کہتے ہیں استاد روحانی باپ ہوتا ہے اور استاد کی اتنی عزت کی جاتی جتنی والدین کی جاتی ہے۔ لیکن یاد رکھیے گا! کہ ہمارے پاکستان میں تعلیمی نظام،ہمارے بچے،ہماری بچیاں،ہماری بہنیں انہی استادوں کی وجہ سے برباد ہورہی ہیں۔ جن کا آگے ذکر کیا گیا ہے یہ ایسے استاد ہیں جنہوں نے سفارشات کی بنا پر نوکری حاصل کی ہوتی ہے۔ پاکستان میں کئی ایسے کالجوں،یونیورسٹیوں اور سکولوں لیکن خاص طور پر دیہاتی سکولوں میں ایسے استاد موجود ہوتے ہیں۔ جنہیں نہ پڑھنا آتا ہے اور نہ ہی پڑھانا آتا ہے اور نہ انہوں نے کچھ سیکھا ہوتا ہے اور نہ سکھانا آتا ہے۔ ہمارے پاکستان میں کئی ایسے استاد موجود ہیں جو ہماری بچوں،بچیوں اور ہماری آنے والی نسلوں کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے گا! استاد کی ذمے داری صرف تعلیم دینا نہیں بلکہ طلباء اور طالبات کی اچھی تربیت کرنا بھی استاد کی ذمے داری ہے۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے۔ کہ جو خود تعلیم یافتہ نہ ہو جن کا خود کسی نے تربیت نہ کی ہو وہ بھلا کیا طلباء وطالبات کو تربیت اور تعلیم دے گا۔ اگر ہمارے بچے بچیاں ان جاہلوں اور ان پڑھوں سے تعلیم حاصل کر لیں تو کیا ہمارے بچے بچیاں ترقی کرسکیں گے یا ہمارے بچے بچیاں تعلیم یافتہ ہونگی یقیناً نہیں۔ اور اسی طرح ہمارے بچے بچیاں بھی نہ تعلیم یافتہ ہونگیں اور نہ ہی تربیت یافتہ ہونگے اور اسی طرح ہمارے بچے بچیاں بھی اپنے آنے والی نسلوں کو اپنی جیسی تعلیم دیں گے اور ہماری آنے والی نسلیں بھی برباد ہونگی اور آنے والی نسلیں بھی اپنے آنے والی نسلوں کو اسی طرح کی تربیت اور تعلیم دیں گے۔ اسی طرح جہالت کا سلسلہ چلتا رہے گا اور ہمارے بچے بڑے ہو کر دہشتگرد بنیں گے،ڈاکو بنیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے بچے بڑے ہو کر کسی دہشتگرد تنظیم کا حصہ بن کر اپنے ہی ملک کے خلاف اقدامات کریں گے۔ اگر ہمارے ہی بچے ہمارے خلاف اقدامات کرنے لگے تو پاکستان میں بدامنی پھیل جائے گی۔ اگر پاکستان میں بدامنی پھیل گئی۔ تو ہم تعلیمی لحاظ سے ، ترقیاتی لحاظ سے اور دنیاوی لحاظ سے دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے اور کبھی بھی ہم پاکستان کو عظیم ترین ملک نہیں بنا سکیں گے۔ لیکن اس نظام کو ختم کرنے کیلئے حکومت پاکستان کو سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ لہذا یہ حکومت پاکستان کی زمہ داری ہے کہ اس نظام کو ختم کرنے کیلئے سخت سے سخت اقدامات کرے اور اس سفارشی نظام کو جڑ سے ختم کرے۔
|