چائے والی سرکارپر حاضری

چائے والی سرکارپر حاضری
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
ہمارے ادبی دوست اقبال اے رحمن صاحب نے اپنی مستقل بیٹھک کا نام’چائے والی سرکار‘ لکھا ہے یہ بات مجھے پہلے معلوم نہیں تھی۔اس کی وجہ تسمیہ اقبال صاحب نے یہ بتائی کہ وہ اپنے آنے والے مہمانوں کو جو چائے پلاتے ہیں وہ کوئلہ پر پکی ہوئی ہوتی ہے، اس وجہ سے اس چائے کا ذائقہ بہتر اور مختلف ہوتا ہے اس وجہ سے ان کے دوستوں نے ان کے مہمان خانہ کا نام ’چائے والی سرکار‘رکھ دیاہے۔ ہمیں بھی یہ نام پسند آیا، اور جو چائے ہم نے یہاں پہ وہ واقعی مختلف اور ذائقہ دار تھی۔اقبال صاحب کراچی کی ماضی کی تاریخ پر ایک عمدہ کتاب کے خالق بھی ہیں۔ اس ضخیم کتاب کا نام ہے ”اس دشت میں اِ ک شہر تھا:کراچی کے سنہرے دنوں کی داستان“۔مصنف نے اس کتاب میں ماضی کے کراچی کو خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک عمدہ اور معلوماتی کتاب ہے۔ اقبال اے رحمن صاحب کافون موصول ہوا، فرمایا کہ لیاری کی ایک سینئر شخصیت رمضان بلوچ جو ’لیاری کی ان کہی کہانی‘ کے مصنف بھی ہیں مجھ سے فیض احمد فیض ؔ اور حاجی عبداللہ ہارون کالج کے حوالے سے معلومات چاہتے ہیں، فیض احمد فیض ؔ اس کالج کے بانی پرنسپل رہ چکے ہیں اور مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میں فیض ؔ صاحب کے دور میں اس کالج کا بی اے کا طالب علم رہا، طالب علم کی حیثیت سے میں نے فیضؔ کو قریب سے دیکھا، نیز جب تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا گیا تو وہ اپنے عہدہ سے مستعفی ہوگئے اور سرکاری ملازمت میں رہنا گوارا نہ کیا۔ مجھے کالج کی نوکری ملی اور مختلف کالجوں میں خدمات دینے کے بعد 1974میں حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں ٹرانسفر ہوااورکوئی 24سال 6 ماہ اس کالج میں تعلیمی خدمات انجام دیں۔اس دوران بھی فیضؔ صاحب کالج تشریف لاتے رہے۔ اس دور کی یادداشتیں میں اپنے کئی مضامین میں لکھ چکا ہوں۔اسی تعلق سے رمضان بلوچ صاحب کو مجھ سے ملاقات کرنے اور فیض ؔپر گفتگو کرنے کی خواہش ہوئی۔ اب ملاقات کب اور کیسے ہو، میرا رمضان بلوچ صاحب سے برائے راست تعلق نہ تھا، گو میں ان سے اور وہ مجھ سے فیس بک پر دوست ہیں۔ رمضان بلوچ صاحب نے میرے ادبی دوست اقبال اے رحمن صاحب کے توسط سے مجھ سے رابطہ کیا اور ہم ایک جگہ جمع ہونے میں کامیاب ہوئے، یہ جگہ تھی ’چائے والی سرکار‘۔
اقبال اے رحمن صاحب سے 20دسمبر طے ہوئی، اور یہ بھی کہ وہ مجھے اپنے ڈرائیور یا کسی اور کے توسط سے’چائے والی سرکار‘ بلوا لیں گے۔ صبح کوئی 11بجے کا وقت مقرر ہوا۔اقبال صاحب نے فون کر کے یہ بتایا کہ مجھے طلعت قریشی صاحب میرے گھر سے لے لیں گے اور واپس بھی چھوڑ دیں گے۔ طلعت قریشی صاحب بھی ادب سے خاص انسیت رکھتے ہیں۔ عملی زندگی میں بنکر رہے۔ طے شدہ وقت پر طلعت صاحب میرے گھر تشریف لے، ہم پہلے کمر کسے ہوئے تھے۔چائے والی سرکار پر حاضری کی خوشی، رمضان بلوچ صاحب سے ملاقات کی خواہش اور اپنے بچپن اورجوانی کے دنوں کی یاد گار آگرہ تاج کالونی کو عرصے بعد دیکھنے کی خوشی۔ طلعت صاحب سے آج پہلی ملاقات ہورہی تھی۔ سفر طویل تھا، راستہ میں طلعت صاحب سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ چائے والی سرکار لیاری ایکسپریس کے تقریباً اختتام پر، وہ جگہ جہاں لیاری ندی شہرکراچی کا پانی سمیٹتی ہوئی اپنے آپ کو سمندر کے حوالے کرتی ہے اور سمندر لیاری ندی کے بچے کچے پانی کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے اور لیاری ندی کا پانی اپنی شناخت کھو بیٹھتا ہے اور وہ سمندر کا پانی کہلاتا ہے۔اسی جگہ غلامان عباس اسکول بھی واقع ہے، اس اسکول میں بھی میں نے کئی بار پریزائیڈنگ آفیسر کی حیثیت سے الیکشن کی ذمہ داریا انجام دیں۔ یہاں سے پی اے ایف بیس ماری پور جو اب بیس مسرور کہلاتا ہے سے آتی ہوئی وہ سڑک بھی گزرتی ہے جو کچھ ہی آگے جاکر سابقہ کراچی سرکلر ریلوے کا اسٹیشن ’لیاری‘ اورپھر ’وزیر مینشن‘ کے سامنے کی وہ جگہ جہاں پر قائد اعظم محمد علی جناح کی وہ ایمبولینس خراب ہوئی جس میں انہیں ماری پور ائر پورٹ سے کراچی کے کسی اسپتال میں منتقل کیا جانا تھا اور قائدکو سڑک پر کچھ وقت انتظار بھی کرنا پڑا۔چائے والی سرکار آگرہ تاج کالونی کے ایک کونے پر واقع ہے۔ آگرہ تاج کالونی سے مجھے گہری انسیت اور تعلق ہے جو میری زندگی کے نا بھولنے والے واقعات سے بھر پورہے۔ میرا بچپن، میری جوانی یہاں تک کہ بڑھاپے کی ابتدائی سیڑ ھی پر بھی اسی علاقہ میں قدم رکھا۔
ہم طلعت قریشی صاحب کی رہنمائی میں اپنے گھر اسکیم 33 صفورہ سے سپر ہائی وے پھر لیاری ایکپریس وے سے ہوتے ہوئے ’چائے والی سرکار‘پہنچ گئے جہاں پر ہمارے ادبی دوست اقبال اے رحمن صاحب نے اپنی معصومانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا، رمضان بلوچ صاحب بھی اقبال صاحب کے ساتھ موجود تھے۔ یہ چائے والی سرکار دراصل اقبال صاحب کے آئل کے کاروبار کا مرکز ہے اس کا نام لیوب لنک ہے،بقول ان کے یہ میرے وقت گزارنے، احباب سے ملاقات کرنے، ادبی موضوعات پر گفتگو کرنے کی جگہ ہے، کاروبارتوبس ایک بہانہ ہے۔ مختصر یہ کہ ابتدائی گفتگو، چائے اور مزیدار پکوڑے کھانے کے بعد اصل مقصد پر گفتگو شروع ہوئی، رمضان صاحب تیاری کر کے آئے تھے، اپنے موبائل پر میری گفتگو ریکارڈ کرتے رہے، اس گفتگو کے دوران رمضان صاحب نے تو فیض احمد فیض ؔ کے بطور پرنسپل سوالات کیے، اقبال صاحب اور طلعت قریشی صاحب بھی رمضان صاحب کی مدد کرتے رہے اور مجھ سے سوالات کرتے رہے۔
گفتگو کا سیشن اختتام کو پہنچا، اقبال صاحب نے کھانے کی دعوت بھی دی تھی، کھانا ہمیں کھارادر کے معروف ہوٹل ’کیفے الباسط‘ میں کھانا تھاچناچہ ہم اقبال صاحب کی گاڑی میں کھارادر کے لیے روانہ ہوئے۔ چائے والی سرکار سے کھارادر کا راستہ لیاری ندی کے کنارے سڑک مرزا آدم خان روڑ سے ہوتے ہوئے آتما رام پریتم داس روڈ، یہ مسان روڈ کے نام سے معروف ہے، بس اسٹاپ نمبر10یاد آیا، اقبال صاحب نے اس کی نشان دہی کی کبھی یہاں دس نمبر بس چلا کرتی تھی، اس جگہ لیاری ندی کے اندر کے اندر سے گزرتا راستہ قبرستان کی جانب بھی جاتا ہے، لیاری کے بیشتر مکین اپنے ان پیاروں کو اس قبرستان میں ابدی مقام کے سپرد کرتے ہیں، مجھے اپنے وہ عزیز و اقارب بھی یاد آئے جو اس قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں، خاص طور پر میرے دادا حقیق احمد مرحوم۔ اب ہم اس سڑک پر رواں دواں تھے، دیگر گاڑیوں کے ساتھ ساتھ گدھا گاڑی، اونٹ گاڑی، ہاتھ گاڑی بھی دیکھنے کو ملیں،ہم یہاں کی معروف جگہوں کو یاد کرتے جارہے تھے غازی محمد بن قاسم اسکول جس میں ہم نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی، اسکوک کے ہیڈ ماسٹر اور اسکول مالک جناب ابو ظفر ذین آزاد بن طاہر، اور ان کی شریک حیات ڈاکٹر عطیہ ظفر جن کی ڈسپنسری غازی اسکول کی دکانوں میں تھی اور ہم علاج کی غرض سے انہیں کے پاس جایا کرتے تھے،بہت ہی نیک، ملنسار اور قابل ڈاکٹر تھیں، تب ہی تو اپنے خاندار کو متعدد ڈاکٹر دینے میں کامیاب ہوئیں، ان کے اپنے سارے بچے ڈاکٹر، ان کے بچے ڈاکٹر۔غازی اسکول کے استاد ’حسین‘ بھی یاد آئے۔ شاہین اسکول میں ایک سے زیادہ بار عام انتخابات میں پریزائیدنگ آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دینایاد آیا، مسلم سیکنڈری اسکول، غوثیہ روڈ اور اس سڑک پر قائم کلر ی گراؤنڈ، پانی والا بابا، پھر ہماری رہائش گاہ، تاج ویلفیئر سینٹر، وہاں کے مکین، ساتھی، دوست احباب سب ایک ایک کر کے یاد آرہے تھے۔ حنیف منزل کے ساتھ اپنے والدین کا وہ گھر جو بہار کالونی میں حنیف منزل سے آگے جماعت خانہ کے برابر تھا یاد آیا،میرے دادا کا انتقال اسی گھر میں ہوا تھا۔ جونا مسجد، موسیٰ لائن، معصومین اسپتال، عبدالستار ایدھی، بغدادی پولیس اسٹیشن،گورنمنٹ گرلز کالج سے ہوتے ہوئے کھارادر والی سڑک’آغا خان روڈ‘ پر پہنچے سیمنٹ والا اسپتال جس کااب نام کراچی جنرل اسپتال ہے کے سامنے معروف ہوٹل’کیفے الباسط‘میں پہنچے، یہاں سب سے پہلے سیمنٹ والے اسپتال کا ذکر ہوا، اب تو یہ اسپتال پہچانا نہیں جارہا تھا،اب اس اسپتال کا نام ’کراچی جنرل اسپتال‘ ہوگیا ہے۔ یہ وہ اسپتال ہے جو قیام پاکستان سے قبل سے قائم ہے۔ اس اسپتال میں میرے تینوں بچے دنیا میں آئے،اس کے ارد گرد وہ جگہ تھی جہاں میں کبھی دن میں ایک سے زیادہ بار گزرا کرتا تھا۔ اقبال صاحب نے کھانے کاآڈر دیا، چکن فرائی، دال فرائی، سلاد، رائیتا، چٹنی، گرماگرم روٹی نے کھانے کا مزاہ دوبالا کردیا، کھانے کے بعد اس ہوٹل کی خاص چائے بلکہ اقبال صاحب نے چائے بنانے کی جگہ بھی دکھائی، کہ یہ چائے کس طرح بنائی جاتی ہے۔ واپسی کے سفر کے لیے باہر آئے تو سامنے مچھی میانی مارکیٹ اور آغا خان جماعت خانہ اور کراچی پورٹ ٹرسٹ جاتی ہوئی سڑک کو دیکھ کر ہم اپنی ماضی کو یاد کررہے تھے۔واپسی کھڈا مارکیٹ /میمن سوسائیٹی، نواآباد والی سڑک سے ہوئی، حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ کالج کا ذکر آیا، مدرسہ جو بہت قدیم ہے،یتیم خانہ، حاجی عبد اللہ ہارون کیا آ خری آرام گاہ، ان کے تینوں بیٹوں یوسف ہارون، محمود ہارون اور سعید ہارون کا ذکر خیر بھی ہوا۔نیازی چوک سے ہوتے ہوئے واپس اسی راستہ سے ہوتے ہوئے چائے والی سرکار پر پہنچے۔ بعد ازاں چائے والی سرکار سے اجازت لی اور عصر کی اذان پر طلعت قریشی صاحب نے ہمیں اپنی منزل پر پہنچادیا۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1436344 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More