یہ ماڈل غلط ہے

کسی بھی مقصد کو بہتر انداز میں سرانجام دینے کےلیے اور اسکے خاص، موافق، اور مجوزہ نتائج حاصل کرنے کےلیے جو فریم ورک ترتیب دیا جاتا ہے اسے سٹریٹجی کہتے ہیں۔
الفریڈ چاندلر کہتا ہے کہ سٹریٹجی "ایک انٹرپرائز کے بنیادی طویل مدتی اہداف کا تعین، ان کے لے عملی اقدامات اٹھانا اور ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے وسائل کا ضروری تعین کرنا" ہے۔
(ترجمے کی غلطی کا خود زمدار ہو)

سیاسی جماعتیں الیکشن میں اپنی جیت پکی کرنے کےلیے ایک خاص انداز سے سٹریٹجی تعمیر کرتے ہے۔ جس کے ذریعے سے وہ یہ یقینی بنائے کہ جیت انکا ہوگا۔ سٹریٹجی کا بنیادی پہلو عوام کے سامنے اپیل کرنا ہوتا ہے کہ ووٹ دوسروں کے بجائے انہیں دیں۔ یا یہ جماعت ان ان حوالوں سے دوسرے جماعتوں سے بہتر ہے اسلئے ووٹ اسکا حق ہے۔
کسی بھی ایلکٹورل سٹریٹجی میں چند چیزیں عام ہوتی ہیں۔
پہلا مخالف جماعت یا امیدوار کی بدیوں اور ناکامیوں کو عوام کے سامنے لانا۔ اس کام کےلیے موثر انداز میں مخالف جماعت کی تخقیق کرنا پڑھتی ہے جسے
OR یعنی Opposition Research یا Oppo Strategy
کہتی ہے۔ یوں اسی طریقے سے عوام کو سیاسی لوگوں کی اہلیت، قابلیت اور شخصیت کا اندازہ لگ جاتا ہے۔

دوسرا یہ کہ ملک میں موجود مہنگائی، بے روزگاری، بیرونی قرضہ جات، کرنٹ اکاونٹ خسارہ، دہشت گردی اور طبقاتی فاصلہ جیسے مسائل کی حل تلاش کراور ایک جامع و مربوط طریقہ کار وضع کرکے عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ یا اکثربنا حل تلاش کئے عوام کو یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ ہمیں ان مسائل کا علم ہے اور حکومت میں آکر یہ مسائل حل کرینگے۔ لحاظہ ووٹ انہیں دیں۔عوام کے سامنے یہ چیزیں الیکشن مینیفسٹوکے طور پر رکھے جاتے ہیں۔

تیسرا یہ کہ یہ تمام تر باتیں اس وقت تک لاحاصل ہے جب تک عوام اور سیاستدانوں کے درمیان رابطہ کاری کا میکینزم موجود نہ ہو۔ اسلئے سیاسی جماعتیں اپنی کامیابی یقینی بنانے کےلئے اور ملک کی سیاسی فضاء میں اپنے لیے جگہ بنانے کی خاطر عوام سے رابطہ کاری شروع کردیتے ہیں۔ جیسے آج کل سوشل میڈیا پر اکٹیوں رہنا عوام سے رابطے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس عمل میں عوامی پزیرائی کے حامل اشخاص جیسے شہرت یافتہ فنکار، سماجی خدمتگار، رائے عامہ بنانے والے دانشور، آج کل سوشل میڈیا انفلوینسرز کو خصوصی توجہ دی جاتی ہیں۔

