فنِ خطاطی ہمارا حقیقی ثقافتی ورثہ

”علم باالقلم“ سعودی عرب میں منعقد کی جانے والی خطاطی کی نمائش کے حوالہ سے تعارفی مضمون
تحریر: مبشر کلیم خان ،(سیکرٹری انفارمیشن دبستان فروغِ خطاطی رجسٹرڈ)

فنونِ لطیفہ کا اہم موضوع ”خطاطی“ جس قدر دلچسپ ہے اسی قدر وسیع بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کا فرمانِ ذیشان ہے ”علم باالقلم“ قلم کے ذریعے علم دیا۔ اسی طرح مشہور عربی مقولہ ہے ”القلم سفیر العقل“ علم عقل کا سفیر ہے۔

اسلامی تہذیب کی جمالیاتی روح دو فنون میں بذریعہ اتم ظاہر ہوتی ہے۔ یعنی خطاطی اور فنِ تعمیر! قرآنِ کریم کی اوّلین تنزیل میں نبی اکرم ﷺ کو اس رب کے نام سے پڑھنے کا حکم دیا گیا جس نے قلم کے ذریعے پڑھایا۔ یا علم دیا۔ گویا قلم ”یعنی“ آلہ تھریر و کتابت کو اسلام کے نظامِ علامات میں بے حد گہری اور رمزیاتی معنویت حاصل ہے اس لئے دنیا کے تحریری فنون میں مسلمانوں کی خدمات غیر معمولی اور نوعِ بشر کی وراثتِ خط میں مسلمانوں کے اضافے بے شمار اور بے پایاں ہیں۔ اسلام نے صورت گری اور نقش آرائی کے فن کو چنداں حوصلہ افزائی کی نظر سے نہیں دیکھا تاکہ دنیا سے بُت گری اور بُت پرستی کی رسمِ قبیح سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے چنانچہ مسلمانوں کا جذبہ نقش آرائی تمام تر حُسنِ خط میں مرتکز ہوگیا یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ آج ہم جس چیز کو اسلامی خطاطی کی روایت کہتے ہیں وہ ان تمام علوم سے عبارت ہے جن کی اساس عربی حروفِ ابجد اور عربی کے ابتدائی رسم الخط پر رکھی گئی۔

زمانہ جاہلیت میں جو بصری فنون رائج تھے وہ غیر اسلامی تھے۔ اسلام کی تعلیمات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے قرآنی لفظوں کو حُسنِ تحریر کے ساتھ رقم کرنے کا اور اپنی جمالیات سے عربی علوم و فنون کو تخلیق میں ڈھالنے کا رواج دیا گیا۔

دورِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، پھر خلیفة المسلمین حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروقِ اعظمؓ، حضرت عثمانِ غنیؓ اور حضرت علی ابنِ ابی طالبؓ کے ادوار میں قرآن پاک کی تحریر کو فروغ حاصل ہوا۔ قرآنی الفاظ کو خوبصورت سے خوبصورت کر کے لکھنے پر زور دیا گیا مذکورہ خلفاءنے بچوں اور بڑوں میں خطاطی کی تعلیم کو لازمی قرار دیا۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلا سکہ جس پر خطاطی سے الفاظ کندہ تھے وہ بھی حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے دور میں ڈھالا گیا جس پر 40 ہجری درج تھا۔ اُمیہ خلیفہ عبدالمالک نے بھی مزید ترقی دیتے ہوئے خطاطی کو فروغ دیا۔ ابن الندیم کے مطابق پہلا عربی متن جو مکہ والوں کی طرف سے لکھا جاتا تھا طرزِ تحریر کے لحاظ سے خطِ نبطی کہلاتا تھا مگر عرفِ عام میں مکی خط اور مدینہ پاک میں لکھی جانے والی تحریر کو مدنی اور تیسرا بصرہ میں لکھا جانے والا خط اور چوتھا عربی طرزِ تحریر کوفی تھا۔ شروع میں کوفی خط بغیر نقطوں کے اور بغیر اعراب کے تھا پھر جس طرح ارتقائی مراحل طے ہوئے تو اسلامی خطاطی کو مزید حسنِ تحریر کے ساتھ لکھا جانے لگا۔ اس کے بعد غیر عرب لوگوں کے پڑھنے ، سمجھنے اور بولنے کی غرض سے نقطے اور اعراب لگائے گئے۔ اُمیہ دور میں ہی ایک اہم شخصیت کتبہ نے خطاطی کے حروف کو حسین و جمیل بنانے کے لئے ”جلی و تومان“ کو رواج دیا پھر عباسیوں کے دور 750سے 1258ءتک کئی خطاط پیدا ہوئے ان میں قابلِ ذکر ابن مقلہ بیضاوی ہیں جنہوں نے نہ صرف خطِ نسخ کو نئی طرح دی بلکہ کئی اور خط بھی ایجاد کئے جن میں توقیع، ثلث، محقق، ریحان، اور خطِ رقعہ بھی شامل ہیں ان کے مکمل قواعد و ضوابط مرتب کئے کہ ہر طرزِ تحریر کو کن اُصولوں کے مطابق لکھا جائے۔

