فیصلہ محفوظ
(Prof. NIamat Ali Murtazai, Kasur)
|
فیصلہ محفوظ (انشائیہ) پروفیسر نیامت علی مرتضائیؔ (2202-11-17،جمعرات) پاکستانی سیاست سے تھوڑی سی بھی دلچسپی جلد ہی اس عدالتی روایت سے آگہی حاصل کر لیتی ہے کہ ہماری عدالتیں ایک خاص انداز سے کام کرتی ہیں یا چلتی ہیں۔ پاکستانی عدالتوں کے فیصلے قبل از مسیح کے زمانے کے یونان کی ڈیلفی کے فیصلوں کی یاد دلا دیتے ہیں۔میرے بات کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ فیصلے کسی روحانی تقدس سے مزین ہوتے ہیں بلکہ میرا اشارہ ان فیصلوں کی پُراسراریت کی طرف ہے۔ بعض اوقات فیصلہ اس بنیاد پر بھی ّمحفوظٗ کر کے سنا دیا جاتا ہے جس بنیاد پر مقدمہ درج ہی نہیں کروایا گیا ہوتا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دیوتاؤں سے ایسا سوال نہیں کیا جا سکتا تھا۔چلیں بڑوں کی باتیں بڑے ہی جانیں، چھوٹے لوگوں کو بڑوں کی باتوں میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیئے ورنہ ٹانگ ہی نہیں ٹانگ والے یا والی کا بھی بندوبست ہو سکتا ہے۔ ہماری دلچسپی عدالتوں کی اس خوبصورت ادا سے ہے کہ وہ پہلے ساری بحث سنتی ہیں، پھر فیصلہ’محفوظ‘ کر لیتی ہیں اور پھر کسی خاص ’پُراسرار‘ دن اور وقت پر یہ ’محفوظ فیصلہ‘ سنا دیتی ہیں۔ ہم بسیار غور وخوض کرنے،اور عدالتوں کی ’پراسرا‘ راہداریوں میں سوچ کے پنچھی تا دیر اڑانے کے باوجود اس حقیقت سے نا بَلد ہی رہے ہیں کہ فیصلہ ّمحفوظٗ کیوں کیا جاتا ہے اور پھر اس کو ’کسی پُراسرار‘ تاریخ کو کیوں سنایا جاتا ہے؟ عدالتوں کی باتوں میں حد سے زیادہ حساسیت ہوتی ہے اس لئے ہماری جیسی موٹی عقل کو یہ باتیں کیوں کرسمجھ آ سکتی ہیں۔ خیر بعض اوقات صحیح رستے کا پتہ نہ ہو تو تھوڑی بہت سیر ضرور ہو جاتی ہے۔ اور اگر وہ بات عقل و دانش سے منسلک ہو تو کچی عقل کی کچھ آوارگی کا سامان ہو جاتا ہے۔ بس یہی بات اپنی سوچ کی بغل میں دبائے ہم ّمحفوظٗ فیصلے کی ’پراسراریت‘ سمجھنے کے لئے خانہ بدوش سے ہو چکے ہیں۔ ہم اپنی کم مائیگی کا بہت جلد اعتراف کر لینے والے بندوں میں سے ہیں۔ ہماری سوچ کی پرواز بھی ہمارے مشاہدے کی طرح محدود بلکہ مسدود ہے۔ پھر بھی ہم کچھ نہ کچھ گمان کرنے کے بھی عادی ہیں۔ عادت کی اسی مجبوری کے تحت ہم اس عدالتی ادا پر کچھ قیاس کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا پہلاقیاس یہ ہے کہ شاید جج لوگ، نہیں ’جج لوگ‘ نہیں کہنا چاہیئے، کیوں کہ ’لوگ‘ تو غیروں کے لئے استعمال ہوتا ہے جب کہ جج تو ہمارے اپنے ہیں اس لئے ان کے لئے ’جج صاحبان‘ کہنا زیادہ مناسب اور معتبر رہے گا۔ جج صاحبان فیصلہ اس لئے محفوظ کر لیتے ہیں کہ اس پر مزید غورو فکر کر لیا جائے کیوں کہ فیصلہ سنا لینے کے بعد وہ پبلک پراپرٹی بن جاتا ہے اور عدالت کے ہاتھ سے گیم نکل کر وقت کے پاس چلی جاتی ہے کہ وہ اس پر جو مرضی ردِ عمل دے۔ لیکن جب تک فیصلہ ّمحفوظٗ ہے عدالت اس میں کچھ نہ کچھ ردو بدل کر سکتی ہے۔ فیصلہ محفوظ کرنا، سیکنڈ تھاٹس یعنی دوسری سوچوں کے آنے کا انتظار کرنے کے لئے ہے۔ ان پر غور کیا جاتا ہے اور اگر سیکنڈ تھاٹس بھی پہلی تھاٹس کی تائید کریں تو یہ’محفوظ فیصلہ‘ سنا دیا جاتا ہے۔ اور اگر سیکنڈ تھاٹس اس میں کچھ تبدیلی کرنے کا کہیں تو فیصلہ سنانے سے پہلے یہ تبدیلی کر کے اس ّمحفوظٗ فیصلے کو پبلک کر دیا جاتاہے۔ اس ضمن میں ہمارا دوسرا قیاس یہ ہے کہ عام قسم کی ذہنی یا نفسیاتی سوچوں کی بجائے جج صاحبان خاص قسم کی مذہبی سوچوں یا غیبی اشاروں کا انتظار فرماتے ہیں جن کے لئے وہ بطورِ خاص مراقبہ، استخارا، وجدان، الہام، اِلقا وغیرہ کا اہتمام فرماتے ہیں کیوں کہ آخر ایک دن خود جج صاحبان نے بھی تو اُس سب سے بڑے کی عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ اس لئے وہ اس طرف سے آنے والے اشارے کا انتظار کیئے بغیر اپنا ّمحفوظٗ فیصلہ کسی کو بھی سنانے کے روا دار نہیں ہیں۔ اگر یہ بات ایسے ہی ہے جیسے کہ ہماری ناقص خیالی سوچ رہی ہے تو پھر تو کیا ہی بات ہے۔ ہم اس حق میں ہیں کہ ہر فیصلہ پہلے ّمحفوظٗ کیا جائے اور اس پر غیبی اشارے کا انتظار کیا جائے اور پھر اگر غیبی اشارے سے فیصلے کی تائید حاصل ہو جائے تو کسی وقت اسے سنا دیا جائے۔ اسی طرح ہماری سوچ کا پنچھی گمان کی دوسری سے تیسری شاخ پر بیٹھ کر کبھی کبھی یہ سوچتا ہے، جو کہ ہمارا تیسرا قیاس ہے، کہ فیصلہ ّمحفوظٗ کرنے کے بعد کسی سماواتی غیبی اشارے کا انتظار نہیں کیا جا تا بلکہ کسی غیبی ارضی اشارے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ اور یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہوا کا رخ کدھر کو ہے۔ جدھر یہ زمینی طاقت اشارہ کرے ّمحفوظٗ فیصلے کا متن اس کی مطابق استوار کر دیا جاتا ہے۔ اس زمینی طاقت کا قیاس بھی کبھی کبھی بہت مضبوط گمان یعنی غالب گمان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ خام عقل کی ہر رسائی خام ہی ثابت ہوتی ہے۔ کبھی بھی چیز کا یقین آنے کے بعد پھر غائب ہو جاتا ہے اور خیال اپنی شاخ بدلتا چلا جاتاہے۔ہمیں بہت زیادہ یقین سا ہے کہ عدالتی کاروائی ایسی نہیں ہوتی جیسی ہم سطورِ بالا میں سمجھ رہے ہیں۔ فیصلہ ّمحفوظٗ کرنے کے اغراض ومقاصد سے تو شاید ہم کبھی بھی آشنا نہ ہو سکیں کیوں کہ لوگوں سے آشنائی کر کر کے ہم تھک سے گئے ہیں اور اب آشنائی کا لفظ سنتے ہی ہم کانپ سے جاتے ہیں۔ خیر یہ کوئی اتنی اچھی بات نہیں ہے۔ کبھی کبھی ہم خیال کرتے ہیں کہ فیصلہّ محفوظ کرنا’اچار یا مربہ ڈالنے جیسا ہوتا ہے، کہ عام لوگ اچار یا مربہ ڈال کر ّمحفوظٗ کر لیتے ہیں اور پھر جب ضرورت پڑتی ہے اسے نکال نکال کے کھاتے رہتے ہیں۔ اچار یا مربہ ّمحفوظٗ کرنا کتنی جلدی سمجھ آنے والا مظہر ہے لیکن یہ کم بخت ّفیصلہ محفوظٗ کرنا کسی طرح سے بھی سمجھ کے قریب قریب بھی نہیں ّپھڑکتا ٗ ۔لیکن ہماری سوچ اس ادا کے کسی وبا کی طرح پھیل جانے پر غور کرنے لگتی ہے۔ آج کل نکاح بھی زیادہ سے زیادہ عدالتی سا ہوتا جا رہا ہے۔ قوی امید ہے کہ مستقبل قریب میں ملک کی معاشی حالت کے پیشِ نظر نکاح ٹیکس کی زد میں آنے سے نہیں بچ سکے گا اور جلد ہی حکومت کے مالیاتی اداروں کو مشورہ دیا جائے گا کہ نکاح نامہ اشٹام پیپروں پرلکھا جایا کرے، اشٹام پیپروں کے علاوہ کسی اور پیپر پر لکھا نکاح نامہ عدالتی طور پر قابلِ قبول نہیں ہو گا یا اس نکاح کو غیر عدالتی قرار دیا جائے گا جو اشٹام پیپروں پر درج نہ ہو گا۔ اس طرح نکاح کی رسم سے عدالتی اور حکومتی مالیاتی اداروں کو بھی خوشی ہوا کرے گا۔اس طرح لوگوں کی خوشیوں میں اضافہ بھی ہو گا اور آبادی میں بھی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہم بات کچھ اور کرنا چاہتے ہیں جب کہ ہو کچھ اور جاتی ہے۔ خیر یہ بھی اکیلے ہمارا مسئلہ نہیں،دنیا کے اکثر لوگوں کو یہ مسئلہ درپیش ہے۔ اچھا تو ہم بات کر رہے تھے’محفوظ‘ فیصلے کی جس کی بنا پر ہمارا ذہن نکاح کی طرف مبذول ہو گیا یعنی ہماری سوچ ’محفوظ نکاح‘ کی طرف جا نکلی۔ جی ہاں آپ درست سمجھے ہیں کہ اگر فیصلوں کی طرح نکاح بھی پہلےمحفوظ‘ ہوا کریں اور پھر کچھ عرصہ بعد ان کو پبلک کیا جایا کرے تو معاشرے پر اس ادائے دلبریں کا کیا اثر پڑے گا؟ اس ضمن میں کچھ یوں ہوا کرے گا کہ لوگ پہلے اکٹھے ہو کر ّمحفوظٗ نکاح پڑھوایا یا کروایا کریں گے۔ اور پھر نکاح خواں اس ّمحفوظٗ نکاح کو بارات والے دن، کسی خاص جگہ اور خاص وقت پر آ کر لوگوں کے سامنے سنایا کرے گا۔ اس دوراں لوگوں کو تجسس رہا کرے گا کہ نکاح خواں ّمحفوظٗ نکاح نامے میں کوئی ردو بدل نہ کر دے۔ کہیں دلہن اپنے گھر والوں کے سامنے تو ّمحفوظٗ نکاح نامے پر دستخط ثبت کر دے یا انگوٹھا ’لگا‘ دے لیکن بعد میں اپنی کسی سہیلی یا دوست کے ساتھ جا کر نکاح خواں کو بتا دے کہ وہ اس نکاح کے لئے دل سے رضامند نہیں تھی۔ اس طرح نکاح خواں کے لئے اس ’محفوظ‘ نکاح کو منسوخ کرنے یااس میں ردو بدل کرنے جیسا معمہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس طرح ّمحفوظٗ نکاح ّمحفوظٗ ہونے کے باوجود ’غیر محفوظ‘ ہو جائے۔ اسی طرح اس ضمن میں ا س طرح کی باتیں بھی رونما ہو سکتی ہیں کہ لڑکی، لڑکے یا ان کے رشتہ داروں سے کوئی ان کی شادی کی بابت پوچھے اور جواب میں یہ بتایا جائے کہ ان کا نکاح ’محفوظ‘ ہو چکا ہے جو فلاں تاریخ کو فلاں وقت، فلاں شادی حال میں سنایا جائے گا یا ’غیر محفوظ‘کیا جائے گا۔یا اسی طرز پر لوگوں میں یہ بیان بھی زبان زدِ عام ہو سکتا ہے کہ پہلے ہم ’محفوظ نکاح‘ کروا لیں، باقی معاملات بعد میں دیکھے جائیں گے۔ یا وہ بہت ساری باتیں جو میرے ساتھ ساتھ آپ کے بھی ذہن میں آ رہی ہیں کے بھی وقوع پذیر ہونے کا پورا پورا سامان فراہم ہو سکتا ہے۔ ہماری سوچ کا پنچھی نکاح کی شاخ سے اڑ کر ڈاکٹری نسخے یعنی’پرسکرپشن پر براجمان ہو جاتا ہے۔ اگر فیصلہ محفوظ کا وائرس عدالتی فضا سے نکل کر ہسپتالوں اور کلینکوں کا رخ کر لےتو کیا ہو۔ مریض، ڈاکٹر صاحب کے پاس جایا کرے گا۔ ڈاکٹر اسے اچھی طرح سے، یعنی جیسے وہ اکثر کرتے ہیں، چیک کیا کریں گے۔ اپنی فیس وہ پہلے ہی چارج کر چکے ہوں گے، جس سے مریض کے سرخ یا سفید خلیئے چاہے کم ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں، پھر وہ پورے تدبر اور تفکر کے ساتھ پہلے ایک ّمحفوظٗ نسخہ لکھا کریں گے اور مریض کو گھر واپس بھیج دیا کریں گے۔کیوں وہ ّمحفوظٗ نسخہ کسی مریض کو دے یا دکھا نہیں سکتے کہ یہ عدالتی ادا کی خلاف ورزی ہو گی اور اپنی خلاف ورزی کو عدالت کسی بھی وقت اپنی ’توہین‘ قرار دے کر توہین کرنے والے کو قرار واقعی سزا بھی سنا سکتی ہے۔ اس مصیبت میں پڑنے کی کوئی بھی سمجھ دار ڈاکٹر قطعی طور پر کوشش نہیں کر سکتا۔ اس لئے ّمحفوظٗ فیصلے کی روایت کی مکمل پیروی کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبان پہلے ّمحفوظٗ نسخہ ہی لکھا کریں گے یا نسخہ لکھ کر پہلے اسےّمحفوظٗ کیا کریں گے، بعد میں اس پر سینکڈ تھاٹس کا انتظار کیا کریں گے۔ اگر سیکنڈ تھاٹس پہلی سوچوں کے ساتھ ٹیلی کریں گی تو وہ ّمحفوظٗ نسخہ برقرار رہا کرے گا اور اگر سیکنڈ تھاٹس، پہلی سوچوں سے مختلف ہو جائیں گی،جیسا کہ اکثر ہو بھی جاتا ہے، تو وہ ّمحفوظٗ نسخہ بدل لیا جائے گا۔ یا ایک ڈاکٹر کسی دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ بھی کر سکتا ہے اور اپنا لکھا ّمحفوظٗ نسخہ اس سے ڈسکس کر سکتا ہے اور اگر مشاورت میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس میں کسی میڈیسن کی تبدیلی ضروری ہے تو پھر اس’محفوظ‘ نسخے کو پھر سے’محفوظ‘ کیا جا سکتا ہے اور پھر مریض کو بتائے گئے یا نہ بتائے گئے وقت پر بلا کر اسے تھمایا جا سکتا ہے۔ یوں یہ ’محفوظ‘ نسخہ آخر کار غیر محفوظ کیا جا سکتا ہے یا اسے پبلک پراپرٹی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر یہی عدالتی انداز دھیرے دھیرے تعلیمی اداروں کی زینت بھی بننے لگا جو کہ ابھی تک نہیں بنا، تو مستقبل میں پہلے ّمحفوظٗ اسنادجاری ہوا کریں گی اور پھر کچھ عرصہ کی تاخیر، جس میں نا معلوم کیاکچھ ہوا کرے، یہ ّمحفوظٗ اسناد طالب علموں کے گھروں، سکولوں اور اکیڈمیوں کے پتوں پر ارسال کر دی جایا کریں گی۔ امتحانوں کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان ہوا کرے گا کہ امتحان منعقد ہونے کے بعد اس تاریخ کو اسناد ّمحفوظٗ کر لی جائیں گی اور پھر اسناد ّمحفوظٗ کرنے کے اتنے دن بعد یہ ّمحفوظٗ اسناد ’غیر محفوظ‘ کر کے ڈاک سسٹم اور اللہ کے سپردکر دی جائیں گی۔کچھ ادارے’محفوظ‘ اسناد کے پردے میں پیسے بھی بٹور سکتے ہیں۔ اسناد کے ّمحفوظٗ ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ چھپ چکی ہیں اور اگر وہ جنم لے چکی ہیں تو ان کا حلیہ اور قد کاٹھ کیا ہے۔ ان کا تجسس کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ طالب علم پہلے اسناد کے ’محفوظ‘ ہونے اور پھر ّمحفوظٗ اسناد کے’غیر محفوظ‘ ہونے کا انتظار کیا کریں گے۔ اس طرح امتحان کے بعد بھی ستم بالائے ستم ہوتا رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ایک دن طالب علم اس عدالتی ’ادا‘ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پے آ جائیں اور ٹریفک جام کر دیں۔ اس سے ان کی ّمحفوظٗ اسناد کی پہنچ میں مزید تاخیر ہو گی۔ عدالتیں اپنا انداز ِ رازو نیازبالکل نہیں بدلیں گی بلکہ بدلنے کا سوچیں گی بھی نہیں۔ کیوں کہ ان کے فیصلوں کو حفاظت کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔اور وہ فیصلوں کو غیر’محفوظ‘ رکھ کر اپنے آپ کو غیر محفوظ نہیں ہونے دیں گی۔ بہت سی چیزوں کی تیاری میں یہ مرحلہ ضرور آتا ہے کہ تیاری کے بعد انہیں کچھ دیر کے لئے فارغ چھوڑ دیا جاتا ہے جس میں وہ گرم ہو تو ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، ٹھنڈی ہوں تو نارمل ہو جاتی ہیں، گیلی ہوں تو سوکھ جاتی ہیں۔ کچی ہوں تو پک جاتی ہیں، وغیرہ کے عمل ہو تے رہتے ہیں۔ ایک رائٹر بھی تحریر لکھنے کے بعد کچھ دیر کے لئے اسے ویسی کی ویسی پڑی رہنے دیتا ہے اور کچھ وقت بعد اس کے ذہن میں اس تحریر سے متعلق کوئی تبدیلی یا بہتری ذہن میں آتی ہے تو وہ کر لیتا ہے۔ کسی چیز کو نکالنا بہتر سمجھا جائے تو نکال بھی دیتا ہے۔ بعض اوقات کئی ایک پیرے ڈیلیٹ کر دیئے جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایک رائٹر بھی پہلے ایک ّمحفوظٗ تحریر لکھتا ہے جسے وہ کسی کو نہیں، یا صرف ہم راز دوستوں کو دکھاتا یا پڑھواتا ہے۔ اور کچھ عرصے بعد جب وہ سمجھتا ہے کہ اس ’محفوظ‘ تحریر کو اب ’غیر محفوظ‘ یعنی شائع کر دیا جائے تو وہ شائع کر دیتا ہے۔ معزز قارئین، ہم بھی اپنی تحریروں کو لکھنے کے بعد کئی ایک دنوں، ہفتوں، مہینوں اور بعض اوقات سالوں تک ّمحفوظٗ رکھتے ہیں اور بعد ازاں دوسری سوچوں یعنی سیکنڈ تھاٹس کے پروسیجر سے گزر کر جب پھر سے انہیں دیکھتے ہیں۔اگر پھر بھی یہ ذہن اور دل کو اچھی محسوس ہوتی ہیں تو ہم انہیں ّغیر محفوظٗ کر دیتے ہیں یعنی چھپنے کے لئے ہماری وب کو بھیج دیتے ہیں۔ امید ہے آپ کو تحریر پسند آئی ہو گی۔ بہت شکریہ! اللہ حافظ!
فیصلہ محفوظ (انشائیہ) پروفیسر نیامت علی مرتضائیؔ (2202-11-17،جمعرات) پاکستانی سیاست سے تھوڑی سی بھی دلچسپی جلد ہی اس عدالتی روایت سے آگہی حاصل کر لیتی ہے کہ ہماری عدالتیں ایک خاص انداز سے کام کرتی ہیں یا چلتی ہیں۔ پاکستانی عدالتوں کے فیصلے قبل از مسیح کے زمانے کے یونان کی ڈیلفی کے فیصلوں کی یاد دلا دیتے ہیں۔میرے بات کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ فیصلے کسی روحانی تقدس سے مزین ہوتے ہیں بلکہ میرا اشارہ ان فیصلوں کی پُراسراریت کی طرف ہے۔ بعض اوقات فیصلہ اس بنیاد پر بھی ّمحفوظٗ کر کے سنا دیا جاتا ہے جس بنیاد پر مقدمہ درج ہی نہیں کروایا گیا ہوتا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دیوتاؤں سے ایسا سوال نہیں کیا جا سکتا تھا۔چلیں بڑوں کی باتیں بڑے ہی جانیں، چھوٹے لوگوں کو بڑوں کی باتوں میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیئے ورنہ ٹانگ ہی نہیں ٹانگ والے یا والی کا بھی بندوبست ہو سکتا ہے۔ ہماری دلچسپی عدالتوں کی اس خوبصورت ادا سے ہے کہ وہ پہلے ساری بحث سنتی ہیں، پھر فیصلہ’محفوظ‘ کر لیتی ہیں اور پھر کسی خاص ’پُراسرار‘ دن اور وقت پر یہ ’محفوظ فیصلہ‘ سنا دیتی ہیں۔ ہم بسیار غور وخوض کرنے،اور عدالتوں کی ’پراسرا‘ راہداریوں میں سوچ کے پنچھی تا دیر اڑانے کے باوجود اس حقیقت سے نا بَلد ہی رہے ہیں کہ فیصلہ ّمحفوظٗ کیوں کیا جاتا ہے اور پھر اس کو ’کسی پُراسرار‘ تاریخ کو کیوں سنایا جاتا ہے؟ عدالتوں کی باتوں میں حد سے زیادہ حساسیت ہوتی ہے اس لئے ہماری جیسی موٹی عقل کو یہ باتیں کیوں کرسمجھ آ سکتی ہیں۔ خیر بعض اوقات صحیح رستے کا پتہ نہ ہو تو تھوڑی بہت سیر ضرور ہو جاتی ہے۔ اور اگر وہ بات عقل و دانش سے منسلک ہو تو کچی عقل کی کچھ آوارگی کا سامان ہو جاتا ہے۔ بس یہی بات اپنی سوچ کی بغل میں دبائے ہم ّمحفوظٗ فیصلے کی ’پراسراریت‘ سمجھنے کے لئے خانہ بدوش سے ہو چکے ہیں۔ ہم اپنی کم مائیگی کا بہت جلد اعتراف کر لینے والے بندوں میں سے ہیں۔ ہماری سوچ کی پرواز بھی ہمارے مشاہدے کی طرح محدود بلکہ مسدود ہے۔ پھر بھی ہم کچھ نہ کچھ گمان کرنے کے بھی عادی ہیں۔ عادت کی اسی مجبوری کے تحت ہم اس عدالتی ادا پر کچھ قیاس کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا پہلاقیاس یہ ہے کہ شاید جج لوگ، نہیں ’جج لوگ‘ نہیں کہنا چاہیئے، کیوں کہ ’لوگ‘ تو غیروں کے لئے استعمال ہوتا ہے جب کہ جج تو ہمارے اپنے ہیں اس لئے ان کے لئے ’جج صاحبان‘ کہنا زیادہ مناسب اور معتبر رہے گا۔ جج صاحبان فیصلہ اس لئے محفوظ کر لیتے ہیں کہ اس پر مزید غورو فکر کر لیا جائے کیوں کہ فیصلہ سنا لینے کے بعد وہ پبلک پراپرٹی بن جاتا ہے اور عدالت کے ہاتھ سے گیم نکل کر وقت کے پاس چلی جاتی ہے کہ وہ اس پر جو مرضی ردِ عمل دے۔ لیکن جب تک فیصلہ ّمحفوظٗ ہے عدالت اس میں کچھ نہ کچھ ردو بدل کر سکتی ہے۔ فیصلہ محفوظ کرنا، سیکنڈ تھاٹس یعنی دوسری سوچوں کے آنے کا انتظار کرنے کے لئے ہے۔ ان پر غور کیا جاتا ہے اور اگر سیکنڈ تھاٹس بھی پہلی تھاٹس کی تائید کریں تو یہ’محفوظ فیصلہ‘ سنا دیا جاتا ہے۔ اور اگر سیکنڈ تھاٹس اس میں کچھ تبدیلی کرنے کا کہیں تو فیصلہ سنانے سے پہلے یہ تبدیلی کر کے اس ّمحفوظٗ فیصلے کو پبلک کر دیا جاتاہے۔ اس ضمن میں ہمارا دوسرا قیاس یہ ہے کہ عام قسم کی ذہنی یا نفسیاتی سوچوں کی بجائے جج صاحبان خاص قسم کی مذہبی سوچوں یا غیبی اشاروں کا انتظار فرماتے ہیں جن کے لئے وہ بطورِ خاص مراقبہ، استخارا، وجدان، الہام، اِلقا وغیرہ کا اہتمام فرماتے ہیں کیوں کہ آخر ایک دن خود جج صاحبان نے بھی تو اُس سب سے بڑے کی عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ اس لئے وہ اس طرف سے آنے والے اشارے کا انتظار کیئے بغیر اپنا ّمحفوظٗ فیصلہ کسی کو بھی سنانے کے روا دار نہیں ہیں۔ اگر یہ بات ایسے ہی ہے جیسے کہ ہماری ناقص خیالی سوچ رہی ہے تو پھر تو کیا ہی بات ہے۔ ہم اس حق میں ہیں کہ ہر فیصلہ پہلے ّمحفوظٗ کیا جائے اور اس پر غیبی اشارے کا انتظار کیا جائے اور پھر اگر غیبی اشارے سے فیصلے کی تائید حاصل ہو جائے تو کسی وقت اسے سنا دیا جائے۔ اسی طرح ہماری سوچ کا پنچھی گمان کی دوسری سے تیسری شاخ پر بیٹھ کر کبھی کبھی یہ سوچتا ہے، جو کہ ہمارا تیسرا قیاس ہے، کہ فیصلہ ّمحفوظٗ کرنے کے بعد کسی سماواتی غیبی اشارے کا انتظار نہیں کیا جا تا بلکہ کسی غیبی ارضی اشارے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ اور یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہوا کا رخ کدھر کو ہے۔ جدھر یہ زمینی طاقت اشارہ کرے ّمحفوظٗ فیصلے کا متن اس کی مطابق استوار کر دیا جاتا ہے۔ اس زمینی طاقت کا قیاس بھی کبھی کبھی بہت مضبوط گمان یعنی غالب گمان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ خام عقل کی ہر رسائی خام ہی ثابت ہوتی ہے۔ کبھی بھی چیز کا یقین آنے کے بعد پھر غائب ہو جاتا ہے اور خیال اپنی شاخ بدلتا چلا جاتاہے۔ہمیں بہت زیادہ یقین سا ہے کہ عدالتی کاروائی ایسی نہیں ہوتی جیسی ہم سطورِ بالا میں سمجھ رہے ہیں۔ فیصلہ ّمحفوظٗ کرنے کے اغراض ومقاصد سے تو شاید ہم کبھی بھی آشنا نہ ہو سکیں کیوں کہ لوگوں سے آشنائی کر کر کے ہم تھک سے گئے ہیں اور اب آشنائی کا لفظ سنتے ہی ہم کانپ سے جاتے ہیں۔ خیر یہ کوئی اتنی اچھی بات نہیں ہے۔ کبھی کبھی ہم خیال کرتے ہیں کہ فیصلہّ محفوظ کرنا’اچار یا مربہ ڈالنے جیسا ہوتا ہے، کہ عام لوگ اچار یا مربہ ڈال کر ّمحفوظٗ کر لیتے ہیں اور پھر جب ضرورت پڑتی ہے اسے نکال نکال کے کھاتے رہتے ہیں۔ اچار یا مربہ ّمحفوظٗ کرنا کتنی جلدی سمجھ آنے والا مظہر ہے لیکن یہ کم بخت ّفیصلہ محفوظٗ کرنا کسی طرح سے بھی سمجھ کے قریب قریب بھی نہیں ّپھڑکتا ٗ ۔لیکن ہماری سوچ اس ادا کے کسی وبا کی طرح پھیل جانے پر غور کرنے لگتی ہے۔ آج کل نکاح بھی زیادہ سے زیادہ عدالتی سا ہوتا جا رہا ہے۔ قوی امید ہے کہ مستقبل قریب میں ملک کی معاشی حالت کے پیشِ نظر نکاح ٹیکس کی زد میں آنے سے نہیں بچ سکے گا اور جلد ہی حکومت کے مالیاتی اداروں کو مشورہ دیا جائے گا کہ نکاح نامہ اشٹام پیپروں پرلکھا جایا کرے، اشٹام پیپروں کے علاوہ کسی اور پیپر پر لکھا نکاح نامہ عدالتی طور پر قابلِ قبول نہیں ہو گا یا اس نکاح کو غیر عدالتی قرار دیا جائے گا جو اشٹام پیپروں پر درج نہ ہو گا۔ اس طرح نکاح کی رسم سے عدالتی اور حکومتی مالیاتی اداروں کو بھی خوشی ہوا کرے گا۔اس طرح لوگوں کی خوشیوں میں اضافہ بھی ہو گا اور آبادی میں بھی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہم بات کچھ اور کرنا چاہتے ہیں جب کہ ہو کچھ اور جاتی ہے۔ خیر یہ بھی اکیلے ہمارا مسئلہ نہیں،دنیا کے اکثر لوگوں کو یہ مسئلہ درپیش ہے۔ اچھا تو ہم بات کر رہے تھے’محفوظ‘ فیصلے کی جس کی بنا پر ہمارا ذہن نکاح کی طرف مبذول ہو گیا یعنی ہماری سوچ ’محفوظ نکاح‘ کی طرف جا نکلی۔ جی ہاں آپ درست سمجھے ہیں کہ اگر فیصلوں کی طرح نکاح بھی پہلےمحفوظ‘ ہوا کریں اور پھر کچھ عرصہ بعد ان کو پبلک کیا جایا کرے تو معاشرے پر اس ادائے دلبریں کا کیا اثر پڑے گا؟ اس ضمن میں کچھ یوں ہوا کرے گا کہ لوگ پہلے اکٹھے ہو کر ّمحفوظٗ نکاح پڑھوایا یا کروایا کریں گے۔ اور پھر نکاح خواں اس ّمحفوظٗ نکاح کو بارات والے دن، کسی خاص جگہ اور خاص وقت پر آ کر لوگوں کے سامنے سنایا کرے گا۔ اس دوراں لوگوں کو تجسس رہا کرے گا کہ نکاح خواں ّمحفوظٗ نکاح نامے میں کوئی ردو بدل نہ کر دے۔ کہیں دلہن اپنے گھر والوں کے سامنے تو ّمحفوظٗ نکاح نامے پر دستخط ثبت کر دے یا انگوٹھا ’لگا‘ دے لیکن بعد میں اپنی کسی سہیلی یا دوست کے ساتھ جا کر نکاح خواں کو بتا دے کہ وہ اس نکاح کے لئے دل سے رضامند نہیں تھی۔ اس طرح نکاح خواں کے لئے اس ’محفوظ‘ نکاح کو منسوخ کرنے یااس میں ردو بدل کرنے جیسا معمہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس طرح ّمحفوظٗ نکاح ّمحفوظٗ ہونے کے باوجود ’غیر محفوظ‘ ہو جائے۔ اسی طرح اس ضمن میں ا س طرح کی باتیں بھی رونما ہو سکتی ہیں کہ لڑکی، لڑکے یا ان کے رشتہ داروں سے کوئی ان کی شادی کی بابت پوچھے اور جواب میں یہ بتایا جائے کہ ان کا نکاح ’محفوظ‘ ہو چکا ہے جو فلاں تاریخ کو فلاں وقت، فلاں شادی حال میں سنایا جائے گا یا ’غیر محفوظ‘کیا جائے گا۔یا اسی طرز پر لوگوں میں یہ بیان بھی زبان زدِ عام ہو سکتا ہے کہ پہلے ہم ’محفوظ نکاح‘ کروا لیں، باقی معاملات بعد میں دیکھے جائیں گے۔ یا وہ بہت ساری باتیں جو میرے ساتھ ساتھ آپ کے بھی ذہن میں آ رہی ہیں کے بھی وقوع پذیر ہونے کا پورا پورا سامان فراہم ہو سکتا ہے۔ ہماری سوچ کا پنچھی نکاح کی شاخ سے اڑ کر ڈاکٹری نسخے یعنی’پرسکرپشن پر براجمان ہو جاتا ہے۔ اگر فیصلہ محفوظ کا وائرس عدالتی فضا سے نکل کر ہسپتالوں اور کلینکوں کا رخ کر لےتو کیا ہو۔ مریض، ڈاکٹر صاحب کے پاس جایا کرے گا۔ ڈاکٹر اسے اچھی طرح سے، یعنی جیسے وہ اکثر کرتے ہیں، چیک کیا کریں گے۔ اپنی فیس وہ پہلے ہی چارج کر چکے ہوں گے، جس سے مریض کے سرخ یا سفید خلیئے چاہے کم ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں، پھر وہ پورے تدبر اور تفکر کے ساتھ پہلے ایک ّمحفوظٗ نسخہ لکھا کریں گے اور مریض کو گھر واپس بھیج دیا کریں گے۔کیوں وہ ّمحفوظٗ نسخہ کسی مریض کو دے یا دکھا نہیں سکتے کہ یہ عدالتی ادا کی خلاف ورزی ہو گی اور اپنی خلاف ورزی کو عدالت کسی بھی وقت اپنی ’توہین‘ قرار دے کر توہین کرنے والے کو قرار واقعی سزا بھی سنا سکتی ہے۔ اس مصیبت میں پڑنے کی کوئی بھی سمجھ دار ڈاکٹر قطعی طور پر کوشش نہیں کر سکتا۔ اس لئے ّمحفوظٗ فیصلے کی روایت کی مکمل پیروی کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبان پہلے ّمحفوظٗ نسخہ ہی لکھا کریں گے یا نسخہ لکھ کر پہلے اسےّمحفوظٗ کیا کریں گے، بعد میں اس پر سینکڈ تھاٹس کا انتظار کیا کریں گے۔ اگر سیکنڈ تھاٹس پہلی سوچوں کے ساتھ ٹیلی کریں گی تو وہ ّمحفوظٗ نسخہ برقرار رہا کرے گا اور اگر سیکنڈ تھاٹس، پہلی سوچوں سے مختلف ہو جائیں گی،جیسا کہ اکثر ہو بھی جاتا ہے، تو وہ ّمحفوظٗ نسخہ بدل لیا جائے گا۔ یا ایک ڈاکٹر کسی دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ بھی کر سکتا ہے اور اپنا لکھا ّمحفوظٗ نسخہ اس سے ڈسکس کر سکتا ہے اور اگر مشاورت میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس میں کسی میڈیسن کی تبدیلی ضروری ہے تو پھر اس’محفوظ‘ نسخے کو پھر سے’محفوظ‘ کیا جا سکتا ہے اور پھر مریض کو بتائے گئے یا نہ بتائے گئے وقت پر بلا کر اسے تھمایا جا سکتا ہے۔ یوں یہ ’محفوظ‘ نسخہ آخر کار غیر محفوظ کیا جا سکتا ہے یا اسے پبلک پراپرٹی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر یہی عدالتی انداز دھیرے دھیرے تعلیمی اداروں کی زینت بھی بننے لگا جو کہ ابھی تک نہیں بنا، تو مستقبل میں پہلے ّمحفوظٗ اسنادجاری ہوا کریں گی اور پھر کچھ عرصہ کی تاخیر، جس میں نا معلوم کیاکچھ ہوا کرے، یہ ّمحفوظٗ اسناد طالب علموں کے گھروں، سکولوں اور اکیڈمیوں کے پتوں پر ارسال کر دی جایا کریں گی۔ امتحانوں کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان ہوا کرے گا کہ امتحان منعقد ہونے کے بعد اس تاریخ کو اسناد ّمحفوظٗ کر لی جائیں گی اور پھر اسناد ّمحفوظٗ کرنے کے اتنے دن بعد یہ ّمحفوظٗ اسناد ’غیر محفوظ‘ کر کے ڈاک سسٹم اور اللہ کے سپردکر دی جائیں گی۔کچھ ادارے’محفوظ‘ اسناد کے پردے میں پیسے بھی بٹور سکتے ہیں۔ اسناد کے ّمحفوظٗ ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ چھپ چکی ہیں اور اگر وہ جنم لے چکی ہیں تو ان کا حلیہ اور قد کاٹھ کیا ہے۔ ان کا تجسس کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ طالب علم پہلے اسناد کے ’محفوظ‘ ہونے اور پھر ّمحفوظٗ اسناد کے’غیر محفوظ‘ ہونے کا انتظار کیا کریں گے۔ اس طرح امتحان کے بعد بھی ستم بالائے ستم ہوتا رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ایک دن طالب علم اس عدالتی ’ادا‘ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پے آ جائیں اور ٹریفک جام کر دیں۔ اس سے ان کی ّمحفوظٗ اسناد کی پہنچ میں مزید تاخیر ہو گی۔ عدالتیں اپنا انداز ِ رازو نیازبالکل نہیں بدلیں گی بلکہ بدلنے کا سوچیں گی بھی نہیں۔ کیوں کہ ان کے فیصلوں کو حفاظت کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔اور وہ فیصلوں کو غیر’محفوظ‘ رکھ کر اپنے آپ کو غیر محفوظ نہیں ہونے دیں گی۔ بہت سی چیزوں کی تیاری میں یہ مرحلہ ضرور آتا ہے کہ تیاری کے بعد انہیں کچھ دیر کے لئے فارغ چھوڑ دیا جاتا ہے جس میں وہ گرم ہو تو ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، ٹھنڈی ہوں تو نارمل ہو جاتی ہیں، گیلی ہوں تو سوکھ جاتی ہیں۔ کچی ہوں تو پک جاتی ہیں، وغیرہ کے عمل ہو تے رہتے ہیں۔ ایک رائٹر بھی تحریر لکھنے کے بعد کچھ دیر کے لئے اسے ویسی کی ویسی پڑی رہنے دیتا ہے اور کچھ وقت بعد اس کے ذہن میں اس تحریر سے متعلق کوئی تبدیلی یا بہتری ذہن میں آتی ہے تو وہ کر لیتا ہے۔ کسی چیز کو نکالنا بہتر سمجھا جائے تو نکال بھی دیتا ہے۔ بعض اوقات کئی ایک پیرے ڈیلیٹ کر دیئے جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایک رائٹر بھی پہلے ایک ّمحفوظٗ تحریر لکھتا ہے جسے وہ کسی کو نہیں، یا صرف ہم راز دوستوں کو دکھاتا یا پڑھواتا ہے۔ اور کچھ عرصے بعد جب وہ سمجھتا ہے کہ اس ’محفوظ‘ تحریر کو اب ’غیر محفوظ‘ یعنی شائع کر دیا جائے تو وہ شائع کر دیتا ہے۔ معزز قارئین، ہم بھی اپنی تحریروں کو لکھنے کے بعد کئی ایک دنوں، ہفتوں، مہینوں اور بعض اوقات سالوں تک ّمحفوظٗ رکھتے ہیں اور بعد ازاں دوسری سوچوں یعنی سیکنڈ تھاٹس کے پروسیجر سے گزر کر جب پھر سے انہیں دیکھتے ہیں۔اگر پھر بھی یہ ذہن اور دل کو اچھی محسوس ہوتی ہیں تو ہم انہیں ّغیر محفوظٗ کر دیتے ہیں یعنی چھپنے کے لئے ہماری وب کو بھیج دیتے ہیں۔ امید ہے آپ کو تحریر پسند آئی ہو گی۔ بہت شکریہ! اللہ حافظ!
فیصلہ محفوظ (انشائیہ) پروفیسر نیامت علی مرتضائیؔ (2202-11-17،جمعرات) پاکستانی سیاست سے تھوڑی سی بھی دلچسپی جلد ہی اس عدالتی روایت سے آگہی حاصل کر لیتی ہے کہ ہماری عدالتیں ایک خاص انداز سے کام کرتی ہیں یا چلتی ہیں۔ پاکستانی عدالتوں کے فیصلے قبل از مسیح کے زمانے کے یونان کی ڈیلفی کے فیصلوں کی یاد دلا دیتے ہیں۔میرے بات کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ فیصلے کسی روحانی تقدس سے مزین ہوتے ہیں بلکہ میرا اشارہ ان فیصلوں کی پُراسراریت کی طرف ہے۔ بعض اوقات فیصلہ اس بنیاد پر بھی ّمحفوظٗ کر کے سنا دیا جاتا ہے جس بنیاد پر مقدمہ درج ہی نہیں کروایا گیا ہوتا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دیوتاؤں سے ایسا سوال نہیں کیا جا سکتا تھا۔چلیں بڑوں کی باتیں بڑے ہی جانیں، چھوٹے لوگوں کو بڑوں کی باتوں میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیئے ورنہ ٹانگ ہی نہیں ٹانگ والے یا والی کا بھی بندوبست ہو سکتا ہے۔ ہماری دلچسپی عدالتوں کی اس خوبصورت ادا سے ہے کہ وہ پہلے ساری بحث سنتی ہیں، پھر فیصلہ’محفوظ‘ کر لیتی ہیں اور پھر کسی خاص ’پُراسرار‘ دن اور وقت پر یہ ’محفوظ فیصلہ‘ سنا دیتی ہیں۔ ہم بسیار غور وخوض کرنے،اور عدالتوں کی ’پراسرا‘ راہداریوں میں سوچ کے پنچھی تا دیر اڑانے کے باوجود اس حقیقت سے نا بَلد ہی رہے ہیں کہ فیصلہ ّمحفوظٗ کیوں کیا جاتا ہے اور پھر اس کو ’کسی پُراسرار‘ تاریخ کو کیوں سنایا جاتا ہے؟ عدالتوں کی باتوں میں حد سے زیادہ حساسیت ہوتی ہے اس لئے ہماری جیسی موٹی عقل کو یہ باتیں کیوں کرسمجھ آ سکتی ہیں۔ خیر بعض اوقات صحیح رستے کا پتہ نہ ہو تو تھوڑی بہت سیر ضرور ہو جاتی ہے۔ اور اگر وہ بات عقل و دانش سے منسلک ہو تو کچی عقل کی کچھ آوارگی کا سامان ہو جاتا ہے۔ بس یہی بات اپنی سوچ کی بغل میں دبائے ہم ّمحفوظٗ فیصلے کی ’پراسراریت‘ سمجھنے کے لئے خانہ بدوش سے ہو چکے ہیں۔ ہم اپنی کم مائیگی کا بہت جلد اعتراف کر لینے والے بندوں میں سے ہیں۔ ہماری سوچ کی پرواز بھی ہمارے مشاہدے کی طرح محدود بلکہ مسدود ہے۔ پھر بھی ہم کچھ نہ کچھ گمان کرنے کے بھی عادی ہیں۔ عادت کی اسی مجبوری کے تحت ہم اس عدالتی ادا پر کچھ قیاس کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا پہلاقیاس یہ ہے کہ شاید جج لوگ، نہیں ’جج لوگ‘ نہیں کہنا چاہیئے، کیوں کہ ’لوگ‘ تو غیروں کے لئے استعمال ہوتا ہے جب کہ جج تو ہمارے اپنے ہیں اس لئے ان کے لئے ’جج صاحبان‘ کہنا زیادہ مناسب اور معتبر رہے گا۔ جج صاحبان فیصلہ اس لئے محفوظ کر لیتے ہیں کہ اس پر مزید غورو فکر کر لیا جائے کیوں کہ فیصلہ سنا لینے کے بعد وہ پبلک پراپرٹی بن جاتا ہے اور عدالت کے ہاتھ سے گیم نکل کر وقت کے پاس چلی جاتی ہے کہ وہ اس پر جو مرضی ردِ عمل دے۔ لیکن جب تک فیصلہ ّمحفوظٗ ہے عدالت اس میں کچھ نہ کچھ ردو بدل کر سکتی ہے۔ فیصلہ محفوظ کرنا، سیکنڈ تھاٹس یعنی دوسری سوچوں کے آنے کا انتظار کرنے کے لئے ہے۔ ان پر غور کیا جاتا ہے اور اگر سیکنڈ تھاٹس بھی پہلی تھاٹس کی تائید کریں تو یہ’محفوظ فیصلہ‘ سنا دیا جاتا ہے۔ اور اگر سیکنڈ تھاٹس اس میں کچھ تبدیلی کرنے کا کہیں تو فیصلہ سنانے سے پہلے یہ تبدیلی کر کے اس ّمحفوظٗ فیصلے کو پبلک کر دیا جاتاہے۔ اس ضمن میں ہمارا دوسرا قیاس یہ ہے کہ عام قسم کی ذہنی یا نفسیاتی سوچوں کی بجائے جج صاحبان خاص قسم کی مذہبی سوچوں یا غیبی اشاروں کا انتظار فرماتے ہیں جن کے لئے وہ بطورِ خاص مراقبہ، استخارا، وجدان، الہام، اِلقا وغیرہ کا اہتمام فرماتے ہیں کیوں کہ آخر ایک دن خود جج صاحبان نے بھی تو اُس سب سے بڑے کی عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ اس لئے وہ اس طرف سے آنے والے اشارے کا انتظار کیئے بغیر اپنا ّمحفوظٗ فیصلہ کسی کو بھی سنانے کے روا دار نہیں ہیں۔ اگر یہ بات ایسے ہی ہے جیسے کہ ہماری ناقص خیالی سوچ رہی ہے تو پھر تو کیا ہی بات ہے۔ ہم اس حق میں ہیں کہ ہر فیصلہ پہلے ّمحفوظٗ کیا جائے اور اس پر غیبی اشارے کا انتظار کیا جائے اور پھر اگر غیبی اشارے سے فیصلے کی تائید حاصل ہو جائے تو کسی وقت اسے سنا دیا جائے۔ اسی طرح ہماری سوچ کا پنچھی گمان کی دوسری سے تیسری شاخ پر بیٹھ کر کبھی کبھی یہ سوچتا ہے، جو کہ ہمارا تیسرا قیاس ہے، کہ فیصلہ ّمحفوظٗ کرنے کے بعد کسی سماواتی غیبی اشارے کا انتظار نہیں کیا جا تا بلکہ کسی غیبی ارضی اشارے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ اور یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہوا کا رخ کدھر کو ہے۔ جدھر یہ زمینی طاقت اشارہ کرے ّمحفوظٗ فیصلے کا متن اس کی مطابق استوار کر دیا جاتا ہے۔ اس زمینی طاقت کا قیاس بھی کبھی کبھی بہت مضبوط گمان یعنی غالب گمان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ خام عقل کی ہر رسائی خام ہی ثابت ہوتی ہے۔ کبھی بھی چیز کا یقین آنے کے بعد پھر غائب ہو جاتا ہے اور خیال اپنی شاخ بدلتا چلا جاتاہے۔ہمیں بہت زیادہ یقین سا ہے کہ عدالتی کاروائی ایسی نہیں ہوتی جیسی ہم سطورِ بالا میں سمجھ رہے ہیں۔ فیصلہ ّمحفوظٗ کرنے کے اغراض ومقاصد سے تو شاید ہم کبھی بھی آشنا نہ ہو سکیں کیوں کہ لوگوں سے آشنائی کر کر کے ہم تھک سے گئے ہیں اور اب آشنائی کا لفظ سنتے ہی ہم کانپ سے جاتے ہیں۔ خیر یہ کوئی اتنی اچھی بات نہیں ہے۔ کبھی کبھی ہم خیال کرتے ہیں کہ فیصلہّ محفوظ کرنا’اچار یا مربہ ڈالنے جیسا ہوتا ہے، کہ عام لوگ اچار یا مربہ ڈال کر ّمحفوظٗ کر لیتے ہیں اور پھر جب ضرورت پڑتی ہے اسے نکال نکال کے کھاتے رہتے ہیں۔ اچار یا مربہ ّمحفوظٗ کرنا کتنی جلدی سمجھ آنے والا مظہر ہے لیکن یہ کم بخت ّفیصلہ محفوظٗ کرنا کسی طرح سے بھی سمجھ کے قریب قریب بھی نہیں ّپھڑکتا ٗ ۔لیکن ہماری سوچ اس ادا کے کسی وبا کی طرح پھیل جانے پر غور کرنے لگتی ہے۔ آج کل نکاح بھی زیادہ سے زیادہ عدالتی سا ہوتا جا رہا ہے۔ قوی امید ہے کہ مستقبل قریب میں ملک کی معاشی حالت کے پیشِ نظر نکاح ٹیکس کی زد میں آنے سے نہیں بچ سکے گا اور جلد ہی حکومت کے مالیاتی اداروں کو مشورہ دیا جائے گا کہ نکاح نامہ اشٹام پیپروں پرلکھا جایا کرے، اشٹام پیپروں کے علاوہ کسی اور پیپر پر لکھا نکاح نامہ عدالتی طور پر قابلِ قبول نہیں ہو گا یا اس نکاح کو غیر عدالتی قرار دیا جائے گا جو اشٹام پیپروں پر درج نہ ہو گا۔ اس طرح نکاح کی رسم سے عدالتی اور حکومتی مالیاتی اداروں کو بھی خوشی ہوا کرے گا۔اس طرح لوگوں کی خوشیوں میں اضافہ بھی ہو گا اور آبادی میں بھی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہم بات کچھ اور کرنا چاہتے ہیں جب کہ ہو کچھ اور جاتی ہے۔ خیر یہ بھی اکیلے ہمارا مسئلہ نہیں،دنیا کے اکثر لوگوں کو یہ مسئلہ درپیش ہے۔ اچھا تو ہم بات کر رہے تھے’محفوظ‘ فیصلے کی جس کی بنا پر ہمارا ذہن نکاح کی طرف مبذول ہو گیا یعنی ہماری سوچ ’محفوظ نکاح‘ کی طرف جا نکلی۔ جی ہاں آپ درست سمجھے ہیں کہ اگر فیصلوں کی طرح نکاح بھی پہلےمحفوظ‘ ہوا کریں اور پھر کچھ عرصہ بعد ان کو پبلک کیا جایا کرے تو معاشرے پر اس ادائے دلبریں کا کیا اثر پڑے گا؟ اس ضمن میں کچھ یوں ہوا کرے گا کہ لوگ پہلے اکٹھے ہو کر ّمحفوظٗ نکاح پڑھوایا یا کروایا کریں گے۔ اور پھر نکاح خواں اس ّمحفوظٗ نکاح کو بارات والے دن، کسی خاص جگہ اور خاص وقت پر آ کر لوگوں کے سامنے سنایا کرے گا۔ اس دوراں لوگوں کو تجسس رہا کرے گا کہ نکاح خواں ّمحفوظٗ نکاح نامے میں کوئی ردو بدل نہ کر دے۔ کہیں دلہن اپنے گھر والوں کے سامنے تو ّمحفوظٗ نکاح نامے پر دستخط ثبت کر دے یا انگوٹھا ’لگا‘ دے لیکن بعد میں اپنی کسی سہیلی یا دوست کے ساتھ جا کر نکاح خواں کو بتا دے کہ وہ اس نکاح کے لئے دل سے رضامند نہیں تھی۔ اس طرح نکاح خواں کے لئے اس ’محفوظ‘ نکاح کو منسوخ کرنے یااس میں ردو بدل کرنے جیسا معمہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس طرح ّمحفوظٗ نکاح ّمحفوظٗ ہونے کے باوجود ’غیر محفوظ‘ ہو جائے۔ اسی طرح اس ضمن میں ا س طرح کی باتیں بھی رونما ہو سکتی ہیں کہ لڑکی، لڑکے یا ان کے رشتہ داروں سے کوئی ان کی شادی کی بابت پوچھے اور جواب میں یہ بتایا جائے کہ ان کا نکاح ’محفوظ‘ ہو چکا ہے جو فلاں تاریخ کو فلاں وقت، فلاں شادی حال میں سنایا جائے گا یا ’غیر محفوظ‘کیا جائے گا۔یا اسی طرز پر لوگوں میں یہ بیان بھی زبان زدِ عام ہو سکتا ہے کہ پہلے ہم ’محفوظ نکاح‘ کروا لیں، باقی معاملات بعد میں دیکھے جائیں گے۔ یا وہ بہت ساری باتیں جو میرے ساتھ ساتھ آپ کے بھی ذہن میں آ رہی ہیں کے بھی وقوع پذیر ہونے کا پورا پورا سامان فراہم ہو سکتا ہے۔ ہماری سوچ کا پنچھی نکاح کی شاخ سے اڑ کر ڈاکٹری نسخے یعنی’پرسکرپشن پر براجمان ہو جاتا ہے۔ اگر فیصلہ محفوظ کا وائرس عدالتی فضا سے نکل کر ہسپتالوں اور کلینکوں کا رخ کر لےتو کیا ہو۔ مریض، ڈاکٹر صاحب کے پاس جایا کرے گا۔ ڈاکٹر اسے اچھی طرح سے، یعنی جیسے وہ اکثر کرتے ہیں، چیک کیا کریں گے۔ اپنی فیس وہ پہلے ہی چارج کر چکے ہوں گے، جس سے مریض کے سرخ یا سفید خلیئے چاہے کم ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں، پھر وہ پورے تدبر اور تفکر کے ساتھ پہلے ایک ّمحفوظٗ نسخہ لکھا کریں گے اور مریض کو گھر واپس بھیج دیا کریں گے۔کیوں وہ ّمحفوظٗ نسخہ کسی مریض کو دے یا دکھا نہیں سکتے کہ یہ عدالتی ادا کی خلاف ورزی ہو گی اور اپنی خلاف ورزی کو عدالت کسی بھی وقت اپنی ’توہین‘ قرار دے کر توہین کرنے والے کو قرار واقعی سزا بھی سنا سکتی ہے۔ اس مصیبت میں پڑنے کی کوئی بھی سمجھ دار ڈاکٹر قطعی طور پر کوشش نہیں کر سکتا۔ اس لئے ّمحفوظٗ فیصلے کی روایت کی مکمل پیروی کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبان پہلے ّمحفوظٗ نسخہ ہی لکھا کریں گے یا نسخہ لکھ کر پہلے اسےّمحفوظٗ کیا کریں گے، بعد میں اس پر سینکڈ تھاٹس کا انتظار کیا کریں گے۔ اگر سیکنڈ تھاٹس پہلی سوچوں کے ساتھ ٹیلی کریں گی تو وہ ّمحفوظٗ نسخہ برقرار رہا کرے گا اور اگر سیکنڈ تھاٹس، پہلی سوچوں سے مختلف ہو جائیں گی،جیسا کہ اکثر ہو بھی جاتا ہے، تو وہ ّمحفوظٗ نسخہ بدل لیا جائے گا۔ یا ایک ڈاکٹر کسی دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ بھی کر سکتا ہے اور اپنا لکھا ّمحفوظٗ نسخہ اس سے ڈسکس کر سکتا ہے اور اگر مشاورت میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس میں کسی میڈیسن کی تبدیلی ضروری ہے تو پھر اس’محفوظ‘ نسخے کو پھر سے’محفوظ‘ کیا جا سکتا ہے اور پھر مریض کو بتائے گئے یا نہ بتائے گئے وقت پر بلا کر اسے تھمایا جا سکتا ہے۔ یوں یہ ’محفوظ‘ نسخہ آخر کار غیر محفوظ کیا جا سکتا ہے یا اسے پبلک پراپرٹی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر یہی عدالتی انداز دھیرے دھیرے تعلیمی اداروں کی زینت بھی بننے لگا جو کہ ابھی تک نہیں بنا، تو مستقبل میں پہلے ّمحفوظٗ اسنادجاری ہوا کریں گی اور پھر کچھ عرصہ کی تاخیر، جس میں نا معلوم کیاکچھ ہوا کرے، یہ ّمحفوظٗ اسناد طالب علموں کے گھروں، سکولوں اور اکیڈمیوں کے پتوں پر ارسال کر دی جایا کریں گی۔ امتحانوں کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان ہوا کرے گا کہ امتحان منعقد ہونے کے بعد اس تاریخ کو اسناد ّمحفوظٗ کر لی جائیں گی اور پھر اسناد ّمحفوظٗ کرنے کے اتنے دن بعد یہ ّمحفوظٗ اسناد ’غیر محفوظ‘ کر کے ڈاک سسٹم اور اللہ کے سپردکر دی جائیں گی۔کچھ ادارے’محفوظ‘ اسناد کے پردے میں پیسے بھی بٹور سکتے ہیں۔ اسناد کے ّمحفوظٗ ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ چھپ چکی ہیں اور اگر وہ جنم لے چکی ہیں تو ان کا حلیہ اور قد کاٹھ کیا ہے۔ ان کا تجسس کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ طالب علم پہلے اسناد کے ’محفوظ‘ ہونے اور پھر ّمحفوظٗ اسناد کے’غیر محفوظ‘ ہونے کا انتظار کیا کریں گے۔ اس طرح امتحان کے بعد بھی ستم بالائے ستم ہوتا رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ایک دن طالب علم اس عدالتی ’ادا‘ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پے آ جائیں اور ٹریفک جام کر دیں۔ اس سے ان کی ّمحفوظٗ اسناد کی پہنچ میں مزید تاخیر ہو گی۔ عدالتیں اپنا انداز ِ رازو نیازبالکل نہیں بدلیں گی بلکہ بدلنے کا سوچیں گی بھی نہیں۔ کیوں کہ ان کے فیصلوں کو حفاظت کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔اور وہ فیصلوں کو غیر’محفوظ‘ رکھ کر اپنے آپ کو غیر محفوظ نہیں ہونے دیں گی۔ بہت سی چیزوں کی تیاری میں یہ مرحلہ ضرور آتا ہے کہ تیاری کے بعد انہیں کچھ دیر کے لئے فارغ چھوڑ دیا جاتا ہے جس میں وہ گرم ہو تو ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، ٹھنڈی ہوں تو نارمل ہو جاتی ہیں، گیلی ہوں تو سوکھ جاتی ہیں۔ کچی ہوں تو پک جاتی ہیں، وغیرہ کے عمل ہو تے رہتے ہیں۔ ایک رائٹر بھی تحریر لکھنے کے بعد کچھ دیر کے لئے اسے ویسی کی ویسی پڑی رہنے دیتا ہے اور کچھ وقت بعد اس کے ذہن میں اس تحریر سے متعلق کوئی تبدیلی یا بہتری ذہن میں آتی ہے تو وہ کر لیتا ہے۔ کسی چیز کو نکالنا بہتر سمجھا جائے تو نکال بھی دیتا ہے۔ بعض اوقات کئی ایک پیرے ڈیلیٹ کر دیئے جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایک رائٹر بھی پہلے ایک ّمحفوظٗ تحریر لکھتا ہے جسے وہ کسی کو نہیں، یا صرف ہم راز دوستوں کو دکھاتا یا پڑھواتا ہے۔ اور کچھ عرصے بعد جب وہ سمجھتا ہے کہ اس ’محفوظ‘ تحریر کو اب ’غیر محفوظ‘ یعنی شائع کر دیا جائے تو وہ شائع کر دیتا ہے۔ معزز قارئین، ہم بھی اپنی تحریروں کو لکھنے کے بعد کئی ایک دنوں، ہفتوں، مہینوں اور بعض اوقات سالوں تک ّمحفوظٗ رکھتے ہیں اور بعد ازاں دوسری سوچوں یعنی سیکنڈ تھاٹس کے پروسیجر سے گزر کر جب پھر سے انہیں دیکھتے ہیں۔اگر پھر بھی یہ ذہن اور دل کو اچھی محسوس ہوتی ہیں تو ہم انہیں ّغیر محفوظٗ کر دیتے ہیں یعنی چھپنے کے لئے ہماری وب کو بھیج دیتے ہیں۔ امید ہے آپ کو تحریر پسند آئی ہو گی۔ بہت شکریہ! اللہ حافظ!
