مَچّھر بھی کیا چیز ہے۔ کِتنی
چھوٹی ذات اور کِتنی بڑی بات! اگر ضِد پر آئے تو خُدائی کے دعویدار کے سَر
میں گھس کر اُس کا ناک میں دم کر ڈالے اور بندگی اختیار کرنے پر مجبور کردے!
اور اگر مُوڈ میں ہو (جیسا کہ اکثر ہوتا ہی ہے!) تو اُن غریبوں کا جینا
حرام کردے جن پر زندگی حرام کرنے کا یاروں سے پہلے ہی اہتمام کر رکھا ہے!
آج کل مَچّھروں کی ”کمپنی“ کچھ خرچ کئے بغیر مِلنے والی مشہوری کے مرحلے سے
گزر رہی ہے۔ ہر موڑ پر، ہر محفل میں اور ہر چینل کی اوطاق میں مَچّھروں کی
واہ واہ اور دبی آواز میں آہ آہ ہو رہی ہے۔ مضبوط، منظم اور خوں خوار
اپوزیشن جماعتیں بھی جن حکومتوں کا بال تک بیکا نہ کرسکیں وہ مَچّھر کی
چیرہ دستیوں سے لرزہ براندام ہیں! پنجاب حکومت کی رگوں میں انتشار کا وائرس
پھیلانے کی بیشتر کوششیں سراسسر ناکام رہی ہیں مگر اب وفاقی حکومت کے
بھاگوں چھینکا یوں ٹوٹا ہے کہ مَچّھروں نے پنجاب میں ڈینگی وائرس پھیلانے
کی مہم شروع کردی ہے۔ ہمارے ہاں ہر معاملے کی طرح موضوعات بھی فیشن کا درجہ
رکھتے ہیں۔ لوگ کچھ کہنے کے لیے دوسروں کو سُنتے ہیں۔ جو کچھ دوسرے کہہ رہے
ہوں وہی کہنے پر اکتفا کیا جانے لگتا ہے۔ جسے دیکھیے اُس کی زبان پر ڈینگی
ہی کا فسانہ ہے۔ مقاصد سب کے جُدا جُدا ہیں۔ کوئی ممکنہ موت کے خوف میں
مُبتلا ہوکر ڈینگی کی دُہائی دے رہا ہے تو کوئی مخالفین کو بدنام کرنے کے
لیے ڈینگی کا ہَوّا استعمال کرنے پر تُلا ہوا ہے! ہر دو صورتوں میں مشہوری
مِل رہی ہے تو صرف مَچّھر کو۔ غریبوں کی کیا اوقات اور کیا مجال کہ اِس
معاملے میں مَچّھر کا مقابلہ کرنے کا سوچے بھی! مشہوری تو رہی ایک طرف،
غریبوں کا تو اب بدنامی پر بھی اجارہ نہ رہا!
ہر طرف ڈینگی کی دُھوم ہے تو بہت سے سیاست دان حسد کی آگ میں جل رہے ہیں۔
کل تک میڈیا پر گرما گرم بیانات کی سوغات بٹ رہی تھی اور قوم ”ٹک ٹک دیدم،
دم نہ کشیدم“ کی مثال بنی ہوئی تماشا دیکھ رہی تھی۔ کل تک قتل و غارت،
احتجاج، مظاہروں، ہڑتالوں، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کی خبروں نے اینکرز کو
چریا کر رکھا تھا۔ اب یہ دیکھیے کہ ایک ذرا سے مَچّھر نے میڈیا کو کِس بُری
طرح یرغمال بنا رکھا ہے۔ جس کام (یعنی میڈیا کی توجہ) کے لیے یاروں نے
قسمیں کھائیں اور حلق کا پُورا زور لگاکر چیخنے سے بھی گریز نہ کیا وہی کام
مَچّھر میاں نے ذرا سی بھنبھناہٹ میں کر دکھایا! سچ تو یہ ہے کہ ڈینگی نے
میڈیا کا میلہ لوٹ لیا ہے۔
عوام کو نئی مصروفیت مل گئی ہے۔ کل تک جو لوگ ٹی وی پر غلیظ الزامات سُن کر
ناک پر رومال دھرے رہتے تھے اب وہ مَچّھر مار اسپرے کرنے اور ”مَچّھر جلیبی“
جلانے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں! مختلف سطحوں پر حکومتوں کی دوڑیں لگ گئی
ہیں۔ ثابت ہوا کہ مَچّھر آدمی کو ہیجڑوں کی طرح تالیاں پیٹنے ہی پر نہیں
بلکہ حکومتوں کو سرپٹ دوڑنے پر بھی مجبور کردیتا ہے! یہ بھی غنیمت ہے۔ چلیے،
اِس بہانے کچھ آنیاں جانیاں تو ہو رہی ہیں، لہو گرم رکھنے کا کچھ سامان تو
ہوا! قوم کب تک سیاسی مَچّھروں سے اپنے آپ کو کٹواتی اور نفسی بیماریوں میں
مُبتلا رہتی؟
جو لوگ ڈینگی فیور اور ملیریا سے بچاؤ کے لیے ادویہ کے اسپرے کا مطالبہ کر
رہے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی ایک آدھ ماہ قبل ہی سیاسی بیانات
کا ایسا چھڑکاؤ ہوا تھا کہ بہت سے چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے تو بیانات کی بھنک
پاکر ہی مر چلے تھے! جب تک ذوالفقار مرزا کے بیانات کا اثر قائم تھا، ڈینگی
پھیلانے والے مَچّھر میں اِتنی ہمت نہ تھی کہ میدان میں آئے۔ مرزا صاحب دم
لینے کو رکے ہیں اور ٹارگٹ کِلرز کو اندر بھیجنے کا کچھ اہتمام ہوا ہے تو
موقع غنیمت جاتے ہوئے مَچّھر یہ سوچ کر باہر نکلے ہیں کہ
کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں
آئے ہیں اِس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں!
