"میرے زخموں نے کیے کئی فلسطین آباد"

ہم دنیا کے نمائندوں سے سچ بتانے کے لئے بھیک نہیں مانگتے، ہم خود سچ بتاتے ہیں. "فلسطینی کا بیان"
غزہ ہیروشیما کا روپ اختیار کر چکا ہے. انصاف کے لئے بات چیت کی ضرورت نہیں ہوتی، انصاف محض انصاف ہے.انصاف کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا. اسرائیل کا منصوبہ خواہ بیس سال پرانا ہو یا ستر سال، ناکام ہے اور ناکام رہے گا.غزہ میں وہ آگ لگی گی ہے جو صرف ان تک محدود نہیں رہے گی، آخر کار تمام مسلم امہ کو اپنی لپیٹ میں لینے والی ہے، جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ جنگ فلسطینیوں کی جنگ ہے وہ محض قیاس آرائیاں کر رہے ہیں، آگ ایک جگہ تک محدود نہیں رہتی، پھیلتی ہے اور سب کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے، اس میں اگر کوئی خود کو محفوظ سمجھ رہا ہے تو غلط ہے. محفوظ وہ ہے جو ہر طرح کے حالات میں بھی الله کی پناہ میں ہو. وہ جنکے لئے زمین تنگ مگر آسمان کھلا ہے. جنت جن کے انتظار میں ہے.

دنیا جنگ کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، کیا میں، آپ، اور کوئی درد دل رکھنے والا انسان وہ چیخ و پکار سن سکتا ہے جو فلسطین میں ہر لمحہ تمام لوگ ایک دوسرے کی سنتے ہیں؟ مائیں اپنے شہید بچوں کے لوتھڑے ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ہیں، بھائی نے بھائی کو کھو دیا، خاندان کے خاندان تباہ ہو گئے، نسل کشی جاری ہے، لیکن دوسرے مسلمان کے پاس محض خاموشی ہے. سفارتی تعلقات جاری ہیں، مسلم ممالک معدنی ذخائر سے مالا مال ہیں، جوہری طاقت ہیں لیکن کوئی اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے کو تیار نہیں.کیا یہ کھلی بے حسی نہیں؟

القدس ہمارا ہے، ہم اس سر زمین کے ایک انچ پر بھی دشمن کا قبضہ نہیں ہونے دیں گے، یہ الفاظ یہ جذبہ القدس کے باسیوں کے علاوہ کسی میں نہیں دیکھا، اگر دیکھیں تو اسکے عملی مظاہرے کے لئے میدان میں آنا پڑے گا، کہا گیا کہ سرحدیں کھول دیں، ہم اپنے بھائیوں کی ہر ممکن مدد کریں گے، کچھ بھی نہ بن پڑا تو اس زمین کو اپنے لہو کا نذرانہ پیش کریں گے.لیکن ہر جانب سے ہاتھ بندھے ہیں جو جانا چاہتے ہیں جہاد کا جذبہ سینوں میں لئے بیٹھے ہیں. جا نہیں سکتے.

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں.اگر اس کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم بے قرار ہو جاتا ہے. یہ کیسا طوفان ہے جسکی زد میں صرف ایک علاقہ ہے. یہ کیسی قیامت ہے جو صرف کچھ مسلمانوں پر ٹوٹی ہے، یہ کیسا فساد ہے جو محض ایک جگہ برپا ہے. وہیں پر محصور کر کے مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہے اور باقی مسلم اُمہ آسانی سے سانس لے رہی ہے. کیوں ہمارے حلق میں نوالے نہیں اٹکتے؟کیوں پانی ہماری شہ رگ سے نیچے اتر جاتا ہے؟ کیوں ہم بے بسی کی تصویر بن گئے ہیں. کیا ہم قیامت کے روز جوابدہ نہ ہوں گے؟جب ہم سے سوال کیا جائے گا کہ اس وقت جب تمہارے مسلمان بھائیوں کو بے دردی سے کچلا جا رہا تھا تم کہاں تھے؟ کیا تم نے اپنا دینی فریضہ پورا کیا؟ ہمارے پاس دینے کو کیا جواب ہوگا؟ کیا ہم اُس روز الله اور الله کے حبیب پاک ﷺ کا سامنا کر پائیں گے؟

