میں نے اپنی زندگی میں بہت سے اچھے اور برے حالات دیکھے ہیں۔ جیسا کہ ہر انسان اپنی زندگی میں کسی نہ کسی صدمے سے دوچار یوتا ہے میں بھی ہوئی۔ اس صدمے سے مجھے ایک نقصان یہ بھی پہنچا کہ اس نے میرا زندگی کو دیکھنے کا انداز بدل دیا میں نے ہر شے کو مختلف، یقینی اور منفی انداز سے دیکھنا شروع کر دیا ۔میں ہر وقت اپنی محرومیوں اور ادھورے خوابوں کو سوچتی رہتی تھی۔ مثال کے طور پر میں میڈیکل میں نہیں جا سکی، اپنی پسندیدہ یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکی، میرے سارے دوست مجھ سے الگ ہوگئے وغیرہ وغیرہ انہی باتوں کو سوچ سوچ کر میں نے خود کو پریشان کر لیا اور اگر کوئی مجھے مثبت سوچنے کا مشورہ دیتا تو میں سیخ پا ہوجاتی کہ میں بالکل درست سوچتی ہوں اور مجھے کسی دھوکے میں نہیں رہنا۔ اپنے رویّے میں آنے والی چند تبدیلیاں میں آپ کے سامنے بیان کرتی چلوں۔ میرے رویے میں آنے والی پہلی تبدیلی یہ تھی کہ میرے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں اور تکالیف کے ذمہ دار دوسرے ہیں ۔ میرے ساتھ ہونے والی ہر ناانصافی کی ذمہ دار اللہ تعالی کی ذات تھی ، مجھے اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ نعوذ باللہ اللہ تعالی میری بھلائی نہیں چاہتے اور میری زندگی کو اپنی مرضی سے چلاتے ہیں اور میں اپنی زندگی کے معاملات میں بالکل بے بس ہوں۔ دوسری تبدیلی جو میرے رویے میں آئی وہ یہ تھی کہ میری تمام تکالیف کے ذمہ دار میرے دوست ہیں، میرے نزدیک وہ سب بہت برے تھے کیونکہ لوگ عموماً ایسے ہی ہوتے ہیں تو اب میں کسی کو بھی اپنا دوست نہیں بناؤں گی، ہمیشہ اکیلی ہی رہوں گی۔ میں نے اپنی سوچوں اور محسوسات کو بالکل درست ماننا شروع کر دیا کہ ان میں کسی بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔میں ہر چیز کا صرف ایک ہی رخ دیکھتی اور اسے دل و جان سے سچ مانتی میری زندگی میں دوسرے رخ کی کوئی گنجائش نہ تھی اور اگر کوئی مجھے تصویر کا دوسرا رخ دکھانا بھی چاہتا تو میں کہتی کہ میں اپنے محسوسات کو بالکل بھی رد نہیں کر سکتی ،مجھے حقیقت پسند رہنا چاہیئے۔ مثال کے طور پر ایک شخص سے مجھے شکایت تھی کہ وہ میری خوشیوں پر خوش ہونے کی بجائے پریشان ہو جاتا ہے تو وہ یقینا مجھ سے حسد کرتا ہے۔ اس کے ناخوش ہونے کی کوئی اور وجہ مجھے نظر نہیں آئی تو میں نے خود کو اس سے دور کر لیا۔ اپنی زندگی کے تاریک لمحات سے گزرنے کے بعد میں نے اس بات کا یقین کر لیا کہ چونکہ میں انتہائی حساس ذہنیت کی مالک ہوں اور عام لوگوں کی نسبت زیادہ سوچتی ہوں تو مجھے کبھی بھی کوئی سکھ نہیں گا۔ میں اپنی سوچوں کو کسی طریقے سے نہیں بدل سکتی۔ میں نے اپنے حال کو ماضی سے جوڑنا شروع کر دیا کہ ماضی میں میرے ساتھ جو ہوا تھا وہ دوبارہ ہوگا۔ ماضی میں جس شخص سے محبت کی وہ نہیں ملا تھا اب بھی نہیں ملے گا وغیرہ وغیرہ۔ حال کی خوشیوں کو ماضی کے دکھوں اور محرومیوں میں دفن کردیا تھا اور اوپر سے مجھے یہ شکایت بھی تھی کہ آخر میں اپنی زندگی سے اتنی ناخوش کیوں ہوں؟ یا الہی یہ کیا ماجرا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کو اپنی غلطی کبھی نظر نہیں آتی۔ سوال یہ ہے کہ میں نے اپنی سوچوں کو کیسے بدلا اور میرے رویے میں مثبت تبدیلی کیسے آئی؟ ایک دن میں یونیورسٹی میں بیٹھی ہوئی تھی کہ کسی نے میرے سامنے لفظ زاویہ بولا، زاویہ نقطہ نظر کو کہتے ہیں کہ آپ کسی چیز کو کیسے اور کس انداز سے دیکھتے ہیں۔ (perspective) مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں ہر چیز کو دیکھنے کا زاویہ بدل لوں۔ بیشک مثبت نہ سوچوں کیونکہ کسی بھی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر وقت اپنی سوچ کو مثبت رکھے۔ میں اندھیرے کی طرف کیوں اپنا رخ کیے رکھتی ہوں؟ اندھیرے کے ساتھ روشنی بھی لازم و ملزوم ہے۔ کیوں نہ میں اپنا رخ روشنی کی طرف کرلوں؟ میں نے اپنی سوچ کا زاویہ بدل دیا ان محرومیوں کو سوچنا چھوڑ دیا جو مجھے تکلیف دیتی ہیں، ان نعمتوں کا شمار کرنا شروع کر دیا جو حال میں میرے پاس موجود ہیں اور اپنی موجودگی سے میری زندگی کو حسین بناتی ہیں۔ یہ کہنا ہی چھوڑ دیا کہ یار یہ نہیں ملا وہ نہیں مل سکا بلکہ یہ کہنا شروع کر دیا کہ یار یہ بھی ملا وہ بھی ملا ہے۔ اس طرح خود بخود مجھ میں شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ الحمد للہ!!! دوسری بات جو میرے ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ ہو سکتا ہے زندگی میں مجھے پیش آنے والے مشکل حالات کی ذمہ دار صرف اللہ تعالی کی ذات نہ ہو۔ کچھ ذمہ داری میری بھی ہو، بے شک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہیں لیکن کچھ اختیارات مجھے بھی تو دیے گئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ کہیں نہ کہیں میں بھی غلط ہوں۔ اسے آپ کو ایک مثال سے سمجھاتی ہوں فرض کیجئے آپ کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے۔ آپ نہ اس شخص کو اپنے جذبات کے بارے میں بتاتے ہیں اور نہ ہی اپنے گھر والوں سے اس معاملے میں کوئی بات کرتے ہیں۔ آپ میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ ایسا کر یں۔ اب اس شخص کی کہیں اور شادی ہو جاتی ہے اور آپ سارا قصور اللہ تعالی پر ڈال دیتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ مجھ سے ہر وہ شخص چھین لیتے ہیں جس سے میں محبت کرتا یا کرتی ہوں یا جس کی میں نے خواہش کی ۔ اب آپ مجھے بتائیں اس معاملے میں سارا قصور اللہ تعالی کا ہی ہے؟ کیا آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی تھی؟ خود اس معاملے میں آپ نے کچھ نہیں کیا اور سارا الزام اللہ تعالی پر ڈال دیا ہو سکتا ہے آپ بات کرتے تو گھر والے بھی مان جاتے اور بات بن جاتی۔ دوستوں کے معاملے میں نے اپنی سوچ ایسے بدلی کے جو دوست مجھ سے الگ ہوئے ہو سکتا ہے انہوں نے ہی صرف میرے ساتھ برا نہ کیا ہو عین ممکن ہے کہ میں نے بھی ان کے ساتھ کچھ برا کیا ہو۔ میں اس کی تکلیف کی نفی نہیں کر رہی جو مجھے ان سے پہنچی ہے اور نہ ہی ان کی خود غرضی یا حسد کا جواز پیش کر رہی ہوں۔ میں بس یہ کہہ رہی ہوں کہ ہو سکتا ہے اس سب میں میرا بھی کوئی قصور ہو اور جب میں نے اس نظریے سے دیکھنا شروع کیا تو آدھی غلطی تو میری ہی نکل آئی (قہقہ)۔ بلکہ بہت سی جگہوں پر میں نے تو زیادتی بھی کردی۔ یقین کریں مجھے بہت دکھ ہوا اپنی غلطی کو قبول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میں نے اپنے دوستوں سے معافی مانگ لی اور مجھے معاف بھی کر دیا گیا۔ میں نے ذمہ داری قبول کی اور اپنی غلطیوں سے بھاگنے کی بجائے ان سے سیکھنا شروع کر دیا اور انہیں دہرایا بھی نہیں تو زندگی میں آگے جا کر مجھے بہترین دوست مل گئے ۔ میں نے خود سے یہ سوال کرنا شروع کر دیا کہ آخر میں اپنی ہر سوچ کو صحیح کیوں سمجھتی ہوں؟ اگر میں خود کو دوسروں کی نسبت زیادہ ذہین اور حساس سمجھتی ہوں تب بھی میرا دماغ غلطی کر سکتا ہے۔ میں عقل کل نہیں ہوں۔ میرے غلط ہونے کے تو زیادہ امکانات ہیں کیونکہ میں اکثر تاثرات اور احساسات کی بنیاد پر اندازے لگاتی ہوں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کے متعلق میں پر یقین ہوں کہ وہ مجھ سے حسد کرتا ہے لیکن ہوسکتا ہے وہ صرف رشک کرتا ہو۔ حسد اور رشک میں بہت فرق ہوتا ہے۔ لیکن میں نے اس کے رویے سے اندازہ لگایا تھا کہ وہ مجھ سے حسد کرتا ہے اور مجھے ضرور تکلیف پہنچائے گا۔ حالانکہ اس نے پہلے کبھی مجھے تکلیف نہیں پہنچائی۔ مگر اس سوچ کے تحت میں نے اسے خود سے دور کر لیا۔ ہمیں اپنے خیالات میں ہمیشہ شک کی گنجائش رکھنی چاہیے کیونکہ ہم جو سوچتے ہیں وہ ہمیشہ صحیح نہیں ہوتا۔ حقیقت ہماری سوچ کے برعکس ہو سکتی ہے اور بعد میں پچھتانا بھی پڑ سکتا ہے۔ ہمیں اپنی ہر سوچ کو سچ ماننے سے پہلے خود سے یہ سوال ضرور کر لینا چاہیے اگر میں اس معاملے میں غلط ہوئی تو کیا ہوگا؟ آخر میں میں نے اپنے لا حاصل خوابوں اور تکلیف دہ لمحات کو ماضی سمجھ کر بھلا دیا اور حال میں رہنا سیکھ لیا میں نے یہ بات سمجھ لی کہ میرا ماضی حال پر اثر انداز ضرور ہو سکتا ہے لیکن اسے اپنے جیسا نہیں بنا سکتا۔ اس وقت جو موجود ہے وہی سچ ہے اور اس میں بدلاؤ لانے کی پوری گنجائش موجود ہے۔ میں منفی نہیں سوچتی تھی بس چیزوں کو دیکھنے کا میرا زاویہ مختلف تھا جسے بدل کر میں نے ساری ناامیدی ختم کردی۔ بالکل اسی طرح آپ بھی اپنی سوچ کا زاویہ بدل کر اپنی زندگی کو خوبصورت اور بامعنی بنا سکتے ہیں ۔
|