حِز بُ الشیطان شیطانی قوتوں کی کارستانیاں قرآن حکیم کی روشنی میں تحقیق و تصنیف: اَظہر انور
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
حِز بُ الشیطان شیطانی قوتوں کی کارستانیاں قرآن حکیم کی روشنی میں تحقیق و تصنیف: اَظہر انور ڈاکٹرجمیل جالبی فآنڈیشن کے ذمہ داران، پیش نظر تصنیف کے محقق و مصنف جناب اظہر انور صاحب، مہمان خصوصی و مہمانان اعزازی، آج کی اس تعارفی تقریب کی میزبان پروفیسر نوشابہ صدیقی صاحبہ، اردو سندھی ادبی سنگت کی شریک چیرئ پرسن محترمہ گلناز محمود صاحبہ جو کتاب کے مصنف کی اہلیا بھی ہیں، خواتین وحضرات! حِزب عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’گروہ، جماعت، پارٹی یا جتھا۔ حِزب اللہ یعنی اللہ والوں کی جماعت، نیک لوگوں کی جماعت اور کتاب کا عنوان ”حِزب الشیطان“ کے معنی ہیں شیطان کا گروہ یا شیطانی عمل کرنے والے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ان لوگوں کے لیے آیا ہے ’جو شیطان کی پیروی کرتے ہیں اور آخرت میں نقصان اٹھائیں گے“۔پہلے تو مصنف کو مبارک باد کہ انہوں نے ایک اہم موضوع کو جو عام بھی ہے اور ہماری زندگیوں میں اس قدر سرائیت کر چکا ہے کہ آج ہمارے معاشرہ میں جتنی بھی برائیاں، خامیاں ہیں وہ سب اسی شیطان کی وجہ سے ہیں۔ یہ ہمیں ورغلاتا ہے اور انسان اس کی باتوں میں آکر اس کے گروہ میں شامل ہوجاتا ہے۔ مقررین نے کتاب کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ان کی عالمانہ گفتگو سے کتاب میں شامل تمام موضوعات ہمارے سامنے آگئے۔ شیطان اور انسان کی عمر کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرشتہ شیطان بننے پہلے ابلیس تھا اور اللہ کی حمد، تعزیم و تکریم کرنے، عبادت کرنے میں پیش پیش تھا۔ جب اللہ رب العزت نے انسان کو یعنی آدم علیہ السلام کو مٹی سے تخلیق کیااور اس میں روح پھونکنے سے پہلے فرشتوں سے کہا کہ اس انسان کو سجدہ کرو، یہ اللہ کا حکم تھا، سب فرشتے اپنے خالق کا حکم بجا لائے اور آدم کو سجدہ کیا عین اس وقت یہ جو فرشتہ تھا باغی ہوگیا، خالق کائینات کے حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے صاف منع کردیا کہ میں اس انسان سے برتر ہوں اس لیے کہ میں آگ سے بنا ہوں اور انسان کو تونے مٹی سے بنایا ہے۔ اس لیے میں اسے سجدہ نہیں کرون گا۔ یہاں سے شیطان اور اس کے گروہ کا آغاز ہوگیا، اظہر انور صاحب نے اپنی کتاب میں اسی گروہ کو ”حِزب الشیطان“ کہا اور اس کی تفصیل قرآن حکیم کی روشنی میں بیان کی ہے۔ قرآنی موضوعات پر گفتگو انتہائی احتیاط کا تقاضہ ہے۔ساتھ ہی یہ ہمارے ایمان کا لازمی جذ بھی ہے۔ قرآن کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پرعمل کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ مسلمان کی حیثیت سے ہمیں اس کا مطالعہ کرنے، اس میں درج احکامات، ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرنا چاہیے۔ مَیں مذہبی عالم فاضل نہیں، البتہ اسلامی موضوعات پر لکھنے کے علاوہ اردو میں قرآن کریم کا خلاصہ لکھنے کی سعادت حاصل کرچکا ہوں یہ خلاصہ سابقہ چار سالوں کی محنت ہے جو بہت جلد کتابی صورت میں منظر عام پر آجائے گی۔ جیسا کہ مصنف نے بھی اپنے پیش لفظ میں لکھاکہ قرآن کریم کی سورۃ ’مجادلہ‘ میں اللہ نے دو گروہ کا تذکرہ کیا ہے آیت19 میں شیطان کے گروہ کا تذکرہ ہے اورآیت 22میں اللہ کے گروہ کا تذکرہ ہے۔کسی بھی مسلمان کے گھر جو بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اللہ کے گروہ کا فرد ہوتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ وہ بڑا ہوتا ہے اگر نیک عمل کرتا ہے، اللہ کے فرمان کی پیروی کرتا ہے، قرآنی اصولوں کو اپنی زندگی پر لاگو کرتا ہے وہ اللہ کے گروہ کا فرد رہتا ہے، جنت ایسے ہی نیک لوگوں کے لیے ہے لیکن اگر وہی بچہ شیطانی عمل کرتا ہے، برائیوں، بد اعمالیوں میں شریک ہوکر برے کام کرتا ہے، اللہ کے احکامات کی نفی کرتا وہ شیطان کے گروہ کا فرد ہوتا ہے۔ کتاب کے مصنف نے قرآن کریم کی مختلف آیات سے یہ بات بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ کامیاب نظرآتے ہیں کہ ہم اللہ کے گروہ میں کیسے شامل ہو سکتے ہیں۔ پیش نظر کتاب میں قرآن کی مختلف آیات جو شیطان کے حوالے سے ہیں بیان کی گئیں ہیں۔ یہاں میں قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ ص ؔکی آیات 71تا81میں شیطان اور شیطانی گروہ کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان بیان کرنا چاہوں گا ”جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے بشر بنانے والا ہوں۔ جب اس کو درست کرلوں اور اس میں اپنی رُوح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گِرپڑنا۔ تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔ مگر ابلیساکڑ بیٹھا اور کافروں میں ہوگیا۔ اللہ نے فرمایا کہ اے ابلیس جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اُ س کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کِس چیز نے منع کیا تو غرور میں آگیا یا اونچے درجہ والوں میں سے تھا۔ بولا کہ میں اس سے بہتر ہُوں (کہ) تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا۔ کہا پروردگار نے۔۔ یہاں سے نکلجا تُو مردُود ہے۔ اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت پڑتی رہے گی۔ کہنے لگا کہ میرے پروردگار مجھے اس روز تک کہ لوگ اتھائے جائیں مُہلت دے فرمایا اللہ نے۔۔تجھ کو مہلت دی جاتی ہے۔ اُس روز تک جس کا وقت مقرر ہے۔ کہنے لگا کہ مجھے کہ مجھے تیری عزت کی قسم میں اُن سب کو بہکاتا رہوں گا۔ سوائے اُن کے جو تیرے خالص بندے ہیں۔ کہا سچ ہے اور میں بھی سچ کہتا ہُون۔ کہ میں تجھ سے اور جواُن میں سے تیری پیروی کریں گے سب سے جہنم کو بھردُوں گا۔ کتاب کی ایک اہم خصوصیت اس کا موضوع تو ہے لین اس اہم موضوع کو آسان انداز میں، سلیس زبان، قصہ کہانی والے انداز میں لکھا گیا ہے۔ اس کا آغاز ہی دادی ماں سے کہانی سننے سے ہوتی ہے۔ جس میں دادی اماں اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں کو شیطان کے حوالے سے کہانی سناتی ہیں۔ دادی نے شیطان کی مثالیں دیں، جیسے کسی کو شیطان کی اولاد کہہ دینا، شرارتی بچے کو کہنا کہ یہ بہت شیطان ہے یا شرارتی ہے، اکثر کہا جاتا ہے کہ بچون شیطانی نہ کرو، لفظ شیطان عرف عام میں برائی کی علامت ہے۔ یہ شیطان ہی تو ہے جو انسانوں سے بے شمار برائی کے کام کراتا ہے یہاں تک کہ ایک انسان دوسرے کو جان سے بھی ماردیتا ہے، بچوں پر ظلم و زیادتی یہ شیطانی فعل ہی ہے۔ کتاب میں اس بات پر بھی بات ہوئی ہے کہ اللہ پاک نے شیطان کو نا فرمان ہی کیوں ہونے دیا، پھر اسے مہلت کیوں دی کہ وہ انسانوں کو بہکائے اور اسی قسم کے سوالوں کے جوابات مصنف نے دادی اماں سے دلوائے۔ شیطان کو مہلت دینے کا مقصد اصل میں صرف انسانوں کی آزمائش ہے۔ جب شیطان انسانوں میں وسوسہ ڈالتا ہے،تاکہ انسان نیک کام کرنے سے باز رہے۔ مفکرین نے شیطان کو اپنا موضوع بنایامان میں عالمی اسلامی مفکرین کے علاوہ مغربی مفکرین جیسے انتے، ملٹن، گوئٹے، ورلین،برنارڈ شاہ اور دیگر شامل ہیں۔ ابلیس مغربی ادب میں بہت سے نظموں اور ڈراموں کا موضوع رہاہے۔لیکن اقبال کی یہ نظم ہر اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے اپنی کئی نظموں میں ابلیس کو موضوع بنایا۔ان کی ایک نظم’مکالمہ جبرئیل و ابلیس بہت معروف ہے۔اس نظم کی مثال عالمی ادب میں بھی مشکل سے ملتی ہے۔ بقول پروفیسر وارث علوی’مغربی مفکرین نے شیطان کے متعلق جو کچھ کہنا چاہا ہے اس سے کہیں زیادہ اوعر کہیں گہرا اقبال نے اپنی نظم سمودیا ہے‘۔نظم مکالمہ کے کچھ اشعار ؎ جبریل: ہمدم دیرینہ! کیسا ہے جہاں رنگ و بو؟ ابلیس: سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو جبریل: ہر گھڑی اجلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاک دامن ہو رفو؟ ابلیس: آہ اے جبریل تو واقر نہیں اس راز سے کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو اب میری گذر ممکن نہیں، ممکن نہیں کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخو کو جس کی نومیدی سے ہو سوز درون کائنات اس کے حق میں تقنطو اچھا ہے یا لا تقنطو؟ جبریل: کھو دیے انکار سے تونے مقامات بلند چشم یزداں میں رشتوں کی رہی کیا آبرو ابلیس: ہے مری جرأت سے مشت خاک میں ذوق نمو میرے فتنے جامہئ عقل و خرد کا تار و بو دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر کون طوفان کے طمانچے کھارہا ہے؟ میں کہ تو؟ خضر بھی ہے دست و پا، الیاس بھی دست و پا میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا، جو بہ جو گر کبھی خلوت میسر ہوتو پوچھ اللہ سے قصہ ئ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو؟ میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح تو فقط! اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو کتاب کے مصنف اظہر انور کو ادبی ذوق ورثہ میں ملا، ان کے والد بزرگوار شاعر اور ادیب تھے، معروف شاعر جوشؔ ملیح آبادی کے ہم عصر اور ان کے ہم خیال تھے۔پیش نظر تصنیف اظہر انور کے خاندان میں پائے جانے والے علمی، ادبی اور شعری ذوق کا ہی نتیجہ ہے۔ ہر سوال کا جواب قرآنی آیات کی روشنی میں، دلچسپ واقعات طنز و مزاح سے بھر پور جملے، اردو محاوروں سے مزین تصنیف ہے۔ اسے بجا طور پر اسلامی اور اصلاحی کتاب ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ کہانیوں میں قرآنی آیات کی شمولیت سے مشکل بات آسان ہوگئی ہے۔ مصنف کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد (12اکتوبر2023)
|