یونین کو اِتنا مارا کہ اُس کا بُھرکس نکل گیا۔ اِس پر بھی کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا تو اب امریکہ کے درپے ہیں۔ افغان قوم ایک عجیب طرح کے مقناطیس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِس کی طرف صرف سُپر پاورز کھنچتی ہیں اور اپنی کھٹیا کھڑی کرواتی ہیں! جو دُنیا پر راج کرے اُن پر راج کرنے کا ہنر صرف افغانوں کو آتا ہے۔

مُشکل یہ ہے کہ اب سُپر پاورز کا اسٹاک ختم ہوتا جارہا ہے۔ امریکہ بھی کھڈے لائن لگ گیا تو؟ پھر افغان کِس سے کھیلیں گے؟ شاید اب بھارتی جیسی اُبھرتی ہوئی ”سُپر پاورز“ کی باری ہے! اور شاید کیا؟ یقیناً کہیے کیونکہ بھارت بھی افغان اوکھلی میں سر دینے کے لیے اُتاؤلا ہوا جارہا ہے!

روس تو خیر جیسے تیسے، اپنی تحلیل کی آڑ میں جان بچاکر نکل گیا۔ امریکہ بہادر ناک اونچی رکھنے کے چکر میں سبھی کچھ داؤ پر لگاتا جارہا ہے۔ افغانوں کو کِسی بھی بات سے کیا فرق پڑتا ہے؟ جو ”لیسٹ لیول“ پر زندگی بسر کر رہے ہوں اُن کے پاس کھونے کے لیے ہوتا ہی کیا ہے؟ گڑھے میں گرنے سے گڑھے کو کیا نقصان پہنچنا ہے؟ کبھی آپ نے سُنا ہے کہ کھائی میں گاڑی گرنے سے کھائی کو خراشیں آئیں؟ نیشنل جیوگرافک کی دستاویزی فلموں میں آپ نے شاید دیکھا ہوگا کہ شیر کو کبھی کبھی کچھ بھی نہیں ملتا تو وہ کسی جواں سال ہاتھی پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ خاصی دیر تک کوشش کے بعد ناکام ہوکر شیر اپنی راہ لیتا ہے اور ہاتھی اُٹھ کر، جسم سے مٹی جھاڑتا ہوا اپنے جُھنڈ سے جا ملتا ہے! افغان بھی موٹی کھال کے ہیں اور مختلف ادوار میں اِسی طرح اپنے وجود سے مٹی جھاڑتے رہے ہیں! یہ اِتنی سیدھی سی بات ہے کہ دیہاتیوں کی کھوپڑی میں بھی سما سکتی ہے مگر امریکیوں کی سمجھ میں نہیں آرہی!

جیب میں ذرا سی رقم ہو اور پورا بازار خریدنے کی ہوس ذہن پر سوار ہو تو کیا ہوتا ہے؟ خریداری کے نام پر بدحواسی کا مظاہرہ ہی کیا جاسکتا ہے! یہی حال امریکی صدر کا ہے۔ صدارتی منصب کی میعاد جوں جوں گھٹتی جارہی ہے، براک اوبامہ کی بدحواسی بڑھتی جارہی ہے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ معاملات کو بہتر انداز سے کس طرح نمٹایا یا سلجھایا جائے۔

بش جونیئر بڑے ستم ظریف نکلے۔ اُن کے ذہن کے بطن سے ایک ناجائز اولاد پیدا ہوئی۔ اِس کا نام ”دہشت گردی کے خلاف“ جنگ رکھا گیا۔ بش جونیئر تو گھر کو چل دیئے اور اُن کے ذہن کی اِس ناجائز اولاد کی نگہداشت اوبامہ کو کرنا پڑ رہی ہے! اِسی کو گناہِ بے لذّت کہتے ہیں۔ جس طرح چودھری شجاعت کسی بھی پریس کانفرنس میں ٹیڑھا سوال کمال ہوشیاری سے مشاہد حسین کی گود میں ڈال دیتے ہیں بالکل اُسی طرح جارج واکر بش بھی اپنی شروع کی ہوئی جنگیں اوبامہ کے دامن میں ڈال کر چلتے بنے!

اوبامہ کی بدنصیبی یہ ہے کہ صدر کے منصب پر فائز ہونے کے بعد بھی اپنی کوئی جنگ شروع نہ کرسکے، پیش رَو کی چھوڑی ہوئی ادھوری جنگوں کو جیسے تیسے بھگتنا ہی اُن کا مقدر ٹھہرا۔ شاید پیش رَو کی جنگیں بھگتنے کے صِلے ہی کے طور پر اُنہیں صدر کا منصب سنبھالنے کے فوری بعد امن کا نوبل انعام دیا گیا!

