آزاد کشمیر میں عوامی احتجاج کا سلسلہ اور حکومت و ارکان اسمبلی کی غیر ذمہ داری

آزاد کشمیر میں گزشتہ تین ماہ سے عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور اب سے میں اتنی تیزی آ گئی ہے کہ آزاد کشمیر کے تینوں ڈویژنز میں وسیع پیمانے پہ عوامی احتجاج ہو رہے ہیں جس میں شٹر ڈائون اور پہیہ جام ہڑتالیں بھی شامل ہیں۔آزاد کشمیر میں تین ماہ پہلے آٹے کے مسئلے پہ عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا اور اب بجلی کے بلوںمیں گراں اضافے کی وجہ سے عوامی احتجاج میں شدت آ ئی ہے۔یہ بات حیران کن ہے کہ سیاستدان مختلف بیانات میں ہلکے پھلکے انداز میں اس عوامی احتجاج کی حمایت تو کر رہے ہیں لیکن جس طرح ان کی طرف سے عوامی مطالبات پر ہونے والے احتجاج کی حمایت میں اپنا کردار ادا چاہئے ، وہ ادا نہیں کیا جا رہا ۔

وزیر اعظم آزاد کشمیر نے گزشتہ دنوں پاکستان کے ایوان بالا سینٹ کی سڈینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں بجلی کے امور سے متعلق پاکستان سے مختلف امور پر اپنی شکایات پیش کیں تاہم آزاد کشمیر میں بجلی کے بلوں میں گراں اضافے کی وجوہات پاکستان کے بجائے آزاد کشمیر حکومت سے متعلق ہیں۔ آزاد کشمیر کے بجلی سے متعلق کئی مطالبات موجود ہیں تاہم بجلی کے بلوں میں اضافے کی وجہ سے جو عوامی احتجاج ہو رہا ہے ، وہ وجوہات، امور آزاد کشمیر حکومت کے دائرہ کارکے ہیں ۔آزاد کشمیر کو پاکستان سے2.59پیسے کے ریٹ پہ بجلی مہیا ہوتی ہے، اور آزاد کشمیر حکومت34/35روپے میں آزاد کشمیر کے صارفین کو فروخت کر ہی ہے۔آزاد کشمیر حکومت اس پہ جتنے پہ ٹیکسز لگا رہی ہے ، وہ فیڈرل گورنمنٹ کے شیڈول آف ریٹس کو/ٹیرف کی پیروی کر رہی ہے۔آزاد کشمیر میں54فیصد بجلی چوری، نان پیمنٹ یعنی لائن لاسز ہے۔آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے پاکستان سے 22لاکھ یونٹس خریدے جاتے ہیں اور 14لاکھ کا بل جاری کرتے ہیں،یعنی8لاکھ یونٹ آزاد کشمیر میں لائین لاسز ہے جس میں بجلی کی چوری اور دیگر وجوہات شامل ہیں۔

واپڈا نے نیلم جہلم پراجیکٹ کی تعمیر کے دوران نیلم جہلم سرچارج لینا شروع کر دیا، اس پہ آزاد کشمیر حکومت نے بھی سرچارج لینا شروع کر دیا جبکہ اس پراجیکٹ کی تعمیر میں آزاد کشمیر حکومت کو کوئی عمل دخل، کوئی اخراجات نہ تھے۔ آزاد کشمیر حکومت اپنے صارفین سے13/14سال نیلم جہلم سرچارج وصول کرتے رہے جبکہ اس کا کوئی جواز نہ تھا۔نیلم جہلم بجلی منصوبے پہ واپڈا/پاکستان حکومت نے آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا اور اس منصوبے کی وجہ سے علاقے کو پہنچنے والے ماحولیاتی نقصانات بھی عوامی تشویش کا ایک بڑا موجب ہیں۔آزاد کشمیر حکومت پاکستان سے 2روپے59پیسے فی یونٹ بجلی خرید کر اس میں اپنے اخراجات شامل کر کے صارفین سے بل وصول کرے توجائز بات ہے کہ اپنے سروس چارجز شامل کر کے بجلی بل وصول کئے جائیں تاہم حکومت آزاد کشمیر کو سروس مہیا کرنے کے حوالے سے بلات کی وصولی کرنی چاہئے نا کہ بجلی کے بلات کی وصولی کمرشل بنیادوں پہ اپنے مالی فائدے کے لئے کی جائے۔آزاد کشمیر میں95فیصد دیہاتوں کو بجلی فراہم کی جاتی ہے۔آزاد کشمیر میں بجلی کے صارفین میں اسی فیصد ہائو س ہولڈ یعنی گھریلو صارفین ہیں۔

