طنزومزاح: ""کرپشن کو کچھ نہ کہو"" 09 دسمبر عالمی یوم ِ اِنسدادِ بد عنوانی و رشوت ستانی صاحب صدر: السلام علیکم!
؎ ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے اُس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہےحالانکہ میری اِس تقریر سے اس شعر کا دور دور تک کوئی تعلق، باالوسطہ یا بلا واسطہ نہیں لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ تقریر کا آغاز ایک جذباتی شعر سے کرتے ہیں جواکثر حاضرین، سامعین اور ہم مکتب ساتھیوں کے سروں کے اوپر ہی اوپر گزر جاتا ہے، اِسی لیے میں نے روایت کو برقرار رکھنے کے لیے مکھی پر مکھی ماری ہے اور شعر لکھ دیا۔ حاضرینِ محفل!کل مجھے ایک برقی سندیسہ جسے آپ انگریزی دان SMSکہتے ہیں میرے گشتی ٹیلیفون جسے آپ موبائل فون بھی کہہ سکتے ہیں، پر موصول ہوا جس میں لکھا تھا "Say No to Corruption" پاس بیٹھے ایک دوست کو ڈرتے ڈرتے دکھایاکہ؛ میں تو کسی سیاسی پارٹی کا ورکر اور عہدیدار بھی نہیں ہوں اور میں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اُن تمام باتوں کی کھل کر مذمت بھی کی ہے جس سے پاکستانیوں کی آزادی، تندرستی اور زندگی کی ضمانت جُڑی ہوئی ہے، پھر یہ کرپشن کے میسج مجھے کیوں بھیجے جارہے ہیں؟ کیونکہ ہم نے اکثر ملکِ خداداد میں اینٹی کرپشن کا نام سیاسی جوڑ توڑ کے ضمن میں ہی سُنا ہے۔ صدرِ ذی وقار! اُس ناہنجار دوست نے مجھے اُردو میں سمجھایا کہ " آنٹی کرپشن کہہ رہی ہے۔۔۔کرپشن کو کچھ نہ کہو!"۔۔میں ششدر، حیران و پریشان۔۔ اُسکا منہ تکتا رہا۔۔
کہ؛ میری کوئی آنٹی اتنی پڑھی لکھی نہیں جو اتنی فلسفیانہ بات اتنی شستہ انگریزی میں کر سکے۔۔۔۔لیکن عقل کے گھوڑے دوڑانے کے بعد سمجھ میں آیا کہ ا س نام کا ایک محکمہ میرے وطنِ عزیز میں ہے اورشاید کل مزید طاقتور بن کر ادارہ بھی بن جائے،اس لیے اُس کی بات تو ضرور مانیں گے اور سرِ تسلیم خم کرکے مانیں گے۔۔۔لیکن ہاں۔۔یاد آیا۔۔میں نے تو کرپشن کو کبھی کچھ کہا ہی نہیں۔۔۔۔جتنی بھی ہورہی تھی یا ہورہی ہے،میں نے کبھی پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑائی ہی نہیں۔۔۔پرائے تو چھوڑیں اپنے پھڈوں میں بھی ٹانگ اڑنا چھوڑ چکا ہوں۔اپنا گھر بار اور شہر تک چھوڑ دیا ہے۔۔اِن ہی جھمیلوں کی وجہ سے ایک پہاڑ کے دامن میں بوریا بستراُٹھا کر مع اہل و عیال شفٹ ہوچکا ہوں۔۔کیونکہ 2013ء میں ایک مقامی سیاستدان کی مصنوعی ناک کو چھیڑا تھا۔۔جو عملاََ اور محاورتاََ ناک پر مکھی بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔۔اُسی کے زیرِ عتاب2013کے بعدآج تک بہت کچھ کھونا پڑا۔۔جس کے بعد حالت یہ ہوگئی ہے کہ؛اب تار پر بیٹھے ہاتھی کو بھی سچ مان لیتا ہوں،اگر بتانے والا طاقتور ہو!۔۔میں کیوں۔۔کسی کرپشن کو۔۔یا۔۔کسی کی کرپشن کو۔۔۔ کچھ کہوں گا۔ صاحبِ صدر! پہلے ایک شعر ہوجائے پھر باقی بات جاری رکھتے ہیں، کیونکہ تقریر میں جابجا بے تُکے شعر لکھنے ضروری ہیں ورنہ سننے والے علمیت کی قدر نہیں کرتے۔ ؎ خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا ادب پہلا قرینہ ہے'' کرپشن '' کے قرینوں میں اس شعر کا بھی کوئی خاص تعلق میری تقریر کے ساتھ نہیں لیکن اقبالؒ ہمارے قومی شاعر ہیں اس لیے اُس کو خواہ مخوا ہ ہر بات میں ملوث کرنا ضروری ہے۔۔۔ ملوث لفظ کے کوئی منفی معنی نہ لے، بلکہ Involveکا اردو ترجمہ میرے ذہنِ نا رَسا میں دمِ تَحریر یہی آرہا ہے۔