اس کے بعد یعقوب مستعصمی نے 1298ءمیں خطِ تعلیق ایجاد کیا جو کہ پہلے سے موجود خط رقعہ اور توقیع کے ملاپ سے معرضِ وجود میں آیا۔ پھر خطِ کوفی کے بھی کئی نمونے یا طرز ہائے تحریر وضع کئے گئے۔ خطِ کوفی مغربی کا انداز الگ اختیار کیا گیا۔ اس کے بعد سولھویں صدی عیسوی میں میر علی تبریزی نے تیموری دور میں خطِ نستعلیق ایجاد کیا جو خطِ نسخ اور تعلیق کے امتزاج سے لکھا گیا اس ایجاد پر انہیں سرکار کی طرف سے ”ماڈل آف کیلی گرافی“ کا بڑا اعزاز دیا گیا۔

712عیسوی میں محمد بن قاسم جب برصغیر آیا تو عربی زبان و ادب اور عربی خطاطی کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ لوگوں میں آہستہ آہستہ فنی شعور فہمی کا ادراک ہوا خطاطی کو بڑی پذیرائی ملی اب بھی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے برِ صغیر میں یہ فن ثقافتی شناخت کے حوالہ سے ایک اہم فنی و ثقافتی درجہ اختیار کر گیا ہے۔

خطاطی کی چمک دمک، اس میں لکھے گئے لفظوں کی جلوہ آرائی اور اساتذئہ فن کی تخلیقی صلاحیتوں کا طمطراق فقط مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کے وجدان کو بھی اپنے جلوﺅں سے مسرور و معمور کرتا ہے۔ ”میڈل کرسچل کنگ“ نے اپنی عدالت کے در و دیوار، فرنیچر اور محل کی تعمیراتی محرابوں کو عربی خطاطی سے مزین کیا ہوا تھا۔ مغلیہ دور کی اکثر عمارات اور خاص طور پر آٹھواں عجوبہ تاج محل آگرہ، لاہور میں مزار قطب الدین ایبک، داتا دربار، ملحقہ مسجد، اسلام آباد میں شاہ فیصل مسجد۔ ملتان میں خانقاہ شاہ رکن عالم ؒ اور غوث بہاﺅالدین زکریاؒ، خانقاہ شاہ یوسف گردیز، خانقاہ حضرت موسیٰ پاک شہیدؒ کی عمارات کا حسنِ تعمیر آج بھی فنِ خطاطی کی جلوہ آرائی کی بدولت تر و تازہ ہے اور حُسنِ نظارا کا منبع و مرکز ہے۔

اسلامی معاشروں میں خطاطی کے فن نے خوب ترقی پائی برصغیر بھر میں سرزمین ملتان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں پر خطِ نستعلیق کی ایجاد کے سات سو سال بعد ایک نیا طرزِ تحریر جو عربی، فارسی، اُردو، سرائیکی اور پنجابی زبانوں کی تحریر کا نمائندہ ہے۔ خطِ رعنا کے نام سے ایجاد کیا گیاہے۔

اب اسلامی خطاطی ہمارے حقیقی ثقافتی ورثہ کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور ایک جمالیاتی فن کے حوالہ سے درجہ انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ تمدنی ادوار کے شروع سے ہی عربی کے جو حروفِ ابجد تھے وہ خطاطی کے لحاظ سے اسلامی معاشروں میں بڑی اہمیت رکھتے تھے۔ مذہبی شاعری اور لفظوں کی تصویر سازی میں مسلمان تخلیق کاروں نے اپنی جمالیات کو بروئے کار لا کر بڑا جلوہ آرا تخلیقی کام کیا ہے۔
ثبت است بر جبریدئہ عالم دوامِ ما

