اللہ تبارک و تعالی نے سورہ البقرہ کی آیت 186 میں اپنے حبیب کریم رئوفْ
الرحیم صلی اللہ تعالی علیہ وآلیہ وسلم سے مخاطب ہوکر نہایت واضح اور صاف
الفاظ میں فرمایا کہ
وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ
دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ
لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ۔
ترجمعہ کنزالایمان ۔۔۔
" اے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں دعا قبول کرتا
ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے تو انہیں چاہیئے کہ میرا حکم مانیں اور
مجھ پر ایمان لائیں کہ کہیں راہ پائیں ۔"
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی اپنے
حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ذریعے اپنے بندوں تک یہ پیغام پہنچارہا
ہے کہ جو کوئی میری بارگاہ میں دعا کے لئے اپنے ہاتھوں کو دراز کرتا ہے تو
وہ یہ سمجھ لے کہ میں اس کے قریب ہوں اور اس کی دعا کو سنتا ہوں اور قبول
کرتا ہوں اللہ رب العزت اپنے بندوں کو متوجہ کرکے اس پر یقین دلاتا ہے کہ "
جب مجھے کوئی پکارتا ہے تو میں جواب دیتا ہوں "۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں پھر وہ فرماتا ہے کہ بس وہ میرا کہا مانے
اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ راہ پاجائیں ۔ہمارے یہاں عام طور پر یہ بات
کہی جاتی ہے کہ ہم دعائیں مانگتے ہیں لیکن وہ قبول نہیں ہوتیں یا پوری نہیں
ہوتیں اب سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ ہمیں یہ احساس جو ہوتا ہے اس کا جواب کیا
ہے قبلہ محترم و معزز جناب مفتی محمد آصف عبداللہ قادری دامت برکاتہم
العالیہ سورہ الکھف کی مزکورہ آیت 186 کی تفسیر میں بیان کرتے ہوئے فرماتے
ہیں کہ اس ایت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو مجھ سے دعا مانگتا ہے میں
اسے قبول کرتا ہوں اب قبول کرنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس پر اجر و ثواب مل
جائے اور دوسرا یہ کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو مانگا وہ اسی وقت مل جائے تو
ایسا بھی ہوتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اور بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ جو مانگا وہ مل
جاتا ہے لیکن تاخیر سے ملتا یے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو مانگا وہ نہیں
ملتا لیکن اس سے اعلی نعمت مل جاتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو
مانگا وہ تو نہ ملا لیکن نصیب میں کوئی آفت یا بلا لکھی ہوئی تھی وہ دعا کے
سبب ٹل جاتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا میں جو دعائیں ہماری قبول نہ
ہوئیں تو بروز قیامت ہمیں اس کا اجرو ثواب دیا جائے گا اور وہ اجر ایسا
ہوگا کہ بندہ تمنا کرے گا کہ کاش دنیا میں میری کوئی دعا قبول ہی نہیں ہوئی
ہوتی یعنی دنیا میں جو مانگا وہ نہ ملتا اور سارا کا سارا ثواب مجھے اخرت
میں مل جاتا۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ لیکن یہ سب کچھ
اس وقت ممکن ہے کہ بندہ اپنے رب تعالی کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر اپنی
زندگی بسر کرے اور اس پر ایمان کامل رکھے نیک اعمال کرے رب تعالی کے حبیب
صلی اللہ تعالی علیہ وآلیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرے اور اس عارضی دنیا میں
