سرگزشت ظفریات
(haseeb ejaz aashir, Lahore)
ظفر اقبال ظفر سے رفاقت پر مجھے فخر ہے جو کم و بیش ایک دہائی پر محیط ہے،میں اِن کی قلمی فن اور شخصیت کا ہمیشہ سے معترف ہی نہیں بلکہ مداح بھی ہوں۔ خوش اخلاق،دھیمہ لب و لہجہ،نرم گفتار اورشرافت و تہذیب کے مجسم ظفر اقبال ظفر ایک ملنسار و درویش منش شخصیت کے مالک ہیں۔زمانہ طالب علمی میں ہی ذوقِ مطالعگی ہم مزاج ہوئی جس نے انہیں قلم کاری کی جانب راغب کیا اور یوں موصوف آج صاحبِ اولاد ہونے کیساتھ ساتھ ایک شاہکار کتاب”ظفریات“کی صورت میں صاحب کتاب بھی ہوگئے ہیں،’ظفریات“ کسی شاعر کے اِس مصرعے کے مصداق ہے کہ ”رقصاں ہے لفظ لفظ میں اِک موجِ زندگی“۔دھنک مطبوعات کے زیراہتمام شائع ہونے والی اِس 96صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت صرف تین سو روپے ہے۔اِس کے مطالعے کی اہمیت کا اندازہ ناصر ادیب کی اِس بات یہ لگایا جاسکتا ہے کہ ”یہ کتاب ہر صاحب اولاد آدمی کے تکیے کے نیچے ہونی چاہیے“ |
|
|
ظفریات کا سرورق |
|
سرگزشت ظفریات حسیب اعجازعاشرؔ ظفر اقبال ظفر سے رفاقت پر مجھے فخر ہے جو کم و بیش ایک دہائی پر محیط ہے،میں اِن کی قلمی فن اور شخصیت کا ہمیشہ سے معترف ہی نہیں بلکہ مداح بھی ہوں۔ خوش اخلاق،دھیمہ لب و لہجہ،نرم گفتار اورشرافت و تہذیب کے مجسم ظفر اقبال ظفر ایک ملنسار و درویش منش شخصیت کے مالک ہیں۔زمانہ طالب علمی میں ہی ذوقِ مطالعگی ہم مزاج ہوئی جس نے انہیں قلم کاری کی جانب راغب کیا اور یوں موصوف آج صاحبِ اولاد ہونے کیساتھ ساتھ ایک شاہکار کتاب”ظفریات“کی صورت میں صاحب کتاب بھی ہوگئے ہیں،’ظفریات“ کسی شاعر کے اِس مصرعے کے مصداق ہے کہ ”رقصاں ہے لفظ لفظ میں اِک موجِ زندگی“۔آپ کی تحریروں میں فقرات مختصر مگر مضمون جامع ہیں، چاہے علمی موضوعات ہوں یا دینی یا پھر معاشرتی و سماجی، مصنف نے ہر پہلو کو جذبات واحساسات کو بیدار کر کے منطقیانہ استدلال کیساتھ عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر سپردِ قرطاس کیا ہے۔ مصنف کی بناوٹ اور تکلفات سے پاک،خلوص و سچائی سے لبریز زندگی کی سادگیاں اُنکی عام فہم تحریروں میں بھی نمایاں ہیں اور کچھ کر گزرنے کا عزم کچھ کر دیکھانے کا ولولہ بھی پوشیدہ نہیں۔چونکہ مضامین کو مبالغہ آرائیوں سے کوسوں دوراحساسِ آدمیت اور دردِ دل ہی نہیں بلکہ ادب کی آمیزش کیساتھ دل نشین انداز میں رقم طراز کیا گیا ہے جو کسی بھی لمحے طبیعت پر بوجھل پن کا احساس تک نہیں ہونے دیتے اور یوں جوں جوں ورق گردانی آگے بڑھتی ہے اگلے مضمون کو پڑھنے کیلئے بے تابی پہلے سے زیادہ بڑھنے لگتی ہے یہی وجہ ہے کہ راقم الحروف کیلئے ایک ہی نشست میں کتاب کا مطالعہ ممکن ہوسکا۔ کتاب کا انتساب حضرت ”فاطمہ ؓ کے بابا حسنینؓ کے نانا۔