میرے پیر و مرشد میرے استاد ماسٹر عبید الرحمٰن عدیمی ۔

وہ مسکراتے اور کہتے تھے جیتے رہو میں تو اب بھی جی رہا ہوں لیکن وہ گھنا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ کبھی کبھی دل کرتا ہے میرے پیر و مرشد ماسٹر عبیدالرحمٰن صاحب حیات ہوتے تو اپنی ہر کامیابی پر جاکر ان کے قدموں کو چھوتا ان کے ہاتھوں کو چومتا اپنے دامن سے ان کی جوتیوں کو صاف کرتا ۔

ماسٹر عبیدالرحمٰن عدیمی

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول ٹنڈو جام میں پڑھا کرتا تھا وہاں کئی اساتذہ کرام تھے جو ہمیں پڑھایا کرتے تھے بہت سے مضامین ہوتے تھے اور ہر مضامین کے الگ الگ استاد ہوا کرتے تھے یہ محض اتفاق تھا کہ انگریزی اور اُردو دو متضاد مضامین تھے لیکن ان کو پڑھانے والے ایک ہی استاد تھے جو ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب تھے ، ماسٹر عبیدالرحمٰن صاحب اجلے پجامہ اور کرتا زیادہ تر ذیبِ تن کیا کرتے تھے اور اگر کبھی پتلون اور شرٹ بھی پہنتے تھے تو شرٹ سفید اجلی ہوا کرتی تھی ان سے ایک بہت مانوس سی مہک آیا کرتی تھی خدا جانے کون سا عطر یا پرفیوم استعمال کرتے تھے کہ اگر وہ کسی بھی کلاس میں مضمون پڑھا کر جایا کرتے تھے تو ہمیں کلاس میں ان کی مہک سے اندازہ ہو جاتا تھا کہ ماسٹر صاحب کچھ دیر پہلے یہاں موجود تھے ۔ ایک بار ہم ہیڈ ماسٹر لغاری صاحب کے کمرے میں کسی کام سے گئے تو وہاں ماسٹر عبید صاحب کی خوشبو تھی جب کہ اس روز ماسٹر صاحب چھٹی پر تھے ہم نے ہیڈماسٹر صاحب سے دریافت کیا کہ سر کیا سر عبید صاحب آئے تھے انہوں نے کہا جی انہیں کسی ضروری کاغذ پر دستخظ کرنے تھے اس لیے کچھ دیر کے لیے آئے تھے ۔

ماسٹر عبید الرحمٰن عدیمی صاحب نہ صرف میرے استاد تھے بلکہ میرے دونوں بھائیوں کے اور میرے والد صاحب کے بھی استاد تھے بھائیوں کے استاد ہونے کی بات تو آپ کو سمجھ آجائے گی لیکن والد کے بھی استاد ہونے کی بات شائید سمجھ نہ آئے بات کچھ یوں ہے کہ جب ہمارے والد صاحب گورنمنٹ ملازمت تلاش کر رہے تھے توانہیں ٹنڈوجام کے ایک ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت ملی لیکن وہ وہ بہت کم درجے کی والد محترم نے جب ملازمت شروع کی تو اکثر لوگوں نے ان سے کہا کہ کاش آپ نے میٹرک کیا ہوتا تو آپ کو فیلڈ اسسٹنٹ کی جاب مل سکتی تھی یا آپ کی اسُ پوسٹ پر ترقی ہو سکتی ہے بس والد محترم نے یہ ٹھان لی کہ مجھے بھی میٹرک کرنا ہے میرے والد محترم اللہ انہیں جنت نصیب کرے وہ جس چیز کی ٹھان لیتے تھے اس کو پورا کر کے رہتے تھے اس سلسلے میں انہوں نے ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب سے بات کی اور ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب نے پھر انہیں پرائیویٹ اور کبھی کبھی اس میٹرک کی کلاس میں بھی بلانے لگے جسے ماسٹر صاحب پڑھایا کرتے تھے ، میرے والد محترم ماسٹر عبید الرحمٰن کے گھر پر بھی ان سے تعلیم حاصل کرتے رہے اور میٹرک کا امتحان میرے بڑے بھائی کے ساتھ ہی دیا اور فرسٹ ڈویژن میں پاس بھی کرلیا اس وقت والد محترم بتاتے ہیں کہ ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب فرماتے تھے کہ کاش میرے جسم میں ابھی بھی طاقت ہوتی تو میں تمہیں اپنے کندھوں پر بٹھا کر پورے اسکول میں گھماتا تو یوں ماسٹر عبید الرحمٰن عدیمی صاحب میرے والد محترم کے بھی استاد رہے۔