فیصلہ محفوظ (انشائیہ) پروفیسر نیامت علی مرتضائیؔ (2202-11-17،جمعرات) پاکستانی سیاست سے تھوڑی سی بھی دلچسپی جلد ہی اس عدالتی روایت سے آگہی حاصل کر لیتی ہے کہ ہماری عدالتیں ایک خاص انداز سے کام کرتی ہیں یا چلتی ہیں۔ پاکستانی عدالتوں کے فیصلے قبل از مسیح کے زمانے کے یونان کی ڈیلفی کے فیصلوں کی یاد دلا دیتے ہیں۔میرے بات کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ فیصلے کسی روحانی تقدس سے مزین ہوتے ہیں بلکہ میرا اشارہ ان فیصلوں کی پُراسراریت کی طرف ہے۔ بعض اوقات فیصلہ اس بنیاد پر بھی ّمحفوظٗ کر کے سنا دیا جاتا ہے جس بنیاد پر مقدمہ درج ہی نہیں کروایا گیا ہوتا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دیوتاؤں سے ایسا سوال نہیں کیا جا سکتا تھا۔چلیں بڑوں کی باتیں بڑے ہی جانیں، چھوٹے لوگوں کو بڑوں کی باتوں میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیئے ورنہ ٹانگ ہی نہیں ٹانگ والے یا والی کا بھی بندوبست ہو سکتا ہے۔ ہماری دلچسپی عدالتوں کی اس خوبصورت ادا سے ہے کہ وہ پہلے ساری بحث سنتی ہیں، پھر فیصلہ’محفوظ‘ کر لیتی ہیں اور پھر کسی خاص ’پُراسرار‘ دن اور وقت پر یہ ’محفوظ فیصلہ‘ سنا دیتی ہیں۔ ہم بسیار غور وخوض کرنے،اور عدالتوں کی ’پراسرا‘ راہداریوں میں سوچ کے پنچھی تا دیر اڑانے کے باوجود اس حقیقت سے نا بَلد ہی رہے ہیں کہ فیصلہ ّمحفوظٗ کیوں کیا جاتا ہے اور پھر اس کو ’کسی پُراسرار‘ تاریخ کو کیوں سنایا جاتا ہے؟ عدالتوں کی باتوں میں حد سے زیادہ حساسیت ہوتی ہے اس لئے ہماری جیسی موٹی عقل کو یہ باتیں کیوں کرسمجھ آ سکتی ہیں۔ خیر بعض اوقات صحیح رستے کا پتہ نہ ہو تو تھوڑی بہت سیر ضرور ہو جاتی ہے۔ اور اگر وہ بات عقل و دانش سے منسلک ہو تو کچی عقل کی کچھ آوارگی کا سامان ہو جاتا ہے۔ بس یہی بات اپنی سوچ کی بغل میں دبائے ہم ّمحفوظٗ فیصلے کی ’پراسراریت‘ سمجھنے کے لئے خانہ بدوش سے ہو چکے ہیں۔ ہم اپنی کم مائیگی کا بہت جلد اعتراف کر لینے والے بندوں میں سے ہیں۔ ہماری سوچ کی پرواز بھی ہمارے مشاہدے کی طرح محدود بلکہ مسدود ہے۔ پھر بھی ہم کچھ نہ کچھ گمان کرنے کے بھی عادی ہیں۔ عادت کی اسی مجبوری کے تحت ہم اس عدالتی ادا پر کچھ قیاس کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا پہلاقیاس یہ ہے کہ شاید جج لوگ، نہیں ’جج لوگ‘ نہیں کہنا چاہیئے، کیوں کہ ’لوگ‘ تو غیروں کے لئے استعمال ہوتا ہے جب کہ جج تو ہمارے اپنے ہیں اس لئے ان کے لئے ’جج صاحبان‘ کہنا زیادہ مناسب اور معتبر رہے گا۔ جج صاحبان فیصلہ اس لئے محفوظ کر لیتے ہیں کہ اس پر مزید غورو فکر کر لیا جائے کیوں کہ فیصلہ سنا لینے کے بعد وہ پبلک پراپرٹی بن جاتا ہے اور عدالت کے ہاتھ سے گیم نکل کر وقت کے پاس چلی جاتی ہے کہ وہ اس پر جو مرضی ردِ عمل دے۔ لیکن جب تک فیصلہ ّمحفوظٗ ہے عدالت اس میں کچھ نہ کچھ ردو بدل کر سکتی ہے۔ فیصلہ محفوظ کرنا، سیکنڈ تھاٹس یعنی دوسری سوچوں کے آنے کا انتظار کرنے کے لئے ہے۔ ان پر غور کیا جاتا ہے اور اگر سیکنڈ تھاٹس بھی پہلی تھاٹس کی تائید کریں تو یہ’محفوظ فیصلہ‘ سنا دیا جاتا ہے۔ اور اگر سیکنڈ تھاٹس اس میں کچھ تبدیلی کرنے کا کہیں تو فیصلہ سنانے سے پہلے یہ تبدیلی کر کے اس ّمحفوظٗ فیصلے کو پبلک کر دیا جاتاہے۔ اس ضمن میں ہمارا دوسرا قیاس یہ ہے کہ عام قسم کی ذہنی یا نفسیاتی سوچوں کی بجائے جج صاحبان خاص قسم کی مذہبی سوچوں یا غیبی اشاروں کا انتظار فرماتے ہیں جن کے لئے وہ بطورِ خاص مراقبہ، استخارا، وجدان، الہام، اِلقا وغیرہ کا اہتمام فرماتے ہیں کیوں کہ آخر ایک دن خود جج صاحبان نے بھی تو اُس سب سے بڑے کی عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ اس لئے وہ اس طرف سے آنے والے اشارے کا انتظار کیئے بغیر اپنا ّمحفوظٗ فیصلہ کسی کو بھی سنانے کے روا دار نہیں ہیں۔ اگر یہ بات ایسے ہی ہے جیسے کہ ہماری ناقص خیالی سوچ رہی ہے تو پھر تو کیا ہی بات ہے۔ ہم اس حق میں ہیں کہ ہر فیصلہ پہلے ّمحفوظٗ کیا جائے اور اس پر غیبی اشارے کا انتظار کیا جائے اور پھر اگر غیبی اشارے سے فیصلے کی تائید حاصل ہو جائے تو کسی وقت اسے سنا دیا جائے۔ اسی طرح ہماری سوچ کا پنچھی گمان کی دوسری سے تیسری شاخ پر بیٹھ کر کبھی کبھی یہ سوچتا ہے، جو کہ ہمارا تیسرا قیاس ہے، کہ فیصلہ ّمحفوظٗ کرنے کے بعد کسی سماواتی غیبی اشارے کا انتظار نہیں کیا جا تا بلکہ کسی غیبی ارضی اشارے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ اور یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہوا کا رخ کدھر کو ہے۔ جدھر یہ زمینی طاقت اشارہ کرے ّمحفوظٗ فیصلے کا متن اس کی مطابق استوار کر دیا جاتا ہے۔ اس زمینی طاقت کا قیاس بھی کبھی کبھی بہت مضبوط گمان یعنی غالب گمان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ خام عقل کی ہر رسائی خام ہی ثابت ہوتی ہے۔ کبھی بھی چیز کا یقین آنے کے بعد پھر غائب ہو جاتا ہے اور خیال اپنی شاخ بدلتا چلا جاتاہے۔ہمیں بہت زیادہ یقین سا ہے کہ عدالتی کاروائی ایسی نہیں ہوتی جیسی ہم سطورِ بالا میں سمجھ رہے ہیں۔ فیصلہ ّمحفوظٗ کرنے کے اغراض ومقاصد سے تو شاید ہم کبھی بھی آشنا نہ ہو سکیں کیوں کہ لوگوں سے آشنائی کر کر کے ہم تھک سے گئے ہیں اور اب آشنائی کا لفظ سنتے ہی ہم کانپ سے جاتے ہیں۔ خیر یہ کوئی اتنی اچھی بات نہیں ہے۔ کبھی کبھی ہم خیال کرتے ہیں کہ فیصلہّ محفوظ کرنا’اچار یا مربہ ڈالنے جیسا ہوتا ہے، کہ عام لوگ اچار یا مربہ ڈال کر ّمحفوظٗ کر لیتے ہیں اور پھر جب ضرورت پڑتی ہے اسے نکال نکال کے کھاتے رہتے ہیں۔ اچار یا مربہ ّمحفوظٗ کرنا کتنی جلدی سمجھ آنے والا مظہر ہے لیکن یہ کم بخت ّفیصلہ محفوظٗ کرنا کسی طرح سے بھی سمجھ کے قریب قریب بھی نہیں ّپھڑکتا ٗ ۔لیکن ہماری سوچ اس ادا کے کسی وبا کی طرح پھیل جانے پر غور کرنے لگتی ہے۔ آج کل نکاح بھی زیادہ سے زیادہ عدالتی سا ہوتا جا رہا ہے۔ قوی امید ہے کہ مستقبل قریب میں ملک کی معاشی حالت کے پیشِ نظر نکاح ٹیکس کی زد میں آنے سے نہیں بچ سکے گا اور جلد ہی حکومت کے مالیاتی اداروں کو مشورہ دیا جائے گا کہ نکاح نامہ اشٹام پیپروں پرلکھا جایا کرے، اشٹام پیپروں کے علاوہ کسی اور پیپر پر لکھا نکاح نامہ عدالتی طور پر قابلِ قبول نہیں ہو گا یا اس نکاح کو غیر عدالتی قرار دیا جائے گا جو اشٹام پیپروں پر درج نہ ہو گا۔ اس طرح نکاح کی رسم سے عدالتی اور حکومتی مالیاتی اداروں کو بھی خوشی ہوا کرے گا۔اس طرح لوگوں کی خوشیوں میں اضافہ بھی ہو گا اور آبادی میں بھی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہم بات کچھ اور کرنا چاہتے ہیں جب کہ ہو کچھ اور جاتی ہے۔ خیر یہ بھی اکیلے ہمارا مسئلہ نہیں،دنیا کے اکثر لوگوں کو یہ مسئلہ درپیش ہے۔ اچھا تو ہم بات کر رہے تھے’محفوظ‘ فیصلے کی جس کی بنا پر ہمارا ذہن نکاح کی طرف مبذول ہو گیا یعنی ہماری سوچ ’محفوظ نکاح‘ کی طرف جا نکلی۔ جی ہاں آپ درست سمجھے ہیں کہ اگر فیصلوں کی طرح نکاح بھی پہلےمحفوظ‘ ہوا کریں اور پھر کچھ عرصہ بعد ان کو پبلک کیا جایا کرے تو معاشرے پر اس ادائے دلبریں کا کیا اثر پڑے گا؟ اس ضمن میں کچھ یوں ہوا کرے گا کہ لوگ پہلے اکٹھے ہو کر ّمحفوظٗ نکاح پڑھوایا یا کروایا کریں گے۔ اور پھر نکاح خواں اس ّمحفوظٗ نکاح کو بارات والے دن، کسی خاص جگہ اور خاص وقت پر آ کر لوگوں کے سامنے سنایا کرے گا۔ اس دوراں لوگوں کو تجسس رہا کرے گا کہ نکاح خواں ّمحفوظٗ نکاح نامے میں کوئی ردو بدل نہ کر دے۔ کہیں دلہن اپنے گھر والوں کے سامنے تو ّمحفوظٗ نکاح نامے پر دستخط ثبت کر دے یا انگوٹھا ’لگا‘ دے لیکن بعد میں اپنی کسی سہیلی یا دوست کے ساتھ جا کر نکاح خواں کو بتا دے کہ وہ اس نکاح کے لئے دل سے رضامند نہیں تھی۔ اس طرح نکاح خواں کے لئے اس ’محفوظ‘ نکاح کو منسوخ کرنے یااس میں ردو بدل کرنے جیسا معمہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس طرح ّمحفوظٗ نکاح ّمحفوظٗ ہونے کے باوجود ’غیر محفوظ‘ ہو جائے۔ اسی طرح اس ضمن میں ا س طرح کی باتیں بھی رونما ہو سکتی ہیں کہ لڑکی، لڑکے یا ان کے رشتہ داروں سے کوئی ان کی شادی کی بابت پوچھے اور جواب میں یہ بتایا جائے کہ ان کا نکاح ’محفوظ‘ ہو چکا ہے جو فلاں تاریخ کو فلاں وقت، فلاں شادی حال میں سنایا جائے گا یا ’غیر محفوظ‘کیا جائے گا۔یا اسی طرز پر لوگوں میں یہ بیان بھی زبان زدِ عام ہو سکتا ہے کہ پہلے ہم ’محفوظ نکاح‘ کروا لیں، باقی معاملات بعد میں دیکھے جائیں گے۔ یا وہ بہت ساری باتیں جو میرے ساتھ ساتھ آپ کے بھی ذہن میں آ رہی ہیں کے بھی وقوع پذیر ہونے کا پورا پورا سامان فراہم ہو سکتا ہے۔ ہماری سوچ کا پنچھی نکاح کی شاخ سے اڑ کر ڈاکٹری نسخے یعنی’پرسکرپشن پر براجمان ہو جاتا ہے۔ اگر فیصلہ محفوظ کا وائرس عدالتی فضا سے نکل کر ہسپتالوں اور کلینکوں کا رخ کر لےتو کیا ہو۔ مریض، ڈاکٹر صاحب کے پاس جایا کرے گا۔ ڈاکٹر اسے اچھی طرح سے، یعنی جیسے وہ اکثر کرتے ہیں، چیک کیا کریں گے۔ اپنی فیس وہ پہلے ہی چارج کر چکے ہوں گے، جس سے مریض کے سرخ یا سفید خلیئے چاہے کم ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں، پھر وہ پورے تدبر اور تفکر کے ساتھ پہلے ایک ّمحفوظٗ نسخہ لکھا کریں گے اور مریض کو گھر واپس بھیج دیا کریں گے۔کیوں وہ ّمحفوظٗ نسخہ کسی مریض کو دے یا دکھا نہیں سکتے کہ یہ عدالتی ادا کی خلاف ورزی ہو گی اور اپنی خلاف ورزی کو عدالت کسی بھی وقت اپنی ’توہین‘ قرار دے کر توہین کرنے والے کو قرار واقعی سزا بھی سنا سکتی ہے۔ اس مصیبت میں پڑنے کی کوئی بھی سمجھ دار ڈاکٹر قطعی طور پر کوشش نہیں کر سکتا۔ اس لئے ّمحفوظٗ فیصلے کی روایت کی مکمل پیروی کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبان پہلے ّمحفوظٗ نسخہ ہی لکھا کریں گے یا نسخہ لکھ کر پہلے اسےّمحفوظٗ کیا کریں گے، بعد میں اس پر سینکڈ تھاٹس کا انتظار کیا کریں گے۔ اگر سیکنڈ تھاٹس پہلی سوچوں کے ساتھ ٹیلی کریں گی تو وہ ّمحفوظٗ نسخہ برقرار رہا کرے گا اور اگر سیکنڈ تھاٹس، پہلی سوچوں سے مختلف ہو جائیں گی،جیسا کہ اکثر ہو بھی جاتا ہے، تو وہ ّمحفوظٗ نسخہ بدل لیا جائے گا۔ یا ایک ڈاکٹر کسی دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ بھی کر سکتا ہے اور اپنا لکھا ّمحفوظٗ نسخہ اس سے ڈسکس کر سکتا ہے اور اگر مشاورت میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس میں کسی میڈیسن کی تبدیلی ضروری ہے تو پھر اس’محفوظ‘ نسخے کو پھر سے’محفوظ‘ کیا جا سکتا ہے اور پھر مریض کو بتائے گئے یا نہ بتائے گئے وقت پر بلا کر اسے تھمایا جا سکتا ہے۔ یوں یہ ’محفوظ‘ نسخہ آخر کار غیر محفوظ کیا جا سکتا ہے یا اسے پبلک پراپرٹی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر یہی عدالتی انداز دھیرے دھیرے تعلیمی اداروں کی زینت بھی بننے لگا جو کہ ابھی تک نہیں بنا، تو مستقبل میں پہلے ّمحفوظٗ اسنادجاری ہوا کریں گی اور پھر کچھ عرصہ کی تاخیر، جس میں نا معلوم کیاکچھ ہوا کرے، یہ ّمحفوظٗ اسناد طالب علموں کے گھروں، سکولوں اور اکیڈمیوں کے پتوں پر ارسال کر دی جایا کریں گی۔ امتحانوں کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان ہوا کرے گا کہ امتحان منعقد ہونے کے بعد اس تاریخ کو اسناد ّمحفوظٗ کر لی جائیں گی اور پھر اسناد ّمحفوظٗ کرنے کے اتنے دن بعد یہ ّمحفوظٗ اسناد ’غیر محفوظ‘ کر کے ڈاک سسٹم اور اللہ کے سپردکر دی جائیں گی۔کچھ ادارے’محفوظ‘ اسناد کے پردے میں پیسے بھی بٹور سکتے ہیں۔ اسناد کے ّمحفوظٗ ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ چھپ چکی ہیں اور اگر وہ جنم لے چکی ہیں تو ان کا حلیہ اور قد کاٹھ کیا ہے۔ ان کا تجسس کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ طالب علم پہلے اسناد کے ’محفوظ‘ ہونے اور پھر ّمحفوظٗ اسناد کے’غیر محفوظ‘ ہونے کا انتظار کیا کریں گے۔ اس طرح امتحان کے بعد بھی ستم بالائے ستم ہوتا رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ایک دن طالب علم اس عدالتی ’ادا‘ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پے آ جائیں اور ٹریفک جام کر دیں۔ اس سے ان کی ّمحفوظٗ اسناد کی پہنچ میں مزید تاخیر ہو گی۔ عدالتیں اپنا انداز ِ رازو نیازبالکل نہیں بدلیں گی بلکہ بدلنے کا سوچیں گی بھی نہیں۔ کیوں کہ ان کے فیصلوں کو حفاظت کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔اور وہ فیصلوں کو غیر’محفوظ‘ رکھ کر اپنے آپ کو غیر محفوظ نہیں ہونے دیں گی۔ بہت سی چیزوں کی تیاری میں یہ مرحلہ ضرور آتا ہے کہ تیاری کے بعد انہیں کچھ دیر کے لئے فارغ چھوڑ دیا جاتا ہے جس میں وہ گرم ہو تو ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، ٹھنڈی ہوں تو نارمل ہو جاتی ہیں، گیلی ہوں تو سوکھ جاتی ہیں۔ کچی ہوں تو پک جاتی ہیں، وغیرہ کے عمل ہو تے رہتے ہیں۔ ایک رائٹر بھی تحریر لکھنے کے بعد کچھ دیر کے لئے اسے ویسی کی ویسی پڑی رہنے دیتا ہے اور کچھ وقت بعد اس کے ذہن میں اس تحریر سے متعلق کوئی تبدیلی یا بہتری ذہن میں آتی ہے تو وہ کر لیتا ہے۔ کسی چیز کو نکالنا بہتر سمجھا جائے تو نکال بھی دیتا ہے۔ بعض اوقات کئی ایک پیرے ڈیلیٹ کر دیئے جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایک رائٹر بھی پہلے ایک ّمحفوظٗ تحریر لکھتا ہے جسے وہ کسی کو نہیں، یا صرف ہم راز دوستوں کو دکھاتا یا پڑھواتا ہے۔ اور کچھ عرصے بعد جب وہ سمجھتا ہے کہ اس ’محفوظ‘ تحریر کو اب ’غیر محفوظ‘ یعنی شائع کر دیا جائے تو وہ شائع کر دیتا ہے۔ معزز قارئین، ہم بھی اپنی تحریروں کو لکھنے کے بعد کئی ایک دنوں، ہفتوں، مہینوں اور بعض اوقات سالوں تک ّمحفوظٗ رکھتے ہیں اور بعد ازاں دوسری سوچوں یعنی سیکنڈ تھاٹس کے پروسیجر سے گزر کر جب پھر سے انہیں دیکھتے ہیں۔اگر پھر بھی یہ ذہن اور دل کو اچھی محسوس ہوتی ہیں تو ہم انہیں ّغیر محفوظٗ کر دیتے ہیں یعنی چھپنے کے لئے ہماری وب کو بھیج دیتے ہیں۔ امید ہے آپ کو تحریر پسند آئی ہو گی۔ بہت شکریہ! اللہ حافظ!
فیصلہ محفوظ (انشائیہ) پروفیسر نیامت علی مرتضائیؔ (2202-11-17،جمعرات) پاکستانی سیاست سے تھوڑی سی بھی دلچسپی جلد ہی اس عدالتی روایت سے آگہی حاصل کر لیتی ہے کہ ہماری عدالتیں ایک خاص انداز سے کام کرتی ہیں یا چلتی ہیں۔ پاکستانی عدالتوں کے فیصلے قبل از مسیح کے زمانے کے یونان کی ڈیلفی کے فیصلوں کی یاد دلا دیتے ہیں۔میرے بات کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ فیصلے کسی روحانی تقدس سے مزین ہوتے ہیں بلکہ میرا اشارہ ان فیصلوں کی پُراسراریت کی طرف ہے۔ بعض اوقات فیصلہ اس بنیاد پر بھی ّمحفوظٗ کر کے سنا دیا جاتا ہے جس بنیاد پر مقدمہ درج ہی نہیں کروایا گیا ہوتا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دیوتاؤں سے ایسا سوال نہیں کیا جا سکتا تھا۔چلیں بڑوں کی باتیں بڑے ہی جانیں، چھوٹے لوگوں کو بڑوں کی باتوں میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیئے ورنہ ٹانگ ہی نہیں ٹانگ والے یا والی کا بھی بندوبست ہو سکتا ہے۔ ہماری دلچسپی عدالتوں کی اس خوبصورت ادا سے ہے کہ وہ پہلے ساری بحث سنتی ہیں، پھر فیصلہ’محفوظ‘ کر لیتی ہیں اور پھر کسی خاص ’پُراسرار‘ دن اور وقت پر یہ ’محفوظ فیصلہ‘ سنا دیتی ہیں۔ ہم بسیار غور وخوض کرنے،اور عدالتوں کی ’پراسرا‘ راہداریوں میں سوچ کے پنچھی تا دیر اڑانے کے باوجود اس حقیقت سے نا بَلد ہی رہے ہیں کہ فیصلہ ّمحفوظٗ کیوں کیا جاتا ہے اور پھر اس کو ’کسی پُراسرار‘ تاریخ کو کیوں سنایا جاتا ہے؟ عدالتوں کی باتوں میں حد سے زیادہ حساسیت ہوتی ہے اس لئے ہماری جیسی موٹی عقل کو یہ باتیں کیوں کرسمجھ آ سکتی ہیں۔ خیر بعض اوقات صحیح رستے کا پتہ نہ ہو تو تھوڑی بہت سیر ضرور ہو جاتی ہے۔ اور اگر وہ بات عقل و دانش سے منسلک ہو تو کچی عقل کی کچھ آوارگی کا سامان ہو جاتا ہے۔ بس یہی بات اپنی سوچ کی بغل میں دبائے ہم ّمحفوظٗ فیصلے کی ’پراسراریت‘ سمجھنے کے لئے خانہ بدوش سے ہو چکے ہیں۔ ہم اپنی کم مائیگی کا بہت جلد اعتراف کر لینے والے بندوں میں سے ہیں۔ ہماری سوچ کی پرواز بھی ہمارے مشاہدے کی طرح محدود بلکہ مسدود ہے۔ پھر بھی ہم کچھ نہ کچھ گمان کرنے کے بھی عادی ہیں۔ عادت کی اسی مجبوری کے تحت ہم اس عدالتی ادا پر کچھ قیاس کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا پہلاقیاس یہ ہے کہ شاید جج لوگ، نہیں ’جج لوگ‘ نہیں کہنا چاہیئے، کیوں کہ ’لوگ‘ تو غیروں کے لئے استعمال ہوتا ہے جب کہ جج تو ہمارے اپنے ہیں اس لئے ان کے لئے ’جج صاحبان‘ کہنا زیادہ مناسب اور معتبر رہے گا۔ جج صاحبان فیصلہ اس لئے محفوظ کر لیتے ہیں کہ اس پر مزید غورو فکر کر لیا جائے کیوں کہ فیصلہ سنا لینے کے بعد وہ پبلک پراپرٹی بن جاتا ہے اور عدالت کے ہاتھ سے گیم نکل کر وقت کے پاس چلی جاتی ہے کہ وہ اس پر جو مرضی ردِ عمل دے۔ لیکن جب تک فیصلہ ّمحفوظٗ ہے عدالت اس میں کچھ نہ کچھ ردو بدل کر سکتی ہے۔ فیصلہ محفوظ کرنا، سیکنڈ تھاٹس یعنی دوسری سوچوں کے آنے کا انتظار کرنے کے لئے ہے۔ ان پر غور کیا جاتا ہے اور اگر سیکنڈ تھاٹس بھی پہلی تھاٹس کی تائید کریں تو یہ’محفوظ فیصلہ‘ سنا دیا جاتا ہے۔ اور اگر سیکنڈ تھاٹس اس میں کچھ تبدیلی کرنے کا کہیں تو فیصلہ سنانے سے پہلے یہ تبدیلی کر کے اس ّمحفوظٗ فیصلے کو پبلک کر دیا جاتاہے۔ اس ضمن میں ہمارا دوسرا قیاس یہ ہے کہ عام قسم کی ذہنی یا نفسیاتی سوچوں کی بجائے جج صاحبان خاص قسم کی مذہبی سوچوں یا غیبی اشاروں کا انتظار فرماتے ہیں جن کے لئے وہ بطورِ خاص مراقبہ، استخارا، وجدان، الہام، اِلقا وغیرہ کا اہتمام فرماتے ہیں کیوں کہ آخر ایک دن خود جج صاحبان نے بھی تو اُس سب سے بڑے کی عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ اس لئے وہ اس طرف سے آنے والے اشارے کا انتظار کیئے بغیر اپنا ّمحفوظٗ فیصلہ کسی کو بھی سنانے کے روا دار نہیں ہیں۔ اگر یہ بات ایسے ہی ہے جیسے کہ ہماری ناقص خیالی سوچ رہی ہے تو پھر تو کیا ہی بات ہے۔ ہم اس حق میں ہیں کہ ہر فیصلہ پہلے ّمحفوظٗ کیا جائے اور اس پر غیبی اشارے کا انتظار کیا جائے اور پھر اگر غیبی اشارے سے فیصلے کی تائید حاصل ہو جائے تو کسی وقت اسے سنا دیا جائے۔ اسی طرح ہماری سوچ کا پنچھی گمان کی دوسری سے تیسری شاخ پر بیٹھ کر کبھی کبھی یہ سوچتا ہے، جو کہ ہمارا تیسرا قیاس ہے، کہ فیصلہ ّمحفوظٗ کرنے کے بعد کسی سماواتی غیبی اشارے کا انتظار نہیں کیا جا تا بلکہ کسی غیبی ارضی اشارے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ اور یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہوا کا رخ کدھر کو ہے۔ جدھر یہ زمینی طاقت اشارہ کرے ّمحفوظٗ فیصلے کا متن اس کی مطابق استوار کر دیا جاتا ہے۔ اس زمینی طاقت کا قیاس بھی کبھی کبھی بہت مضبوط گمان یعنی غالب گمان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ خام عقل کی ہر رسائی خام ہی ثابت ہوتی ہے۔ کبھی بھی چیز کا یقین آنے کے بعد پھر غائب ہو جاتا ہے اور خیال اپنی شاخ بدلتا چلا جاتاہے۔ہمیں بہت زیادہ یقین سا ہے کہ عدالتی کاروائی ایسی نہیں ہوتی جیسی ہم سطورِ بالا میں سمجھ رہے ہیں۔ فیصلہ ّمحفوظٗ کرنے کے اغراض ومقاصد سے تو شاید ہم کبھی بھی آشنا نہ ہو سکیں کیوں کہ لوگوں سے آشنائی کر کر کے ہم تھک سے گئے ہیں اور اب آشنائی کا لفظ سنتے ہی ہم کانپ سے جاتے ہیں۔ خیر یہ کوئی اتنی اچھی بات نہیں ہے۔ کبھی کبھی ہم خیال کرتے ہیں کہ فیصلہّ محفوظ کرنا’اچار یا مربہ ڈالنے جیسا ہوتا ہے، کہ عام لوگ اچار یا مربہ ڈال کر ّمحفوظٗ کر لیتے ہیں اور پھر جب ضرورت پڑتی ہے اسے نکال نکال کے کھاتے رہتے ہیں۔ اچار یا مربہ ّمحفوظٗ کرنا کتنی جلدی سمجھ آنے والا مظہر ہے لیکن یہ کم بخت ّفیصلہ محفوظٗ کرنا کسی طرح سے بھی سمجھ کے قریب قریب بھی نہیں ّپھڑکتا ٗ ۔لیکن ہماری سوچ اس ادا کے کسی وبا کی طرح پھیل جانے پر غور کرنے لگتی ہے۔ آج کل نکاح بھی زیادہ سے زیادہ عدالتی سا ہوتا جا رہا ہے۔ قوی امید ہے کہ مستقبل قریب میں ملک کی معاشی حالت کے پیشِ نظر نکاح ٹیکس کی زد میں آنے سے نہیں بچ سکے گا اور جلد ہی حکومت کے مالیاتی اداروں کو مشورہ دیا جائے گا کہ نکاح نامہ اشٹام پیپروں پرلکھا جایا کرے، اشٹام پیپروں کے علاوہ کسی اور پیپر پر لکھا نکاح نامہ عدالتی طور پر قابلِ قبول نہیں ہو گا یا اس نکاح کو غیر عدالتی قرار دیا جائے گا جو اشٹام پیپروں پر درج نہ ہو گا۔ اس طرح نکاح کی رسم سے عدالتی اور حکومتی مالیاتی اداروں کو بھی خوشی ہوا کرے گا۔اس طرح لوگوں کی خوشیوں میں اضافہ بھی ہو گا اور آبادی میں بھی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہم بات کچھ اور کرنا چاہتے ہیں جب کہ ہو کچھ اور جاتی ہے۔ خیر یہ بھی اکیلے ہمارا مسئلہ نہیں،دنیا کے اکثر لوگوں کو یہ مسئلہ درپیش ہے۔ اچھا تو ہم بات کر رہے تھے’محفوظ‘ فیصلے کی جس کی بنا پر ہمارا ذہن نکاح کی طرف مبذول ہو گیا یعنی ہماری سوچ ’محفوظ نکاح‘ کی طرف جا نکلی۔ جی ہاں آپ درست سمجھے ہیں کہ اگر فیصلوں کی طرح نکاح بھی پہلےمحفوظ‘ ہوا کریں اور پھر کچھ عرصہ بعد ان کو پبلک کیا جایا کرے تو معاشرے پر اس ادائے دلبریں کا کیا اثر پڑے گا؟ اس ضمن میں کچھ یوں ہوا کرے گا کہ لوگ پہلے اکٹھے ہو کر ّمحفوظٗ نکاح پڑھوایا یا کروایا کریں گے۔ اور پھر نکاح خواں اس ّمحفوظٗ نکاح کو بارات والے دن، کسی خاص جگہ اور خاص وقت پر آ کر لوگوں کے سامنے سنایا کرے گا۔ اس دوراں لوگوں کو تجسس رہا کرے گا کہ نکاح خواں ّمحفوظٗ نکاح نامے میں کوئی ردو بدل نہ کر دے۔ کہیں دلہن اپنے گھر والوں کے سامنے تو ّمحفوظٗ نکاح نامے پر دستخط ثبت کر دے یا انگوٹھا ’لگا‘ دے لیکن بعد میں اپنی کسی سہیلی یا دوست کے ساتھ جا کر نکاح خواں کو بتا دے کہ وہ اس نکاح کے لئے دل سے رضامند نہیں تھی۔ اس طرح نکاح خواں کے لئے اس ’محفوظ‘ نکاح کو منسوخ کرنے یااس میں ردو بدل کرنے جیسا معمہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس طرح ّمحفوظٗ نکاح ّمحفوظٗ ہونے کے باوجود ’غیر محفوظ‘ ہو جائے۔ اسی طرح اس ضمن میں ا س طرح کی باتیں بھی رونما ہو سکتی ہیں کہ لڑکی، لڑکے یا ان کے رشتہ داروں سے کوئی ان کی شادی کی بابت پوچھے اور جواب میں یہ بتایا جائے کہ ان کا نکاح ’محفوظ‘ ہو چکا ہے جو فلاں تاریخ کو فلاں وقت، فلاں شادی حال میں سنایا جائے گا یا ’غیر محفوظ‘کیا جائے گا۔یا اسی طرز پر لوگوں میں یہ بیان بھی زبان زدِ عام ہو سکتا ہے کہ پہلے ہم ’محفوظ نکاح‘ کروا لیں، باقی معاملات بعد میں دیکھے جائیں گے۔ یا وہ بہت ساری باتیں جو میرے ساتھ ساتھ آپ کے بھی ذہن میں آ رہی ہیں کے بھی وقوع پذیر ہونے کا پورا پورا سامان فراہم ہو سکتا ہے۔ ہماری سوچ کا پنچھی نکاح کی شاخ سے اڑ کر ڈاکٹری نسخے یعنی’پرسکرپشن پر براجمان ہو جاتا ہے۔ اگر فیصلہ محفوظ کا وائرس عدالتی فضا سے نکل کر ہسپتالوں اور کلینکوں کا رخ کر لےتو کیا ہو۔ مریض، ڈاکٹر صاحب کے پاس جایا کرے گا۔ ڈاکٹر اسے اچھی طرح سے، یعنی جیسے وہ اکثر کرتے ہیں، چیک کیا کریں گے۔ اپنی فیس وہ پہلے ہی چارج کر چکے ہوں گے، جس سے مریض کے سرخ یا سفید خلیئے چاہے کم ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں، پھر وہ پورے تدبر اور تفکر کے ساتھ پہلے ایک ّمحفوظٗ نسخہ لکھا کریں گے اور مریض کو گھر واپس بھیج دیا کریں گے۔کیوں وہ ّمحفوظٗ نسخہ کسی مریض کو دے یا دکھا نہیں سکتے کہ یہ عدالتی ادا کی خلاف ورزی ہو گی اور اپنی خلاف ورزی کو عدالت کسی بھی وقت اپنی ’توہین‘ قرار دے کر توہین کرنے والے کو قرار واقعی سزا بھی سنا سکتی ہے۔ اس مصیبت میں پڑنے کی کوئی بھی سمجھ دار ڈاکٹر قطعی طور پر کوشش نہیں کر سکتا۔ اس لئے ّمحفوظٗ فیصلے کی روایت کی مکمل پیروی کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبان پہلے ّمحفوظٗ نسخہ ہی لکھا کریں گے یا نسخہ لکھ کر پہلے اسےّمحفوظٗ کیا کریں گے، بعد میں اس پر سینکڈ تھاٹس کا انتظار کیا کریں گے۔ اگر سیکنڈ تھاٹس پہلی سوچوں کے ساتھ ٹیلی کریں گی تو وہ ّمحفوظٗ نسخہ برقرار رہا کرے گا اور اگر سیکنڈ تھاٹس، پہلی سوچوں سے مختلف ہو جائیں گی،جیسا کہ اکثر ہو بھی جاتا ہے، تو وہ ّمحفوظٗ نسخہ بدل لیا جائے گا۔ یا ایک ڈاکٹر کسی دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ بھی کر سکتا ہے اور اپنا لکھا ّمحفوظٗ نسخہ اس سے ڈسکس کر سکتا ہے اور اگر مشاورت میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس میں کسی میڈیسن کی تبدیلی ضروری ہے تو پھر اس’محفوظ‘ نسخے کو پھر سے’محفوظ‘ کیا جا سکتا ہے اور پھر مریض کو بتائے گئے یا نہ بتائے گئے وقت پر بلا کر اسے تھمایا جا سکتا ہے۔ یوں یہ ’محفوظ‘ نسخہ آخر کار غیر محفوظ کیا جا سکتا ہے یا اسے پبلک پراپرٹی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر یہی عدالتی انداز دھیرے دھیرے تعلیمی اداروں کی زینت بھی بننے لگا جو کہ ابھی تک نہیں بنا، تو مستقبل میں پہلے ّمحفوظٗ اسنادجاری ہوا کریں گی اور پھر کچھ عرصہ کی تاخیر، جس میں نا معلوم کیاکچھ ہوا کرے، یہ ّمحفوظٗ اسناد طالب علموں کے گھروں، سکولوں اور اکیڈمیوں کے پتوں پر ارسال کر دی جایا کریں گی۔ امتحانوں کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان ہوا کرے گا کہ امتحان منعقد ہونے کے بعد اس تاریخ کو اسناد ّمحفوظٗ کر لی جائیں گی اور پھر اسناد ّمحفوظٗ کرنے کے اتنے دن بعد یہ ّمحفوظٗ اسناد ’غیر محفوظ‘ کر کے ڈاک سسٹم اور اللہ کے سپردکر دی جائیں گی۔کچھ ادارے’محفوظ‘ اسناد کے پردے میں پیسے بھی بٹور سکتے ہیں۔ اسناد کے ّمحفوظٗ ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ چھپ چکی ہیں اور اگر وہ جنم لے چکی ہیں تو ان کا حلیہ اور قد کاٹھ کیا ہے۔ ان کا تجسس کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ طالب علم پہلے اسناد کے ’محفوظ‘ ہونے اور پھر ّمحفوظٗ اسناد کے’غیر محفوظ‘ ہونے کا انتظار کیا کریں گے۔ اس طرح امتحان کے بعد بھی ستم بالائے ستم ہوتا رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ایک دن طالب علم اس عدالتی ’ادا‘ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پے آ جائیں اور ٹریفک جام کر دیں۔ اس سے ان کی ّمحفوظٗ اسناد کی پہنچ میں مزید تاخیر ہو گی۔ عدالتیں اپنا انداز ِ رازو نیازبالکل نہیں بدلیں گی بلکہ بدلنے کا سوچیں گی بھی نہیں۔ کیوں کہ ان کے فیصلوں کو حفاظت کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔اور وہ فیصلوں کو غیر’محفوظ‘ رکھ کر اپنے آپ کو غیر محفوظ نہیں ہونے دیں گی۔ بہت سی چیزوں کی تیاری میں یہ مرحلہ ضرور آتا ہے کہ تیاری کے بعد انہیں کچھ دیر کے لئے فارغ چھوڑ دیا جاتا ہے جس میں وہ گرم ہو تو ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، ٹھنڈی ہوں تو نارمل ہو جاتی ہیں، گیلی ہوں تو سوکھ جاتی ہیں۔ کچی ہوں تو پک جاتی ہیں، وغیرہ کے عمل ہو تے رہتے ہیں۔ ایک رائٹر بھی تحریر لکھنے کے بعد کچھ دیر کے لئے اسے ویسی کی ویسی پڑی رہنے دیتا ہے اور کچھ وقت بعد اس کے ذہن میں اس تحریر سے متعلق کوئی تبدیلی یا بہتری ذہن میں آتی ہے تو وہ کر لیتا ہے۔ کسی چیز کو نکالنا بہتر سمجھا جائے تو نکال بھی دیتا ہے۔ بعض اوقات کئی ایک پیرے ڈیلیٹ کر دیئے جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایک رائٹر بھی پہلے ایک ّمحفوظٗ تحریر لکھتا ہے جسے وہ کسی کو نہیں، یا صرف ہم راز دوستوں کو دکھاتا یا پڑھواتا ہے۔ اور کچھ عرصے بعد جب وہ سمجھتا ہے کہ اس ’محفوظ‘ تحریر کو اب ’غیر محفوظ‘ یعنی شائع کر دیا جائے تو وہ شائع کر دیتا ہے۔ معزز قارئین، ہم بھی اپنی تحریروں کو لکھنے کے بعد کئی ایک دنوں، ہفتوں، مہینوں اور بعض اوقات سالوں تک ّمحفوظٗ رکھتے ہیں اور بعد ازاں دوسری سوچوں یعنی سیکنڈ تھاٹس کے پروسیجر سے گزر کر جب پھر سے انہیں دیکھتے ہیں۔اگر پھر بھی یہ ذہن اور دل کو اچھی محسوس ہوتی ہیں تو ہم انہیں ّغیر محفوظٗ کر دیتے ہیں یعنی چھپنے کے لئے ہماری وب کو بھیج دیتے ہیں۔ امید ہے آپ کو تحریر پسند آئی ہو گی۔ بہت شکریہ! اللہ حافظ!
فیصلہ محفوظ (انشائیہ) پروفیسر نیامت علی مرتضائیؔ (2202-11-17،جمعرات) پاکستانی سیاست سے تھوڑی سی بھی دلچسپی جلد ہی اس عدالتی روایت سے آگہی حاصل کر لیتی ہے کہ ہماری عدالتیں ایک خاص انداز سے کام کرتی ہیں یا چلتی ہیں۔ پاکستانی عدالتوں کے فیصلے قبل از مسیح کے زمانے کے یونان کی ڈیلفی کے فیصلوں کی یاد دلا دیتے ہیں۔میرے بات کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ فیصلے کسی روحانی تقدس سے مزین ہوتے ہیں بلکہ میرا اشارہ ان فیصلوں کی پُراسراریت کی طرف ہے۔ بعض اوقات فیصلہ اس بنیاد پر بھی ّمحفوظٗ کر کے سنا دیا جاتا ہے جس بنیاد پر مقدمہ درج ہی نہیں کروایا گیا ہوتا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دیوتاؤں سے ایسا سوال نہیں کیا جا سکتا تھا۔چلیں بڑوں کی باتیں بڑے ہی جانیں، چھوٹے لوگوں کو بڑوں کی باتوں میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیئے ورنہ ٹانگ ہی نہیں ٹانگ والے یا والی کا بھی بندوبست ہو سکتا ہے۔ ہماری دلچسپی عدالتوں کی اس خوبصورت ادا سے ہے کہ وہ پہلے ساری بحث سنتی ہیں، پھر فیصلہ’محفوظ‘ کر لیتی ہیں اور پھر کسی خاص ’پُراسرار‘ دن اور وقت پر یہ ’محفوظ فیصلہ‘ سنا دیتی ہیں۔ ہم بسیار غور وخوض کرنے،اور عدالتوں کی ’پراسرا‘ راہداریوں میں سوچ کے پنچھی تا دیر اڑانے کے باوجود اس حقیقت سے نا بَلد ہی رہے ہیں کہ فیصلہ ّمحفوظٗ کیوں کیا جاتا ہے اور پھر اس کو ’کسی پُراسرار‘ تاریخ کو کیوں سنایا جاتا ہے؟ عدالتوں کی باتوں میں حد سے زیادہ حساسیت ہوتی ہے اس لئے ہماری جیسی موٹی عقل کو یہ باتیں کیوں کرسمجھ آ سکتی ہیں۔ خیر بعض اوقات صحیح رستے کا پتہ نہ ہو تو تھوڑی بہت سیر ضرور ہو جاتی ہے۔ اور اگر وہ بات عقل و دانش سے منسلک ہو تو کچی عقل کی کچھ آوارگی کا سامان ہو جاتا ہے۔ بس یہی بات اپنی سوچ کی بغل میں دبائے ہم ّمحفوظٗ فیصلے کی ’پراسراریت‘ سمجھنے کے لئے خانہ بدوش سے ہو چکے ہیں۔ ہم اپنی کم مائیگی کا بہت جلد اعتراف کر لینے والے بندوں میں سے ہیں۔ ہماری سوچ کی پرواز بھی ہمارے مشاہدے کی طرح محدود بلکہ مسدود ہے۔ پھر بھی ہم کچھ نہ کچھ گمان کرنے کے بھی عادی ہیں۔ عادت کی اسی مجبوری کے تحت ہم اس عدالتی ادا پر کچھ قیاس کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا پہلاقیاس یہ ہے کہ شاید جج لوگ، نہیں ’جج لوگ‘ نہیں کہنا چاہیئے، کیوں کہ ’لوگ‘ تو غیروں کے لئے استعمال ہوتا ہے جب کہ جج تو ہمارے اپنے ہیں اس لئے ان کے لئے ’جج صاحبان‘ کہنا زیادہ مناسب اور معتبر رہے گا۔ جج صاحبان فیصلہ اس لئے محفوظ کر لیتے ہیں کہ اس پر مزید غورو فکر کر لیا جائے کیوں کہ فیصلہ سنا لینے کے بعد وہ پبلک پراپرٹی بن جاتا ہے اور عدالت کے ہاتھ سے گیم نکل کر وقت کے پاس چلی جاتی ہے کہ وہ اس پر جو مرضی ردِ عمل دے۔ لیکن جب تک فیصلہ ّمحفوظٗ ہے عدالت اس میں کچھ نہ کچھ ردو بدل کر سکتی ہے۔ فیصلہ محفوظ کرنا، سیکنڈ تھاٹس یعنی دوسری سوچوں کے آنے کا انتظار کرنے کے لئے ہے۔ ان پر غور کیا جاتا ہے اور اگر سیکنڈ تھاٹس بھی پہلی تھاٹس کی تائید کریں تو یہ’محفوظ فیصلہ‘ سنا دیا جاتا ہے۔ اور اگر سیکنڈ تھاٹس اس میں کچھ تبدیلی کرنے کا کہیں تو فیصلہ سنانے سے پہلے یہ تبدیلی کر کے اس ّمحفوظٗ فیصلے کو پبلک کر دیا جاتاہے۔ اس ضمن میں ہمارا دوسرا قیاس یہ ہے کہ عام قسم کی ذہنی یا نفسیاتی سوچوں کی بجائے جج صاحبان خاص قسم کی مذہبی سوچوں یا غیبی اشاروں کا انتظار فرماتے ہیں جن کے لئے وہ بطورِ خاص مراقبہ، استخارا، وجدان، الہام، اِلقا وغیرہ کا اہتمام فرماتے ہیں کیوں کہ آخر ایک دن خود جج صاحبان نے بھی تو اُس سب سے بڑے کی عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ اس لئے وہ اس طرف سے آنے والے اشارے کا انتظار کیئے بغیر اپنا ّمحفوظٗ فیصلہ کسی کو بھی سنانے کے روا دار نہیں ہیں۔ اگر یہ بات ایسے ہی ہے جیسے کہ ہماری ناقص خیالی سوچ رہی ہے تو پھر تو کیا ہی بات ہے۔ ہم اس حق میں ہیں کہ ہر فیصلہ پہلے ّمحفوظٗ کیا جائے اور اس پر غیبی اشارے کا انتظار کیا جائے اور پھر اگر غیبی اشارے سے فیصلے کی تائید حاصل ہو جائے تو کسی وقت اسے سنا دیا جائے۔ اسی طرح ہماری سوچ کا پنچھی گمان کی دوسری سے تیسری شاخ پر بیٹھ کر کبھی کبھی یہ سوچتا ہے، جو کہ ہمارا تیسرا قیاس ہے، کہ فیصلہ ّمحفوظٗ کرنے کے بعد کسی سماواتی غیبی اشارے کا انتظار نہیں کیا جا تا بلکہ کسی غیبی ارضی اشارے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ اور یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہوا کا رخ کدھر کو ہے۔ جدھر یہ زمینی طاقت اشارہ کرے ّمحفوظٗ فیصلے کا متن اس کی مطابق استوار کر دیا جاتا ہے۔ اس زمینی طاقت کا قیاس بھی کبھی کبھی بہت مضبوط گمان یعنی غالب گمان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ خام عقل کی ہر رسائی خام ہی ثابت ہوتی ہے۔ کبھی بھی چیز کا یقین آنے کے بعد پھر غائب ہو جاتا ہے اور خیال اپنی شاخ بدلتا چلا جاتاہے۔ہمیں بہت زیادہ یقین سا ہے کہ عدالتی کاروائی ایسی نہیں ہوتی جیسی ہم سطورِ بالا میں سمجھ رہے ہیں۔ فیصلہ ّمحفوظٗ کرنے کے اغراض ومقاصد سے تو شاید ہم کبھی بھی آشنا نہ ہو سکیں کیوں کہ لوگوں سے آشنائی کر کر کے ہم تھک سے گئے ہیں اور اب آشنائی کا لفظ سنتے ہی ہم کانپ سے جاتے ہیں۔ خیر یہ کوئی اتنی اچھی بات نہیں ہے۔ کبھی کبھی ہم خیال کرتے ہیں کہ فیصلہّ محفوظ کرنا’اچار یا مربہ ڈالنے جیسا ہوتا ہے، کہ عام لوگ اچار یا مربہ ڈال کر ّمحفوظٗ کر لیتے ہیں اور پھر جب ضرورت پڑتی ہے اسے نکال نکال کے کھاتے رہتے ہیں۔ اچار یا مربہ ّمحفوظٗ کرنا کتنی جلدی سمجھ آنے والا مظہر ہے لیکن یہ کم بخت ّفیصلہ محفوظٗ کرنا کسی طرح سے بھی سمجھ کے قریب قریب بھی نہیں ّپھڑکتا ٗ ۔لیکن ہماری سوچ اس ادا کے کسی وبا کی طرح پھیل جانے پر غور کرنے لگتی ہے۔ آج کل نکاح بھی زیادہ سے زیادہ عدالتی سا ہوتا جا رہا ہے۔ قوی امید ہے کہ مستقبل قریب میں ملک کی معاشی حالت کے پیشِ نظر نکاح ٹیکس کی زد میں آنے سے نہیں بچ سکے گا اور جلد ہی حکومت کے مالیاتی اداروں کو مشورہ دیا جائے گا کہ نکاح نامہ اشٹام پیپروں پرلکھا جایا کرے، اشٹام پیپروں کے علاوہ کسی اور پیپر پر لکھا نکاح نامہ عدالتی طور پر قابلِ قبول نہیں ہو گا یا اس نکاح کو غیر عدالتی قرار دیا جائے گا جو اشٹام پیپروں پر درج نہ ہو گا۔ اس طرح نکاح کی رسم سے عدالتی اور حکومتی مالیاتی اداروں کو بھی خوشی ہوا کرے گا۔اس طرح لوگوں کی خوشیوں میں اضافہ بھی ہو گا اور آبادی میں بھی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہم بات کچھ اور کرنا چاہتے ہیں جب کہ ہو کچھ اور جاتی ہے۔ خیر یہ بھی اکیلے ہمارا مسئلہ نہیں،دنیا کے اکثر لوگوں کو یہ مسئلہ درپیش ہے۔ اچھا تو ہم بات کر رہے تھے’محفوظ‘ فیصلے کی جس کی بنا پر ہمارا ذہن نکاح کی طرف مبذول ہو گیا یعنی ہماری سوچ ’محفوظ نکاح‘ کی طرف جا نکلی۔ جی ہاں آپ درست سمجھے ہیں کہ اگر فیصلوں کی طرح نکاح بھی پہلےمحفوظ‘ ہوا کریں اور پھر کچھ عرصہ بعد ان کو پبلک کیا جایا کرے تو معاشرے پر اس ادائے دلبریں کا کیا اثر پڑے گا؟ اس ضمن میں کچھ یوں ہوا کرے گا کہ لوگ پہلے اکٹھے ہو کر ّمحفوظٗ نکاح پڑھوایا یا کروایا کریں گے۔ اور پھر نکاح خواں اس ّمحفوظٗ نکاح کو بارات والے دن، کسی خاص جگہ اور خاص وقت پر آ کر لوگوں کے سامنے سنایا کرے گا۔ اس دوراں لوگوں کو تجسس رہا کرے گا کہ نکاح خواں ّمحفوظٗ نکاح نامے میں کوئی ردو بدل نہ کر دے۔ کہیں دلہن اپنے گھر والوں کے سامنے تو ّمحفوظٗ نکاح نامے پر دستخط ثبت کر دے یا انگوٹھا ’لگا‘ دے لیکن بعد میں اپنی کسی سہیلی یا دوست کے ساتھ جا کر نکاح خواں کو بتا دے کہ وہ اس نکاح کے لئے دل سے رضامند نہیں تھی۔ اس طرح نکاح خواں کے لئے اس ’محفوظ‘ نکاح کو منسوخ کرنے یااس میں ردو بدل کرنے جیسا معمہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس طرح ّمحفوظٗ نکاح ّمحفوظٗ ہونے کے باوجود ’غیر محفوظ‘ ہو جائے۔ اسی طرح اس ضمن میں ا س طرح کی باتیں بھی رونما ہو سکتی ہیں کہ لڑکی، لڑکے یا ان کے رشتہ داروں سے کوئی ان کی شادی کی بابت پوچھے اور جواب میں یہ بتایا جائے کہ ان کا نکاح ’محفوظ‘ ہو چکا ہے جو فلاں تاریخ کو فلاں وقت، فلاں شادی حال میں سنایا جائے گا یا ’غیر محفوظ‘کیا جائے گا۔یا اسی طرز پر لوگوں میں یہ بیان بھی زبان زدِ عام ہو سکتا ہے کہ پہلے ہم ’محفوظ نکاح‘ کروا لیں، باقی معاملات بعد میں دیکھے جائیں گے۔ یا وہ بہت ساری باتیں جو میرے ساتھ ساتھ آپ کے بھی ذہن میں آ رہی ہیں کے بھی وقوع پذیر ہونے کا پورا پورا سامان فراہم ہو سکتا ہے۔ ہماری سوچ کا پنچھی نکاح کی شاخ سے اڑ کر ڈاکٹری نسخے یعنی’پرسکرپشن پر براجمان ہو جاتا ہے۔ اگر فیصلہ محفوظ کا وائرس عدالتی فضا سے نکل کر ہسپتالوں اور کلینکوں کا رخ کر لےتو کیا ہو۔ مریض، ڈاکٹر صاحب کے پاس جایا کرے گا۔ ڈاکٹر اسے اچھی طرح سے، یعنی جیسے وہ اکثر کرتے ہیں، چیک کیا کریں گے۔ اپنی فیس وہ پہلے ہی چارج کر چکے ہوں گے، جس سے مریض کے سرخ یا سفید خلیئے چاہے کم ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں، پھر وہ پورے تدبر اور تفکر کے ساتھ پہلے ایک ّمحفوظٗ نسخہ لکھا کریں گے اور مریض کو گھر واپس بھیج دیا کریں گے۔کیوں وہ ّمحفوظٗ نسخہ کسی مریض کو دے یا دکھا نہیں سکتے کہ یہ عدالتی ادا کی خلاف ورزی ہو گی اور اپنی خلاف ورزی کو عدالت کسی بھی وقت اپنی ’توہین‘ قرار دے کر توہین کرنے والے کو قرار واقعی سزا بھی سنا سکتی ہے۔ اس مصیبت میں پڑنے کی کوئی بھی سمجھ دار ڈاکٹر قطعی طور پر کوشش نہیں کر سکتا۔ اس لئے ّمحفوظٗ فیصلے کی روایت کی مکمل پیروی کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبان پہلے ّمحفوظٗ نسخہ ہی لکھا کریں گے یا نسخہ لکھ کر پہلے اسےّمحفوظٗ کیا کریں گے، بعد میں اس پر سینکڈ تھاٹس کا انتظار کیا کریں گے۔ اگر سیکنڈ تھاٹس پہلی سوچوں کے ساتھ ٹیلی کریں گی تو وہ ّمحفوظٗ نسخہ برقرار رہا کرے گا اور اگر سیکنڈ تھاٹس، پہلی سوچوں سے مختلف ہو جائیں گی،جیسا کہ اکثر ہو بھی جاتا ہے، تو وہ ّمحفوظٗ نسخہ بدل لیا جائے گا۔ یا ایک ڈاکٹر کسی دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ بھی کر سکتا ہے اور اپنا لکھا ّمحفوظٗ نسخہ اس سے ڈسکس کر سکتا ہے اور اگر مشاورت میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس میں کسی میڈیسن کی تبدیلی ضروری ہے تو پھر اس’محفوظ‘ نسخے کو پھر سے’محفوظ‘ کیا جا سکتا ہے اور پھر مریض کو بتائے گئے یا نہ بتائے گئے وقت پر بلا کر اسے تھمایا جا سکتا ہے۔ یوں یہ ’محفوظ‘ نسخہ آخر کار غیر محفوظ کیا جا سکتا ہے یا اسے پبلک پراپرٹی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر یہی عدالتی انداز دھیرے دھیرے تعلیمی اداروں کی زینت بھی بننے لگا جو کہ ابھی تک نہیں بنا، تو مستقبل میں پہلے ّمحفوظٗ اسنادجاری ہوا کریں گی اور پھر کچھ عرصہ کی تاخیر، جس میں نا معلوم کیاکچھ ہوا کرے، یہ ّمحفوظٗ اسناد طالب علموں کے گھروں، سکولوں اور اکیڈمیوں کے پتوں پر ارسال کر دی جایا کریں گی۔ امتحانوں کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان ہوا کرے گا کہ امتحان منعقد ہونے کے بعد اس تاریخ کو اسناد ّمحفوظٗ کر لی جائیں گی اور پھر اسناد ّمحفوظٗ کرنے کے اتنے دن بعد یہ ّمحفوظٗ اسناد ’غیر محفوظ‘ کر کے ڈاک سسٹم اور اللہ کے سپردکر دی جائیں گی۔کچھ ادارے’محفوظ‘ اسناد کے پردے میں پیسے بھی بٹور سکتے ہیں۔ اسناد کے ّمحفوظٗ ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ چھپ چکی ہیں اور اگر وہ جنم لے چکی ہیں تو ان کا حلیہ اور قد کاٹھ کیا ہے۔ ان کا تجسس کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ طالب علم پہلے اسناد کے ’محفوظ‘ ہونے اور پھر ّمحفوظٗ اسناد کے’غیر محفوظ‘ ہونے کا انتظار کیا کریں گے۔ اس طرح امتحان کے بعد بھی ستم بالائے ستم ہوتا رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ایک دن طالب علم اس عدالتی ’ادا‘ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پے آ جائیں اور ٹریفک جام کر دیں۔ اس سے ان کی ّمحفوظٗ اسناد کی پہنچ میں مزید تاخیر ہو گی۔ عدالتیں اپنا انداز ِ رازو نیازبالکل نہیں بدلیں گی بلکہ بدلنے کا سوچیں گی بھی نہیں۔ کیوں کہ ان کے فیصلوں کو حفاظت کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔اور وہ فیصلوں کو غیر’محفوظ‘ رکھ کر اپنے آپ کو غیر محفوظ نہیں ہونے دیں گی۔ بہت سی چیزوں کی تیاری میں یہ مرحلہ ضرور آتا ہے کہ تیاری کے بعد انہیں کچھ دیر کے لئے فارغ چھوڑ دیا جاتا ہے جس میں وہ گرم ہو تو ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، ٹھنڈی ہوں تو نارمل ہو جاتی ہیں، گیلی ہوں تو سوکھ جاتی ہیں۔ کچی ہوں تو پک جاتی ہیں، وغیرہ کے عمل ہو تے رہتے ہیں۔ ایک رائٹر بھی تحریر لکھنے کے بعد کچھ دیر کے لئے اسے ویسی کی ویسی پڑی رہنے دیتا ہے اور کچھ وقت بعد اس کے ذہن میں اس تحریر سے متعلق کوئی تبدیلی یا بہتری ذہن میں آتی ہے تو وہ کر لیتا ہے۔ کسی چیز کو نکالنا بہتر سمجھا جائے تو نکال بھی دیتا ہے۔ بعض اوقات کئی ایک پیرے ڈیلیٹ کر دیئے جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایک رائٹر بھی پہلے ایک ّمحفوظٗ تحریر لکھتا ہے جسے وہ کسی کو نہیں، یا صرف ہم راز دوستوں کو دکھاتا یا پڑھواتا ہے۔ اور کچھ عرصے بعد جب وہ سمجھتا ہے کہ اس ’محفوظ‘ تحریر کو اب ’غیر محفوظ‘ یعنی شائع کر دیا جائے تو وہ شائع کر دیتا ہے۔ معزز قارئین، ہم بھی اپنی تحریروں کو لکھنے کے بعد کئی ایک دنوں، ہفتوں، مہینوں اور بعض اوقات سالوں تک ّمحفوظٗ رکھتے ہیں اور بعد ازاں دوسری سوچوں یعنی سیکنڈ تھاٹس کے پروسیجر سے گزر کر جب پھر سے انہیں دیکھتے ہیں۔اگر پھر بھی یہ ذہن اور دل کو اچھی محسوس ہوتی ہیں تو ہم انہیں ّغیر محفوظٗ کر دیتے ہیں یعنی چھپنے کے لئے ہماری وب کو بھیج دیتے ہیں۔ امید ہے آپ کو تحریر پسند آئی ہو گی۔ بہت شکریہ! اللہ حافظ!
|