وجہ تخلیق کائنات۔سرکار دوعالم ﷺ کہ نام“ہے۔جن کی غلامی ملے تو ٹھوکریں سہاروں میں بدل جاتی ہیں غیبتیں تعریفوں میں اور الزام دعاؤں کی صورت دھار لیتی ہیں۔پُرمغز پیش لفظ بعنوان ”حالاتِ حافظہ“ میں مصنف نے کتاب کے مرکزی خیال کو سمونے کی کیا خوب سعی کی ہے لکھتے ہیں صاحب کتاب ہونا میرے لئے ایسا ہی ہے جیسے صاحب ایمان ہونا۔اِسی ایک فقرے نے موصوف کو اپنی منتخب تخلیقات یکجا کرنے پر آمادہ کیا۔عنوان”ظفریات“اورحمدان خالد کے تخلیق کردہ خوبصورت سرورق پر مصنف ظفر اقبال ظفر کا دلفریب عکس کتاب کو خود نوشت یا آپ بیتی ہونے کا تاثر تو دے رہے ہیں مگر 24مضامین پر مشتمل اِس کتاب کے مکمل مطالعہ سے ہی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کتاب کا سارا متن سوانح عمری کے دائرہ کار میں نہیں۔ ”ظفریات“مصنف کے زندگی بھر کے تلخ تجربات، مشاہدات، احساسات، جذبات،نشیب و فراز اور وارداتِ قلبی کامنفرد انداز و بیان میں خوبصورت اظہار ہے۔ناصر ادیب اور قاسم علی شاہ جیسی نامور قلمی شخصیات نے ”ظفریات“ بارے اپنی آرا کا اظہار کرتے ہوئے مصنف کی قلمی صلاحیتوں کا اعتراف بابنگ دہل بھی کیا ہے۔ناصر ادیب کی رائے میں ”ظفر اقبال ظفر سمندر کے کنارے جا کر سطح پر آنے والی مچھلیوں کو نہیں پکڑتا بلکہ سمندر میں چھلانگ لگادیتا ہے اور اُس کی گہرائیوں میں اُتر کر وہاں سے ہیرے موتی اپنے لفظوں کے جال میں اکٹھے کر کے لاتا ہے۔جبکہ قاسم علی شاہ کی نظرمیں ”ظفر اقبال ظفر نے مضامین کا انتخاب بہت عمدگی سے کیا ہے جو کہ سماجی اور معاشرتی مسائل کا عکاسی کر کے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کا سبب بنے گا“ مصنف نے اپنے مضمون”سرکارِ دوعالم حضرت محمد ﷺ کی محبت کے نام“میں اِس حقیقت کو بیان کرنے کی سعی کی ہے کہ عشق وہ نہیں جو صرف زبان پر مچلے بلکہ عشق وہ ہے جو سینے میں چھپے دل کے اندر ہو اور وہ چہرے و کردار سے جھلکے بھی۔جب تک آپﷺ کا غم ہمار اغم نہیں بنے گا،آپﷺ کی تڑپ ہماری تڑپ نہیں بنے گی،آپ ﷺ کی فکر ہماری فکر نہیں بنے گی ہم صرف نام کے عاشق رہے گے۔کتاب میں شامل”مکہ مدینہ کا خوابی سفر نامہ“ایک ایسے سفرِ لبیک اور خاص کیفیتِ سفر کی مہکتی داستان ہے جو قاری کے دل کو نہیں بلکہ روح کو بھی منور کر دیتی ہے کہ احساس ہونے لگتا ہے کہ پردے دھیرے دھیرے سے اُٹھنے لگے ہیں جو فاصلے کل تک بڑے طویل لگ رہے تھے آج مٹنے لگے ہیں،چشم تصور وہ مناظر ہو بہو اپنے سامنے دیکھنے لگے ہیں اور روح اختیار کی قید سے آزاد ہونے کو ہے،لوحِ جبیں ناقابل بیان کیفیت کی حالت میں رب ِ کائنات کے قدموں میں سجدہ ریز بھی ہورہی ہے۔زبان اعتراف خطا ؤں کو مچلنے لگی ہے اور جھکی،شرمندہ آنکھوں سے ندامت کے آنسوؤں کا سمندر اُمڈنے کو ہے۔ مصنف کو اپنے اِس روحانی سفر کے قدم قدم پر جو جو روح پرور مناظر اپنے حصارو طلسم میں لئے چلے گئے وہ اُنہیں من و عن قرطاس پر ایسے ایمان افروز منظرکشی کیساتھ منتقل کرتے چلے گئے کہ یہ تحریر قاری کو اپنے ساتھ ساتھ کبھی مکے کی گالیوں میں اور کبھی مدینے کے کوچوں میں ساتھ لئے پھرتی ہے۔ ایک طرف ”ظفریات“دردمندی اور دانشوری کا ایک حسین امتزاج ہے لیکن دوسری طرف مضمون بعنوان”بابا بلھے شاہؒ کی روحانی عظمت کو سلام“ میں مصنف کی سماجی و تہذیبی شکست و ریخت سے دوچار معاشرتی رویوں سے خوب اظہارِ ناراضگی کیلئے الفاظ کے چناؤ میں تلخی اور کاٹ بھی ہے جو شاید ہر کسی کے مزاج سے مماثلت نہ کھائے لیکن مصنف جسے اپنا عین فرض سمجھا اُسے ادا کرنے کا حق ادا کیا۔ایسی ہی بے باکی چند دیگر مضامین بعنوان”جہالت غربت اور میں“، ”جاگیریں نسلوں کی تقدیریں یا مسائل کی زنجیریں“،”اسلام کی تبلیغ کردار کی دعوت سے ہوتی ہے“ اور”کرائے دار“میں خوب چھلک رہی ہے۔ جبکہ ”جہیز کا خاتمہ مر د کی مشکل آسان کرے گا“ میں مصنف نے ہمارے چہروں پر چڑھے بناوٹی روپ کو کیا خوب نوچ کر ہمیں آئینے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے، اِن کی ہمت قابل داد ہے،لکھتے ہیں کہ ”غریب باپ جہیز بناتے بناتے خود زندہ دفن ہوجاتا ہے لقمہ لقمہ کر کے بارات کا کھانا کمانے والے باپ کی اس کاوش میں بھی خراب عقل و معدے کے باراتی عیب نکالتے ہیں“پھر آگے چل کر مصنف کا یہ اقدام بھی خراج تحسین کے قابل اور قابل تقلید ہے کہ اُنہوں نے کیسے یہ کہتے ہوئے جہیز واپس کر ڈالاتھا کہ ”کسی غریب یتیم مسکین بچی کو وقف کر دیں جسے مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت ہو میں اپنی کمائی ہوئی روٹی اپنے خریدے ہوئے برتنوں میں کھانا پسند کرتا ہوں“۔عہدحاضر میں ایسی تحریر شدید گرم موسم میں سڑک کنارے شدتِ پیاس سے دم توڑتی معصوم چڑیا کے منہ میں ایک گھونٹ پانی ڈالنے کے مترادف ہے کہ کیسے قلم سے معاشرے کی تشکیل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ذمہ دار طبقے کی حساسیت و شعور عوام کے حقیقی مسائل سے آشنا نظر آ رہی ہے اور اِس کے ادراک کیلئے سنجیدگی سے ایک فکر کو اُجاگر کیلئے کوشاں بھی ہے۔ ”تو اور تیرا سب کچھ تیرے باپ کا ہے“، ”بچوں کی بات بڑوں کے ساتھ۔سکول کی یادیں“، ”کامیابی کی منفرد نظیر امتیاز بشیر“،’میرا ہمذاد عارف لوہار“ اور”شافع محشرﷺ کے مولف میاں محمد اسلم جاوید کے نام“جیسے مضامین صاحب کتاب کی پرانی حسین یادوں،اِن سے جڑے مقدس رشتے ناطوں،اِن بے مثال رشتے ناطوں کی عظمت و اہمیت اورکچھ بچھڑے ہوئے انمول کرداروں کے سنگ گزرے شب و روز سے مہک رہے ہیں۔