جاری فسادات میں فلسطین میں بارہ ہزار سے زائد لوگوں کو شہید کیا جا چکا ہے. جس میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں. ایک بچے کی فریاد صرف" یا الله" کے سوا کچھ نہ تھی. عالمی ادارے وہاں بھوک اور افلاس ختم کرنے کے لئے امداد مانگ رہے ہیں. کیا کوئی اُن ظالموں کا ہاتھ بھی روکے گا؟ لیکن اگر اپنے ہی کچھ کرنے کے قابل نہیں، خاموش تماشائی ہیں تو غیروں سے کیا گلہ؟ کیا القدس صرف انکا ہے جو وہاں مقیم ہیں؟ یہ پیغمبروں کی سر زمین ہے. قران پاک میں "اقصیٰ" کے لفظ سے کچھ یاد آتا ہے؟ معراج کا سفر مسجد اقصیٰ سے شروع ہوتا ہے.! اصل بات یہ ہے کہ ہمیں دینی اور اخلاقی اعتبار سے اتنا گرا دیا گیا ہے کہ بہت سے مسلمان جانتے ہی نہیں الاقصیٰ کی دینی، تاریخی، ملی اہمیت کیا ہے. بہت سے مسلمان اس جذبے سے سرشار ہی نہیں کہ اسے بچانا، اسکی تقدیس پر جان قربان کرنا ہمارا فرض ہے. اقبال نے فرمایا تھا،

ایک ہوں مُسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

حضرت واصف علی واصف نے لکھا ہے کہ مسلمان غیر مسلم کو زیادہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ سب کو ایک دیکھتے ہیں لیکن ہمیں کم، کیونکہ ہم فرقوں میں بٹ چکے ہیں. مسلمان کے لئے تین حرمین کی ایک سی اہمیت ہے، حرم پاک الله کا گھر، مسجد نبوی، اور قبلہ اول مسجد اقصیٰ، سب کی حفاظت بیشک الله پاک کے ہاتھ میں ہے لیکن بحیثیت مسلمان کچھ فرائض ہم پر بھی عائد ہوتے ہیں. جسے ہم پورا کرنے سے قاصر رہے ہیں.

جو شہید ہو وہ عزت سے دنیا سے جاتا ہے، بظاہر دنیا کی نظر میں دنیاوی شکست لگتی ہے لیکن وہ در اصل فاتح ہے. معجزوں کی فتح، رہبری کی فتح، تمناؤں کا حاصل اور اگلی منزل کا وقار اس ایک لفظ " شہید" میں شامل ہے. زندگی کا حاصل کیا ہوتا ہے کوئی نہیں جانتا لیکن اس سے بہتر کیا ہے کہ انسان الله کی راہ میں جان دے، وہ چیخیں سنائی دیتی ہیں جسے کوئی نہیں سن سکتا، وہ آنسو ہیں جنکے آگے سمندر کم ہے. وہ آتش ہے جس میں اپنوں کی تصویریں جل رہی ہیں، لیکن انکا ایمان یہ ہے کہ وہ زبان سے وہی الفاظ نکالتے ہیں جو الله کے نزدیک محبوب ہیں. "حسبنا الله ونعم الوکیل" الله ہم کو کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز!
الله پاک انکے حامی و ناصر ہوں، الله پاک مسلم امہ کو متحد ہونے کی توفیق عطا فرمائیں جس کی بدولت مسلمان اپنا اصلی تشخص بحال کر کے زوال سے وقار کی جانب سفر کر سکیں.آمین!
 

Quratulain Ashraf
About the Author: Quratulain Ashraf Read More Articles by Quratulain Ashraf: 13 Articles with 31438 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.