ایک کتاب میں درج یہ واقعہ والد صاحب نے سنایا تھا ،اس لئے ابھی تک یاد ہے ۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک شخص جو بہت گناہگار تھا ،راستے میں کہیں جارہا تھا کہ اس کی نظر زمین پر گرے ایک کاغذ پر پڑی ،اس نے اس کاغذ کو اٹھالیا ،صاف کیا اور کہا " یہ میرے اللہ کا نام ہے ،یہ میرے اللہ کا نام ہے " پھر اسے بوسہ دے کر کسی اونچی اور محفوظ جگہ پر رکھ دیا ۔ وہ شخص جب فوت ہوا تو کسی نے اسے خواب میں دیکھا اور اس کا حال پوچھا ،اس شخص نے بتایا کہ اور تو کوئی نیکی میرے پلے نہیں تھی لیکن بس وہ اک ادائے بندگی میرے رب کو بھاگئ جب میں نے کاغذ پر اللہ کا نام لکھے دیکھا اور اسے اٹھا کر بوسہ دے کر محفوظ جگہ پر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔ ~ ادب پہلا قرینہ ہے ،محبت کے قرینوں میں !
اب یہ قرینے ہماری نوجوان نسل کو کون سمجھائے ؟جس نے ہر فیشن کی پیروی کرنا اپنا فرض سمجھ لیا ہے۔حروف کی حرمت کا خیال رکھنا ہمارا دین سکھاتا ہے ۔ قرآن پاک میں "ن والقلم وما یسطرون " پڑھ لیں ۔ ہر انسان کے ساتھ اعمال لکھنے والے فرشتوں کا خوبصورت ٹائٹل " کراما" کاتبین" یعنی معزز لکھنے والے،پڑھ لیں۔علماء کے قلم کی روشنائی کی فضیلت پڑھ لیں۔ تحصیل _ علم کو فرض قرار دیا گیا اور لکھنے لکھانے کے سب امور کو محترم ٹھہرایا گیا۔ آج کل ایک رواج چل پڑا ہے کہ لوگ اردو ،عربی رسم الخط والے کپڑے پہننے اوڑھنے لگے ہیں۔ دوپٹوں اور چادروں پر غزلیں لکھی ہوتی ہیں ،سوٹوں پر افسانے ۔ ایک خاتون نے سوشل میڈیا پر واقعہ لکھا تھا جسے پڑھ کے میں نے اس موضوع پر آواز اٹھانے کا سوچا ،یہ واقعہ ناگواری سے لکھ رہی ہوں تاکہ صورت حال واضح ہوسکے ۔بس میں سوار ایک لڑکی نے کیلی گرافی والا لباس پہن رکھا تھا جس پر کہانی لکھی ہوئی تھی ،وہ جب بس سے اتری تو ایک لڑکا خواہ مخواہ اس کے پیچھے چلنے لگا ،اس لڑکی نے ڈانٹ ڈپٹ کی تو لڑکے نے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ تو صرف لباس پر لکھی کہانی پڑھ رہا تھا۔ اس صورت حال کا زمہ دار کسے ٹھہرایا جاۓ ؟ یقیناً ایسا لباس راہگیروں کو متوجہ کرسکتا ہے۔ حیا اور حجاب کے تصور کی پامالی کا خدشہ ہے. پھر کپڑے پر جو کچھ تحریر (content) ہوتا ہے ،وہ اخلاقی لحاظ سے بھی غیر معیاری اورنوجوان ذہن کے لئے مضر ہوتا ہے۔چاہے صرف حروف لکھے ہوں ،عبارت نہ ہو مگر علمائے کرام کے نزدیک ایسا لباس پہننا جائز نہیں ہے البتہ اگر کوئ عربی رسم الخط والے کپڑے کو فریم کرواکے دیوار پر آویزاں کرے تو اس کی ممانعت نہیں ہے ۔ (بحوالہ فتویٰ ،دارالعلوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن)۔ اپنی بہنوں ،بیٹییوں اور اہل_ علم وادب طبقے کو حروف والے ملبوسات خریدنے اور پہننے سے روکنا چاہئیے ۔ وما علینا الاالبلاغ ۔
|