چین دنیا کی سب سے بڑی اور نمایاں ترقی کرنے والی معاشی قوت ہے جس نے 2010 ء میں جاپان کی جگہ لے لی۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا مینوفیکچرر، دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ اور دوسرا بڑا درآمد کنندہ ملک ہے۔ چین کی سالانہ اور تین سالہ شرح نمو 9.9 فیصد رہی۔ غربت کی شرح 60 فیصد سے کم ہو کر محض 10 فیصد رہ گئی اور 80 کروڑ لوگوں کو غربت کی سطح سے اٹھا کر ان کے معیار زندگی کو بلند کیا گیا۔ چین نے تمام ہزارئیے ہدف کامیابی سے حاصل کر لئے۔ اگر چین کے 31 صوبوں کو ایک آزاد پورٹ کے طور پر علیحدہ علیحدہ تصور کیا جائے تو ان کا دنیا کے 31 تیزی کے سے ترقی کرنے والے ممالک میں شمار ہوگا۔ دنیا کے 10 بڑے بینکوں میں دو کا شمار چینی بینکوں میں ہوتا ہے۔ دنیا کے پانچ سو بڑی کمپنیوں میں سے 61 کا تعلق چین سے ہے۔ چین کا ہائی وے نیٹ ورک دنیا کا دوسرا بڑا نیٹ ورک ہے۔ دنیا کے تین طویل سمندری پلوں کا تعلق چین سے ہے۔ چین ہر سال اپنے لوگوں کے لیے 90 لاکھ ملازمتیں تیار کرتا ہے۔ 2010ء تک امریکہ دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ تھا جبکہ 2011ء سے چین نے امریکہ کی جگہ لے لی ہے۔ اس وقت سے اب تک اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور وکٹری سٹینڈ پر ہے۔ 2030ء تک عالمی معیشت و سیاست میں چین کو وہ مقام حاصل ہو جائے گا جو برطانیہ کو 1870ء میں یا اکریک کو 1945ء میں حاصل ہوا تھا۔ 2009ء میں عالمی اوسط آمدنی والے افراد کی آبادی ایک ارب 80 کروڑ تھی جس میں سے دو تہائی یعنی 66 فیصد کا تعلق ایشیا سے ہوگا اور اس کی غالب اکثریت چین میں ہوگی۔ چین کی معیاری تعلیم کا اس کی تعمیر، ترقی اور معاشی نشوونما میں اہم کردار ہے اور چین کے تعلیمی ادارے ملک کے لیے محنتی، قابل اور ماہر افرادی قوت تیار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ چین اپنے طلباء و طالبات میں اندھی تقلید اور روایتی سوچ کے بجائے جدّت، تعمیر، ایجاد اور تخلیق کا جذبہ، محنت کی لگن اور خوب سے خوب تر کی جستجو پیدا کرتا ہے ہر سال لاکھوں چینی طلباء و طالبات چین میں محنت، لگن اور معیار کو بہتر بنانے کے عزم کے ساتھ محنت کی مقامی اور عالمی منڈی میں داخل ہوتے ہیں۔ اگلے دو عشروں میں چینی کالجوں اور جامعات نے 20 کروڑ طلباء و طالبات فارغ ہوں گے جو امریکی کل افرادی قوت سے بھی زیادہ ہیں۔ چین کی بڑھتی ہوئی اوسط آمدنی پر مشتمل آبادی حکومتی امور کو بہتر بنانے اور خدمات کی بہتر ترسیل میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔ چین کی شہری آبادی میں ہر سال ٹوکیو یا تیونس آئرس جی آبادی کے مساوی اضافہ ہو رہا ہے جو 2023ء ملک کی آبادی کا دو تہائی یعنی 66 فیصد ہو جائے گا۔ چین کا اثر و نفوذ مشرقی وسطی میں بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ان ممالک میں قابل تجدید توانائی، فن ٹیک، مصنوعی ذہانت، برقی کاروں کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس طلب کو پورا کرنے کے لیے چین نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ چین عالمی سرمایہ کاری میں عالمی قیادت کا کردار ادا کر رہا ہے۔ جی انسانی حقوق کو امریکہ کی طرح ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کر رہا ہے جس کا اس معاملے میں دوہرا معیار ہے جو عالمی سیاست کی شطرنج کی بساط کو سمجھنے والوں پر بخوبی عیاں ہے کیونکہ امریکہ کا انسانی حقوق کا معاملہ بھارت اور اسرائیل کے لیے مختلف جبکہ اسلامی دنیا، چین، رومی اور ایران کے لئے مختلف ہے۔ اس دوہرے معیار نے دنیا کے امن و سکون کو طے ہو بالا کر دیا ہے۔ چین سبز مالیات یعنی ماحول دوست سرمایہ کاری کا دنیا بھر میں لیڈر ہے۔ اس نے اپنے بی آر آئی (BRI) منصوبے میں متعدد "گرین زونز" کی تعمیر کو شامل کیا۔ چین اپنی کرنسی کو عالمی بنانے اور ڈالر کی اجارہ داری کو کم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ان کوششوں میں روس، برازیل، بھارت اور دیگر ممالک بھی اس کے ساتھ ہیں۔ باہمی کرنسی میں تجارت کرنے کا چین کے ساتھ 41 ممالک کا معاہدہ ہے جس کے تحت چین نے 2009ء سے 2020ء تک تین ہزار ہزار پانچ سو ارب یوآن کی تجارت کی ہے جو 554 ارب ڈالر کے مساوی ہے۔ سعودی عرب اور ایران شنگہائی تعاون تنظیم کے مستقل رکن بننے کے بعد اب جنوری 2024ء برکس (BRICS) کے مستقل رکن بننے جا رہے ہیں جو خود چین کے لیے بھی ایک بڑی کامیابی ہے۔ سعودی عرب کی معروف کمپنی آءامکو (Aramco)نے چین کے ساتھ 12 ارب ڈالر کے مشترکہ منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ سعودی عرب مغرب پر اپنے انحصار کو کم کر رہا ہے۔ برکس ڈالر کی اجارہ داری کا مخالف اور باہمی کرنسی میں تجارت کا حامی ہے۔ چین نے باہمی کرنسی تجارت کے لیے دنیا کے 20 بینکوں سے تعاون حاصل کیا ہے۔ سعودی عرب اور ایران نے اپنے اختلافات کو فراموش کر کے باہمی سفارتی تعلقات بحال کر لئے ہیں جس میں خطے میں پائیدار امن، ترقی و سلامتی میں حاصل ہوگی۔ اس سولہ میں چین کا کردار نہایت اہم ہے جس کے لیے پوری مسلم دنیا ان کی مشکور ہے۔ پاکستان کو بدلتے ہوئے عالمی صورتحال میں اپنا مقام بنانے کے لیے قومی سلامتی، معاشی ترقی اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا اور چین سے سیکھنا ہوگا۔ پی ٹی ائی اور پی ڈی ایم کی اہم کا نہ سیاسی چپقلش جو اصولی کے بجائے اختیارات کے حصول کے لیے ہے اس رونپے نہیں ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ملک کو پائیدار معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے "میثاق معیشت" پر اتفاق رائے پیدا کر کے طویل مدت کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ چین کے تعاون سے ٹیکنالوجی کی پیداوار کی مہارت کے لیے راہ ہموار کرنا ہوگی۔ قرض اور امداد کے بجائے تجارت اور ٹیکنالوجی کے حصول کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ چین نے ایک ہزار ارب ڈالر کی امریکی ٹریژری بانڈز میں سرمایہ کاری کی ہے اس طرح چین کی سرمایہ کاری امریکی معیشت کا حصہ ہے۔ چین کی عالمی معیشت میں پیش رفت اتنی مستحکم ہے کہ اس کی راہیں روکنا ممکن نہیں اس لیے اس سلسلے میں امریکہ، یار اپ اور بھارت نے جو گٹھ جوڑ کی ہے اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کو چین کے ساتھ اشتراک کر کے اپنے نوجوانوں کو علم اور ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا ہوگا، معیشت کو اولین ترجیح دینا ہوگی اور تمام تر سیاسی، فرقہ وارانہ، لسانی اختلافات سے بلند ہو کر محض پاکستانی سوچ اور فکر کو اپنانا ہوگا اگر چین سے سیکھے گئے سبق کو عمل شکل دی گئی تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستانی عالمی برادری میں باوقار مقام حاصل نہ کر سکے۔
|