جس مقصد کے لئے بھیجا گیا ہے اسے پورا کرتا ہوا اپنی زندگی گزارے تاکہ راہ
پاسکے ۔ معزز یاروں دعائوں کے بڑے عجیب اور مختلف رنگ ہوتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں دراصل دعا بندے اور رب تعالی کے درمیان
ایک ایسا تعلق ہے جو کسی ذات ، برادری یہاں تک کہ کسی زبان کا بھی محتاج
نہیں ہے اگر ایک گونگا شخص بھی چاہے تو اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے ہاتھوں
کو دراز کرکے التجا کرسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں دعا کی ترغیب
بھی دی ہے اور انبیائے کرام علیہم السلام کی دعائیں بھی بیان فرمائی ہیں
تاکہ معلوم ہو کہ دعا کرناہمیشہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کا شعار رہا ہے
سورہ النمل کی آیت 62 میں رب تعالی فرماتا ہے کہ " بھلا وہ کون ہے جو
پریشاں حال کی دعا کو قبول فرماتا ہے، جب وہ اُس سے دعا کرے اور اس کی
تکلیف کو دور فرماتا ہے "۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں ہمارے اکابرین اور مفسرین نے ہمیشہ یہ
فرمایا کہ دعا اور عبادت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ترمزی کی حدیث
3371 میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللہ تعالی
علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " دعا عبادت کا مغز ہے " اس لئے کہا
گیا کہ دعا جب بھی مانگو تو بندے کی توجہ صرف اور صرف اپنے رب کی طرف ہو
اور اگر اس کا انگ انگ اور رواں رواں مجسم دعا بن جائے تو اس کی قبولیت
یقینی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اسی لئے ترمزی کی ایک اور حدیث میں فرمایا
گیا کہ
" تم اللہ سے اس حال میں دعا کرو کہ تمہیں اپنی دعا کی قبولیت کا پورا پورا
یقین ہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل اور بے پروا دل کی دعا کو قبول
نہیں فرماتا " ۔اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے ہر نبی سے ایک دعا کی قبولیت کا وعدہ فرمایا، سو
ہر نبی نے جلدی سے دعا مانگ لی اور میں نے قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت
کی خاطراپنے لیے قبولیتِ دعا کے اس وعدۂ ربانی کو محفوظ کر رکھا ہے، پس جو
کوئی میری امت میں سے شرک سے محفوظ رہ کر مرا ، تو اُس کو ان شاء اللہ یہ
دعا(حسبِ مرتبہ وحسبِ حال) نصیب ہوگی،(صحیح مسلم:199)‘‘۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں قبولیت و آدابِ دعا سے متعلق پہلی شرط اور
ادب اللہ رب العزت کے فرمان ’’فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘ میں مذکور ہے کہ وہ ذات
ہمہ وقت ہمارے قریب ہے۔ گویا بندے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے پہلا ادب یہ
سکھایا کہ بندہ اس یقین کو پختہ کر لے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے دور نہیں اور
ہم اللہ تعالیٰ سے دور نہیں ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ہمارے اتنے
قریب ہے کہ اسے ہماری ہر حاجت و ضرورت کا علم ہے، ہمارے نفع و نقصان کو ہم
سے بھی بہتر جانتا ہے اور ہماری ہر مشکل کو آسان کرنے پر قادر بھی ہے۔ اُس
کے قریب ہونے کا یقین بندے کے دل و دماغ میں راسخ ہونا دعا کا پہلا ادب ہے
جو قرآن مجید ہمیں سکھا رہا ہے۔
فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘ کے الفاظ فقط ایک عقیدے، ایک قول، ایک لفظ کی بات