مگر صاحب! ہمارا خیال ہے مَچّھروں نے تھوڑی سی دیر کردی ہے۔ اب ہم میں رہا
کیا ہے جو اُن کے ہاتھ لگے گا؟ ایک طرف سے امریکہ کاٹ رہا ہے اور دوسری طرف
اپنے ہیں جو بیگانوں سے بڑھ کر ہیں! ہمارے وجود میں بین الاقوامی سازشوں کے
دانت ایسے گڑے ہیں کہ ڈھنگ سے سانس لینا بھی اب بظاہر ممکن نہیں رہا۔ سَچّی
بات ہے صاحب کہ ہم تو ڈینگی بُخار پھیلانے والے مَچّھروں کے سامنے شرمندہ
ہیں۔ یہ مہمان ایسے وقت نازل ہوئے ہیں کہ جب ہمارے جسم میں خُون رہا ہی
نہیں۔ وطن کی راہ میں بہا ہوتا تو دِل کو تھوڑا بہت سُکون بھی مِل ہی جاتا
کہ رائیگاں تو نہ گیا۔ ہمارے حِرماں نصیب خُون کی کہانی تو یہ ہے کہ کچھ
مہنگائی نے چُوس لیا، کچھ سیاسی غارت گروں کی نذر ہوا۔ اور جو تھوڑا بہت
بچا تھا وہ سیاسی بڑ بولوں کی زبانی دھماچوکڑی دیکھ کر خُشک ہوگیا! ڈینگی
پھیلانے والے مَچّھر اگر چَک مارتے رہنے ہی پر مُصِر ہیں تو ہماری سُوکھی
ہڈیاں حاضر ہیں!
ہمارے ہاں سبھی کچھ سینہ گزٹ کے تحت پھیلتا ہے۔ مستند ذرائع سے ملنے والی
معلومات کے بجائے لوگ سُنی سُنائی باتوں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں کیونکہ
اِس میں کہیں نہ کہیں بچاؤ کا ”کھانچا“ موجود ہوتا ہے! ماہرین کا یہ تجزیہ
بھی ہم تک مختلف لوگوں کی زبانی پہنچا ہے کہ ڈینگی فیور در اصل مادہ مَچّھر
کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے! کہنے کو یہ ذرا سی بات ہے مگر جو لوگ حیوانات کی
دُنیا پر نظر رکھتے ہیں اُنہیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ جنگل کا بادشاہ اور
مَچّھر ایک ہی مسند پر جلوہ افروز ہیں! نیشنل جیوگرافک کی ڈاکومینٹریز میں
ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ شکار کے لیے شیرنیاں ماری ماری پھرتی ہیں، شِکار
کو گھیر کر لاتی ہیں، اُس پر حملے کی تمام تیاریاں کرتی ہیں اور پھر مل کر
اُسے قابو بھی کرتی ہیں۔ شیر بہادر تو بس آخری لمحات میں محض رسمی کارروائی
کے طور پر اِس عمل میں شریک ہوتے ہیں تاکہ تھوڑی سی بھی عزت رہ جائے اور بے
چاری شیرنیوں کی دِل شِکنی بھی نہ ہو! اب ہر معاملے میں تو اِنکار مناسب
نہیں ہوتا نا!
مادہ مَچّھر کے کاٹنے سے ڈینگی بُخار ہوتا ہے اور مشہوری میں بڑا حصہ
مَچّھر کو ملتا ہے! ہر جگہ ڈینگی مَچّھر کی واہ واہ ہو رہی ہے، کوئی بھی
”مَچّھرنی“ کو کریڈٹ دینے کے لیے تیار نہیں! حد تو یہ ہے کہ جب مَچّھروں کی
مادہ کا ذکر کرنا ہو تو ”مادہ مَچّھر“ کہا جاتا ہے۔ یہ تو سراسر صِنفی
امتیاز برتنے والی بات ہوئی۔ مَچّھرنی کہنے میں کیا ہرج ہے؟ |