ہمارے یہاں ہر طرح کے موسم کو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن میرے لیے بدلتے موسم اتنے متاثرکن نہیں جتنا لوگوں کے حالات، جذبات، احساسات، لہجے، قہقہے، آنسو، مسکراہٹ، نفرت، محبت، انا اور غرور اہمیت رکھتے ہیں۔ یہاں جون جولائی کی کڑی دھوپ میں اتنی تپش نہیں ہوتی جتنا لوگ حسد کی جلن میں جلتے وقت محسوس کرتے ہیں۔ جہاں سردیوں کی سرد ہواؤں سے جسم نہیں کاپتا بلکہ لوگوں کے سرد لہجے ہی رونگھٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ جہاں خزاں کے مہینے میں جس قدر تیزی سے درخت کے سوکھے پتے ٹہنی کا سہارا چھوڑتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ تیزی سے لوگ اپنے تعلقات کو چھوڑ کر نئے رشتوں کو تعمیر کرنے کے لیے لوگوں کے جذبات اکھاڑ دیتے ہیں۔ جہاں بہار کے آنے پر رنگین اور مہکتے پھول کھلتے ہیں وہیں یہ لوگ ان پھولوں کو دیکھنے کے بجائے ان کے کانٹے گننے لگتے ہیں اور بالآخر یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔
|