نہیں ہے بلکہ اسے ایک زندہ شعور بنانے کی ضرورت ہے۔ دل، دماغ، روح، سوچ،
فکر اور رگ و ریشہ میں ہمہ وقت جاری خون سے بھی زیادہ مولیٰ ہمارے قریب ہے۔
پس یہ تصور ہر وقت، صبح و شام، لمحہ بہ لمحہ اتنا پختہ ہوجائے کہ کبھی اس
میں غفلت نہ ہو اور اس سے بے خیالی پیدا نہ ہو تو اس کیفیت کا پیدا ہونا
قبولیتِ دعا کی پہلی شرط ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں تخلیق آدم (علیہ السلام ) کے بعد جو عبادت
سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کو سکھائی گئی وہ دعا ہی تھی
سورہ الاعراف کی آیت 23 میں ارشاد ہوا
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَاۜ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا
وَتَـرْحَـمْنَا لَنَكُـوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ ۔
ترجمعہ کنزالایمان۔۔۔۔
دونوں نے عرض کی کہ " اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیا تو اب اگر تو ہمیں
نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے "
اسی لئے دعا کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ثابت ہے قرآن پاک سے حضرت
نوح ؑ، حضرت یونس ؑ، حضرت یوسف ؑ، حضرت ایوب ؑ، حضرت سلیمان ؑ، حضرت لوط ؑ،
حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت زکریا ؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ
ؑ، حضرت طالوت ؑ اور اصحاب کہف کے علاوہ دیگر انبیاء کرام ؑ کا دعا
مانگناقرآن پاک سے ثابت ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں ہمارے یہاں اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ
ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہم دعا مانگ کس
طرح رہے ہیں ؟ ہمارا انداز کیسا ہے ؟ فی زمانہ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم
مسجد میں نماز ہڑھنے کی غرض سے جاتے ہیں تو نائٹ ڈریس یا ہاف سلیو کی ٹی
شرٹ پہن کر جماعت میں کھڑے ہوجاتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ اس طرح نماز
نہیں ہوتی بلکہ ایک ادب کا تقاضہ ہے کہ ہم کہیں بھی جاتے ہیں تو وہاں کے
ادب و آداب کا خیال رکھتے ہوئے جاتے ہیں تاکہ میزبان ہم سے خوش ہو لہذہ
بارگاہ رب الذوالجلال میں اگر ہم ادب و آداب کا خیال نہیں رکھتے تو کیا
میزبان یم سے خوش ہوگا ؟
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں جب ہمارا رب ہم سے خوش نہیں ہوگا تو ہماری
نماز ہماری دعائیں قبولیت کے درجہ تک کیسے پہنچے گی ہمارے مفسرین نے دعا کے
کئی آداب اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کئے ہیں ان میں سے کچھ آداب کا ہم
یہاں ذکر کریں گے جو احادیث کے حوالوں کے ساتھ ہم پڑھیں گے ۔
1۔۔ کھانے پینے ، پہننے اور کمانے میں حرام سے بچنا ۔ ( مسلم و بخاری )
2۔۔اخلاص کے ساتھ دعا کرنا یعنی اس یقین کے ساتھ دعا مانگنا اور یقین رکھنا
کہ اللہ تعالی کی ذات ہی ہے جو ہمارا مقصد پورا کرسکتا ہے اس کے علاوہ کوئی
نہیں ۔ ( حاکم فی المستدرک )
3۔۔دعا سے پہلے کوئی نیک کام کرنا ۔( مسلم )
4۔۔پاک و صاف ہوکر دعا کرنا ۔ ( ابن حبان )
5۔۔وضو کے بعد دعا کرنا ۔( صحاح ستہ)
6۔۔دعا کے وقت قبلہ رخ ہونا۔(صحاح ستہ )
7۔۔دوزانو ہوکر بیٹھنا۔( ابو عوانہ )
8۔۔دعا کے اول و آخر میں اللہ تعالی کی حمد وثنا کرنا۔ (صحاح ستہ )
