آزاد کشمیر، خرابیوں اور انتشار میں اضافہ
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
|
آزاد کشمیر میں سرد موسم کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی آزاد کشمیر کی سیاسی صورتحال میں ایک بارپھر گرمی پیدا ہو رہی ہے۔آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم، مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے سابق صدر راجہ فاروق حیدر نے وزیر اعظم چودھری انوا رالحق پہ چند تنقیدی بیانات دیئے اور ساتھ ہی مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل طاروق فاروق چودھری بھی وزیر اعظم چودھری انوار کے خلاف سخت بیانات دے رہے ہیں۔ نئی بات یہ کہ اب وزیر اعظم چودھری انوار کی طرف سے بھی '' جواب آں غزل'' کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور ان کے ترجمان کی طرف سے بھی راجہ فاروق حیدر اور طارق فاروق چودھری کے خلاف سخت بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔وزیر اعظم آزاد کشمیر کے ترجمان کے راجہ فاروق حیدر کے خلاف سخت مخالفانہ بیانات کے خلاف مظفر آباد ڈویژن کے ضلع ہٹیاں بالا میں وزیر اعظم چودھری انوا ر الحق کے خلاف ایک بڑا عوامی مظاہرہ ہوا جس میں وزیر اعظم کا پتلا بھی نزر آتش کیا گیا۔دارلحکومت مظفر آباد میں بھی وزیر اعظم چودھری انوا ر الحق کے خلاف بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا ہے۔
دوسری طرف معنی خیز انداز میں مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر نے کھوئی رٹہ میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا ''مسلم لیگ ن آزاد کشمیر حکومت کا حصہ ہے ، ہم ہر اچھے کام میں حکومت کے ساتھ رہیں گے''۔مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل طارق فاروق چودھری نے مسلم لیگ ن آزاد کشمیر شاہ غلام قادر کے وزیر اعظم چودھری انوار کے حق میں اس بیان پہ اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پہ یہ تبصرہ کیا کہ '' پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ''۔اسی دوران مسلم لیگ ن کے سنیئر نائب صدر مشتاق منہاس نے وزیر اعظم چودھری انوار الحق سے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے۔اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر چودھری محمد یاسین نے ایک بیان میں سیاسی رہنمائوں کے درمیان اس مخالفانہ بیان بازی کی مخالفت کرتے ہوئے اسے خطے کے مفادات کے لئے نقصاندہ قرار دیا ہے۔
آزاد کشمیر میں چودھری انوار الحق کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے آزاد کشمیر کے ریاستی اخبارات و جرائد شدید بحران کا شکار ہیں۔آزاد کشمیر کے اخبارات و جرائد جو پہلے ہی شدید معاشی بحران کا شکار چلے آر ہے تھے، اشتہارات کی بندش سے اب ان کی اشاعت معطل ہونے کی صورتحال درپیش ہے۔اب آزاد کشمیر کے ریاستی اخبارات و جرائد کے خلاف آزاد کشمیر حکومت کا ظلم و زیادتی عالمی میڈیا کی زینت بن گیا ہے۔ جرمن میڈیا ادارے '' ڈائوچ آف ویلے'' کی ایک وڈیو رپورٹ میں آزاد کشمیر کے میڈیا کی ابتر صورتحال کی ایک دو مثالیں پیش کی گئی ہیں۔آزاد کشمیر میں ریاستی اخبارات و جرائد بدترین صورتحال سے دوچار ہیں اور حکومتی روئیے، پالیسی کی وجہ سے اکثر کے لئے اپنی اشاعت جاری رکھنا نا ممکن ہو چکا ہے۔