اس وقت پاکستان کی سیاسی ، معاشرتی ، داخلی ، خارجی و معاشی جو صورتحال ہے اس پر جس پاکستانی کو بھی زرا سی سمجھ بوجھ ہے وہ واقعی بہت پریشان ہے۔ پاکستان کی جس رفتار سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں اگرچہ الیکشن 2023 میں تو ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں. الیکشن نہ ہونے کی صورتحال واضع نہ ہونے سے پاکستان میں ایک غیریقینی صورتحال سے دوچار ہے اور یہ غیر صورتحال اب بھی مُلک میں برقرار ہے. اور نہ ہی اسٹیبلیشمنٹ کی سوچ عام آدمی کو سمجھ میں بالکل ہی سمجھ میں نہیں آرہی کہ آخر پاکستان کی اسٹیبلیشمنٹ ملک کے آئندہ سیاسی منظر نامے کے حوالے سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ ہے۔ جبکہ اندازہ یہ ہی نظر آتا ہے کہ اس کی ایک خاص وجہ جو ابھی سامنے نہیں آرہی ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی قیادت جو حال میں تبدیل ہوئی ہے اور نئی قیادت نے اس ضمن میں ابھی کوئی واضع ُکھل کر اس پر زیادہ بات نہیں کی ہے۔ اس سے عام آدی میں جو اس بارے میں جو اندازہ لگا سکتے ہیں وہ یہ ہی نظر آتا ہے کہ اس وقت ملک کا معاشی بحران جو سب اس وقت پاکستان اسٹیبلشمنٹ کے لئے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے اور سیاسی عدم استحام کا باعث بننے والا اندرونی سیاسی خلفشار بھی ان کے لئے مشکلات کا باعث بن رہا ہے اور پاکستان اسٹیبلیشمنٹ سے ابھی تک سنبھل نہیں پا رہا ہے۔ اس وقت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی کوشش یہ ہی ہوئیگی اور وہ بھی یہی چاہے گی کہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام ہو اور ملک آگے بڑھے کیونکہ معاشی و اندرونی سکیورٹی کا ملکی سلامتی کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتا ہے. اور پاکستان جس کرہ ارض پر ہے وہاں یہ بے حد ضروری ہے. اس وقت ملک میں جس طرح سیاسی کشیدگی بڑھتی جارہی ہے اس سے فضا میں استحکام پیدا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اگر سیاسی لڑائیاں بتدریج اسی طرح جاری و ساری رہیں اور بحران بڑھ گیا تو اس صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے یہ ہی پاکستانی اس وقت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے اس وقت بیرونی خطرات کی نسبت اندرونی چیلنجز بہت اہمیت اختیار کر تے جا رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے لئے اس وقت بیرونی خطرات کی نسبت اندرونی چیلنجز بہت اہمیت اختیار کر تے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی قیادت حال ہی میں تبدیل ہوئی ہے اور نئی قیادت نے اس ضمن میں کُھل کر کوئی زیادہ بات نہیں کی ہے۔ عوام اس بارے میں جو اندازہ لگا سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ملک کا معاشی بحران پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے تشویش کا باعث بنتا جارہا ہے اور سیاسی عدم استحام کا باعث بننے والا اندرونی سیاسی خلفشار بھی ان کے لئے مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کے سیاستدانوں کو اپنے سیاسی امور طے کرکے فورا الیکشن کی طرف آنا چاہیے۔ اگر ان سیاسی جماعتوں بے ایسا نہ کیا تو اس سے اسٹیبلشمنٹ بھی مایوسی کا شکار ہوجائیگی۔ ان کو بھی یہ یقین نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں وقت پر الیکشن ہو سکیں گے۔ ملک کو درپیش معاشی بحران ملکی اسٹیبلشمنٹ کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ ان کے مطابق ملک کے بالادست طبقےمعاشی بحران کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک ملک کے اقتصادی مسائل کے حل کے لئے این ایف سی کو بہتر بنانا بہت ضروری ہے، اٹھارہویں ترمیم کی خامیوں کو درست کرنا اور بیرونی دباؤ کے باوجود درآمدات کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ آنے والی حکومت کو کامیاب بنانے اور اس کی پالیسیوں کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے کہا،''اگر وفاق کے پاس پیسے نہیں ہوں گے اور صوبے پوری طرح وفاقی محاصل ہی اکٹھے نہیں کر پائیں گے تو ملک کے قرضے کیسے ادا ہوں گے؟ صوبوں کو وفاقی محاصل کی وصولی کا پابند بنایا جانا چاہئیے اور وفاقی محاصل کی رقم صوبوں کے حصوں سے منہا کرنی چاہئے۔ پاکستان نے دو اعشاریئہ اکانوے ارب ڈالر کے ساتھ بھی پچھلے دنوں گذارہ کیا ہے اب اگر خزانے میں دس ارب ڈالربھی آ جائیں تو پھر بھی ہاتھ روک کر امپورٹس پر خرچ کرنا چاہئیے۔ اس سے ڈالر بھی بچیں گے اور ملکی صنعت کو بھی فائدہ ہوگا۔ اس طرح کے مشکل فیصلے یا قاسم کے ابا کرسکتے ہیں، جسے عوام میں بقول ( لجزیرہ، بی بی سی ، وائس آف امریکہ ، فوکس و سی این این ) وغیرہ کے بھرپور مقبولیت حاصل ہے اور یا پھر یہ فیصلےآصف علی زرداریکر سکتا ہے کیونکہ چھوٹے صوبوں کے سیاستدان ان کی بات پر اعتبار کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں ان دونوں سیاستدانوں کی موجودگی کے امکانات کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
پاکستان جیسے ملکوں میں اقتدار میں آنے کے لئے ووٹوں کے علاوہ بھی بہت سی عوامل کردار ادا کرتے ہیں۔ اصولی طور پر تو انتخابات آزادانہ اورمنصفانہ ہی ہونے چاہیئں ( جو پاکستان کی تاریخ میں اب تک ہوئے نہیں ہیں ) لیکن یہاں کئی دفعہ ووٹ ڈالنے سے بھی زیادہ ووٹوں کی گنتی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ ''یہاں رزلٹس بدلنے، روکنے اور تبدیل کر دینے کی شکایات بھی عام ملتی رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں، مقامی انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کے عملے سمیت کئی اسٹیک ہولڈرز کو انتخابات پر غیرقانونی طور پر اثرانداز ہونے کے جرم میں مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ یہاں استحکام آئے، معاشی بحران ختم ہو، عوامی بےچینی کا خاتمہ ہو، اور پھر سے سر اٹھانے والی دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکے۔ لیکن اگر ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام نہ آسکا تو پھر کوئی ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا۔ اس وقت تاریخ کے نوجوانوں کو پاکستان کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کو سمجھنے کے لئے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر دو ہزار سات میں کئی سیاسی جماعتوں کو ملنے والے این آر او اور نواز شریف کی ملک سے باہر روانگی جیسے واقعات بتاتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں بیرونی طاقتوں کا رول کتنا زیادہ ہے۔ ان کی رائے میں بلاول بھٹو زرداری کے بار بار کے واشنگٹن کے دوروں سے بھی ہواؤں کے رخ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جس طرح سے جی 20 میں انڈیا نے خلیج، مشرق بعید ، مغرب اور تہران و کابل کے ساتھ ایک مشترکہ راہداری کوریڈور کا پروگرام ڈیولپ کیا ہے . ان کے ملکوں اور عوام کی حالت بدلنے کے لیے کل کے دشمن آج کے دوست بغلگیر ہوگئے اور ایک ہمارا ملک ہے نہ سیاست دان، نہ سول بیروکریسی ، نہ ججز حضرات اور نہ ہی اسٹیبلیشمنٹ سب اپنے اپنے ٹریک پر گاڑی ڈالی ہوئی ہے. نقصان صرف اور صرف پاکستان اور اس کی عوام کا ہے. جو 76 سال سے یہ ہی اُمید لگائے بیٹھی رہی کبھی سیاسی رہنماؤں کے پیچھے تو کبھی مرد مومن کے پیچھے مگر کسی بھی نے ان کے حالت تو نہ بدلے مگر یہ عوام اور مُلک ہی اب سُکڑ کے بنگلہ دیش , افغان و ماریشس کی قطار سے نیچے آرہا ہے. اور ہم ہیں کہ ایک دوسرے پر دبدبہ دیکھانے کے لیے کہاں سے کہاں جارہے ہیں ۔ آخر اس کا کوئی تو آنت ہوئیگا جو سب کو جی 20 کی طرح ایک میز پر لائے ابھی وقت نہیں گزرا ایک دوسرے کو اپنے اپنے انا کے خول اُتارنا ہوئینگے. اس ہی میں اس ملک اور ان کے ہر ادارے کی کامیابی ہے.
|