9۔۔دعا کے اول و آخر میں سرکار صلی للہ علیہ وآلیہ وسلم پر درود بھیجنا ۔(
ابودائود )
10۔۔دعا کے لئے دونوں ہاتھوں کو کاندھوں تک پھیلانا ۔( ترمزی ، ابودائود )
11۔۔ادب و تواضح کے ساتھ بیٹھنا ۔( مسلم )
12۔۔ اپنی محتاجی اور عاجزی کا ذکر کرنا۔(ترمزی )
13۔۔دعا کے وقت آسمان کی طرف نظر اٹھانا۔
( مسلم )
14۔۔اللہ تعالی کے اسماء حسنی اور صفات عالیہ کا ذکر کرکے دعا کرنا۔( ابن
حبان )
15۔۔دعا کے وقت انبیاء علیہم السلام اور دوسرے مقبول اور صالح بندوں کا
وسیلہ پیش کرنا (یعنی یہ کہنا کہ ان مقبول بندوں کے صدقہ و طفیل میری دعا
قبول کرنا )۔( بخاری )
16۔۔دعا میں آواز کو پست رکھنا (صحاح ستہ )
17۔۔ان دعائوں کے ساتھ دعا کرنا جو سرکار علیہ وسلم سے منقول ہیں کیوں کہ
آپ علیہ وسلم نے دین و دنیا کی کوئی حاجت نہیں چھوڑی جس تعلیم دعا میں نہ
فرمائی ہو ۔( ابو دائود )
18۔۔ ایسی دعا کرنا جو اکثر دینی و دنیاوی حاجت میں شامل ہو ۔( ابودائود )
19۔۔ رغبت اور دل جمعی سے دعا کرے( ابن حبان )
20۔۔جس طرح ممکن ہو دل کو متوجہ رکھے اور دعا کی قبولیت پر پورا یقین رکھے
۔( مستدرک )
21۔۔دعا کرکے آمین کہیں اور اگر کوئی دوسرا سننے والا ہے تو وہ بھی آمین
کہے آمین کا مطلب ہے یااللہ میری دعا قبول فرما ( بخاری )
22۔۔دعا مانگ کر دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیریں ( ابو دائود )
ویسے تو اس کے علاوہ بھی کئی ادب و آداب ایسے ہیں جو دعا مانگنے کے لئے
ضروری ہیں لیکن مختصر اور کچھ جامع ادب و آداب کا ہم نے یہاں ذکر کیا ہے
اور اگر ان آداب کو ہم نے ملحوظ خاطر رکھا تو ہماری دعائیں قابل قبول ہوں
گی اور دعائوں کی قبولیت کی شکل وہ ہی ہوگی جو مفتی آصف عبداللہ قادری دامت
برکاہتم العالیہ نے بتائی ہیں اگر بندہ ان ادب و آداب کا خیال رکھتے ہوئے
دعا مانگتا ہے تو اس کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں قبولیت کی شکلیں مختلف
ہوسکتی ہیں لیکن وہ رائیگاں نہیں جاتیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی
شخصیت ایک مکمل معلم اخلاق ہے شخصیت کی تعمیر ہو یا تربیت کا سلسلہ آپ علیہ
وسلم کا اسلوب ہر زمانہ کے لئے ایک بہترین نمونہ ہے اور اس کا ہر زاویہ
اپنے اندر سیکھنے کا ایک مکمل سامان رکھتا ہے انسان جو بھی دعائیں مانگتا
ہے دراصل وہ اس کے تمنائوں کا اظہار ہوتی ہیں یعنی جب کوئی شخص اپنے رب سے
گڑگڑا کر دعا کرتا یے اور کہتا ہے کہ یااللہ مجھے نیکیاں کرنے کی توفیق دے
تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے نیکیاں کرنے کی تمنا ہے اور بار بار ایسا کہنے
سے اس کا دل نیکیاں کرنے پر مائل ہوجاتا ہے اور اسے نیکیوں سے جیسے عشق
ہوجاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی تربیت
کا ایک منفرد انداز یہ بھی تھا کہ آپ جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ کسی مجلس میں
ہوتے تو ذرا بلند آواز سے ایسی دعائیں کرتے تھے جس سے سننے والوں کو یہ
پیغام ہوتا کہ انہیں اپنی زندگی کے ان پہلوئوں کی طرف خاص طور پر توجہ دینی
چاہیئے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ شاید ہی کبھی
ایسا ہوا ہو کہ آپ علیہ وسلم کسی محفل میں ہوں اور اٹھنے سے پہلے اپنے اور
اپنے صحابہ کرام کے لئے یہ دعا نہ کرتے ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں وہ دعا یہ ہے " اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا
مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ ، وَمِنْ
طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ، وَمِنَ اليَقِينِ مَا
تُهَوِّنُ بِهِ عَلَيْنَا مُصِيبَاتِ الدُّنْيَا، وَمَتِّعْنَا
بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا،وَاجْعَلْهُ
الوَارِثَ مِنَّا، وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا، وَانْصُرْنَا
عَلَى مَنْ عَادَانَا، وَلَا تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا، وَلَا
تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا، وَلَا
تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لَا يَرْحَمُنَا "
ترجمعہ۔۔۔اے اللہ ! اپنی خشیت (خوف) میں سے اتنا حصہ ہمیں عطا فرما، جس کے
ذریعے تو ہمارے اور گناہوں کے درمیان حائل ہو جائے، اور اپنی اطاعت کا اتنا
حصہ عطا فرما، جس کے ذریعے تو ہمیں اپنی جنت تک پہنچا دے، اور اتنا یقین
عطا فرما، جس کے ذریعے تو ہمارے لیے دنیوی مصیبتوں کو ہلکا کر دے، اور ہمیں
ہمارے کانوں، ہماری آنکھوں اور ہماری (دوسری) قوتوں سے اس وقت تک فائدہ
اٹھانے کا موقع عطا فرما، جب تک تو ہمیں زندہ رکھے، اور ان چیزوں کو ہمارے
جیتے جی باقی رکھ، اور ہمارا بدلہ ان لوگوں سے لے، جنہوں نے ہم پر ظلم کیا،
اور ان لوگوں کے خلاف ہماری مدد کر، جو ہم سے عداوت (دشمنی) کا معاملہ
کریں، اور ہمیں پہنچنے والی مصیبت ہمارے دین پر نہ ڈال، اور دنیا کو ہماری
فکر کا سب سے بڑا مرکز نہ بنا، اور نہ ہمارے علم کا دائرہ دنیا تک محدود
رکھ، اور نہ ہمارے شوق و رغبت کی آخری حد دنیا کو بنا، اور ہم پر کوئی ایسا
شخص مسلط نہ کر، جو ہم پر رحم نہ کرے۔
( الجامع الترمذی، رقم الحدیث 3502، دارالحدیث القاہرۃ )
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اس مذکورہ دعا میں انسان کی شخصیت اور اس
کی زندگی کے ہر پہلو کی طرف نشاندہی کی گئی ہے اور سرکار علیہ وسلم کی
دعائوں کے مختلف انداز نے یہ بات بھی واضح کردی کہ زندگی کے ہر مواقع پر ہر
قدم پر اور لمحہ دعا کی ضرورت اور اہمیت کا بڑا دخل ہے آپ نے " مسنون
دعائیں " کے عنوان سے کئی کتابیں اور تحریریں پڑھیں ہوں گی یہ دعائیں بھی
اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان کی زندگی میں دعائوں کا بہت بڑا دخل ہے اسی
لئے دعا کو عبادت کا مغز کہا گیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ دعا انسان کے
لئے وہ واحد ذریعہ ہے جو اس کی قسمت بدلنے کی اللہ تعالی کی عطا سے قوت
رکھتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں دعا ایک عظیم عبادت،عمدہ وظیفہ اور اللہ
پاک کی بارگاہ میں پسندیدہ عمل ہے، دعا در حقیقت بندے اور اس کے خالق و
مالک کے درمیان کلام، راز و نیازاور بندگی کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ دعا
بندے کو رب سے ملانے، اس کی بارگاہ میں حاضر ہونےکی ایک صورت ہے۔ عام طور
پرجو سکون و راحت دعا کرنے سے حاصل ہوتی ہے وہ کسی اور عبادت میں حاصل نہیں
ہوتی۔ دعا عبادت بلکہ مغزِ عبادت ہونے کی وجہ سے جس طرح آخرت کے اعتبار سے
فائدہ مند ہے اسی طرح دنیا میں بھی بہت مفید ہے ،مثلاً مشکلوں، مصیبتوں،
پریشانیوں اور بیماریوں سے چھٹکارے کے لیے دعا ایک اہم ذریعہ ہے۔دعا کی