اب آتے ہیں ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب کی شخصیت پر جیسا کہ میں نے اپنی ابتدائی گفتگو میں بتایا کہ وہ ہمیشہ سفید اور اجلے کپڑے پہنا کرتے تھے ایک مخصوص سگریٹ غالبا ً بگُلا سگریٹ ہوا کرتی تھی وہ نوش فرماتے تھے ایک بہت دھیمی خوشبو والی کوئی پرفیوم یا عطر کا استعمال کیا کرتے تھے ان کے بیٹھنے کا اٹھنے کا انداز گفتگو کا انداز بہت عمدہ اور مختلف ہوا کرتا تھا بہت نفیس گفتگو کیا کرتے تھے اور کسی بات پر ہنستے تھے تو اس طرح زور زور سے ہنستے تھے کہ پھر ان کی انکھوں سے پانی نکل آتا تھا اور ان کے کان اور ان کے رخسار لال ہو جایا کرتے تھے۔

جب ہم تعلیم کا سفر طے کرتے ہوئے گورنمنٹ بوائز ہائی سکول ٹنڈو جام پہنچے تو ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب کے حوالے سے یہاں بہت عجیب و غریب بات چل رہی تھی جے سن کر ہمیں کم از کم فکر لاحق ہو گئی تھی بات کچھ یوں تھی کہ لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر ماسٹر عبیدالرحمٰن صاحب نے کسی شاگرد کو تھپڑ نہ مارا ہو تو و نہ آگے پڑھ کر دیتا ہے نہ آگے بڑھ کر دیتا ہے یا انہوں نے کسی شاگرد کو یہ کہہ دیا ہو کہ تو پڑھ کے نہیں دے گا تو پھر واقعی وہ پڑھ کے کبھی نہیں دیا اور ایسی مثال ہمارے دوستوں میں آج بھی موجود ہے اب ہمیں یہ فکر لاحق ہو گئی کہ یا تو ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب سے کسی بھی طریقے سے تھپڑکھایا جائے اور یا پھر ان کے اس جملے سے بچا جائے ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ ان کے منہ سے ہمارے لیے کم از کم یہ جملہ نہ نکلے کہ تو پڑھ کے نہیں دے گا اب ایک دو بار دانستہ غلطیاں کیں تاکہ تھپڑ رسید ہو جائے لیکن اس میں ہمیں کامیابی نہیں ہو ہاں میٹرک تک یہ خوف رہا کیوں کہ میٹرک تک وہ ہمارے استاد رہے اور ہمیں میٹرک تک یہ خوف رہا کہ کسی بھی موقع پر ماسٹر عبیدالرحمٰن صاحب ہمیں یہ نہ کہہ دیں کہ تو پڑھ کے نہیں دے گا ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب نے تھپڑ تو نہیں مارا کبھی لیکن یہ بھی کبھی نہیں کہا کہ تو پڑھ کے نہیں دے گا کہیں غلطیاں ہوئیں تو بہت شفقت سے اس کی اصلاح کی سمجھایا اور ہمیں اکثر کہا کرتے تھے تم جس باپ کے بیٹے اور جن میرے شاگردوں کے بھائی ہو تو تمہیں غلطی نہیں کرنی چاہیے گویا مجھے اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی خاندانی تعلیم کے معیار کی بھی بہت زیادہ فکررہنے لگی کہ میری وجہ سے میرے والد کے نام یا میرے بھائیوں کے نام پر کوئی حرف نہ آئے اور حتی الامکان کوشش کرتا رہا کہ کوئی بھی ایسی غلطی نہ ہو جس سے ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب کو تکلیف ہو۔

ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب سراپہ قابل احترام تھے لوگ ان کی بہت عزت کیا کرتے میں ان لوگوں کو دیکھتا تھا جو ان کے شاگرد رہے تھے وہ بہت بڑی بڑے پوسٹوں پر فائز تھے کامیاب زندگی گذار رہے تھے لیکن جس عاجزی اور انکساری سے آ کے وہ عبید الرحمٰن صاحب سے ملا کرتے تھے اس سے اندازہ ہوتا تھا استاد کا لوگوں کے دل میں احترام ہمیشہ ہوتا ہے، اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے بہت دکھ اور افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ میں نے کئی مقام پر شاگرد کو استاد کے ساتھ استاد کو شاگرد کے ساتھ تمباکو نوشی کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے ،ہمارے وقت میں تمباکو نوشی تو کجا جب ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب اپنی سائیکل پر سے ہمیں نظر آتے تھے تو ہم بھاگ کر گھر میں چھپ جایا کرتے تھے حالاں کہ ہم کوئی ایسا عمل نہیں کر رہے ہوتے تھے جس سے ہمیں یہ لگے کہ یہ ماسٹر عبید الرحمٰن دیکھ لیا تو ان کو برا لگے گا بس ان کو برا لگنے کو اتنا ہی کافی تھا کہ ہم خواہ مخواہ گھر کے باہر کھڑے ہیں جب ان کی سائیکل ہمارے محلہ سے گزر جایا کرتی تھی پھر ہم گھر سے باہر نکلا کرتے تھے یہ ان کا احترام تھا ان کی عزت تھی۔

ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب نے کبھی شادی نہیں کی تھی وہ ایگریکلچر یونیورسٹی کی کالونی میں اکیلے رہا کرتے تھے کبھی کبھار ہم چلے جاتے تھے کبھی دوسرے شاگرد چلے جاتے تھے گھر کی صفائی ستھرائی ان کی دیکھ بھال کبھی بیمار ہوتے تھے تو ان کی دوا دارو کے لیے ان کی عیادت کے لیے چلے جایا کرتے تھے لیکن ایک خوف مبتلا ہوتا تھا مجال ہے کہ ہم کبھی ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب کے سامنے سر اٹھا کر بیٹھے ہوں ہم جب بھی ان کے سامنے بیٹھتے تھے سر جھکائے رکھتے ، چپلیں ان کے کمرے کے باہر اتار کے آتے ان کے پاس آنے جانے والے لوگوں میں سب کا یہی حال تھا ۔

ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب نے شادی کیوں نہیں کی یہ سوال کرنے کی جرات کم از کم ہم میں نہیں تھی اور یہ شاید ہمیں علم بھی نہیں ہوتا لیکن کیوں کہ ہمارے والد محترم اور ہمارے بھائی بھی ان کے شاگرد تھے تو انہی کی زبانی ہمیں یہ علم ہوا تھا ورنہ کبھی بھی ایسے کسی بھی موضوع پر ہماری کبھی بھی ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب سے بات نہیں ہوئی ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب اشعار بھی کہا کرتے تھے اور کئی اشعار ایسے بھی تھے جن کی آمد ان پر ہی ہوئی تھی لیکن نہ جانے وہ کیوں کہا کرتے تھے کہ یہ نہ جانے کس کا شعر ہے اور بعد میں پتہ لگتا تھا کہ وہ ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب کا ہی شعر، ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب میرے آئیڈیل استاد تھے تو میری کوشش ہوتی تھی کہ جو ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب کرتے ہیں جو ان کا انداز ہوتا ہے وہی میرا ہو ایسا ممکن تو نہیں لیکن کوشش کرتا رہتا تھا ٹوٹے پھوٹے اشعار بھی کہنا شروع کر دیے میٹرک میں ہی ایک حساب کے استاد ہوا کرتے تھے سر مجید آفریدی صاحب وہ بھی سراپہ محبت کا مینار ہیں اللہ انہیں صحت دے تندرستی دے انہوں نے ایک مرتبہ کہا کہ کل سب اپنا شعر لکھ کر لائیں ہم نے اپنے طور پہ کوئی ٹوٹا پھوٹا ایک شعر لکھا تھا اور وہ سر مجید صاحب کے حوالے کیا انہوں نے کسی طرح شعر ماسٹر عبید الرحمٰن عدیمی صاحب تک پہنچا دیا اس کے بعد عبید صاحب نے ایک مرتبہ گھر پہ ہم سے یہ پوچھا کہ یہ شعر تم نے کود لکھا یا شہنشاہ سے لکھوایا یہاں بتاتے چلیں شہنشاہ وہ ہمارے بڑے بھائی کو کہا کرتے تھے ہم نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ نہیں سر یہ شعر ہم نے خود لکھا انہوں نے شعر کی ترتیب تھوڑی سی آگے پیچھے کر کے اصلاح کی اور کہا کہ تم اشعار لکھا کرو لیکن تمہاری یہ عمر اشعار کہنے کی نہیں تعلیم مکمل کرنے کی ہے ساتھ ہی کہہ دیا کہ جب تعلیم سے فارغ ہو تو میری یہ بات یاد رکھنا کہ شعر کہنا شروع کرنا ان کے حکم کی تعمیل تھی کہ تعلیم سے فراغت کے بعد شعر کہنا شروع کیے اور آج الحمداللہ وزن اور بحر میں شعر کہنے تک پہنچ چکا ہوں اب تک سینکٹروں کلام و اشعار کہہ چکا ہوں ۔
ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب ہمیشہ بہت شفقت کا مظاہرہ کیا کرتے تھے بہت پیار کا مظاہرہ کیا کرتے تھے جب اسکول میں ماہ گرما کی دو ماہ کی چھٹیاں ہوتی تھیں تو اسکول بہت یاد آیا کرتا تھا اور خاص طور پر ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب بہت یاد آتے تھے کبھی ان کا مذاق کرنا کبھی ان کا سنجیدگی سے بات کرنا جب دل بہت بھر آتا تھا تو ان کے کواٹر میں ان سے ملنے چلے جایا کرتے تھے جو گھر کے قریب ہی فارم کالونی میں تھا۔ جا کر پوچھ لیا کرتے تھے سر کوئی کام کوئی سودا سلف لانا ہو لیکن وہ منع کر دیا کرتے تھے برتن صاف ستھرے دھلے ہوئے ہوتے تھے گھر کا فرش چمک رہا ہوتا تھا ہر چیز سلیقے اور قرینے سے رکھی ہوتی تھی وہ اکثر کوشش کیا کرتے تھے کہ ہم سے کوئی کام نہ کرائیں کبھی بہت زیادہ بیمار ہوتے تھے تھکے ہوتے تھے تو ضرور کچھ نہ کچھ وہ بھی بہت چھوٹا موٹا کوئی کام کہہ دیتے تھے کہ یہ کر دو میاں لیکن ان کی حت الامکان کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنا کام خود کریں۔

