بابر کے پاس ’پلان بی‘ اور ’سی‘ کا فقدان ہمیشہ سے رہا اور وہ اس دوران کچھ تبدیل کرنے سے ہمیشہ سے قاصر دکھائی دیتے تھے ۔ بلے باز کے مطابق فیلڈ پلیسمنٹ کرنی ہو یا کسی پارٹ ٹائم بولر کو اوورز دینے ہوں بابر اس معاملے میں ہمیشہ فیصلہ کرنے میں بہت دیر لگاتے تھے اور اس طرح میچ پاکستان کی گرفت سے اکثر نکل جاتے ر ہے۔ گذشتہ چند ماہ سے بابر میں وہ الجھن نظر آ رہی تھی جو اس سے پہلے ایشیا کپ یا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ میچوں میں دیکھنے کو ملتی تھی۔ شاباش ہو ہمارے کرکٹ بورڈ اور سلیکشن کمیٹی و ٹور انتیظامیہ کو ان کی یہ الجھن اور غیریقینی ان کی قائدانہ صلاحیتوں میں ایک عرصے سے دکھائی دے رہی تھی مگر انہیں نظر نہیں آئی جس کا خمیازہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو 2023 کے ورلڈکپ میں پہلے ہی راؤنڈ میں ہار کی صورت میں ملی اور رہی سہی کسر 2023 کے ورلڈکپ کے کپتان کی اس طرح سے بورڈ نے عزت کروائی کہ پڑوسی ملک کا سابق کپتان بھی اس کے حق میں بول پڑا. آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری سیاست میں بھی لیڈر ہر تین چار سال بعد چاروں طرف سے یلغار ہونے سے پی ایم سے نکال باہر کیا جاتا ہے یہ ہی حال ہمارے کھیل کرکٹ میں متواتر جب سے پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم رکھا ہے. جب سے یہ کئی دہائیوں سے یہ ہی ہوتا آرہا ہے. جس طرح پاکستان کی سیاست نے ملک کو ایسے دوراہے پر لاکے کھڑا کردیا ہے ہر کوئی پریشانی میں مبتلا ہے کہ اب کیا ہوگا یہ ہی حال پاکستان کی کرکٹ کا حال ملک کے باقی اداروں کی طرح تیزی سے ابتری کی جانب سے رواں دواں ہے. اور وقت کے ساتھ ایک عرصے سے آئی سی سی ٹورنامنٹس میں اچھی کارکردگی دکھانے والی ٹیم اب اچانک ورلڈکپ 2023 میں خزاں کے ہتوں کی طرح بکھر گئی. یہ گتھی الجھانے والے اہل دانش تو ہرگز نہیں، البتہ گزشتہ 2022 سے لیکر 2023 ختم ہونے کو پے اپنے ناقص فیصلوں سے پاکستان کرکٹ کو دیرپا نقصانات کا سامنا ہورہا ہے۔ ورلڈ کپ کا فائنل ابھی اختتام کو ہوا ہے. لیکن اس سے پہلے پاکستان ٹیم رسواء ہوکر اپنے مُلک میں پہنچنے پر پرنٹ اور سوشل میڈیا میں زیر عتاب ہے تو وہاں ہی کرکٹ ٹیم اور ٹیم مینجمنٹ میں اکھاڑ پچھاڑ کا آغاز ٹیم کے لوٹنے کے چند روز پہلے ہی کرکٹ بورڈ میں شروع ہو گیا تھا. گیارہ نومبر پاکستان ٹیم انگلینڈ سے میچ میں رسوا ہونے کے بعد سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوئی. اور چودہ نومبر کو پی سی بی نے پہل کرکے عبوری کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف نے محمد حفیظ، سہیل تنویر اور وہاب ریاض سمیت دیگر سابقہ کھلاڑیوں سے مرحلہ وار مشاورت شروع کردئی ۔ پھر اگلے دن ہی 15 نومبر کو پہلے کپتان بابر اعظم کا بطور کپتان چھوڑنے کا ٹوئیٹر کے زریعے سوشل میڈیا کی زینت بنتے ہی الیکٹرونک و سوشل میڈیا میں بھونچال آگیا اور پھر پی سی بی کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان کی خدمات کا اعتراف کیے بغیر بابر سے اپنا ایسا پلو جھاڑا کہ ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی فارمیٹس کے لیے ایک نے اپنے داماد کو اور دوسرے نے اپنے بیٹے کو کپتان بنوا دیا گیا۔ ( ثقلین اور انضمام کو بھی اس بندر بانٹ کپتانی کے لیے اپنے داماد اور بھتیجے کے لیے آگے آنا چاہیے ) اور اگلے دن کو محمد حفیظ کو پاکستان ٹیم کا کرکٹ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا. اور مورخہ 20 نومبر کو سلیکشن کمیٹی کے چئیرمین نے دورہ آسٹریلیا کے کیے 18 رُکنی کھلاڑیوں کا اعلان کردی. ایسا لگتا ہے یہ اعلان کچھ جلدبازی اور گھبراہٹ میں کیا گیا. جس طرح کی ٹیم کا اعلان کیا اس سے یہ صاف نظر آرہا ہے کہ آسٹریلیا کے دورہ میں امام الحق , فہم اشرف و حسن علی کا شامل کرنا یہ کرکٹ کے شائیقین کے ساتھ کُھلا مذاق نہیں تو اور کیا ہے جبکہ یہ سارے پرچیاں ھیں ۔ان کی اس وقت ٹیم میں جگہ ہی نہیں بنتی اگر اس ہی طرح ہوتا رہا پھر تو پاکستان ٹیم کا اللّٰہ ہی حافظ ہے. پاکستانی ٹیم میں ہمیشہ ٹیم کے آفیشل میں ہمیشہ سے پوری ایک بارات جاتی تھی اس آسٹریلیا ٹور میں بھی اب تو نیا اضافہ اسپین کوچ کا بھی کردیا اب کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ ( ایک کوچ روٹی کا نوالہ بنا بناکر کھلاڑیوں کو کھلانےوالا بھی رکھو یہ سب سارا غریب عوام سے ٹیکس کے شکل میں نکلتا ہے) ذکا اشرف نےکرکٹ کو بھی اپنی سیاسی جماعت سمجھ لیا ہے اس طرح فیصلے کرکے کرکٹ ٹیم کو سیاست زدہ کرنا چاہتے ہیں. پاکستان کرکٹ بورڈ کو بچانا ہوگا سیاست سے ہاک کرنا ہوگا کرکٹ کی سمجھ بوجھ والا سابق کرکٹر کو چٸرمین لانا چاہیے ورنہ جس طرح کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کے صورتحال ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان ٹیم کی حالت ویسٹ انڈیز و سری لنکا جیسی نہ ہوجائے. ابھی شاہین شاہ آفریدی کو T20 میچوں کے لیے کپتان بنانے کی کیا ضرورت تھی اور اس ہی طرح شان مسعود کو ٹیسٹ کا کپتان سمجھ سے بالاتر ہے معلوم نہیں کیا وجہ ہے شان مسعود کی تو اس وقت ٹیسٹ میں جگہ بھی نہیں بنتی ہے پھر کس کے کہنے پر اس کو وہ بھی آسٹریلیا کے دورہ ہر کپتان بنادیا. آسٹریلیا میں پاکستان کے اچھے اچھے سینئر کپتان سیریز بہ مشکل جیتے ہیں اور شان مسعود تو عمر میں سینئر ہوئیگا مگر کپتانی میں وہ بھی آسٹریلیا جیسے ملک میں نوازئیدہ کپتان بنانا اس کے کئیریر کو صرف تباہ کرنا ہے. شان مسعود کو سرفراز احمد پر فوقیت دینا اس سے سوائے سلیکشن کمیٹی کے اراکین کا وہ تعصب ہے جو دوران کرکٹر محمد حفیظ وغیرہ میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں عیاں ہوتا تھا. محمد عامر کو سابقہ سلیکشن کمیٹی نے اس بناء ٹیم سے باہر کیا کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے سے انکاری تھا جبکہ آج یہ ہی صورتحال حارث رؤف کی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے سے انکاری پر سلیکشن کیمٹی کیا ایکشن لے گی ( دیکھا جائے تو حارث نے خود واضح کردیا وہ 20 T بولر ہے اسے ون ڈے کھلایا گیا ہے ) ورلڈ کپ میں محمد نواز ، امام الحق ، شاداب وغیرہ نے اس طریقے سے پرفارم کرکے نہیں دیا تو اور بھی ان سے بہترین کھلاڑی موجود ہیں اب بھی انہیں مواقع فراہم کیے جایںں اب T20 ورلڈکپ آنے والا ہے انہیں تیار کیا جائے. ہمارا بورڈ اور سلیکشن کمیٹی ممبرز ابھی تک اس حصے سے باہر نہیں نکلے اور نہ نکلنا چاہتے ہیں بس ان کی یہ ہی سوچ ہے کہ جو لڑکے کھیل رہے ہیں بس وہی کھیلتے رہیں انہی سے ہم بہتری کی جانب جائیں جو کہ ہمارے لیے مسائل کا سبب ہمیشہ سے بننے اور اب بھی یہی وجہ بنے. اب دیکھتے ہیں کہ یہ نئی سلیکشن کمیٹی اور ان کے ممبران آسٹریلیا میں اس اسکواڈ سے آسٹریلیا کو آسٹریلیا کی زمین پر زیر کرتے ہیں یا خود زیر عتاب آجاتے ہیں. پاکستانی عوام کی دعا تو یہ ہی ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم آسٹریلیا میں کامیاب وکامرانی سے لوٹے ہر پاکستانی ان کے لیے دُعا گو ہے.
|