عظمت و اہمیت پر قرآن و سنت میں کثیر آیات و احادیث وارد ہوئی ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں ارشاد باری تعالی ہے کہ " اُجِیْبُ
دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ "
دعا میں قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے (پارہ ۲، سورہ
بقرہ،آیت نمبر185
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہوا
" ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ "
مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا۔
(پارہ 24 المؤمن: 60)
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے کہ
فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ ۙ وَ نَجَّیۡنٰہُ مِنَ الْغَمِّ ؕ وَکَذٰلِکَ نُـنْجِی
الْمُؤْمِنِیۡنَ۔
ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات بخشی اور ایسی ہی نجات دیں گے
مسلمانوں کو
(پارہ 17 سورہ انبیاء آیت 88)
اسی طرح اگر ہم احادیث کی بات کریں تو سب سے پہلی حدیث یہ ہے کہ
" دعا رحمت کی کنجی ہے اور وضو نماز کی کنجی ہے اور نماز جنت کی کنجی ہے"۔
(فیض القدیر ،جلد ۳،صفحہ ۵۴۰حدیث نمبر ۴۲۵۷،شاملہ)
اسی طرح ایک اور حدیث پیش خدمت یے کہ
" دعا مومن کا ہتھیار ہے اور دین کا ستون اور آسمانوں اور زمینوں کا نور
ہے"۔
۔(المستدرک علی الصحیحین،جلد ۲،صفحہ ۱۴۴، حدیث نمبر۱۸۱۲شاملہ)
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں قران و حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ
دعا میں بڑی طاقت اور تاثیر ہوتی ہے اور قرآن و حدیث میں دعا مانگنے کے
کتنے فضائل ہیں اور اللہ پاک دعا مانگنے والوں کو کس قدر پسند فرماتا ہے
اور انہیں ان کی دعاؤں کا بدلہ دنیا اور آخرت میں عطافرماتاہے ۔دعا کے بے
شمارفوائد و ثمرات ہیں جن سے ہمیں محروم نہیں رہنا چاہیےاور کثرت سے دعا
مانگنی چاہیے کہ جو بگڑے کام کو سنوارتی اور مصیبت سے بچاتی ہے اس لئے دعا
کی کثرت جاری رہنی چاہیئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو
ہمیں بیشمار ایسے واقعات ملتے ہیں جو دعا کی قبولیت کی وجہ سے کتابوں کی
زینت بنے ہوئے ہیں جبکہ ہمیں اپنے اردگرد موجود لوگوں میں بھی ایسے واقعات
سننے کو مل جاتے ہیں جیسے کویت یونیورسٹی کے طلبہ کا ایک گروپ خشکی کے
راستے سے عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوا جس کے لیے دو بسیں کرائے پر لی گئیں،
ان میں سے ایک نئی تھی اور دوسری پرانی، جس کا حال یہ تھا کہ انجن میں کسی
خرابی کی وجہ سے پچاس کلو میٹر چلنے کے بعد رک جاتی تھی، جسے ٹھیک کرنے میں
آدھا گھنٹہ لگ جاتا۔ جب ایسا کئی بار ہوا تو لوگ اکتا گئے اور طے یہ پایا
کہ ڈرائیور کے ساتھ پانچ لوگ رک جائیں اور بقیہ لوگ دوسری بس میں سوار ہوکر
روانہ ہوجائیں۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اس طرح سے ہم پانچ کے علاوہ دوسرے لوگ چلے
گئے۔ اس وقت ہم لوگ ایک چھوٹی سے آبادی میں تھے جہاں نہ تو کوئی گیرج تھا
اور نہ گاڑی کے پارٹس کی کوئی دوکان۔ چار وناچار ہم لوگ صلاۃِ حاجت کے لیے
اٹھ کھڑے ہوئے اور اللہ سے دعا کی کہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دے نماز سے
فارغ ہوکر ہم لوگ بس میں بیٹھے بس اسٹارٹ کی اور روانہ ہوگئے
حالانکہ ہمارا بدن تھک کے چور ہوچکا تھا اور رات آدھی سے زیادہ گزر چکی
تھی، لیکن نماز کی ادائیگی کے بعد ہم پر سکون واطمینان کی کیفیت طاری ہوگئی