گویا اب خطاطی صرف لکھنے کا عمل نہیں رہا بلکہ فنونِ لطیفہ کی ایک اہم صنف کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اب اس کے نقوش جریدئہ عالم پر نہ صرف ثبت ہو چکے ہیں بلکہ دوام حاصل کر چکے ہیں اور اب اس فن پر بین الاقوامی سطح کے مقابلے ہوتے ہیں اور خطاط صاحبان میں ان کی فنی خدمات پر گرانقدر انعامات تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اور وطنِ عزیز پاکستان کے معزز خطاط صاحبان ذاتی طور پر فنِ خطاطی کے فروغ اور اس کے تحفظ کے لئے قابلِ ذکر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس عظیم ورثہ کے تحفظ کے لئے حکومتی سطح پر خاطر خواہ کام مفقود ہے۔ کچھ لوگ جو صاحبِ ذوق ہیں ذاتی طور پر اس فن شریف کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ اب پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سعودی عرب میں پاکستانی قونصلیٹ جدہ کی کاوشوں سے قرآنی خطاطی کی عظیم الشان نمائش کا انعقاد کیا جا رہا ہے جو بڑا خوش آئند ہے۔

سعودی عرب میں قونصلیٹ جنرل آف پاکستان کی خصوصی دلچسپی اور خاص طور پر قونصل جنرل جناب عبدالسالک خان اور ڈپٹی کونسل جنرل جناب عمران احمد صدیقی صاحب کی عملی، ذاتی کاوشوں سے سعودی عرب کے عروس البلاد جدہ میں قرآنی خطاطی کی نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس نمائش کا ٹائٹل ”علم باالقلم“ ہے۔ جس میں پاکستان بھر کے مختلف شہروں سے سترہ خطاط صاحبان اپنے شہہ پاروں کے ساتھ شرکت کر رہے ہیں۔ خطاطِ حرمین الشریفین شفیق الزمان بھی اس نمائش میں شامل ہیں۔ چونکہ مسجدِ نبوی شریفﷺ کے موجودہ چیف خطاط ہیں۔ اسی طرح مسجدِ نبویﷺ کے سابق خطاط و نقاش اصغر علی اور حفیظ اللہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف شہروں سے ایوارڈ یافتہ اور مشہور و معروف خطاط صاحبان اپنے فن پاروں سمیت شرکت کر رہے ہیں۔

جدہ میں پاکستانی قونصلر جنرل کے زیرِ اہتمام1تا 4 اکتوبر 2011ءکو سعودی عرب کے عروس البلاد جدہ میں خطاطی کی یہ نمائش ہو رہی ہے ملتان سے شاہ خالد گولڈ میڈلسٹ نامور خطاط ہفت قلم اور موجدِ خطِ رعنا ابنِ کلیم احسن نظامی اورمعروف نوجوان خطاط راشد سیال ، اور دیگر مختلف شہروں سے معروف خطاط عرفان احمد خان لاہور، خالد یوسفی لاہور، الٰہی بخش مطیع جہلم، حافظ محمد انجم محمود فیصل آباد ، مقصود علی لاشاری کوئٹہ ، محمد علی زاہد لاہور ، محمد احمد ، محمد کاشف خان کراچی ، احمد علی بھٹہ ، محمد اشرف ہیراحافظ آباد ، رانا ریاض لاہور ، محمد علی شوکت کراچی سے اس نمائش میں شرکت کے لئے پاکستان سے جا رہے ہیں۔

نمائش خطاطی ”علم باالقلم“ کے بارے میں مزید معلومات اور فن کاروں کے شاہکار فن پارے جو نمائش میں شامل کئے گئے ہیں ”علم باالقلم“ کی ویب سائٹ جو کہ خصوصاً اس ایونٹ کے لئے ہی بنائی گئی ہے پر
دیکھے جا سکتے ہیں۔

www.allamabilqalam.org
BAZMeQALAM
About the Author: BAZMeQALAM Read More Articles by BAZMeQALAM: 2 Articles with 13822 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.