امریکہ کا روز اول سے ہی پاکستان
کے پرامن ایٹمی پروگرام کا سخت مخالف رہا بلکہ اُس کے خاتمے کے لیے کبھی
فرانس کے ساتھ کیے گئے دفاعی معاہدے کو ختم کرانا، کبھی پریسلر ، تو کبھی
سمنگٹن ترمیم کے ذریعے پاکستان کو نہ صرف عالمی سطح پر تنہا کرنا بلکہ
اقتصادی طور پر کمزور بھی کرتا رہا ہے ۔
ملک دشمن عناصر ہی صرف اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرسکتے ہیں کہ جس
طر ح بھارت نے پاکستان کو آج تک کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا بلکل اسی طر ح
امریکہ ، پاکستان کو ایٹمی قوت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا اور پاکستان کے
جوہری اثاثوں تک رسائی اور ان کو تلف کرنے کے لیے بھارت و اسرائیل کے ساتھ
مل کر پاکستان کے جوہری اثاثوں کے خلاف عالمی سطح بر منفی پروپگینڈہ کررہا
ہے ۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس سرفہرست ممالک میں امریکہ کا شمار پہلے ، برطانیہ
دوسرے ، روس تیسرے، فرانس چوتھے ، چین پانچویں اور بھارت و پاکستان
بالتریتیب چھٹے اور ساتویں نمبر پر ہیں ۔
١٩٧٤ء سے ١٩٩٨ ء تک مغرب ممالک بالخصوص امریکہ نے پاکستان کے جوہری پروگرام
کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جبکہ اس دوران
بھارت و اسرائیل کے جوہری پروگرام مغربی دنیا کی نظرو ں سے اوجھل رہا ۔
قارئین نے کبھی ہندوں ، عیسائی یا اسرائیلی بم کا ذکر کبھی نہیں سناہوگا ۔
لیکن پاکستان کے جوہری اثاثوں کو اسلامی بم کا نام دینا پاکستان کے خلاف
عالمی مہم حصہ ہے ۔
گیارہ مئی ١٩٩٨ ء کو بھارتی بم دھماکوں کے جواب نہ دینے پر امریکہ نے اس
وقت کے پاکستانی وزیراعظم میاں نوازشریف پر زبردست دباؤ ڈالنے سمیت کئی طرح
کے امدادی پیکجز کی بھی پیشکش کی ۔ امریکہ نے سترہ دن ڈراکر ،ڈھمکاکر ،
لالچ دے کر پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کی ہرممکن کوشش کی ۔ لیکن
اتھائیس مئی ١٩٩٨ پاکستان پانچ اور تیس مئی کو چھٹا دھماکہ کرکے بھارت کا
پرانا حساب بھی چکتا کردیا ۔
جس کے بعد امریکہ اس کے حواریوں نے ١٩٩٩ء میں پاکستان کے جوہری اثاثوں کو
تلف کرنے کی منصوبہ بندی کا آغاز کیا ۔ جمہوری حکومت کی موجودگی جوہری
اثاثوں تک رسائی امریکہ کے لیے ناممکن تھی اس لیے نوازشریف کی حکومت کا
تختہ الٹ کر فوجی آمر کو برسراقتدار لایا گیا جس نے صرف ایک فون کال پر نہ
صرف پاکستان کی سلامتی بلکہ چند ہزار ڈالرز کے عوض ماں ، بہن و بھائیوں کا
سودا بھی امریکہ سے کرڈالا۔
امریکہ پاکستان کے جوہری اثاثوں تک رسائی کے لیے ریٹائرڈ جنرل مشرف پر دباؤ
ڈال رہا تھا کہ نائن الیون سانحہ رونما ہوا تو امریکہ نے وقتی طور پر
پاکستان کے جوہری اثاثوں کو تلف کرنے کا منصوبہ ترک کرکے پاکستان کو
زبردستی اتحادی بنا کر افغانستان میں طالبان کے خلاف استعمال کیا۔
تقریباً دس سال بعد امریکہ نے پاکستان کے جوہری تنصیبات کو تلف کرنے کا
اپنا ملتوی منصوبے کو ازسرنو ترتیب دیا ۔ ٢٧ جنوری کو ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں
دوافراد کا قتل اور سانحہ دو مئی اسامہ آپریشن اسی منصوبے کی ایک کڑی تھا۔
٢٧ جنوری سے ١٦ مارچ تک ریمنڈ ڈیوس پولیس حراست میں رہا ۔ اُس دوران امریکی
وار تھنک ٹینک کمیٹی پاکستانی قوم و حکمرانوں کی جزباتی و نفسیاتی کفیت کا
ہر پہلو سے جائزہ لے کر اوبامہ ایڈمسٹریشن پر واضح کردیا کہ پاکستانی قوم
غربت ،مہنگائی ، بے روزگاری ، امن وامان کی مخدوش صورتحال اور اندرونی خانہ
جنگی کا شکار ہے۔ ایسی صورتحال میں اگرپاکستان کی حدود میں کسی بھی قسم کی
