ایک بچہ اپنی ہی دھن میں آئسکریم کے مزے لے رہا ہے کہ اچانک اس کے ہاتھ سے وہ گر جاتی ہے، آئسکریم کو زمین پر گرا دیکھ کر وہ دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیتا ہے ’بچے کو روتا دیکھ کر اس کا باپ اسے ایک نئی آئسکریم دلا دیتا ہے۔ بظاہر تو یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے لیکن یہ ہم انسانوں کے اصراف کی بہت ہی جزوی سی مگر بالکل صحیح غمازی کرتا ہے۔ اس سے کچھ ملتا جلتا واقعہ تو روز مرہ میں ہمارے مشاہدے میں آتا ہے کہ جب شادی شدہ افراد کی بیگمات یا ہم مجردوں کی امائیں رات کا بچا کھانا صبح خراب ہونے کی صورت میں کچرے میں پھینک دیتی ہیں، یہ واقعہ بھی کسی انسان کے لیے اہمیت کا حامل نہیں ہو گا لیکن اگر اس پر تھوڑی بہت ہی تحقیق کی جائے اور یہ پتہ لگایا جائے کہ ہمارے یعنی انسانوں کے کچرے سے دنیا پر کیا اثر پڑ رہا ہے تو بڑا سے بڑا عیاش قسم کا شخص بھی اپنے اصراف پر قابو پانے کے لیے کم از کم غور کرنے کی سعی تو ضرور کرے گا۔
اس ضمن میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے عالمہ دن برائے زیرو ویسٹ کے حوالے سے کہا کہ ”ہم اپنی زمین کے ساتھ کوڑے کے ڈھیر جیسا سلوک کر رہے ہیں۔“ انہوں نے مزید خبردار کیا کہ ”2050 تک دنیا میں ہر سال پیدا ہونے والے کوڑے کی مقدار چار ارب ٹن تک پہنچ جائے گی، ہم اپنے واحد گھر کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کر رہے ہیں، ہم کچرے اور آلودگی کا سیلاب لا رہے ہیں جو ہمارے ماحول، ہماری معیشتوں اور ہماری صحت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔“ انہوں نے ”کچرے کے خلاف جنگ“ کا نعرہ لگاتے ہوئے عالمی برادری پر دو ٹوک الفاظ میں زور دیا کہ ”آپ کچرے کو ٹھکانے لگانے کے جدید نظام تیار کریں اور انہیں بہتر بنائیں اور اس کے ساتھ ایسی پالیسیاں بھی تشکیل دیں جن سے پلاسٹک کی بوتلوں، الیکٹرانک کے متروک سامان اور دیگر اشیا کو دوبارہ استعمال میں لانے اور ان کی ری سائیکلنگ کی حوصلہ افزائی ممکن ہو سکے۔“ ان کا آخری نکتہ صارفین کے مزید ذمہ دارانہ طرزعمل اختیار کرنے کی ضرورت سے متعلق تھا۔
اس کے متعلق انہوں نے کہا کہ ”ہم سب کو روزانہ خریدی جانے والی اشیا کے ماخذ اور ان کے اثرات پر غور کرنے اور انہیں ٹھکانے لگانے کے عمل پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے زیر استعمال اشیا کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے، ان کے استعمال میں تبدیلی لانے، انہیں مرمت کرنے اور ان کی بحالی کے مواقع تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان اشیا کو کوڑے میں پھینکنے سے پہلے ان کے بارے میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔“
ہمارے کچرے اور اصراف سے صرف ہمارا ماحول ہی برباد نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس کے ہم پر بھی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے یونیورسٹی آف سڈنی کی ایک تحقیق منظر عام پر آئی ہے جس کے مطابق انسان ہر ہفتے سانس کے ذریعے ایک کریڈٹ کارڈ کے برابر مائیکرو پلاسٹک نگل رہے ہیں۔ مائیکرو پلاسٹک دراصل انتہائی چھوٹے سائز کے وہ ٹکڑے ہیں، جو پلاسٹک سے بنی اشیاء کو تلف کر نے کے دوران ہوا میں اور بعد ازاں پانی یا مٹی میں شامل ہو جاتے ہیں۔
یہ مائیکرو پلاسٹک انتہائی زہریلے کیمیکل پر مشتمل ہوتا ہے، جو سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر اندرونی نظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ تحقیق کے مطابق انسان ہر گھنٹے سانس کے ذریعے سولہ اعشاریہ دو بٹس مائیکرو پلاسٹک نگل رہے ہیں۔ مزید اعداد و شمار سے یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ انسان ایک ہفتے میں 2721.6 بٹس مائیکرو پلاسٹک نگل رہے ہیں، جو ایک کریڈٹ کارڈ میں پلاسٹک کی مقدار کے برابر ہے۔ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی سے منسلک سائنسدان محمد ایس اسلام کی سرکردگی میں ہونے والی یہ تحقیق سائنسی جریدے فزکس آف فلوئڈز میں شائع ہوئی تھی۔
سن 2022 ء میں ایک تحقیق کے نتائج سے سامنے آیا تھا کہ مائیکرو پلاسٹک کے ذرات انسان کی سانس کی نالی تک میں جاگزیں ہیں۔ ایس اسلام بتاتے ہیں کہ اسی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کی ٹیم نے کمپیوٹیشنل فلائڈ ڈائنامکس ماڈل کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مختلف اشکال اور سائز کے مائیکرو پلاسٹک کے ٹکڑے کس طرح نظام تنفس میں داخل ہوتے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مختلف اشکال کے ان ٹکڑوں کا سائز دو انچ سے پانچ ملی میٹر تک تھا۔
جبکہ کچھ ٹکڑوں کا سائز پانچ اعشاریہ چھ مائیکرون تک بھی نوٹ کیا گیا۔ یہ انسانی بال کی چوڑائی کے ساتویں حصے کے برابر ہے۔ دوران تحقیق سائنسدانوں نے آہستہ اور تیز سانس لینے سے مائیکرو پلاسٹک کے ٹکڑوں پر پڑنے والے اثرات کا بھی مشاہدہ کیا۔ ایس اسلام کے مطابق ان کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ سانس لینے کے عمل میں ہوا میں موجود انتہائی چھوٹے سائز کے مائیکرو پلاسٹک کے ٹکڑے انسانی نتھنوں، حلق اور گلے کے پچھلی جانب چلے جاتے ہیں۔
نتھنوں، حلق اور سانس کی نالی کی ساخت کچھ اس طرح کی ہے کہ یہ مائیکرو پلاسٹک کو بہاؤ کے اصل راستے سے ہٹا کر ان جگہوں پر جمع کر دیتی ہے۔ وقت کے ساتھ حلق میں مائیکرو پلاسٹک کا یہ ذخیرہ بڑھتا جاتا ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ مائیکرو پلاسٹک جتنے چھوٹے سائز کا ہو گا وہ سانس کی گزرگاہوں میں اتنی ہی زیادہ مقدار میں جمع ہو جائے گا۔ اسی طرح سانس کی رفتار بھی اس کے ذخیرے پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر سانس زور سے لی جائے تو مائیکرو پلاسٹک نتھنوں یا حلق میں جمع ہونے کے بجائے بہاؤ میں نکل جاتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ عمر رسیدہ یا بیمار افراد مدہم سانس لیتے ہیں اس لیے ان کے نظام تنفس میں مائیکرو پلاسٹک ذخیرہ ہونے کا خدشہ دیگر افراد سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایس اسلام بتاتے ہیں کہ وہ علاقے جہاں کارخانے یا فیکٹریاں آبادی کے قریب ہیں، وہاں رہائش گان مائیکرو پلاسٹک براہ راست نگل رہے ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر مائیکرو پلاسٹک صنعتوں میں تیار کردہ اشیاء کی ری سائیکلنگ یا تلف کیے جانے کے دوران ماحول میں شامل ہو جاتا ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں دمہ، پھیپھڑوں اور سانس کے دیگر امراض پر بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ ایس اسلام کے مطابق مائیکرو پلاسٹک میں انتہائی زہریلے کیمیکلز شامل ہوتے ہیں، جو اینڈوکرائن گلینڈ اور غدود کے نظام کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسانی جسم پر مائیکرو پلاسٹک کے مکمل اثرات پر مزید تحقیق جاری ہے۔ اب تک ہونے والی تحقیقات کے مطابق مائیکرو پلاسٹک جسم میں زندہ خلیوں کو مارنے، انہضام اور سانس کے امراض کا سبب بن رہا ہے۔ جبکہ کچھ جانوروں جیسے چوہے اور کچھوؤں میں مائیکرو پلاسٹک سے جنسی تولید اور نر اور مادہ کی شرح پیدائش متاثر ہونا بھی نوٹ کیا گیا ہے۔