آزاد کشمیر کے شہریوں میں عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ منگلا ڈیم کے قیام کے وقت واپڈا اور حکومت پاکستان کے ساتھ آزاد کشمیر حکومت کے معاہدے میں آزاد کشمیر کو بجلی مفت فراہم کئے جانے کی بات کی گئی تھی جب یہ حقیقت نہیں ہے،اس معاہدے میں آزاد کشمیر کو طے شدہ ریٹس پہ بجلی فراہم کرنے کی بات کی گئی تھی۔اسی طرح منگلا ڈیم اپ ریزنگ منصوبے کے وقت بھی آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ کئے گئے معاہدے میں بھی مفت بجلی کی فراہمی کی بات نہیں بلکہ طے شدہ ریٹس پہ بجلی فراہم کئے جانے کی بات شامل ہے۔منگلا ڈیم اپ ریزنگ منصوبے کے وقت طے پائے معاہدے کے مطابق منصوبے اور ارد گرد کی آراضی بھی آزاد کشمیر حکومت کی قرار پائی ہے لیکن واپڈا اس معاہدے کے برعکس اس آراضی کو اپنی آراضی قرار دیتی ہے۔اس معاہدے میں میر پور میں پینے کے پانی اور آبپاشی کے لئے ڈیم کی جھیل سے پانی کی مقرر کردہ مقدار میں پانی کی فراہمی کی بات کی گئی ہے لیکن بعد میں ارسا کے اعتراضات کا بہانہ بناتے ہوئے میر پور میں پینے کے پانی اور زراعت کے لئے پانی کی فراہمی سے انکار کیا گیا جبکہ معاہدے کی رو سے واپڈا،حکومت پاکستان اس پانی کی فراہمی کے ذمہ دار ہیں۔معاہدے میں یہ بھی تحریر ہے کہ کوئی بھی تنازعہ بات چیت سے حل کیا جائے گا اور اگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہوا تواس کا فیصلہ تین رکنی ثالثی کمیٹی کے ذریعہ کیا جائے گا جس میںحکومت پاکستان کانامز د ایک نمائندہ، ایک نمائندہ آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے نامزدکردہ اور چیف جسٹس آف پاکستان یا چیئرمین کی طرف سے مقرر کردہ شخص شامل ہو گا۔اختلافی امور کے بارے میں اس ثالثی کمیٹی کا فیصلہ حتمی اور قابل پابندی ہو گا۔

آزاد کشمیر میں بجلی کے بلوں میں اضافے کی وجہ سے عوامی احتجاج کے تناظرمیںبجلی کے مسئلے میں آزاد کشمیر حکومت کی بد انتظامی اور سیاسی مفادات بڑا محرک ہے، جس کا بوجھ عوام پر پڑ رہا ہے۔آزاد کشمیر حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ دو روپے انسٹھ پیسے میں بجلی لیتے ہوئے اپنے لوگوں کو کم نرخوں پہ بجلی فراہم کر سکتی ہے۔آزاد کشمیر حکومت اپنے جاری بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو ایک ڈیڑھ سال میں مکمل کر ے اور گرڈ سٹیشن قائم کر کے نزدیکی آبادیوں کو فراہم کرے تو بڑی حد تک بجلی کے حصول کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے اور باقی ماندہ ضرورت کی بجلی پاکستان سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے لائین لاسز کو کو کم سے کم کرنے کے اقدامات بھی بہت ضروری ہیں کیونکہ اس وقت تقریبا54فیصد بجلی لائین لاسز کی نزر ہو رہی ہے۔پاکستان میں بھی چونتیس، پہنتیس فیصد لائین لاسز ہیں لیکن آزاد کشمیر میں اس کی نسبت لائین لاسز بہت زیادہ ہیں۔

یہ بات تعجب انگیز ہے کہ بجلی کے بلوں و عوامی تشویش کے دیگر امور کی وجہ سے عوامی مظاہروں کی صورتحال میں اسمبلی کا کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا اور نا ہی آزاد کشمیر حکومت نے عوامی مطالبات کو پورا کرنے اور احتجاجی تحریک کے نمائندوں سے اس مسئلے پہ گفتگو کی کوئی کوشش کی ہے ۔آزاد کشمیر حکومت اور ارکان اسمبلی کی طرف سے احتجاجی شہریوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کے مسائل کو حل کرانے اور ان مسائل کو حل کرنے سے متعلق کوشش میں بھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی جا رہی۔عوامی احتجاج کے دوران سیاستدان ، اسمبلی و حکومت کے ارکان عوامی تشویش پہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے سے بے پرواہ نظر آ رہے ہیں۔آزاد کشمیرکے سیاستدانوں، اسمبلی و حکومت کے ارکان کی نااہلی سے آزاد کشمیر کے خطے ہی نہیں پاکستان کے مفادات کو بھی بڑے نقصانات سے دوچار کیا جا رہا ہے۔


اطہر مسعود وانی
03335176429

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614634 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More