کاروائی کی گئی تو پاکستانی قوم رخنہ نہیں ڈالے گی اور جہاں تک حکمراں
اشرافیہ کا تعلق ہے تو کتے کے منہ میں ہڈی ہو تو وہ کہاں بھونکتا ہے ۔
ایبٹ آباد میں دو مئی کو امریکی فوج کشی ۔ اسامہ کی ہلاکت کا دعوٰی اور
تھنک ٹینک کی رپورٹ کے عین مطابق پاکستان کی خودمختاری و سالمیت پر حملے کو
حکمراں اشرافیہ نہ صرف سراہا بلکہ اس حملے کو فتح عظیم قرار دے ڈالا ۔
پاک فوج کا ایبٹ آباد آپریشن پر شدید ردعمل اور عوام کا غیض و غضب دیکھتے
ہوئے امریکی تھنک ٹینک امریکی انتظامیہ کو خبردار کردیا کہ پاکستان کے
جوہری ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے حملہ بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے
کیونکہ ایسی صورت میں عالمی برادری بھی امریکی بربریت کو پسند نہیں کریگی ۔
اور چین براہ راست پاکستان کی مدد کے لیے میدان میں آجائے گا۔ اور امریکی و
اتحادی افواج کو ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
امریکہ ، افغانستان سے مکمل فوج کے انخلاء تک پاکستان کے جوہری اثاثوں کو
اپنی کمانڈ میں لینا چاہتا ہے ،اپنے مقصد میں کامیاب ہونے اور عالمی برادری
میں اپنی رائے ہموار کرنے کے لیے امریکہ نے پراکسی وار کا آغاز کرکے
پاکستان کو نفسیاتی جنگ میں دھکیل دیا ہے ۔
افغانستان میں امریکہ کا شکست خوردہ ہونا اُس کی ذمہ داری پاکستان پر
عائدکرنا، غیرملکی میڈیا کا منفی کردار جو ایسا تاثردے رہا ہے کہ اگر
پاکستان کی حدود میں دہشت گردوں اور حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانوں کو
نشانہ نا بنایا گیا تو پوری دنیا کو اسلامی بم سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔
امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن کا پاکستان کو ناقابل بھروسہ اتحادی قراردینا
، ایڈمرل مائیک مولن کا آئی ایس آئی پر افغانستان میں دہشت گردی کرانے کا
الزام لگانا ، وزیردفاع لیون پینٹا کا پاکستان کی حدود میں حملہ کرنے کی
دھمکی دینا، وزیرخارجہ ہیلن کلٹن کا حقانی نیٹ ورک سے رابطہ منقطع کرنے حکم
صادر کرنا، ایف بی آئی کے ڈائریکٹر رابرٹ ملر کا پاکستان کو نفسیاتی طور پر
دباؤمیں لانا اور کمیرون منٹر کی الزام تراشیاں ، پاکستان پر حملے کا جواز
پیدا کرنے کے لیے ہیں ۔
اگر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے پاکستان میں موجود ہیں ، حقانی نیٹ ورک
پاکستان میں فعال ہے تو امریکہ اپنے ڈرونز سے معصوم لوگوں کو کیوں نشانہ
بناتا ہے ؟ وہ دہشت گردوں کی کمین گاہیں و نیٹ ورک کو نشانہ کیوں نہیں
بناتا ؟ وہ معلومات پاکستان سے کیوں شئیر نہیں کرتا ؟
امریکہ نے اسامہ کو حوا بناکر افغانستان میں خون کی ہولی کھیلی ، عراق میں
صدام حسین پر جھوٹا الزام لگاکر لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا، اس
طرح حقانی نیٹ ورک کو جواز بناکر پاکستان کے جوہری اثاثوں کو تلف کرنے کی
سازش امریکہ تیار کرچکا ہے ۔ خطہ میں ایران و چین سے تعلقات خراب کرانے کی
امریکہ نے کوشش کی لیکن ناکامی کا سامنا ہوا ۔ پاکستان پر حملے کا اخلاقی
جواز پیدا کرنے کے لیے امریکی حساس اداروں نے جو منصوبہ ترتیب دیا ہے اس کے
تحت امریکہ کی کسی ریاست یا بڑے شہر نیویارک کے علاقے مین ہٹن میں امریکن
سی آئی اے نصب بم کے ذریعے کاروائی کریگی اور اس حملے کو خودکش قرار دے کر
اسے حقانی نیٹ ورک سے منسلک کرکے پاکستان پر حملہ کریگی ۔ اگر اس وقت فوج ،
عوام اور حکمراں متحد نہیں بوئے تو پاکستان کو خدانخواستہ ناقابل تلافی
نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ |