سیاسی مخالفین کو بیرون ملک قتل کرنے کی ہندوستانی پالیسی
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
ہندوستانی فوج کے میجر جنرل (ریٹائرڈ) وی کے سنگھ نے اپنی کتاب'''انڈیاز ایکسٹرنل انٹیلی جنس،سیکرٹس آف ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ(را)'' میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں نے تہاشہ وسائل کے ساتھ کام کرنے والی انٹیلی جنس ایجنسی'' را'' میں جوابدہی کی کمی ہے اور اس میں بہت زیادہ بد عنوانی پائی جاتی ہے۔'' را'' کے کرتوت اپنی کتاب میں بے نقاب کرنے پہ' سی بی آئی' کی طرف سے میجر جنرل (ریٹائرڈ) وی کے سنگھ کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسی کے راز اپنی کتاب میں بے نقاب کر دیئے ہیں۔1968میں ہندوستان کی تیسری وزیر اعظم بننے والی اندراگاندھی نے ہی '' را'' کو قائم کیا۔اپنے قیام کے فوری بعد'' را'' نے مشرقی پاکستان میں بغاوت کے ایک بڑے آپریشن پہ کام کیا جس کے تحت مشرقی پاکستان میں اسلحہ ، گولہ بارود پہنچانے سمیت ہندوستانی زمین پہ مکتی بانی کے افراد کو بڑے پیمانے پہ عسکری تربیت دینا بھی شامل تھا۔
اندراگاندھی نے وزیر اعظم کے طور پر'' را'' کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بھی بھرپور طور پر استعمال کیا ۔ اندرا گاندھی نے اپنا اقتدار بچانے کے لئے25جون 1975کو ہندوستان میں ایمر جنسی نافذ کر تے ہوئے اپنی مخالف سیاستدانوں پہ شدید مظالم ڈھائے اور انہیں جیلوں میں بھی قید کر دیا۔ایمر جنسی کے نفاذ اور سیاسی مخالفین کے خلاف ظالمانہ مہم میں وزیر اعظم اندراگاندھی نے '' را'' کو بھر پور طور پر استعمال کیا۔ اندرا گاندھی نے' را' کو قائم کرتے ہوئے انٹیلی جنس بیورو'آئی بی ' کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر رامیش ناتھ کائوکو ' را' کا پہلا سربراہ مقرر کیا تھا۔ بی این کائو نے ان نوازشات پہ اندرا گاندھی کا بھر پور ساتھ دیا اور' را' کو اندراگاندھی کے سیاسی اور صحافیوں کے خلاف بھر پور طور پر استعمال کیا۔1977کے عام انتخابات میں جنتا پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور مرار جی ڈیسائی ہندوستان کے چوتھے وزیر اعظم منتخب ہو گئے جنہیں اندراگاندھی نے دیگر سیاسی رہنمائوں کی طرح دو سال سے زائد عرصہ جیل میں قید رکھا تھا۔' را' کے سربراہ بی این کائو پہ اندراگاندھی کے مظالم میں ساتھ دینے اور سیاسی مخالفین اور صحافیوں پہ بدترین مظالم ڈھانے کے الزامات لگائے گئے اور ان کو قاتل بھی کہا جانے لگا۔' را' پہ سیاستدانوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے اور ملکی سیاست میں بھر پور مداخلت سمیت کئی دیگر الزامات لگے۔وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی نے ' را' کے خلاف ایک اعلی سطحی انکوائری کمیٹی قائم کی۔اسی صورتحال میں بی این کائو نے اپنی جان بچانے کے لئے ریٹائرمنٹ لے لی۔
1980کی دہائی سے ' را' نے ہندوستان سمیت کئی ملکوں میں قتل کی وارداتوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔یوں ' را' جو ہندوستان میں اندراگاندھی کے سیاسی مخالفین کے خلاف بھر پور طور پر استعمال ہوئی، اس نے پاکستان سمیت دنیا کے کئی اہم ملکوں میں ہندوستان کے سیاسی مخالفین کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔اندراگاندھی دوبارہ اقتدار میں آئیں تو ' را' کی گھنائونی سازشوں کا سلسلہ ایک بار پھر تیز ہو گیا۔وزیر اعظم اندرا گاندھی اسرائیلی انٹیلی ایجنسی ' موساد' کے طریقہ کار سے متاثرتھیں کہ مختلف ملکوں میں رہنے والے مخالفین کو اپنے ایجنٹو ں سے قتل کر ا دیا جائے۔ہندوستان میں نریندر مودی کی سربراہی میں ' بی جے پی ' حکومت قائم ہونے کے ساتھ ہی اجت ڈوول کو نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بنایا گیا اور ہندوستان نے پاکستان، افغانستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں ' را' کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ تیز سے تیز کر دیا اور ہندوستان کے سیاسی مخالفین کو ' را' کے ایجنٹوں کے ذریعے قتل کرنے کا سلسلہ تیز ہو گیا۔
