مسجدالحرام اور مسجد نبویؐ کے بعد مسجدِ اقصیٰ مسلمانوںکیلئے تیسرا مقدس ترین مقام اور وہ مسجد ہے جس کی جانب سفرکرنا باعث برکت ہے۔ قبلہ اوّل کی حیثیت رکھنے والی مسجد اقصیٰ کی سب سے بڑی فضیلت یہی ہے کہ نماز فرض ہونے کے بعد16سے17ماہ تک مسلمان اس کی جانب رُخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ یہی وہ مسجد ہے جہاںحضرت محمد ﷺ سفرِ معراج کے دوران براق کے ذریعے مسجد الحرام سے یہاںپہنچے اوریہاں تمام انبیا ؑکی امامت کی اور پھر سات آسمان کے سفر پر روانہ ہوئے۔ بیت المقدس کی تاریخبیت المقدس کو یورپی زبانوں میںیروشلم(Jerusalem)کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے وہ مبارک گھر جہاں گناہوں سے پاک ہوا جاتا ہے۔ یروشلم یا القدس شہر مسلمانوں ، یہودیوں اور عیسائیوں تینوںکے نزدیک بہت مقدس مقام ہے۔ تاریخی شواہد کے مطابق 1012 قبل مسیح میں یہاں حضرت سلیمانؑ نے جنّوں کے ذریعے ہیکل تعمیر کروایا تھا۔اسے بنی اسرائیل کے نبیوں کا قبلہ بھی قرار دیا گیا۔ ہیکل تعمیر کرنے کا مقام حضرت دائود ؑ نے منتخب کیا تھا۔ اس ہیکل کی تعمیر7برس میںمکمل ہوئی اور2لاکھ سے زائد افراد اس کی تعمیر میں مسلسل مصروف رہے۔ حضرت سلیمان ؑ کے زمانے میں بیت المقدس اپنے دور کا خوبصورت ترین شہر بن گیا، جس کے باعث یہاںبڑے بڑے تجارتی کاروان آنے لگے۔مسجد اقصیٰ کی تعمیرمسجد اقصیٰ مشرقی بیت المقدس میںواقع ہے، جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے، اس میں5ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ صحن میںبھی ہزاروںافراد فریضۂ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ حضرت یعقوب ؑکو مسجد اقصیٰ کا معمار مانا جاتا ہے، بعد میںاس کی حضرت دائودؑ اور ان کے بعد حضرت سلیمانؑ نے تجدید کروائی۔ یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً1300کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ بیت اللحم اس کے جنوب اور رام اللہ (Ramallah)شمال میںواقع ہے۔سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے عیسائیوں سے قبلہ اوّل کو آزاد کروانے کیلئے تقریباً16جنگیں لڑیں اور 583ھ میں بیت المقدس فتح کرکے مسجد اقصیٰ کو اندر سے عیسائیوںکے تمام ترنشانات اور تعمیرات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کی از سر ِ نو تعمیر کروائی۔ 595ھ میں ایوبی خاندان نے پہلی بار مسجد کو عرقِ گلاب سے غسل دیا۔ 634ھ میںملک عیسیٰ اور 686ھ میں ملک المنصور سیف الدین نے مسجد کی وسعت میںاضافہ کیا جبکہ 865ھ میں ناظر الحرمین الامیر عبدالعزیز العراقی کے دور میںبھی اس مسجد کی تزئین و آرائش کی گئی۔ مسجد اقصیٰ اور گنبد صخرہ کی تعمیر گنبد صخرہ کی تعمیرجب حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانے میں بیت المقدس فتح ہوا تو حضرت عمرؓ نے صخرہ اور براق باندھنے کے مقام کے قریب مسجد کی تعمیر کا حکم دیا۔ مسجد صخرہ کی تعمیر کئی مراحل سے گزری۔