اظہار رائے کی آزادی

استعماری ادوار میں بادشاہوں کو حاصل تھا ، جو کہ خود مختار ہونے کے ساتھ خود ہی منصف تھے۔ جب شاہوں نے فیصلے کے اختیارات اپنے نمائندوں کو سونپے تو یہ بہت ضروری تھا کہ ان کی عزت اور وقار کو بھی ملحوظ ِ خاطر رکھا جائے لہذا ان کی تابعداری اصل میں باد شاہ کی تابعداری تھی ، محکوم عوام بادشاہ یا بادشاہ کے نمائندوں پر تنقید نہیں کر سکتے تھے ، کیونکہ شاہی دور میں تنقید پر سخت سزا تھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا توہینِ عدالت غیر جانبدارانہ فیصلوں پر اثر انداز تو نہیں ہو رہی۔ اگر توہینِ عدالت فیصلوں پر حاوی ہوتی ہے تو اس کا نوٹس لازمی لینا چاہئے ورنہ جیسا کہ معزز جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ” توہین عدالت کی کاروائی اس کا حل نہیں ان غیر ضروری چیزوں کو اہمیت ہی نہیں دینی چاہئے۔ توہین ِ عدالت سے ملکی نظام میں خلل کے باعث افراد کے متاثر ہونے کے علاوہ اظہارِ رائے کی آزادی سلب ہو جاتی ہے ، جس سے اصلاح کا پہلو نہیں رہتا جو کہ ایک لمحہءفکریہ ہے۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئر مین ہارون الرشید نے امید ظاہر کی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ججوں کے خلاف زیرِ التوا شکایات کا فیصلہ کریں گے اور آئینی معاملات کا قانون اور عدالتی روایات کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ لہذا نئے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کےلئے سب سے بڑا چیلنج عدالت عظمیٰ کے وقار اور غیر جانبداری کو بحال کرنا ہے ، جبکہ انکے پیش رو جسٹس عمر بندیال پر عمران خان اور انکی پارٹی کے دوسرے عہدِ داروں کیلئے نرم رویہ رکھنے کا لزام ہے ، سرِ دست سیاسی مقدمات اور توہین ِ عدالت جیسے مقدمات کی سماعت میں الجھنے کے بجائے سپریم کورٹ میں زیرِ التوا 56ہزار سے زائدمقدمات کو نمٹانے پر توجہ دینا ہوگی تاکہ اظہار ِ رائے کی آزادی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے عدلیہ کی ساکھ اور غیر جانبداری بحال ہو سکے۔

Ghulam Haider Shaikh
About the Author: Ghulam Haider Shaikh Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.