تحریک آزادی کشمیر ،کشمیر کاز اور آزاد کشمیر کے حقوق کے حوالے سے آزاد کشمیر کے ہفت روزہ اخبارات کا شاندار کردار تاریخ کا حصہ ہے لیکن آزاد کشمیر کی حکومتوں کی زیادتی کی وجہ سے گزشتہ تیس سال کے دوران درجنوں ایسے ہفت روزہ اخبارات بند ہو چکے ہیں جن کی اشاعت نصف صدی سے زائد عرصے سے جاری تھی۔یہ کہنا بجا ہے کہ تجارتی مقاصد کے بجائے نظریاتی بنیادوں پہ چلنے والے ان ہفت روزہ اخبارات کو آزاد کشمیر کی حکومتوں نے نشان عبرت بنا دیا ہے۔بالخصوص کشمیر کاز اور آزاد کشمیر کے حقوق کے لئے نمایاں کردار ادا کرنے والے اخبارات پر اشتہارات کی نمایاں کمی، بندش کی صورتحال میں ، آزادکشمیر میں کشمیر کاز اور ریاستی حقوق کے لئے کام کرنے والے اخبارات کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔موجودہ حکومت میں تو پانی سر سے گزر چکا ہے۔یہ صورتحال ریاستی صحافتی تنظیموں کی نا اہلی ،انفرادی مفاد پرستی بھی ظاہر کرتی ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت کی نا اہلی ، غیر ذمہ داری کی وجہ سے ہر شعبہ متاثر ہو رہا ہے، بے یقینی اور انتشار کی صورتحال درپیش ہے اور اس کی مرکزی ذمہ داری وزیراعظم چودھری انوار الحق پہ عائید ہوتی ہے۔ چودھری انوار الحق یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں وزیر اعظم ارکان اسمبلی نے نہیں بنایا، لہذا انہیں ان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے ہٹ دھرمی پر مبنی روئیے میں ان کے مقامی علاقے کا بھی عمل دخل ہے کہ وہ محض اپنے دوستوں کو نوازنے اور خود پہ تنقید کرنے والوں کے خلاف کاروائی پہ یقین رکھتے ہیں، اپنی چودھراہٹ قائم کرنا پسند کرتے ہیں۔وزیر اعظم چودھری انوار الحق کی غیرذمہ داری، نااہلی اور چودھراہٹ کی وجہ سے آزاد کشمیر میں غیر یقینی پائی جاتی ہے، ہر شعبہ شدید متاثر ہو رہا ہے۔آزاد کشمیر حکومت اور خطے کی طرح آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں بھی غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں کہ وہ اس بات پہ مجبور ہیں کہ جنہوں نے انوار الحق کو وزیر اعظم بنوایا ہے، وہی اسے چلا رہے ہیں ،لہذا وہ خود کو بے بس اور مجبور سمجھتے ہیں۔ آزاد کشمیر کی حکومت اور آزاد کشمیر کی سیاست کی اس کمزوری کی صورتحال سے آزاد کشمیر کے ایسے منفی عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کی سرگرمیاں ہندوستان کے عزائم کو تقویت پہنچاتی ہیں۔
آزاد کشمیر میں حکومتی اور سیاسی سطح پہ پائی جانے والی موجودہ ابتر، تشویشناک صورتحال میں اصلاح کے اقدامات نہ کئے جانے سے آزاد کشمیر کی مجموعی صورتحال کئی سنگین خطرات کی طرف بڑھ رہی ہے۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں، سیاسی شخصیات کو کشمیر کاز سے متعلق ذمہ داریاں تفویض کی جائیں تا کہ ان کی سرگرمیوں کو مثبت رخ مل سکے اوران کے قبیلائی و علاقائی ازم پر مبنی مفاداتی سیاست کا رخ بھی تبدیل کیا جا سکے۔آزاد کشمیر میں مقبوضہ کشمیر کی نیک نام شخصیات کی صلاحیتوں سے حکومتی سطح پہ استفادہ، اشتراک بھی ایک ضروری ، اہم اقدام ہے۔اگر اس طرح کے اقدامات پہ توجہ نہیں دی جاتی تو آزاد کشمیر میں صورتحال اتنی بگڑ جائے گی کہ پھر مثبت اقدامات بھی فائدہ نہ دے سکیں گے۔موجودہ صورتحال میں آزاد کشمیر میں قائم سیاسی جماعتوں کی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے اور آزاد کشمیر میں سیاسی جماعتوں کی ساکھ کا متاثر ہونا نہایت خطرناک علامت ہے جس کے نقصانات مہلک اور سنگین نتائج پہ منتج ہو سکتے ہیں۔
اطہر مسعود وانی 0333516429
|