گلوبل وارمنگ کی بھی سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی اور کچرے کو گردانا جاتا ہے چنانچہ اقوام متحدہ کی سالانہ موسمیاتی کانفرنس (سی او پی 28 ) میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق گزشتہ عشرے کے دوران عالمی حدت میں 1.14 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔ انسانی سرگرمیوں کے ذریعے بھی گرمی میں 0.2 ڈگری فی دہائی کی ”بے مثال شرح“ سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس تحقیق میں سن 2013 اور 2022 کے درمیان کی دہائی کا جائزہ لیا گیا ہے اور اسے ”ارتھ سسٹم سائنس ڈیٹا جریدے“ میں شائع کیا گیا تھا۔
یہ تو ہو گئے اعداد و شمار البتہ ماحولیاتی تبدیلی کے پیچھے سب سے بڑا عنصر کیا ہے؟ اس حوالے سے نیو لبرل اکنامسٹس (ماہر اقتصادیات) کا کہنا ہے کہ انسانی اصراف میں اس قدر اضافے کی سب سے بڑی وجہ غریب ممالک کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے، اور اگر اس آبادی کے طوفان کو روک دیا جائے تو اصراف میں کمی آ سکتی ہے۔ یہ بہت ہی بھونڈی دلیل ہے کیونکہ غریب ممالک کی مجموعی آبادی اس قدر صرف نہیں کرتی ہے جس قدر ریاست ہائے متحدہ امریکا اور یورپی یونین کے ممالک کی کریم (اشرافیہ) کی جانب سے کیا جاتا ہے۔
ایسے میں غریب آبادی کے اضافے کو تمام برائیوں کی جڑ گرداننا انتہائی لغو اور مضحکہ خیز ہے۔ غریب اور امیر کی تفریق اور سماجی عدم مساوات ہی دراصل تمام مسائل کی جڑ ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ اکثریت ہے جو قوت خرید سے ہی ناپید ہے جبکہ دوسرا طبقہ وہ ہے جس کے وجود سے ہی بازار گرم ہیں اور اسٹاک ایکسچینجز میں اضافے اور مندیاں ہوتی ہیں۔ نیو لبرلز کی جانب سے ایسا پروپیگنڈا نیا نہیں ہے، ایسا پروپیگنڈا ہمیشہ ہی مغربی نیو کو لونیئل اداروں کا خاصہ رہا ہے، البتہ جہاں تک بات انسانی اصراف کی، گلوبل وارمنگ کی، اور کچرے سے پیدا ہونے والے مسائل کی ہے تو ان کے وجود کی سب سے بڑی وجہ فرسٹ ورلڈ کے وہ فرسودہ معاشی و سیاسی تصورات اور تظریات ہیں جنہیں بنیاد بنا کر ”معاشی ترقی“ اور ”سماجی خوشحالی“ کے مفروضات کو گھڑا جاتا ہے اور ایسے یوٹوپیا کے قیام کی باتیں کی جاتی ہیں جس میں تمام انسانوں کے مسائل ”فری مارکیٹ“ اور ”سرمایہ داریت“ کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ سرمایہ داریت کے استحصال اور ایسی انڈسٹریز کا قیام جو صرف اشرافیہ کی عیاشیوں کو پورا کرنے کی غرض سے قائم کی جاتی ہیں اور ماحول میں کاربن کے اضافی اخراج کا باعث بنتی ہیں، کی وجہ سے ہی دنیا آج اس دہانے پر پہنچ گئی ہے کہ تہذیب کی عمارت کبھی بھی دھڑام سے گر سکتی ہے اور امریکا اور اس کے حواریوں کے فرسودہ اور مردہ سیاسی و معاشی تصورات کی حقانیت کی پول کھل سکتی ہے ایسے میں دنیا کے دانش ور ایک ایسے نظام اور فکر کی تلاش میں ہیں جو جدید تہذیب سے جنم لینے والے مسائل کو حل کرسکے اور انسان کے مستقبل کو کچھ بہتر بنا سکتی ہے۔ ایسے نظام کی تلاش جاری ہے اور میرے نزدیک مستقبل میں بھی جاری رہے گی اور جب تک دنیا سرمایہ داریت کے چنگل سے آزاد نہیں ہوگی، ان مذکورہ مسائل کا حل ممکن نہیں ہو سکے گا۔
|