حاضرینِ مجلس! شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے، کیونکہ۔۔۔ہمیں خبر تھی لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی۔۔۔کرپشن کو ہم کچھ نہیں کہتے،بلکہ کبھی کبھی اپنے جائز کام کے لیے کرپشن جسے اُردو دان طبقہ" بدعنوانی" کہتے ہیں، کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے دفتروں میں چند ہزار کی بھلی چڑھاتے رہتے ہیں،جس طرح کالی ماتا کو بھلی پیش کی جاتی ہے، تاکہ ہم زیرِ عتاب آنے سے بچے رہیں اور جائز کام ناجائز طریقے سے اپنے مقررہ وقت پر انجام کو پہنچتے رہیں۔کیونکہ؛ دل کے خوش رکھنے کو غالب ؔ یہ خیال اچھا ہے۔۔
صاحبِ صدر! مجھے اُس نالائق دوست کی وساطت سے معلوم ہوا کہ؛پوری دُنیا 09دسمبر کو Anti-Corruption Day کے طور پر مناتی ہے۔لیکن اُس گستاخ نے مسکراتے ہوئے بتایا۔۔۔۔"بھائی اصل میں یہ دن وہی لوگ زیادہ زور و شور سے مناتے ہیں جس کے ہاتھ سب سے زیادہ رنگے ہوتے ہیں " حاضرینِ محفل! ہم چُپ رہے۔۔۔کچھ نہ کہا۔۔۔منظور تھا پردہ ترا۔۔۔حالانکہ؛ کچھ نے کہا یہ چاند ہے۔۔۔۔ اور کچھ نے کہا چہرہ ترا۔۔۔۔ صاحبو! ہم نے رنگے ہاتھ اکثر رنگ سازوں کے دیکھے ہیں یا وائٹ بورڈ کے مارکر بھرنے والوں کے، بدعنوانوں کو اکثر محترم ہی دیکھا اور پایا ہے،اُن کے کاروبار پنپتے اور پھلتے پھولتے دیکھے ہیں،ایسے سرکاری ملازمین اِس ملکِ خداداد میں دیکھے ہیں کہ؛ اگر اُن کی سار ی زندگی کی تنخواہیں جمع کرکے اُس پر پچیس فیصد سالانہ منافع بھی لگادیا جائے اور وہ ساری زندگی ایک روپے بھی خرچ نہ کریں تب بھی اُن کی دولت زندگی بھر کی کمائی سے درجنوں گُنا زیادہ نکلتی ہے۔لیکن ہم جیسے تنخواہ دار جو تنخواہ کو 20تاریخ کے بعد غریبوں کی شلوار کی لاسٹک کی طرح کھنچنے کھینچتے ماہ ِ نو کی پہلی تاریخ پہنچاتے ہیں۔۔۔چُپ اور خاموش ہیں۔۔۔بلکہ نظریں جھکا کر کرپٹ لوگوں کے بھاشن بھی سُنتے ہیں۔۔۔ اب ہم اپنے پیر ومرشد،مربی و منٹور حضرتِ غالبؔ کی طرح بہادر تو ہیں نہیں کہ پیش دستی کر سکیں۔۔۔ ؎ دھول دھپا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب ؔ پیش دستی ایک دن اور نہ ہم انقلابی چی گو یرا۔۔۔ نہ اٹلی کے انقلابی۔۔۔جو ببانگِ دُھل۔۔Bella Ciao۔۔۔بیلاچاؤ۔۔۔کی صدائیں بلند کرکے فاشسٹوں کو للکار سکیں۔ صدرِ ذی احتشام! ہم سیدھے سادے سرکاری ملازم ہیں،لیکن میرا دوست کب سدھرنے والا ہے،اور یہ سچ ہے کہ؛ کچھ لوگ جب تک جیل کی ہوا نہ کھالیں نہیں سدھرتے مطلب جب تک سافٹوئیر اپڈیٹ نہ ہو جائے، بولتے ہی رہتے ہیں۔۔۔فرمانے لگے، "پاکستان کی معیشت کی بنیادیں جہالت نے نہیں تعلیم نے ہلا دی ہیں "۔۔۔میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا،کہ کیا اول جلول بَک رہا ہے۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ بندہ تعلیم کے خلاف بات کرے؟۔۔ کہنے لگا۔۔۔جتنے بڑے بڑے لوگ بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھ کر بدعنوانی کو ناسور کہتے ہیں اور دکھاوے کے لیے۔۔انسدادِ بدعنوانی و انسدادِ رشوت ستانی کا دن مناتے ہیں۔۔۔ سب پڑھے لکھے، اچھے نمبروں والے اوربڑے بڑے امتحانات پاس کرنے والے لوگ ہیں۔۔غریب اور نالائق کی رسائی تو دفتر کے LEDبلب تک ہوتی ہے۔۔۔یا بڑے صاحب سے ملانے کے لیے کسی سائل سے سوپچاس چائے پانی کے نام پر پکڑ نے تک۔ اصل گھپلا تو ٹھیکیدار سے کمیشن/پرسینٹیج لینے والا کرتا ہے۔اصل نقصان میلا کچیلا پستول تانے ڈکیت نہیں پہنچاتا بلکہ فراٹے بھرتا ہوا وہ قلم پہنچاتا ہے جو اُجلے کپڑوں میں ملبوس کئی امتحانات پاس کیے ہوئے بڑی کرسی پر براجمان صاحب کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔اور اپنے ایک دستخط سے ملک کی چُولیں ہلا دیتا ہے۔
خیر القصہّ مختصر۔۔۔۔۔ہماری تو روزِ اولیں سے۔۔۔۔کرپشن سے انکار اور ملک سے پیار۔۔۔والی پالیسی ہے۔۔۔ اور ایک لٹریچر پڑھانے والے کو کوئی پاگل ہی ہوگا جو رشوت آفر کرے گا کیونکہ رشوت صاحبِ حیثیت کو آفر کی جاتی ہے۔ پڑھانے والے کے ہاتھ میں درجہ اوّل مجسٹریٹ کا اختیار صرف بروزِ الیکشن ہوتا ہے(جسے وہ بہ امرِخوف وہراس استعمال کرنے سے قاصر ہی رہتاہے، کیونکہ پچھلے بلدیاتی الیکشن میں چند سوکالڈ بڑے اور دھوکے باز سیاستدانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اور پاکستان میں پاس فیل کیسے ہوتے ہیں سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے)۔۔۔ یا۔۔۔سالانہ امتحان میں سپرنٹنڈنٹ یا ڈپٹی بن کر نقل عام (نقلِ عام کو قتلِ عام کے وزن پر اس لیے لکھا ہے کہ ان دِنوں نیک و بدنقل کرانے میں جُت جاتے ہیں۔۔ورنہ انکوائریاں بھگتنا پڑتی ہیں۔۔خیر۔۔ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے) میں اپنا حصہّ بقدرِ جثہ و عہدہ ڈالنا ہوتا ہے۔اس میں بھی کچھ خاص ملتا نہیں، صرف دو وقت کی روٹی نظر جھکا کے کھانی پڑتی ہے، اور بل آٹھ ماہ بعد بورڈ سے ملتا ہے۔۔۔پتہ نہیں۔۔۔آٹھ ماہ کا انٹرسٹ کہاں چلا جاتا ہے۔ صدرِ ذی وقار! اِس سے اعلیٰ درجے کے لوگوں کے متعلق کچھ کہتے ہوئے میرے پَر جلنے لگتے ہیں۔۔۔ کیونکہ وہ بہت بڑے اوربہت طاقتور ہیں۔۔۔ اس لیے میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ؛ اس ملک کو اگر مزید خرابی سے بچانا ہے تو اُن لوگوں کو اپنے بینرز پر عمل کرنا ہوگا جو 09دسمبر کو سرکاری ملازمین کے جلوسوں میں say no to corruptionکے بڑے بڑے بینرز اور کتبے اُٹھا کر اپنے سرکاری فوٹوگرافروں سے تصاویر کھنچوائیں گے۔۔۔ورنہ۔۔۔پھر۔۔۔وہی میرے دوست والی بات کہ: "کرپشن کو کچھ نہ کہو" میں اپنی تقریر کا اختتام اس شعر پہ کرنا چاہتا ہوں۔۔جسکا کوئی جوڑ پچھلے اشعار کی طرح درج بالا باتوں سے نہیں: ؎ قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن (والسلام) ٭٭٭
|