چونکہ یہ تمام کام اسلیے کی جاتی ہے کیونکہ جمہوریت کے اندر عوام کے پاس کسی کو طاقت میں لانے یا رد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ اگر ایک مرتبہ کوئی سیاسی جماعت ناکام ہوجاتی ہے۔ وہ عوامی مسائل کو حل کرنے اور وعدہ کردہ اہداف حاصل نہیں کرپاتے ہیں۔ کسی پر کرپشن کے سنگین چارجز بن جاتے ہیں یا اپنے منسبِ ہائے کی زمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ تو اسے عوام آگلی مرتبہ رد کر دیتے ہیں۔ یوں وہ عوامی عہدے سے دور ہوجاتا ہے۔ جمہورہت کے اندر ایک خود کار چیک اینڈ بیلنس کا عمل موجود ہے۔ ایک خاص مدت کے تسلسل کے ساتھ بار بار الیکشن ہونے پر قابل اور پراعتماد قیادت سامنے آتا ہے۔ جس کی سیاسی زندگی میں عوامی مفاد کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔ جمہوری عمل کے تسلسل سے سیاسی ڈھانچہ یوں پالش ہوتا رہتا ہے۔
مگر پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں سیاستدان عوام کے پاس نہیں آتے۔ وہ آئے تو کیوں آئے؟ سیاسی خلا حاصل کرنے کےلئے؟ وہ تو خود عوام کے پاس نہیں ہے۔ عام آدمی کے پاس سیاسی خلا بہت کم ہے۔ کیونکہ ہر مرتبہ غین وقت پر ایمرجنسی جیت جاتی ہے۔ اگر براہ راست نہ ہو تو بالواسطہ جیتتی ہے۔ ادھر تو عوامی مینڈیٹ کا مزاق اڑایا جاتا ہے۔ جس کی قریبی عکس 2018 کے الیکشن میں دیکھنے کو ملا۔ سیاسی ڈھانچہ یرغمال بنایا گیا تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکے۔ اب ایک مرتبہ پھر سیاسی جھنجھٹ جاری ہے۔ ایک جماعت کے اکثر رہنما جیلوں میں ہیں تو دوسری جماعت لیول پلینگ فیلڈ کا رونا رو رہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جس ملک میں سیاسی قیادت کا انتخاب عام آدمی نہ کریں یا عام آدمی کی مرضی سے نہ ہو بلکہ کہی اور انکا انتخاب ہوتا ہو تو وہ عوام کے ساتھ کیسا مخلص ہوگا؟ وہ تو اپنے لانے والوں کے ساتھ وفاداری نبائگا۔ جدھر قیادت لانے اور رد کرنے کا عام آدمی کو طاقت نہ ہو ادھر کے سیاستدانوں کو عوام کے سامنے کیسے جوابدہ مانا جائے؟ وہ تو اپنے لانے اور ہٹانے والوں کے سامنے خود کو جوابدہ مانے گے۔
سیاسی نظام میں اگر مجوزہ چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا تو لوگ قابیلیت پر نہیں وفاداریوں پر سیاسی اقتداری سیڑھیا چڑھتے ہیں۔ وفادریوں پر چنے گئے موتیوں سے یہ شکوہ کرنا بے جا ہے کہ معیشت بیٹھ گئی ہے۔ عوام کا اداروں پر اعتماد کا فقدان ہے۔ لوگ ملک چھوڑتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ ادھر سیاست کےلئے چنے گئے موتیوں کی وفاداریاں دیکھ چناو کیا گیا ہے۔ عوامی اعتماد اور مقبولیت نہیں۔
پاکستان میں اب تک رائج عمل یہ ماڈل غلط ہے۔
سیاستدانوں کو عوام کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑھے گا۔ تاکہ انتخاب و احتساب اور قابیلیت و مقبولیت کا عمل ساتھ رہے۔ جس سے قابل و عوام پرست اور مفادِ عامہ کا خیال رکھنے والا قیادت سامنے آسکے۔ یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ کوئی ڈھکی میں چپ کر گیٹوں پر حاضری نہ دیں۔ بلکہ بہتر یہی ہے کہ گیٹ عرف عام میں گیٹ نمر 4 کو سیاست دانوں کےلئے بند کرنا ہوگا۔ تاکہ سیاست دان الیکٹورل سٹریٹجی بناکر عوام کے سامنے مسائل کا حل لیکر آئے۔ ملک کو درست راستے پر گامزن کرنے کی سغی کریں۔

Sadiq Amin
About the Author: Sadiq Amin Read More Articles by Sadiq Amin: 12 Articles with 3707 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.