اوبامہ کا بنیادی مسئلہ سر دست یہ ہے کہ انتخابی سال سر پر کھڑا ہے۔ 2011 کے ختم ہوتے ہی امریکہ میں انتخابی گہما گہمی شروع ہوگی۔ اور پھر سبھی کچھ انتخابی سیاست کی نذر ہوتا جائے گا۔ ہر معاملہ دعووں اور وعدوں کی بنیاد پر طے پانے لگے گا، ہر فیصلہ سیاسی مفادات کے تابع ہوگا۔ دنیا کو چند نئے ڈراموں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ووٹرز کی توجہ پانے کے لیے انتہا پسند مسلمانوں میں سے چند ہائی پروفائل شخصیات کا ما ورائے عدالت قتل بھی انتخابی ہتھکنڈے کے طور پر آزمایا جاسکتا ہے! ایبٹ آباد آپریشن میں اُسامہ بن لادن کی ہلاکت آنکھوں میں دُھول جھونکنے کی کوشش کے سوا کچھ نہ تھی۔ مگر شاید یہ ڈراما کچھ قبل از وقت تھا۔ اگر اوبامہ یہ ڈراما 2012 کے وسط میں اسٹیج کرواتے تو انتخابی فائدہ زیادہ ہوتا۔ مگر کیا پتہ اُنہوں نے یہ سوچا ہو کہ لوگوں کو اِس حد تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا!

طالبان سے لڑتے لڑتے امریکی فوج کا جو حال ہوا سو ہوا، معیشت کا بھی سانس پُھول گیا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ یہ طے کرنے میں ناکام رہی ہے کہ معیشت کے کمزور پڑتے ہوئے جسم میں نئی روح پُھونکنے کے لیے کون سے اقدامات کئے جائیں۔ 10 برسوں میں 15 ہزار ارب ڈالر کے اضافی ٹیکس وصول کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ امیروں سے کہا جارہا ہے کہ معیشت کو زندہ رکھنے کے لیے زیادہ ٹیکس ادا کریں۔ بڑے کارپوریٹ اداروں سے استدعا کی جارہی ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے لیے جیب ڈھیلی کریں۔ ذرا غور فرمائیے کہ معاشی جنگل میں جن درندوں نے تمام کمزور اور معصوم جانور بھنبھوڑ ڈالے ہیں اُنہی سے استدعا کی جارہی ہے کہ جنگل کے اِن معصوم اور بے ضرر حیوانات کو پروان چڑھانے میں مدد دیں!

تازہ ترین لطیفہ یہ ہے کہ اوبامہ انتظامیہ افغانوں کو شکست دینے کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے جن فوجیوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہی ہے اُنہی کو پنشن اور دیگر مراعات دینے کے لیے تیار نہیں! حال ہی میں اعلان کیا گیا ہے کہ 20 سال تک خدمات انجام دینے والے فوجی پنشن اور متعلقہ مراعات کے اہل نہیں ہوں گے۔ پنشن پانے کے لیے لازم ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد عمر 60 سال ہوچکی ہو! یہ تو بڑی نا انصافی ہے کہ مسلمانوں کا خون بہانے والے امریکی فوجیوں کو پنشن بھی نہ ملے! کل تک امریکی نوجوان خوشی خوشی فوج میں بھرتی ہوتے تھے کہ چلو، قبل از وقت ریٹائرمنٹ لیکر پنشن ہی بٹور لیا کریں گے! اب یہ چارم بھی نہ رہا۔ کس کو پڑی ہے کہ جان دینے کے لیے خوشی خوشی افغانستان کا رخ کرے؟

افغان واقعی بڑے ظالم ہیں۔ واحد سُپر پاور کو گھن چکر بنا ڈالا ہے۔ برہان الدین ربانی کا قتل امکانات کا قتل ثابت ہوسکتا ہے۔ طالبان کو زیر دام لانے کی رہی سہی امیدیں بھی اب دم توڑ دیں گی۔ اوبامہ کو اپنی دوسری مدتِ صدارت داؤ پر لگتی معلوم ہوتی ہے۔ دُنیا یہ تماشا دیکھنے کے لیے بے تاب ہے کہ وہ افغانستان سے جان چھڑانے کے لیے پاکستان سمیت کِس کِس کو قربانی کا بکرا بنانے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔ علاقے کے بدمعاش کی جب بَھد اُڑتی ہے، برسوں کی محنت سے قائم کردہ ”وقار“ داؤ پر لگتا ہے تو اُس کا دماغ بہت حد تک باؤلے کتے کا سا ہو جاتا ہے! ایسے میں وہ کسی کو بھی کاٹ سکتا ہے! اب پاکستان کو گھیر کر ”چک“ مارنے کی کوشش کی جارہی ہے! پاکستان کو اپنا آپ بچانا ہے۔ مگر کس طرح؟ یہ دیکھنا بھی بجائے خود کم دلچسپ نہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524664 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More