رات ایک بجے کا وقت تھا میری تھوڑی طبعیت ناساز تھی تو ہسپتال کا رخ کیا راستے میں ایک چھوٹے بچے سے ملاقات ہوئی جوکہ سوپ بیچ رہا تھا میں نے حلیے کا جائزہ لیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس شدید سردی میں بھی اس نے شوز کے بجائے ٹوٹی پھوٹی نائلون کی چپل پہن رکھی تھی۔ سر پر کوئی ٹوپی تھی اور نہ ہی گرم جرسی یا اسکارف وغیرہ۔ میں نے بے اختیار اس سے پوچھا ’’تم ابھی تک یہاں کیا کر رہے ہو اور کیا تمہیں سردی نہیں لگتی؟‘‘
بڑے نم اور اور افسردہ لہجے سے بولا صاحب جب باپ کا سایہ سر پے نہ ہو اور ماں کے ساتھ دو بھائی اور تین بہنیں موجود ہوں تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ سردی کتنی ہے ؟
اور رات کا کیا وقت ہے اور کتنی رات باقی ہے اور کتنی سردی ہے ماں اور چھوٹوں کا پیٹ پالنا اور گھر کا کرایہ اور بجلی کا بل کیسے ادا ہوگا؟‘‘
گھر اس لئے نہیں جا سکتا کیوں کہ سوپ ابھی باقی ہے ۔
میں نے گھر پہنچنے کے بعد سوچا ایسے کئی مجبور بچے اپنے بچپن کے خواب چھوڑ کر ایسے کئی سگنلز پر انڈے اور اس طرح کی چیزیں بیچتے ہوں گے
پھر میری سوچ اس بات پر آ پہنچی آخر ان بچوں کے ذمہ دار کون ہیں ؟
میں نے اس بات سے اندازہ لگایا مجھے ہسپتال جانا تھا میں نے گاڑی اور سوائڑ اور مختلف گرم چزیں پہن رکھی تھیں حلانکہ وہ بچہ سردی سے کانپ رہا تھا۔۔۔
اس ملک پاکستان میں نہ جانے کتنے لوگ ہیں جو غربت سے بھی نچلی سطح کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس رہنے کو چھت ہے اور نہ ڈھنگ کے کپڑے اور نہ جانے کتنے ایسے لوگ بھی ہیں جن کو دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی۔
ساغر خیامی کی ایک نظم کے چند اشعار میرے خیالات کی سہی ترجمانی کرتے ہیں
آگ چھونے سے بھی ہاتھوں میں نمی لگتی تھی
سات کپڑوں میں بھی کپڑوں کی کمی لگتی تھی
کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں کی قیامت توبہ
آٹھ دن کر نہ سکے لوگ حجامت توبہ
سخت سردی کے سبب رنگ تھا محفل کا عجیب
ایک کمبل میں گھسے بیٹھے تھے دس بیس غریب
ذوالفقار علی بھٹو نے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ نعرہ اتنا مشہور ہوا کہ اس ملک کے چپے چپے اور کونے کونے میں پیپلز پارٹی کی پہچان بنا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد نہ جانے کتنے سیاستدان آئے کتنے گئے پھر اس نعرے کو کسی نے قائم نہیں رکھا اور اپنے وقتی مفادات کو سامنے رکھا اور پیٹ بھرا اور وہ گئے کبھی کسی نے ایسے طبقہ کا نہ سوچا یہ ہمارے سیاستدانوں کے لیے ایک شرمناک المیہ ہے ۔
ہم آج بھی گرم گوشوں اور ہیٹڑ کے کمروں کو چھوڑ کر اور اپنی نیند کی قربانی دے کر شہر کا جائزہ لیں تو ہمیں رات کے اوقات میں جگہ جگہ فٹ پاتھوں ؛سڑکوں اور مختلف جگہوں پر ایسے مجبور اور لاچار لوگ ملے گے جو بچارے خود سے آوازار ہوں گے ۔
خدارا پاکستانیوں میں آپ سے ہاتھ جوڑ کر منت کرتا ہوں اپنے متواسط طبقے کی طرف نظر دوڑائیں اور انکی مدد فرمائیں کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے نہ شرم اور نہ غیرت کرنے کی گولی کھا رکھی ہے جنہیں بس اپنی کرسی کے مفاد نظر آتے ہیں اور کچھ نہیں۔۔۔۔
پاکستانیوں ہمیں ہی اپنے لوگوں کا بازو پکڑنا ہوگا اور ان غریب اور لاچار بچوں کے سر پے ہاتھ رکھنا ہوگا۔
ملک کے اکثر علاقوں میں سردیاں عروج پر ہیں اور سردی تو سب کو لگتی ہے..! یقیناً ہمارے آپ کےگھر میں کچھ نہ کچھ پرانے کمبل، رضائی، جیکٹ، جرسی، مفلر، کیپ، دستانے، جرابیں ایسے ضرور ہوتے ہیں جو اضافی ہیں یا آؤٹ آف فیشن ہوگئے ہیں اور استعمال میں نہیں ہیں براہ کرم آج ایک بار پھر چیک کیجئے کون کون سا گرم کپڑا بہت عرصے سے الماری اور پیٹی میں رکھا ہے اسے نکالیں ذرا سی دھوپ لگوائیں اور گھر کے چھوٹے بچوں کے ذریعے تقسیم کرادیں.سردی تو سب کو لگتی ہے نہ دعا بدلے تقدیر ۔۔اؤ کسی کی دعا ہی لے لیں۔۔۔۔۔غریب اور یتیم بچوں کی ضروریات کو پورا کرنا ہمارا حق ہے تو آپ سے التماس ہے اپنے ساتھ متواسط طبقے غریبوں کا ضرور خیال رکھیں۔دوسروں کے لیے جینا ہی اصل زندگی ہے سکول جاتے بچوں کا ضرور خیال رکھیں ۔اپنے پرانے کپڑے ان تک پہنچائیں تاکہ وہ اپنا جسم ڈھنپ سکیں ۔باقی سب چیزیں یہی رہ جانی ہیں یہی چھوٹی چھوٹی نیکیاں اور اعمال ساتھ لے جانے ہیں ان لوگوں کے لیے کیے کام ہی ہمارے نیک اعمال ہوں گے ۔ضرور مدد فرمائیں۔