دنیا تو ماں کی نصیحتیں وصیتیں ہوا میں اُڑا دیتی ہے مگر ”انسان کی خدائی محبت کا نام ماں ہے“ میں مصنف نے اِس راز کو بھی فاش کیا ہے کہ اُنہوں نے اپنی ماں کے پیوند لگے برقع کی چادر بنا کر محفوظ کر رکھی ہے اور جب جب یاد ستانے لگتی ہے تو اپنے اوپر اُوڑھ کر دل کا غم ہلکا کر لیتے ہیں۔اِس تحریر کے پیش نظر میں مجھے قوی یقین ہے کہ ماں کودی گئی اُن کے مقام کے شیانِ شان محبت اوراحترام کا صلہ ہے کہ آج اللہ اُن کی جھولیاں محبتوں،مقام،عزتوں اور احترام سے بھر رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی طلاق کی وجہ رشتوں کے تقدس سے نا آشنائی اور عدمِ برداشت ہے اور اِس اہم نقطہ کی طرف بھی مصنف نے اپنے مضمون ”عورت اور گھر داری“ میں نشاندہی کی ہے کہ ”اسلوب بیوی کا وہ زیور ہوتا ہے جو گھر کی ہر شے میں جھلکتا ہے چاہے جھونپڑی ہومٹی کے چند برتن ہوں مگر صفائی اور سلیقے سے ترتیب دے رکھے ہوں تو ایسے لگتا ہے جیسے خدا کی نعمتوں کی قدردانی کا حق ادا ہورہا ہے،جوغریبی کو بھی سجا دیتا ہے،شوہر کو لگتا ہے اسی کی آمد کے انتظار نے سینے میں ٹھنڈی سانسوں کی اگر بتیاں سلگائے رکھیں تھیں شوہر پرستی میں سب کچھ قربان کر کے نبھانے والی عورت اپنی خدمت و ادب کی دولت سے جنت خرید رہی ہوتی ہے۔“کاش میاں اور بیوی کو اپنے اپنے فرائض بارے احساس ذمہ داری ہوجائے،دونوں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے بجائے فرائض کی ادائیگی سے اپنے گھر کو جنت بنائیں۔ مضمون بعنوان”آسمانی شادی“ بھی قابل مطالعہ ہے کہ مصنف کا یہ جملہ کہ ”محترم میں گاہک نہیں خداکا پیغام ہوں جو آیا نہیں بھیجا گیا ہوں۔۔۔۔۔“کیسے غریب باپ کی بیٹی کی بااحسن انداز میں رخصتی کا سبب بن جاتا ہے۔یہ مضمون یقینا قاری کے اندر ایک نئی فکر و تحریک کو جنم بھی دے گا مگر مطالعہ شرط ہے۔ جسے خوفِ آخرت ہو وہ کبھی دنیا کی چکا چوند سے متاثر نہیں ہوتا اور نہ ہی اُس کا قول وعمل کسی کے لئے باعثِ آذیت بن سکتا ہے۔اِس فکر نے مصنف کو بھی گھیر رکھا ہے کہ اللہ کے حضور پیش ہونا ہے،اپنے مضمون ”میدان حشر میں پیشی کا خیال“میں اِس اسلامی تعلیمات کو عام کرنے میں کوشاں ہیں کہ کامیاب انسان وہ ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کر لے۔مضامین ”خدا کی تلاش میں نکلے قلمی مسافر کی کارگزاری“،”انسانی دنیامیں رُوحانی زندگی جینے والے لوگ درویش کہلاتے ہیں“، ”خوشبو کی روحانی و جسمانی اہمیت“میں بھی ایک الگ ہی ایسا پرکشش رنگ بکھر ا ہے جو قاری کو اپنے ساتھ جکڑا رکھتا ہے۔ مضمون”کتاب سے قلم کا سفر“میں مصنف اپنی اُس دعا کا تذکرہ کر رہے ہیں جوبارگاہ الہی کے حضور دست بدستہ کی گئی کہ”مالک میرا لکھنا اگر تجھے پسند نہیں تو میرے دل میں اُتار دے میں قلم کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا اور اگر تو نے پسند کیا ہے تو اسے بندوں کی بھی پسند بنا دے“پھر چشم فلک نے وہ قابل رشک منظربھی دیکھے کہ کیسے مصنف کے مضامین پاکستان بھر کے معروف اردو اخبارات میں ہی نہیں بلکہ سرحد پار ہندی جرائد و اخبارات کے زینت بھی بنے۔جب حوصلے جواں ہوں، عزم بلند ہو، نیت صاف ہواور ایک اللہ پر یقینِ کامل ہو تو منزلیں خود چل کر ایسے ہی قدموں تلے آ بچھتی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں رقم لفظ لفظ ایک داستان ہے جو قارئین کے دلوں پر اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔مضامین میں کہیں الفاظ کے آنکھیں پرنم ہیں اور کہیں کسی کی آنکھیں پونچھ رہے ہیں اور کبھی کسی سانحے پر اِن کے سینے پر دھک دھک کرتا دل قرطاس پر اُبھرتا نظر آتا ہے،کہیں الفاظ میں اپنائیت کا ا قرارہے تو کہیں غصے کا اظہاربھی،کہیں الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں تو کہیں ظالم کے گریبان پر پڑتے دیکھائی دیتے ہیں۔کہیں الفاظ غالب ہیں تو کہیں ایسے بے بس کہ اِن کے ہونٹوں کو قفل لگے ہیں۔کہیں الفاظ کی گھن گرج ایوانوں کی دیواروں کو زمین بوس کر رہے ہیں تو کہیں کمزور کی بے ساکھی بن رہے ہیں۔ کہیں الفاظ کسی گہری سوچ میں ہیں اور کہیں اِن کے چہرے پر تبسم بکھرا ہے۔کہیں الفاظ عقیدت کی پتیاں نچھاور کررہے ہیں تو کہیں محبتوں کے گلدستے وصول کر رہے ہیں۔ مصنف کے الفاظ کیسے کیسے کن کن جادوگریوں سے قاری کو اپنے سحر میں لے لیتے ہیں یہ راقم الحروف کے بے ترتیب جملوں سے نہیں بلکہ کتاب کے مطالعے سے جانا جاسکتا ہے۔دھنک مطبوعات کے زیراہتمام شائع ہونے والی اِس 96صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت صرف تین سو روپے ہے۔اِس کے مطالعے کی اہمیت کا اندازہ ناصر ادیب کی اِس بات یہ لگایا جاسکتا ہے کہ ”یہ کتاب ہر صاحب اولاد آدمی کے تکیے کے نیچے ہونی چاہیے“۔مصنف لکھتے ہیں کہ ”میرے حالات ایسے ہیں کہ کسی استاد کو شاگردی کے لئے وقت دے سکا اور نہ ہی وقت نے مجھے کوئی ایسا استاد دیا۔میرے لئے کتاب ہی اُستاد ہے“۔مگر مطالعہ”ظفریات“تو کچھ اورہی عندیہ دے رہا ہے کہ موصوف کو الفاظ کے چناؤ اورموقع محل کے مطابق بااحسن خوبی استعمال پر ایسی خوب دسترس ہے کہ یہ اُستادیاں تو اُستادوں کے اُستادہی لگا سکتے ہیں،بہرحال”ظفریات“کے مطالعہ سے کہیں کہیں یہ احساس قاری کی سوچ دستک ضروردیتا ہے کہ مصنف کے اندر ابھی بڑے سوالات پوشیدہ ہیں جو اِن کی نئی کتاب میں بے نقاب ہونگے یعنی اُستادیاں ابھی باقی ہیں۔قلم قبیلہ اپنے اِس پیارے دوست کی مزید ترقی و کامرانی کیلئے تہہ دل سے دعاگوہ ہے۔ ................................... حسیب اعجاز عاشرؔ 03344076757 [email protected]
|