حالیہ دنوں چائنیز اکیڈمی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فار ڈیولپمنٹ کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین عالمی جدت طرازی رینکنگ کے مطابق چین 10 جدید ترین ممالک میں شامل ہے۔اکیڈمی نے رینکنگ پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں 40 ممالک کی اختراعی صلاحیتوں کا جائزہ لیا گیا ہے ، جو مجموعی طور پر عالمی آر اینڈ ڈی سرمایہ کاری کا 95 فیصد سے زیادہ اور عالمی جی ڈی پی کا 85 فیصد سے زیادہ ہیں۔رپورٹ کے مطابق چین 2022 کی درجہ بندی سے تین درجے بہتری کے ساتھ 10 ویں نمبر پر آگیا ہے اور یہ واحد ترقی پذیر ملک ہے جو ٹاپ 15 میں شامل ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ برسوں میں ، چین کی جدت طرازی کی صلاحیتوں نے نمایاں پیش رفت کی ہے ،سال 2000 میں چین اس درجہ بندی میں 38 ویں مقام پر تھا تاہم ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی دوست قیادت کی رہنمائی میں 2011 میں 20 ویں مقام پر پہنچ گیا اور اب مزید تیز رفتار ترقی کے ساتھ 10 ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔مزید برآں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی جدت طرازی کا جغرافیہ زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ایشیا، شمالی امریکہ اور یورپ جدت طرازی کی مضبوط تبدیلی کے ساتھ عالمی انوویشن منظر نامے کی قیادت جاری رکھے ہوئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق چین کی جدت طرازی کی صلاحیتیں اقتصادی ترقی کی اُسی سطح پر موجود ممالک سے کہیں زیادہ ہیں۔ فی کس جی ڈی پی اشاریوں کے لحاظ سے روس، میکسیکو، ترکی اور ارجنٹائن چین کی طرح ترقی کے مرحلے میں درمیانی اور اعلیٰ آمدنی والے ممالک ہیں۔ تاہم، جدت طرازی کی صلاحیتوں میں چین کی جامع کارکردگی، نسبتاً کم فی کس جی ڈی پی کے ساتھ، ان ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے. رپورٹ کے مطابق چین واحد متوسط آمدنی والا ملک ہے جس میں آر اینڈ ڈی سرمایہ کاری کی شرح نمایاں حد تک بہتر ہے۔حالیہ برسوں میں چین نے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں اپنی سرمایہ کاری کے حوالے سے کئی اہم سنگ میل عبور کیے ہیں۔ ملک نے سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئےمستقبل کے لئے ایک جرات مندانہ نقطہ نظر بھی پیش کیا ہے۔ چین کے نزدیک ملک کی آئندہ ترقی کے لیے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا فروغ ، انوویشن کی بنیادی قوت محرکہ ہے اور پالیسی سازی میں جدت طرازی کو قومی ترقیاتی حکمت عملی کے مرکز میں رکھنا ہوگا۔چین کی اعلیٰ قیادت نے اس بات کا اعادہ بھی کیا ہے کہ ملک کو تکنیکی خود انحصاری کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے اور سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں کو پیداواری صلاحیت میں تبدیل کرنے میں تیزی لانی چاہئے۔ اس کی عکاسی چینی حکومت کی جانب سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ملک کے آر اینڈ ڈی نظام کی کارکردگی کو بڑھانے کی کوششوں سے ہوتی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے انتظامی نظام میں اصلاحات گزشتہ دہائی میں چین کے لیے ایک اہم کام رہا ہے، کیونکہ چینی صدر شی جن پھنگ نے خود ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے بے شمار ادارہ جاتی اصلاحات کی تجاویز اور اہم ہدایات جاری کی ہیں۔ اس ضمن میں چین نے سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے کاروباری اداروں کی طاقت کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کرنے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔قابل زکر امر یہ ہے کہ آر اینڈ ڈی کے حوالے سے مجموعی سرمایہ کاری کا تقریباً تین چوتھائی کاروباری اداروں نے فراہم کیا ہے۔ مختلف انٹرپرائزز نے قومی نوعیت کے 79 فیصد اہم تحقیقی منصوبوں میں حصہ لیا ہے اور مالی معاونت فراہم کی ہے۔یوں چین میں حکومت کے ساتھ ساتھ نجی ادارے بھی اپنی ذمہ داریوں کو احسن انداز سے پورا کرتے ہوئے تحقیقی میدان میں نئے نتائج کے لیے کوشاں ہیں تاکہ اختراعی اعتبار سے ایک مضبوط ملک کی تعمیر ممکن ہو سکے۔
|