وہ آخر کب تک خاموش رہتے، کب تک اپنے اوپر ہونے والے مظالم سے آنکھیں موند لیتے، کب تک اپنے آپ کو قابومیں رکھتے، کب تک لاشیں اٹھاتے، کب تک نوجوانوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قیدی اور عمر بھر کے لیے مفلوج ہوتے دیکھتے۔کب تک اپنی عزتوں کو تاراج ہوتا دیکھتے۔ اپنی زمین اوردھرتی ماں پر بڑھتی دراندازی کو سہتے، کب تک عبادت گاہوں، مساجد،قبلہ اول اور نمازیوں کی توہین برداشت کرتے۔ کب تک اپنی ہی سرزمین کو اپنے لیے تنگ ہوتا دیکھ کر برداشت کرتے،آخر ان کا بھی صبر جواب دے گیا۔ وہ بھی اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتے تھے۔ کمزور صحیح مگر جواب تو دے سکتے تھے۔آخر کار منہ توڑ جواب دیدیا۔ ایک طرف فلسطینی تھے جن کی طویل خاموشی مسئلہ فلسطین کو عالمی منظر نامے سے ہٹا رہی تھی۔ دوسری طرف گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہورہا تھا۔ فلسطینیوں کی خاموشی اور صبر کا اسرائیل مسلسل ناجائز فائدہ رہا تھا۔ فلسطینیوں کے صبر کے بدلے اسرائیلی فلسطینیوں کے حقوق اور عزتیں پامال کیے جارہے تھے۔ فلسطینیوں کی خاموشی سے عالمی دنیا، اقوم متحدہ اور سلامتی کونسل اسرائیل کے حق میں کوشاں تھی۔ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم یک سر نظر انداز کرکے عرب ممالک اسرائیل کے قریب ہوتے جارہے تھے۔ متحدہ عرب امارات،قطر،ترکی اور دیگر ممالک نے تو باضابطہ سفارتی و تجارتی تعلقات کو بحال کیا ہوا تھا۔ اسلامی دنیا کا ایک اہم اور مضبوط ملک سعودی عرب بھی اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرنے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے عالمی میڈیا چینلز کو دیے گئے کئی انٹر ویوز میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سلسلے میں امریکی موجودہ حکومت کے ثالثی کے کردار کو بھی کھل کر سراہا تھا۔ بقول سعودی شہزادے کے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ بائیڈن حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی انڈیا میں ہونے والے جی 20کے اجلاس میں امریکی اور سعودی عرب کے بیک ڈور معاہدوں کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا۔ جس کے تحت سعودی ایٹمی پلانٹ، سعودی دفاع کے لیے امریکہ سے معاہدہ اور دیگر کئی معاہدے شامل تھے۔عالمی قوتوں کے درمیان ہونے والے ان خفیہ معاہدوں کی تکمیل کی صورت میں اسرائیل کے وجود کو مزید استحکام نصیب ہوتا اور یہ ناجائز ریاست فلسطین کے علاوہ دیگر مسلم امہ کے لیے مزید درد سر کا باعث بنتی۔ عالمی بدلتے منظر نامے کے مطابق پاکستان میں بھی اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے عناصر پروان چڑھنے لگے تھے اور اسرائیل کے تسلیم کرنے کو پاکستان کے چند نام نہاد ماہرین پاکستان کے معاشی و اقتصادی مسائل کا واحد قرار دے رہے تھے۔ ایسے میں عالمی قوتوں کے اسرائیل کی طرف جھکاو کو روکنا سفارتی سطح پر قطعی ناممکن تھا۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں حماس کا اسرائیل پر وار،در اصل اسرائیل کے ماضی،حال اور خاص کر مستقبل پر وار ہے۔ حماس کا یہ حملہ وقت اور حالات کا عین تقاضا تھا۔ اگر حماس اس قدر سنگین حملے میں دیر کرتی تو پھر کبھی حماس اور فلسطین کے مجاہدین کسی بھی قسم کی مزاحمت کے قابل نہیں رہتے۔دراصل حماس کاحملہ صرف اسرائیل کی فوجی تنصیات پر نہیں بلکہ اسرائیل کی معیشت و اقتصاد، خوشحالی وترقی اور اسرائیل کے مستقبل پر حملہ ہے۔ حماس کے اس پر عزم حملے نے اسرائیل کے ناقابل شکست دفاعی نظام کے مفروضوں کو دھول چٹا دی ہے وہی اسرائیل کے ناجائز وجود کوعالمی سطح پر مجروح کرکے رکھ دیا ہے۔ عالمی میڈیا کی خبروں کے مطابق حماس کے حملے میں کم از کم 18سو سے زائد اسرائیلی مارے گئے ہیں اور ہلاک ہونے والوں کی بڑی تعداد اسرائیلی فوجیوں کی ہے۔ اہم اسرائیلی بری،بحری اور فضائی کمانڈروں سمیت 200سے زائد اسرائیلی فوجیوں کو اپنی تحویل میں لینا ایک عالمی کارنامہ ہے۔ جس کے اس جنگ پر مثبت ثرات مرتب ہوں گے۔ حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی غزہ میں جاری جارحیت اور جنگی جرائم کے ثبوت اقوام متحدہ سمیت عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے دیکھاہے۔ اسرائیل کا غزہ میں فاسفورس بموں کا استعمال عالمی جنگی جرائم کا حصہ ہے مگر اس کے باوجود امریکہ، برطانیہ، کینیڈا سمیت کئی ممالک اسرائیل کی حمایت کرکے ان جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔ وہی اقوام متحدہ صرف اظہار تشویش کی حد تک بیانات جاری کرنے میں مگن ہے۔ اسرائیل حماس جنگ میں عالمی میڈیا بھی یک طرفہ کردار آدا کررہا ہے۔ یہ وہی عالمی میڈیا ہے جو روس یوکرین جنگ میں یوکرین کے شہریوں کی آواز بنا ہوا تھا اور روس کے فضائی اور زمینی کارروائیوں کو یکسر مسترد کررہا تھا۔ یہ وہی عالمی میڈیا ہے جو اسرائیلی جنگی جرائم کو اسرائیل کا حق دفاع سمجھتا ہے اوراپنی تمام تر قوتیں اسرائیل کے لیے صرف کررہا ہے۔ عالمی میڈیا میں کم از کم رپورٹنگ حقائق پر مبنی ہونی چاہیے۔ جہاں غزہ میں مسلسل اسرائیلی بمباری اور تباہ حال عمارتیں دیکھائی جارہی ہیں، روتے بچے اور بلکتی سلگتی خواتین دیکھائی جارہی ہیں وہی اسرائیلوں پر حماس کا خوف بھی دکھایا جانا چاہیے، حماس کے جنگجووں کی اسرائیلی شہریوں اور خواتین کے ساتھ حسن سلوک کو بھی دیکھایا جانا چاہیے۔ اسرائیلی شہریوں اور کئی اسرائیلی پارلیمان کے ممبران اور اپوزیشن لیڈر کی اسرائیل کے خلاف احتجاج کو بھی دیکھایا جانا چاہیے۔ اسرائیلی ایئر پورٹس کے بھی مناظر دیکھایا جانا چاہیے جہاں شہریوں کا رش لگا ہوا ہے اور قطار در قطار لوگ اسرائیل سے فرار اختیار کرنے میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ عالمی میڈیا کو اسرائیلی شہریوں کا اسرائیلی حکومت کے خلاف احتجاج اور فوری جنگ بندی کے طول پکڑتے مطالبات کو بھی دیکھانا چاہیے۔ عالمی میڈیا کو اسرائیلی شہریوں کی طرف سے حکومت اور فورسز پر عدم اعتماد کے اظہار اور دفاعی سسٹم کی ناکامی پر اٹھایے جانے والے سوالا ت کو بھی اجاگر کرنا چاہیے۔ عالمی میڈیا کو اسرائیل کی بگڑتی ہوئی ساکھ اور معاشی دیوالی کی طرف گامزن سفر کو بھی دیکھانا چاہیے۔ حماس اور اسرائیل کی جنگ کا وہ رخ دنیا نے ابھی دیکھنا باقی ہے جب اس جنگ کو اسرائیل کی طرف سے جاری رکھا جایے گا اور اس جنگ میں غزہ اور مضافات کے بارڈرز اسرائیلی فورسز کے قبرستانوں میں تبدیل ہوں گے۔ یہ وہ آخری معرکہ جس کے بعد اسرائیل کو اپنی سالمیت کی پرواہ کرنی چاہیے۔ کیوں کہ اس معرکے میں لبنان سے حزب اللہ، عراق سے حشد الشعبی،شام کے مجاہدین اور یمن سے انصاراللہ براہ راست اسرائیلی اہداف کو نشانے پر لیں گے۔ ایران کی طرف سے اقوام متحدہ کے ذریعے واضح پیغام کے بعدا سرائیل کی جارحیت اسرائیل کے ناجائز وجود پر آخری کیل ثابت ہوگا۔
|