74ھ میں خلیفہ عبدالملک بن مروان نے مسجد کی تعمیر شروع کروائی اور 86ھ میںان کے بیٹے خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اسے مکمل کروایا۔ اس مسجد کی تعمیر میں خرچ ہونے والا سرمایہ مصر کے سات سال کے اخراجات کے برابر تھا۔ جب تعمیر مکمل ہوئی تو مسجد کی تعمیر کیلئے مختص رقم میںسے ایک لاکھ دینار باقی بچ گئے۔ خلیفہ نے یہ رقم دونوںنگرانوں کو بطور انعام دینا چاہی تو انھوں نے انکار کردیا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ اپنی بیویوں کے زیور بیچ کر اس مسجد پر لگادیں۔ چناچہ خلیفہ نے سونے کے دینار ڈھلواکر مسجد کے دروازوں پر سونے کی چادریں چڑھادیں۔130ھ میںآنے والے زلزلے کے باعث جب اسے بہت نقصان پہنچا تو خلیفہ جعفر نے یہ چادریں اتروا کر سکومیں ڈھلوائیں اور انھیں لوگوں میں تقسیم کردیا۔163ھ میں خلیفہ مہدی بن جعفر نے مسجد کی حدود کی چوڑائی کم کرکے اس کے طول میں اضافہ کروادیا۔ 426ھ میں اس مسجد کو زلزلے سے نقصان پہنچا تو خلیفہ نے مرمت کے دوران جو گنبد بنوایا وہ آج تک موجود ہے۔ خلیفہ نے مسجد کے شمال کی جانب 7دروازے تعمیر کروائے۔ 492ھ میںہونے والی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کیاتو انہوں نے مسجدصخرہ کی تعمیر میںبہت ردّ و بدل کی۔ انہوں نے رہائش کیلئے مسجد میں کمرے بنائے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھ دیا۔ اس کے علاوہ بھی اس دور میں دیگر تعمیرات کی گئیں جو بطور جائے ضرورت اور اناج کے اسٹوریج کیلئے استعمال ہوتی تھیں۔ عیسائیوں نے مسجد کے اندر اور اس سےملحق ایک گرجا گھر بھی تعمیر کردیا۔اس دور میں عیسائی گنبد صخرہ کے ٹکڑے توڑ کر اپنےعلاقوں میں لے جاتے تھے اور سونے کے عوضانہیںفروخت کرکے مال کماتے تھے۔ مسجد اقصیٰ اور گنبد صخرہ کی تعمیر گنبد صخرہ اور مسجد اقصیٰ میں ابہامانسائیکلو پیڈیا الموسوعۃ الفلسطینیہ (203/4)کے مطابق مسجد اقصیٰ کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا، جس میںگنبد صخرہ بھی شامل ہے۔ گنبد صخرہ کو مسجد اقصیٰ کے صحن کے وسط اور قدس شہر کے جنوب مشرقی جانب بنایا گیا ہے ۔ آجکل گنبد کی تصاویر منتشر ہونے کی وجہ سے اکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصیٰ خیال کرتے ہیں، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں، مسجدی بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں واقع ہے جبکہ یہ گنبد صحن کے وسط میں اونچی جگہ پر موجود ہے ۔969ھ سے 1341ھ تک مسجد اقصیٰ اور قبہ صخرہ خلافت عثمانیہ ( ترکی کی ) کے زیرِانتظام رہیںاور گاہے بگاہے اس کی تعمیر میں ردّو بدل کیا جاتا رہا۔ 1945ء میں یہودیوں نے مسجدمیں بم پھینکے، جس کی وجہ سے باب اوسط گر گیا اور گنبد کو بہت نقصان پہنچا۔1967ء میںیہودیوں نے گنبد کے بعد مسجد کو اور زیادہ نقصان پہنچایا ۔ 1969ء میں مسجد اقصی ٰ میں آتشزدگی کا خوفناک حادثہ رونما ہوا، اس موقع پر یہودیوں نے مسجد کا منبر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
|