یوں عبید الرحمٰن صاحب کے ساتھ ہمارا میٹرک تک سفر جاری و ساری تھا کہ ہمارے اسکول کے پرانے ہیڈ ماسٹر لغاری صاحب کا تبادلہ ہو گیا لغاری صاحب کی جگہ ایک نئے ہیڈ ماسٹر آگئے نئے ہیڈ ماسٹر کے آتے ہی اسکول کا ماحول تبدیل ہونے لگا ، جہاں اسکول میں ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب اسکول کے دیگر تمام اساتذہ کرام اور طالب علموں کے لیے واجب الحترام تھے وہیں نئے آنے والے ہیڈ ماسٹر صاحب کا رویہ ان نے ساتھ مناسب نہ تھا خود ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب ان کے رویے سے پریشان رہنے لگے پھر یہ ہوا کہ ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب چھٹیاں کرنے لگے بیمار رہنے لگے شاید انہوں نے یہ بات اپنے دل پہ لے لی وہ جب چھٹی کیا کرتے تھے تو مجید آفریدی صاحب ہمیں بتا دیتے تھے کہ آج ماسٹر صاحب نہیں آئیں گے اور ہمیں بھی اندازہ تھا کہ وہ آج کل پریشان ہیں ، جیسا کہ پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ جب چھٹیاں ہوتی تھیں تو ہم ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب کے فارم کالونی میں واقع کوارٹر میں ان کی خیریت معلوم کرنے چلے جایا کرتے تھے کی شائید انہیں کسی کام کاج کے لیے ہماری ضرورت ہو ہمارے لیے یہ بہت پریشان کن بات تھی کہ عبید الرحمٰن صاحب دو دن سے اسکول نہیں آرہے تھے دوسرے دن اسکول کی چھٹی تھی سوچا کہ صبح سویرے ہی سائیکل اٹھا کر اور ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب کے گھر جائیں گے اور ان کی طبیعت کے حوالے سے پوچھیں گے صبح جب ہم ماسٹر عبید الرحمٰن صاحب کے کواٹر کے دروازے پر پہنچے تو دروازہ بند تھا ایک دودھ والا ان کے گھر کے باہر کھڑا تھا اور مجھے دیکھ کے کہنے لگے کہ کافی دیر سے میں دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوں ماسٹر صاحب نہیں نکلے ورنہ سائیکل پر لگے باجے کی آواز سے باہر آجاتے ہیں ماسٹر صاحب کے کواٹر کی کھڑکی بھی بند تھی ہم نے سائیکل کو اسٹینڈ پر کھڑا کرکے اس پر کھڑے ہو کر ایک روشن دان سے جھانکا تو بھی کچھ نظر نہ آیا جس کمرے میں ماسٹر صاحب ہوتے تھے اس کا دروازہ کھلاہوا دکھائی دے رہا تھا اسی دوران دودھ والے صاحب کے ساتھ دو لوگ اور آگئے اور ماسٹر صاحب کے کواٹر میں کود کا دروازہ اندر سے کھولا گیا سب دوڑتے ہوئے ماسٹر صاحب کے کمرے میں پہنچے تو ماسٹر صاحب زمین پر پڑے تھےان کے قریب قرآن مجید بھی تھا لگتا تھا وہ تلاوت کررہے تھے ۔ اندر آنے والے ایک صاحب نے ماسٹر صاحب کو کچھ دیر ادھر ادھر کرکے دیکھا اور پھر انہوں نے انا للہ وانا الیہ راجعون کہا یہ سنتے ہیں ہمیں لگا کہ جسیے ہمارے سر سے آسمان اور پیروں تلے زمین نہ رہی آنکھوں سے سمندر امڈ آیا ہم دوڑے دوڑے گھر آئے اور دیگر دوستوں کو اطلاع دے کر جب واپس ماسٹر صاحب کے کواٹر پہنچے تو وہاں لوگوں کا جمِ غفیرموجود تھا ان کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل چکی تھی شہر کی تمام مساجد سے ان کے انتقال کی خبر دی جانے لگی لوگوں کا ہجوم ان کے کوارٹر کی جانب رواں دواں تھا ہر آنکھ اشک بار تھی ۔

فارم کالونی میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی ہم نے ٹنڈوجام میں اس سے پہلے کبھی کسی کے جنازہ میں اتنا بڑا ہجوم نہیں دیکھا ۔ اب بھی اکثرماسٹر عبید الرحمٰن صاحب اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ مجھے اکثر خواب میں بھی نظر آتے ہیں میں انہیں اکثر گھر میں ہونے والی تقریب میں بلایا کرتا تھا تو کہتے تھے بیٹا میرے تو اب دانت بھی نہیں ہے میں تو ڈبل روٹی کھاتا ہوں سالن کے ساتھ تو میں کہتا تھا سر آپ آئیں میں آپ کو ڈبل روٹی کے ساتھ ہی پیش کردوں گا تو وہ مسکراتے اور کہتے تھے جیتے رہو میں تو اب بھی جی رہا ہوں لیکن وہ گھنا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ کبھی کبھی دل کرتا ہے میرے پیر و مرشد ماسٹر عبیدالرحمٰن صاحب حیات ہوتے تو اپنی ہر کامیابی پر جاکر ان کے قدموں کو چھوتا ان کے ہاتھوں کو چومتا اپنے دامن سے ان کی جوتیوں کو صاف کرتا ۔ اللہ میرے ماسٹر عبید الرحمٰن عدیمی صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین
 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 142 Articles with 167605 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More