اپنی اسی وحشیانہ روش میں ہندوستان نے ' را' کے ذریعے کینیڈا میںمقیم خالصتان تحریک کے ایک سکھ سیاسی رہنما کو قتل کرایا تو ہندوستان نے اسے اپنے لئے ایک معمول کا اقدام سمجھا۔ لیکن ہندوستان اس بات کا تجزئیہ کرنے میں ناکام رہا کہ کینیڈا اپنے ایک شہری کے اپنے ہی ملک میں قتل کی اس سازش پر خاموش نہیں رہ سکتا ۔ ہندوستان کا خیال تھا کہ امریکہ سمیت یورپی ممالک پہلے کی طرح ہندوستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کی اس کاروائی پر خاموش رہیں گے لیکن کینیڈا کے وزیر اعظم نے سکھ رہنما کے اس قتل پہ ہندوستان کو دنیا میں عریاں کر دیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے قریبی دوست ملک امریکہ نے بھی ہندوستان کے خلاف کینیڈا کے ان الزامات کو درست قرار دیا۔کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل میں ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسی، ہندوستانی حکومت کے ملوث ہونے کے ثبوت حاصل کر لئے۔اسی دوران ہندوستان نے کینیڈا میں ایک اور سکھ رہنما کو بھی پہلے کی طرح قتل کرا دیا۔
یہاں ایک اہم معاملہ یہ بھی ہے کہ امریکہ جو ہندوستان کو چین کے خلاف اقتصادی اور جنگی سطح پہ استعمال کرنے کے لئے تیار کر رہا ہے ، وہ کس طرح عالمی سطح پہ ہندوستان کی رسوائی ، سفارتی ہزیمت کا سبب بن سکتا ہے۔سفارتی شعبہ انٹیلی جنس امور کے ساتھ یوں شامل ہوتا ہے کہ کئی بار ان میں تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔دنیا میں جاری اقتصادی، جنگی ، انٹیلی جنس اور سفارتی کشمکش، محاذ آرائی کے اسرار و رموز کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل کے معاملے میں امریکہ ہندوستان کے ملوث ہونے کے حوالے سے اپنی انٹیلی جنس معلومات کو ہندوستان کے خلاف مخصوص اہداف کے حصول کے لئے ایک دبائو کے حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔یقینا صورتحال ایسی ہے کہ ہندوستان کو عالمی سفارتی دبائو کے پیش نظر امریکی مطالبات کو تسلیم کرنے پہ مجبور ہونا ہی پڑے گا اور اس صورت امریکہ ہندوستان کو عالمی سطح کی اس مشکل صورتحال سے بچا سکتا ہے۔
ہندوستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ' را' کے قیام کے وقت اس کا پہلا بجٹ20لاکھ روپے رکھا گیا، آزاد کشمیر حکومت نے کشمیر لبریشن سیل کے قیام کے وقت اس کے لئے بھی 20لاکھ روپے ہی رکھے گئے تھے۔ اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے دورہ پاکستان کے موقع پر کشمیر لبریشن سیل کے قیام اور اس کے لئے20لاکھ روپے رکھے جانے پر وزیر اعظم بینظیر بھٹو سے شکایت کی۔وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے یہ کہنے کہ 20لاکھ روپے سے کیا ہوتا ہے ، تو راجیو گاندھی نے جواب دیا کہ اس سے نیت ظاہر ہوتی ہے،کشمیر لبریشن سیل کا یہی20لاکھ روپے کسی وقت کروڑوں میں بھی ہو سکتے ہیں۔آزاد کشمیر حکومت کشمیر لبریشن سیل نامی ادارے کے ذریعے کشمیر کاز سے متعلق اپنی ذمہ داری پہ اچھا اور موثرکام کر سکتی تھی لیکن اس کے بجائے آزاد کشمیر کے سیاستدانوں نے اس ادارے کو آزاد کشمیر کی برادریوں کے چہیتوں کی ملازمتوں کا ذریعہ بناتے ہوئے اس ادارے کے قیام کے مقاصد کو تباہ کر دیا۔ آزاد کشمیر کے سیاستدانوں نے کشمیر کاز کے لئے اپنے جس کردار کا انتخاب کیا وہ یہ تھا کہ تسلسل سے یہ بیانات دیئے جاتے ہیں کہ '' کشمیر کی آزادی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے'' ، ''مقبوضہ کشمیر کی آزادی ہماری اولین ترجیح ہے''۔ اور آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کا کشمیر کاز سے کھلواڑ آج بھی اسی طرح جاری ہے۔یہ کہنا بھی بے جا نہیں کہ آزاد کشمیر کے سیاستدانوں نے کشمیر کاز میں اپنے سیاسی کردار سے منہ موڑنے کے ساتھ اپنی قبیلائی مفاد پرستانہ سیاست سے آزاد کشمیر میں مقامی مسائل و امور کی صورتحال کو بھی خراب سے خراب تر کیا ہے جس سے آزاد کشمیر کا خطہ سنگین خطرات کا شکار بن چکاہے۔
|