تھی، اس لیے کہ مؤمن کے لیے نماز باعثِ سکون وراحت ہے سرکار صلی اللہ علیہ
وآلیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ
أَرِحْنَا بِهَا يَا بِلَالُ»
”بلال! صلاۃ کے ذریعے ہمیں راحت پہنچاؤ۔“
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں تھوڑی دیر بعدسب لوگ گہری نیند میں غرق
ہوگئے، اور کچھ گھنٹے گزرنے کے بعد روشنی اور شور کی وجہ سے ہماری آنکھ کھل
گئی، اور ہم نے سمجھا کہ شاید کسی گیرج کے پاس پہنچ گئے ہیں، لیکن بس ایسی
جگہ کھڑی تھی جس کی ہم میں سے کسی کو امید نہیں تھی، وہ مدینہ منورہ میں
ہوٹل کے گیٹ کے پاس تھی۔ ہم نے ڈرائیور سے پوچھا: ہم اِس وقت کہاں ہیں؟ اس
نے جواب دیا: مدینہ منورہ پہنچ چکے ہیں، اور ہم لوگ ہوٹل کے گیٹ پر ہیں،
تمہاری صلاۃ نے بالکل جادو کا کام کیا، اس کے بعد سے جب وہ چلی ہے تو ایک
لمحے کے لیے بھی بند نہیں ہوئی، اور ہم نے بس کو ٹھیک بھی نہیں کیا تھا۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں ڈرائیور نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے
کہا: ایسے کیسے ہوگیا؟ ٹھیک کیے بغیر بس کیسے چل پڑی؟ بلکہ خود اس کے اندر
ایسی چستی اور پھرتی آگئی کہ وہ مسلسل ڈرائیونگ کرتے ہوئے یہاں تک لے کر
آگیا حالانکہ ہماری طرح سے وہ بھی تھکا ہوا تھا ہم لوگ ایک دوسرے کو حیرت
اور خوشی سے دیکھ رہے تھے کہ اس قدر جلد ہماری دعا قبول ہوگئی اور بخیر
وعافیت اپنی منزل پر پہنچ گئے، اور ہر ایک نے اس آیت کو دہرانا شروع کر دیا
جو سورہ النمل کی آیت 62 میں ارشاد باری تعالی ہوا کہ
اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ
ترجمعہ کنزالایمان۔۔۔وہ جو لاچار کی سنتا ہے جب اسے پکارے اور دور کردیتا
ہے برائی ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں لکھنے والے دوست نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ
خود میری نگاہوں کے سامنے پیش آیا، میں بھی اُن پانچ لوگوں میں شامل تھا
جنہیں اللہ تعالیٰ نے صلاۃِ حاجت اور دعا کی توفیق بخشی تھی اور میں نے
اپنی آنکھوں سے یہ سارے مناظر ہوتے دیکھے جو صرف صدق دل سے مانگی گئی دعا
اور اس کے لئے صلاوتہ الحاجات کی نماز کا اہتمام کرنا سبب بنا ویسے کہا
جاتا ہے کہ " جب بھی کوئی جائز حاجت درکار ہو تو دو رکعت نماز حاجت پڑھکر
صدق دل سے دعا کی جائے تو وہ حاجت ہوری ہوجاتی ہے "
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں دعا کا مانگنا انبیاء کرام کی سنت ہے حضرت
آدم علیہ السلام سے لیکر سرکار علیہ وسلم تک تمام انبیاء کرام نے بیشمار
دعائیں مانگیں کچھ انبیاء کرام بعض مواقع پر دعا نہ کی اس مصلحت کے تحت کہ
بقول ان کے یہ ان پر امتحان ہے اور دعا مانگنا کہیں بے صبری میں شمار نہ ہو
جیسے ھصرت ابراھیم علیہ السلام کو نمرود نے قید خانہ سے نکال کر آگ میں
اونچائی سے پھینکا تو حضرت جبرائیل تشریف لائے اور عرض کیا کہ آپ اللہ
تعالی کے نبی ہیں اپنے رب سے دعا نہیں کریں گے؟ تو آپ علیہ السلام نے
فرمایا نہیں اسے سب خبر ہے وہ وہی کرے گا جو میرے حق میں بہتر ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اسی طرح حضرت اسمعئیل علیہ السلام کے ذبح
کرنے کا ھکم ہوا تو آپ علیہ السلام نے دعا کے لئے ہاتھ نہیں اٹھایا بلکہ
اسی وقت چھری لیکر تیار ہوگئے ہمارے حضور ﷺ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی
شہادت کی خبر دی ۔تو اسکے دفعیہ کی دعا نہ کی ۔کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ
،فاطمہ رضی اللہ عنہا خود حضور انور ﷺ نے یہ دعا مانگی
" اَللّٰھُمَّ اٰتِ الْحُسَیْنِیْ صَبْرًا جَمِیْلًا وَ
اَجْرًاجَزِیْلًا۔’’
"الہٰی میرے حسین کو صبر اور اجر دے۔‘‘
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں دعا مانگنے میں اظہار عبدیت ہے بندے کی
شان ہی یہ ہے کہ ہاتھ اپنے مولا کے دروازے پر پھیلے رہیں ۔زیادہ اور کثرت
دعا سے دل میں عجز و انکساری پیدا ہوتی ہے اور یہ ہی رحمت الہی کے جوش میں
آنے کا سبب بنتی ہے اسی طرح دعا مانگنے سے گناہوں سے مغفرت اور اطاعت الہٰی
کی رغبت پیدا ہوتی ہے کیونکہ جب ہر وقت رب سے مانگنا ہو تو اسے راضی رکھنے
کی کوشش بھی کی جائیگی رب غنی ہے اور ہم محتاج ،اسے ہماری پرواہ کیا ۔دعا
ہی وہ چیز ہے جس سے وہ ہماری پرواہ بھی کرتاہے اور ہم پر کرم بھی فرماتا
ہے:
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں دعا قبولیت کے کچھ خاص مقام اور خاص
مواقوں کا بھی ذکر ہمیں ملتا ہے جیسے ہم اگر خاص مواقوں یا اوقات کا ذکر
کریں تو جمعے کے دو خطبوں کے درمیان خطبے اور نماز کے بیچ میں ۔آفتاب ڈوبتے
وقت ،ماہ رمضان میں سحری اور افطاری کے وقت، شب قدر میں تمام رات، روزانہ
اخیررات یعنی تہجد کے وقت ،ختم قرآن کے وقت آب زم زم پی کر اور اس کے علاوہ
بھی کئی اوقات کا ذکر ہمیں ملتا ہے اسی طرح اگر ہم مقامات کا ذکر کریں تو
ایسے مقامات جہاں دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں ایسے مقامات میں ماں باپ کی قبر کے پاس
،کعبہ معظمہ میں رکن یمانی اور سنگ اسود کے درمیان ،تنعیم کے پاس ،حضور
انور ﷺ کے روضۂ پاک پر ، بزرگان دین کے مزارات کے پاس ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ
نے بنی اسرائیل سے فرمایا تھا کہ
اُدْخُلُو الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّۃ
’‘۔دمشق کے دروازے میں سجدہ کرتے جاؤ اور وہاں سے جا کر دعا کرو بخش دینگے
۔وہاں کیوں بھیجا؟ اسلئے کہ وہاں مزارات انبیاء تھے یہاں یہ بات بھی ثابت
ہوتی ہے کہ اللہ کے مقرب اور خاص محبوب بندوں کے مزارات کی حاضری کے دوران
ان کے وسیلے سے دعا مانگنا نہ صرف جائز ہے بلکہ دعا کی قبولیت کا ایک ذریعہ
بھی ہے جیسے اگر سرکار علیہ وسلم کے اہل بیت کے وسیلے سے مانگی گئی دعا
کبھی رد نہیں ہوتی اسی طرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر قبولیت دعا کے
لئے تریاق ہے ۔زندہ اولیاء و علماء کی محفل پاک میں دعا بہت قبول ہوتی ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں دعا مانگنا ، دعا مانگنے کے ادب و آداب
اور دعا کی قبولیت کا موضوع ایک وسیع موضوع ہے ایک تحریر کے ذریعے اس کا
خلاصہ کرنا انتہائی مشکل کام یے میں نے مختصر مگر جامع انداز میں کوشش کی
ہے کہ اس کی فضیلت اور اس کے ادب و آداب پر روشنی ڈال سکوں لیکن اس موضوع
پر لکھنے کے لئے ابھی بہت کچھ باقی ہے میں کوشش کروں گا کہ ایک اور تحریر
اس موضوع پر لکھکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوسکوں ان شاء اللہ آخر میں دعا ہے
کہ اللہ تبارک و تعالی مجھے حق بات لکھنے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاء النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|