جموں صوبے میں مسلمانوں کے قتل عام کی مہم
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
اطہر مسعود وانی
1947میں تقسیم ہند کے وقت پاکستان اور ہندوستان کی طرف نقل مکانی کرنے والے افراد میں کم از کم دس لاکھ افراد قتل کئے گئے۔ ریاست جموں وکشمیر میں بھی قتل عام ہوا تاہم جموں و کشمیر میں ہونے والا قتل عام اس حوالے سے مختلف ہے کہ یہ ریاست متحدہ ہندوستان سے الگ ایک ریاست تھی۔ریاست جموں وکشمیر کے لوگ ہر سال6نومبر کو یوم شہدائے جموں کا دن گہرے دکھ اور غم کے احساس کے ساتھ مناتے ہیں۔یوں تو جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کی مہم ستمبر کے آخر،اکتوبر کے پہلے ہفتے سے ہی شروع ہو گئی تھی تاہم 6نومبر کو ڈوگرہ مہارجہ کی فوج کی حفاظت میں پاکستان کی طرف ہجرتے کرنے والے مسلمانوں کے قافلوں کو ہجرت کے دوران بڑی تعداد میں قتل عام کا نشانہ بنایا گیا جس کی تصدیق عالمی میڈیا کی اس وقت کی رپورٹنگ سے بھی ہوتی ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کے جموں صوبے (پونچھ جاگیر اور میر پور کے علاوہ)کی کل آبادی 1941میں11لاکھ72ہزار 950تھی ، جس میں مسلم آبادی کا تناسب44.5فیصدتھی،2011میں صوبہ جموں میںمسلم آبادی کا تناسب27.9فیصد رہا، 1947میں صوبہ جموں میں کل 2لاکھ 46ہزار 356مسلمان قتل عام کا نشانہ بنے۔1941میں جموں ضلع کی آبادی4لاکھ 31ہزار362تھی جس میںمسلم آبادی کا تناسب39.6فیصد تھا،2011میں ضلع جموں میں مسلم آبادی کا تناسب 7فیصد رہ گیا،اس طرح 1947میں ضلع جموں میں1لاکھ اکاون ہزار دس مسلمان قتل عام کا نشانہ بنے۔ 1941میں کٹھوعہ ضلع کی آبادی1لاکھ 77ہزار 672تھی جس میں مسلم آبادی کا تناسب25.3فیصد تھا،2011میں کٹھوعہ ضلع میںمسلم آبادی 10.4فیصدتھی،7 194میں ضلع کٹھوعہ میں29ہزار 567مسلمان قتل عام کانشانہ بنے۔اودھمپورضلع میں 1941میں کل آبادی 3لاکھ 6ہزار 13تھی جس میں مسلم آبادی کا تناسب 42.7فیصدتھا،2011میں ضلع اودھمپور میں مسلم آبادی کا تناسب41.5فیصد تھا،1947میں ضلع اودھمپور میں5ہزار 975مسلمان قتل کئے گئے۔ریاسی ضلع میں1941میں کل آبادی 2لاکھ57ہزار 903تھی جس میں مسلم آبادی کا تناسب68.1فیصد تھی،2011میں ضلع ریاسی میں مسلم آبادی کا تناسب58.4فیصدر ہا،1947میں ضلع ریاسی میں 59ہزار 804مسلمان قتل عام کا نشانہ بنے۔
ہندوستانی حلقوں کے علاوہ ریاست جموں وکشمیر کے ایک مخصوص سوچ میں سے بعض افرادبھی یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ جموں میں مسلمانوں کا قتل عام کشمیر پہ قبائلی حملے کے ردعمل میں ہوا جس کہ سراسر حقائق کے خلاف ہے۔ستمبر کے آخر اور اکتوبر کے پہلے ہفتے سے ہی ادھم پور، چنانی، رام نگر، بھدرواہ اور ریاسی کے علاقوں کے علاوہ جموں ضلع کے مختلف دیہاتوں- امرے، چیک، آتما پور اور کوچپورہ میں مسلمانوں کے قتل عام کی وارداتیں شروع ہو چکی تھیں جبکہ قبائلی حملہ ، جس کی ابتداء مظفر آباد ضلع سے ہوئی،اکتوبر کے آخری ہفتے سے شروع ہواتھا۔جموں شہر اور اس کے آس پاس مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا جس میں مہاراجہ کشمیر کی ڈوگرہ فوج نے حملوں کی قیادت کی، ریاستی حکام نے راشٹریہ سیوک سنگھ اور اکالیوں کو کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کیا۔ انتظامیہ نے ریاستی فوج میں مسلمان فوجیوں کو غیر فعال اور مسلمان پولیس افسروں کو فارغ کر دیا تھا۔ جموں شہر میں سرکاری طور پر کرفیو لگا دیا گیا تھا۔ جموں کا رام نگر ریزرو گجر مردوں، عورتوں اور بچوں کی لاشوں سے بھرا پڑا تھا۔ جموں شہر کے مسلم علاقوں تالاب کھٹیکاں اور محلہ استاد میں مسلمانوں کو گھیرے میں لے لیا گیا اور انہیں پانی اور خوراک سے محروم کر دیا گیا۔ تالاب کھٹیکاںمیں مسلمان معمولی اسلحے کے ساتھ محصور تھے۔ آخر کار ڈوگرہ انتظامیہ نے ان محصور مسلمانوں کو ہتھیار ڈالنے اور انہیں اپنی حفاظت کے لیے پاکستان لے جانے کا اعلان کیا۔ یہ مسلمان اور دوسرے لوگ جو سیالکوٹ جانا چاہتے تھے، ہزاروں کی تعداد میں، متعدد ٹرکوں میں لدے ہوئے تھے اور نومبر کے پہلے ہفتے میں ریاستی فوجیوں نے انہیں اپنی نگرانی میں لے گئے اور مضافاتی علاقوں میں انہیں مسلح سکھوں اور آر ایس ایس کے لوگوں نے باہر نکالا اور قتل کر دیا، جبکہ خواتین کو اغوا کر لیا گیا، یہ سلسلہ کئی دن جاری رہا۔
ہندوستانی حکومت گزشتہ دس سال سے زائد عرصے سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ڈیموگریفک تبدیلی کے مذموم منصوبے پہ عمل پیرا ہے۔اس منصوبے پہ مرحلہ وار اقدامات جاری ہیں۔اس منصوبے کا مرکزی مقصد مقبوضہ جموں وکشمیر، بالخصوص وادی کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔اسی منصوبے کے ایک مرحلے کے تحت2019میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے آئینی طور پر ہندوستان میں مدغم کر تے ہوئے ڈیمو گریفک چینجز کے مختلف اقدامات پر کام تیز کر دیا گیاہے۔اسی مقصد کے لئے ہندوستانی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوستانی حکمران جماعت '' بی جے پی'' اور انتہا پسند ہندوتنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کی سیاسی بالادستی قائم کرنے کی کوششیں جاری ہیں ۔مختصر یہ کہ ہندوستان مقبوضہ جموں و کشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی کو اسی طرح اقلیت میں تبدیل کرنے کے اقدامات کر رہا ہے جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف کیا۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ہندوستان اسرائیل سے بڑھ کر کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے اقدامات کر رہا ہے۔
اطہر مسعود وانی 03335176429
|